• 15 مئی, 2024

رسول اللہ ﷺ کے صحابہؓ کے اخلاق

مدنی دور میں حضرت عبداللہؓ بن مسعود کو جملہ غزوات النبیؐ میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ شرکت کی سعادت نصیب ہوئی۔ جنگ بدر میں دشمن اسلام ابوجہل کو ان کے آخری انجام تک پہنچانے میں آپ کا بھی حصہ ہے اور وہ اس طرح کہ جنگ ختم ہوئی تو رسولکریمؐ نے فرمایا کوئی ہے جو ابو جہل کے بارہ میں صحیح خبر معلوم کرکے آئے۔ عبداللہؓ بن مسعود تعمیل ارشاد کے لئے گئے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ میدان بدر میں دشمن رسولؐ ابوجہل (جسے حضرت عفراء ؓ کے بیٹوں نے تلواروں سے حملہ کرکے بری طرح زخمی کیا تھا) جان کنی کے عالم میں پڑا ہے۔ ابن مسعودؓ نے اس سے فرمایا کہ کیا تم وہی گمراہ کرنے والے بوڑھے ابوجہل ہو۔ اس بدبخت کو آخری لمحات میں بھی اپنے فخرو غرور سے نجات نہ ملی تھی۔ کہنے لگا کیا مجھ سے بھی بڑا کوئی سردار تم نے مارا ہے؟ گویایہ طعنہ دیا کہ مجھ سے بھی بڑا کوئی سردار ہوگا جسے اس کی قوم نے مار دیا ہو۔ عبداللہ ؓبن مسعود کہتے ہیں تب میں نے اس کا کام تمام کردیا۔

(بخاری کتاب المغازی غزوہ بدر)

غزوہ احد میں بھی حضرت عبداللہؓ بن مسعود شامل تھے۔ بلکہ احد کے بعد کفار قریش کا تعاقب کرنے والے ان زخمی صحابہ میں بھی شامل تھے جن کی تعریف کرکے قرآن شریف میں ان کے لئے اجر عظیم کا وعدہ فرمایا گیا ہے۔

(ابن سعد جلد3ص153)

حضرت ابن مسعودؓ کے مالی حالات خداتعالیٰ کے فضل سے اتنے اچھے ہوگئے تھے کہ آخری عمر میں آپ نے اپنا وظیفہ لینا بھی چھوڑ دیا تھا۔ اس فارغ البالی کی حالت میں جبکہ نوے ہزار درہم آپ کا ترکہ تھا۔ اپنے کفن کے بارے میں یہی وصیت کی کہ وہ سادہ چادروں کا ہو اور قیمتی نہ ہو۔ نیز یہ خواہش کی کہ عثمانؓ بن مظعون جو ابتدائی زمانہ اسلام میں قربانی کرنے والے صحابی جو جوانی میں ہی اللہ کو پیارے ہوگئے تھے ان کے پہلومیں انہیں دفن کیا جائے۔

(اسد الغابہ جلد3ص 260)

حضرت ابن مسعودؓ کی وفات سے چند روز قبل ایک شخص نے مدینہ آکر انہیں اپنی خواب سنائی کہ نبی کریم ﷺ منبر پر تشریف فرما ہیں اور عبداللہؓ بن مسعود نیچے بیٹھے ہیں رسولاللہ ﷺ فرما رہے ہیں کہ اے ابن مسعود! اتنی بھی کیا بے مروتی ہے بس اب میرے پاس آجاؤ۔ آپ نے اس شخص کو قسم دے کر پوچھا کہ کیا واقعی تم نے یہ خواب دیکھی ہے۔ پھر فرمایا کہ اب میرا جنازہ پڑھے بغیر مدینہ سے واپس نہ جانا اور اس کے چند روز بعد ہی ان کی وفات ہوگئی۔

(اسد الغابہ جلد3ص 260)

یہ 32ھ کا واقعہ ہے جب کہ آپ کی عمرساٹھ برس سے کچھ اوپر تھی۔ حضرت عثمانؓ نے آپؓ کی نماز جنازہ پڑھائی اور جنت البقیع میں دفن ہوئے۔

(ابن سعد جلد3 ص160، اکمال ذکر عبداللہ بن مسعود)

آپ نے اپنی آخری وصیت میں اپنے غلاموں کے ساتھ بھی احسان کی ہدایت کی کہ جو غلام پانچ سو درہم کی معمولی رقم ادا کردے اسے آزاد کر دیا جائے۔ اپنے دینی بھائی حضرت زبیرؓ بن العوام کے ساتھ نبی کریم ﷺ کی قائم فرمودہ موأخات کا حق بھی خوب ادا کیا۔ ان پر کامل اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے وصیت فرمائی کہ میرے جملہ مالی امور کی نگرانی اور سپردداری حضرت زبیر بن العوام اور ان کے صاحبزادے حضرت عبداللہ بن زبیر کے ذمہ ہوگی اور خاندانی معاملات میں ان کے فیصلے قطعی اور نافذالعمل ہوں گے۔ کسی بیٹی کی شادی ان دونوں کے مشورے کے بغیر نہیں ہوگی البتہ ان کی بیوہ زینب پر ایسی کوئی پابندی نہیں۔

(ابن سعد جلد3ص 159)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 مارچ 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 مارچ 2020