• 13 مئی, 2024

ہستی باری تعالیٰ کے متعلق فطرت کی آواز (ایک امریکن سائنس دان کی لطیف شہادت)

تبرکات

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد ؓ

’’میرے سامنے اس وقت ایک عرب بدوی کا قول ہے جس سے کسی نے پوچھا تھا کہ تیرے پاس خدا کی کیا دلیل ہے؟ اس نے بے ساختہ جواب دیا کہ:…یعنی جب کوئی شخص جنگل میں سے گزرتا ہوا ایک اونٹ کی مینگنی دیکھتا ہے تو وہ سمجھ لیتا ہے کہ اس جگہ سے کسی اونٹ کا گزر ہوا۔ اور جب وہ صحرا کی ریت پر کسی آدمی کے پاؤں کے نشان پاتا ہے تو وہ یقین کر لیتا ہے کہ یہاں سے کوئی مسافر گزرا ہے۔ تو کیا تمہیں یہ زمین مع اپنے وسیع راستوں کے اور یہ آسمان مع اپنے سورج اور چاند اور ستاروں کے دیکھ کر اس طرف خیال نہیں جاتا کہ ان کا بھی کوئی بنانے والا ہوگا؟اللہ، اللہ کیا ہی سچا اور کیا ہی تصنّع سے خالی مگر دانائی سے پُر یہ کلام ہے جو اس ریگستان کے ناخواندہ فرزند کے منہ سے نکلا‘‘

اب اس کے مقابل پر ناظرین پروفیسر ایڈون کانکلن پرنسٹن یونیورسٹی کا قول ملاحظہ کریں جو امریکہ کے مشہور رسالہ ’’ریڈرز ڈائجسٹ‘‘ بابت ماہِ مئی 1956ء کے صفحہ 87 پر چھپا ہے اور اخبار ’’ٹائمز سٹارسن سینٹی‘‘ سے نقل کیا گیا ہے۔ پروفیسر صاحب جو ایک بہت مشہور سائنس دان اور پیدائشِ خلق کے مضمون کے ماہر سمجھے جاتے ہیں فرماتے ہیں:

’’یہ خیال کہ زندگی کا آغاز محض کسی اتفاقی حادثہ کے نتیجہ میں ہوا ہے بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص یہ دعویٰ کرے کہ لغت کی ایک مکمل کتاب کسی چھاپہ خانہ کے اتفاقی دھماکے کے نتیجہ میں خود بخود چھپ گئی تھی‘‘

ناظرین ملاحظہ کریں کہ کس طرح عرب کے قدیم ناخواندہ بدوی اور امریکہ کے جدید تعلیم یافتہ سائنس دان پروفیسر اس معاملہ میں بعینہٖ ایک رستہ پر گامزن ہوئے ہیں اور پھر اس کے بعد وہ اس پر بھی نظر ڈالیں خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ:

یعنی اے مشرق و مغرب کے لوگو! تم سب ہمارے ہاتھ کی پیدائش ہو۔ پس اپنی فطرتوں پر نظر ڈالو اور دیکھو کہ کیا ان میں خدا کی ہستی کے نشان نظر نہیں آرہے؟

(الذّاریات:22)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے منکرینِ خدا کے متعلق خدا کو مخاطب کرتے ہوئے کیا خوب فرمایا ہے کہ:

چشمۂ خورشید میں موجیں تری مشہود ہیں
ہر ستارے میں تماشہ ہے تری چمکار کا
آنکھ کے اندھوں کو حائل ہو گئے سو سو حجاب
ورنہ تھا قبلہ ترا رُخ کافر و دیندار کا
پس اس سے زیادہ اس مختصر نوٹ میں اور کیا کہا جائے۔
اگر درخانہ کس است حرفِ بس است

باری تعالیٰ کا مضمون اس قدر وسیع و فصیح ہے کہ اس کا احاطہ کرنا ممکن نہیں۔ تاہم میں نے اپنی کم مائیگی کے باوجود اس موضوع پر قلم آزمائی کی ہے جسے آپ صرف تمہید کا درجہ دے سکتے ہیں۔

ہستیٔ باری تعالیٰ کا نظام کائنات

باری تعالیٰ کا نام اﷲ ہے جس نے یہ کائنات چھ وقتوں میں تخلیق کی پھر اسے ٹھیک ٹھاک کیا اور عرش پر قرار پکڑا۔

خدا۔ رب۔ رحمان۔ رحیم۔ کریم۔ علیم۔ غفار۔ ستار۔ حیی و قیوم ۔ مالک یوم الدین سبھی باری تعالیٰ کے نام ہیں۔ صفاتی اسماء پاک کی تعداد نناوے ہے۔ اﷲ تعالیٰ کے اسماء پاک کا لکھنا پڑھنا اور ذکر کرنا موجب خیر و برکت ہے۔ باری تعالیٰ کی تخلیق اس قدر حیرت انگیز اور بےمثل ہے کہ اس کی لاجواب تخلیق سے اس کا جلوہ عیاں ہے۔ زمین کی تخلیق جس میں درخت، پہاڑ، دریا، سمندر اور زمین پر بسنے والے انسان، حیوان، چرند پرند، حشرات الارض سبھی اس خالق حقیقی کی وسعتوں کے عظیم ثبوت ہیں۔ پانیوں میں رہنے والے جاندار، زمین پر رینگنے والے کیڑے مکوڑے، حشرات الارض، جنگلوں ، صحراؤں میں بسنے والے جانور اور چرند پرند، پہاڑوں کے پتھروں میں رہنے والے جاندار، زمین کے اندر بسنے والے کیڑے مکوڑے، فضا میں محو پرواز جراثیم باریک باریک جرثومے یہ سب باری تعالیٰ کی مخلوق ہیں جن کی تعداد ناقابل شمار ہے۔ اس کائنات کے جانداروں کی اقسام بے شمار ہیں (ماسوائے انسان کے) کوئی دھاگے کی طرح لمبا ہے۔ کوئی گول، کوئی اتنا چھوٹا کہ خوردبین کے بغیر انسانی نظر نہیں دیکھ سکتی۔ ان سب اقسام کا جسمانی نظام زندگی، غذائی ضروریات، ساخت، افزائش نسل کا طریق زندگی کا دورانیہ اور غذائی ضروریات سب ایک دوسرے سے قطعی مختلف ہیں۔ آپ اگر کسی درخت کے ایک پتے پر غور کریں تو اس پر بیسیوں چھوٹے چھوٹے مختلف اقسام کے کیڑے نظر آئیں گے۔ آپ اندازہ کریں کہ ایک درخت کے لاکھوں پتوں، ٹہنیوں اور درخت کے تنے اور جڑ میں ان کیڑوں کی تعداد کتنی ہو گی اور پھر ذرا غور کریں کہ کل کائنات جو ان گنت درختوں، سبزہ زاروں، پانیوں اور پہاڑوں پر مشتمل ہے ان میں کس قدر حشرات الارض اور چرند پرند کی تعداد ہو گی۔ یقیناً یہ تعداد لامحدود ہے۔ ان کو پیدا کرنے والا اور ان کی افزائش نسل کرنے والا ان کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے والا صرف اور صرف ایک ہی ذات پاک ہے جس کا نام اﷲ یا باری تعالیٰ ہے۔ انسان کی بے مثل تخلیق بھی باری تعالیٰ نے فرمائی۔ یہ چاند، سورج اور ستارے سب باری تعالیٰ کے تخلیق کردہ ہیں جو اس کے حکم سے جب سے دنیا وجود میں آئی ہے اپنا مقررہ سفر جاری رکھے ہوئے ہیں کیا مجال ہے کہ ان کے معمولات میں کبھی ذرہ بھر بھی فرق آیا ہو۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
ترجمہ: جس نے سات آسمانوں کو طبقہ در طبقہ پیدا کیا تو رحمان کی تخلیق میں کوئی تضاد نہیں دیکھتا پس نظر دوڑا کیا کوئی رخنہ دیکھ سکتا ہے۔ نظر پھر دوسری مرتبہ دوڑا تیری نظر ناکام لوٹ آئے گی اور وہ تھکی ہاری ہو گی۔

(سورۃ الملک:5 ،4)

ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
ترجمہ: پس ایک وہی برکت والا ثابت ہوا (باری تعالیٰ) جس کے قبضۂ قدرت میں تمام بادشاہت ہے اور وہ ہر چیز پرجسے وہ چاہے دائمی قدرت رکھتا ہے۔

(سورۃ الملک:2)

بلاشبہ باری تعالیٰ کی ذات پاک اس کے کلمات، اس کی صفات، اس کے کمالات، اس کے عجائبات، اس کے الہامات، اس کی عنایات، اس کی نوازشات، اس کے احسانات، اس کے انعامات، اس کے اعلانات اور اس کے احکامات لامحدود ہیں اور سب کُنۡ فَیَکُوۡن کے تابع ہیں۔

وہ جسے چاہے عزت دیتا ہے۔ جسے چاہے ذلت دیتا ہے وہ جس کا چاہے رزق کشادہ کرتا ہے اور اسے بے حساب دیتا ہے جس کا چاہے رزق تنگ کرتا ہے۔ وہ کسی کو بیٹے دیتا ہے اور کسی کو بیٹیاں اور کسی کو دونوں اور کسی کو لاولد رکھتا ہے۔ وہ جسے دینا چاہے کوئی روک نہیں سکتا اور جسے نہ دینا چاہے اسے کوئی دے نہیں سکتا۔ وہ جس کی حفاظت کرے اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتا اور وہ جسے مارنا چاہے اسے کوئی بچا نہیں سکتا۔ وہ جسے چاہے بخش دے اور جسے چاہے اسے اس کے گناہوں کی سزا دے اور کوئی نہیں جو اس کے اذن کے بغیر اس سے سفارش کر سکے۔

ہستیٔ باری تعالیٰ کا پاک کلام

قرآن کریم فرقان حمید باری تعالیٰ کا پاک کلام ہے جو حضرت اقدس محمد ﷺ پر 23 برسوں میں پُرشوکت انداز میں تدریج کے ساتھ نازل ہوا۔

قرآن کریم حیی و قیوم کی آخری کتاب ہے جو قیامت تک نوع انسانی کیلئے ہدایت اور رہنمائی کی دستاویز ہے اس کی جڑیں فطرت انسانی میں پیوست ہیں اوراس کی شاخیں آسمان کی بلندیوں کو چھوتی ہیں اور یہ شجر طیبہ ہر زمانے اور ہر دور میں تازہ بتازہ علوم و مصارف کے اثمار نوع انسانی کو مہیا کرتا ہے۔ ہدایت اور رحمت کے یہ خزائن انسانی معاشرہ کی ضروریات۔ انسان کے فہم و ادراک اور تخلیق کائنات کے بارے میں اس کے علم کی وسعت اور گہرائی کے مطابق وَ مَا نُنَزِّلُہٗۤ اِلَّا بِقَدَرٍ مَّعۡلُوۡمٍ (سورۃ الحجر: 22) ہر دور میں نازل ہوتے ہیں اور قیامت تک نازل ہوتے رہیں گے۔

قرآن کریم میں شروع سے لے کر آخر تک ہر لفظ، ہر آیت اور ہر سورۃ اﷲ تبارک تعالیٰ کا جگمگاتا ہوا نور ہے اور یہ فصیح و بلیغ کلام جس کا کوئی ثانی نہیں فی الحقیقت باری تعالیٰ کے اعلیٰ اور ارفع مقام کا مظہر ہے اور اس کی عظمتوں کی اصل پہچان ہے۔

مفسرین فرماتے ہیں کہ سورۃ الفاتحہ قرآن کریم کے حسن و معارف کا مکمل طور پر احاطہ کئے ہوئے ہے اور یہ سورۃایک بار مکہ میں اور دوبارہ مدینہ میں نازل ہوئی۔ سورۃ الفاتحہ ایک کامل اور جامع دعا کا درجہ رکھتی ہے جو پنجگانہ نماز کا لازمی جزو ہے اور سورۃ الاخلاص، باری تعالیٰ کو وحدہ لا شریک، بے احتیاج، بن ماں باپ کے یعنی نہ اس نے کسی کو جنا ہے نہ وہ جنا گیا ہے کا درس دیتی ہے۔

جبکہ آیت الکرسی میں باری تعالیٰ کے وحدہ لاشریک، قادر مطلق، حیی و قیوم ہونے اور ہر قسم کی کمزوریوں اور ضرورتوں سے پاک حاکمیت کا اعلان کیا گیا ہے۔ ایک ایسی حاکمیت جس میں اس کے اذن کے بغیر سفارش کی بھی گنجائش نہیں رکھی گئی۔ یوں تو قرآن کریم کا ہر لفظ باری تعالیٰ کے نور سے روشن ہے اور منجملہ قرآن کریم نوراً علیٰ نور ہے لیکن سورۃ الفاتحہ، الاخلاص اور آیت الکرسی کا قرآن کریم میں اپنا ایک مقام ہے جیسا کہ ہر چیز کی ایک چوٹی ہوتی ہے یا ایک حصہ خاص الخاص ہوتا ہے اسی طرح ان سورتوں کی اہمیت قرآن کریم کے دل کے مترادف ہے۔

قرآن کریم کو یہ اعجاز حاصل ہے کہ اس نے باری تعالیٰ کے مقام کبریائی کو نہایت جامع اور خوبصورت انداز میں بیان فرمایا ہے اورباری تعالیٰ کی عظمتوں کو حقیقی معنوں میں اجاگر کیا ہے جبکہ یہ اسلوب گزشتہ الہامی صحیفوں اور کتب میں نہیں ملتا۔ جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ قرآن کریم شروع سے آخر تک باری تعالیٰ کی شان کبریائی کا مظہر و مرقع ہے اس لئے اس کی عظمتوں کو قرآن کریم کے حوالے سے بیان کرنے کے لئے سارا قرآن کریم درج کرنا اس مختصر سے مضمون میں میرے لئے ممکن نہیں لہٰذا نہایت معذرت کے ساتھ صرف چند آیات کریمہ درج کرنے پر اکتفا کرتا ہوں۔

(1)ترجمہ: اپنے بزرگ و بالا رب کے نام کا ہر عیب سے پاک ہونا بیان کر۔

(الاعلیٰ:2)

(2)ترجمہ: سوائے اس کے جو اﷲ چاہے یقیناً وہ ظاہر کو بھی جانتا ہے اور اسے بھی جو مخفی ہے۔

(الاعلیٰ:8)

(3)ترجمہ: یقیناً اﷲ ہر چیز پرجسے وہ چاہے دائمی قدرت رکھتاہے۔

(البقرۃ:21)

(4)ترجمہ: اسی کے قبضہ میں آسمانوں اور زمین کی کنجیاں ہیں۔ وہ رزق کو جس کے لئے چاہے کشادہ کرتا ہے اور تنگ بھی کر دیتا ہے یقیناً وہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔

(الشوریٰ:13)

(5)ترجمہ: اﷲ آسمانوں اور زمین کا نور ہے۔

(النور:36)

(6)ترجمہ: اور تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے کوئی معبود نہیں مگر وہی رحمان (اور) رحیم۔

(البقرۃ:164)

(7)ترجمہ: اﷲ انصاف پر رہتے ہوئے شہادت دیتا ہے کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور فرشتے بھی اور اہل علم بھی (یہی شہادت دیتے ہیں) کوئی معبود نہیں مگر وہی کامل غلبے والا۔

(آل عمران:19)

(9)ترجمہ: یقیناً یہی سچا بیان ہے اور اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یقیناً اﷲ ہی کامل ہے جو غلبے والا (اور) حکمت والا ہے۔

(آل عمران:36)

(9)ترجمہ: اﷲ کی چار بنیادی صفات
(۱) رب العالمین (ب) الرحمن (ج) الرحیم (د) مالک یوم الدین

(الفاتحہ:2 تا 4)

(10)ترجمہ: (اﷲ) وہی اول اور وہی آخر۔ وہی ظاہر اور وہی باطن ہے اور وہ ہر چیز کا دائمی علم رکھتا ہے۔

(الحدید:4)

(11)ترجمہ: مگر تیرے رب کا جاہ و حشم باقی رہے گا جو صاحب جلال و اکرام ہے۔

(الرحمٰن:28)

(12)ترجمہ: تو کہہ دے جو بھی آسمان اور زمین میں ہے ۔ غیب کو نہیں جانتا مگر اﷲ اور وہ تو یہ شعور بھی نہیں رکھتے کہ وہ کب اٹھائے جائیں گے۔

(النمل:66)

(13)ترجمہ : وہ جانتا ہے جو اس کے سامنے ہے اورجو اس کے پیچھے ہے جب کہ وہ اس کا علم کے ذریعہ کوئی احاطہ نہیں کر سکتے۔

(طٰہٰ:111)

(14)ترجمہ: پس اﷲ سچا بادشاہ بہت رفیع الشان ہے۔

(طٰہٰ:115)

(15)ترجمہ: پس ایک وہی برکت والا ثابت ہوا جس کے قبضہ قدرت میں تمام بادشاہت ہے اور وہ ہر چیز پر جسے وہ چاہے دائمی قدرت رکھتا ہے۔

(الملک:2)

(16)ترجمہ: االلہ نے کوئی بیٹا نہیں اپنایا اور نہ ہی اس کے ساتھ کوئی اور معبود ہے۔ ایسا ہوتا تو یقیناً ہر معبود اپنی مخلوق کو لے کر الگ ہو جاتا اور ضرور ان میں سے بعض بعض دوسروں پر چڑھائی کرتے۔ پاک ہے اﷲ اس سے جو وہ بیان کرتے ہیں۔

(المومنون:96)

(17) ترجمہ: جو غائب اور حاضر کا جاننے والا ہے اور وہ اس سے بہت بالا ہے جو وہ شریک ٹھہراتے ہیں۔

(المومنون:93)

(18) ترجمہ: وہی اﷲ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ وہ بادشاہ ہے، پاک ہے، سلام ہے، امن دینے والا ہے، نگہبان ہے، کامل غلبے والا ہے، ٹوٹے کام بنانے والا ہے (اور) کبریائی والا ہے(اور) پاک ہے اﷲ اس سے جو وہ شرک کرتے ہیں۔

(الحشر:24)

(19) ترجمہ: وہی اﷲ ہے جو پیدا کرنے والا ۔ پیدائش کا آغاز کرنے والا اور مصور ہے۔ تمام خوبصورت نام اسی کے ہیں۔ اسی کی تسبیح کر رہا ہے جو آسمانوں اور زمین میں ہے اور وہ کامل غلبے والا (اور) صاحب حکمت ہے۔

(الحشر:25)

(20) ترجمہ: اور اسی کا ہے جو آسمانوں اور زمین میں ہے اورجو اس کے حضور رہتے ہیں وہ اس کی عبادت کرتے ہیں استکبار سے کام نہیں لیتے اور نہ کبھی تھکتے ہیں۔ وہ رات دن تسبیح کرتے ہیں (اور) کوئی کوتاہی نہیں کرتے۔

(الانبیا:21 ,20)

(21) ترجمہ: اﷲ اس کے سوا کوئی معبود نہیں ہمیشہ زندہ رہنے والا (اور) قائم بالذات ہے۔ اسے نا تو اونگھ پکڑتی ہے اور نہ نیند۔ اسی کے لئے ہے جو آسمانوں میں ہے اورجو زمین میں ہے کون ہے جو اس کے حضور شفاعت کرے مگر اس کے اذن کے ساتھ۔ وہ جانتا ہے جو اس کے سامنے ہے اور جو اس کے پیچھے ہے اور وہ اس کے علم کا کچھ بھی احاطہ نہیں کر سکتے مگر جتنا وہ چاہے۔ اس کی بادشاہت آسمانوں اور زمین پر ممتد ہے اور ان دونوں کی حفاظت اسے تھکاتی نہیں اور وہ بلند شان (اور ) بڑی عظمت والا ہے۔

(البقرۃ:256)

منکرین کو ہستی باری تعالیٰ کا چیلنج

ترجمہ: اور اگر تم اس بارہ میں شک میں ہو جو ہم نے اپنے بندے پر اتارا ہے تو اس جیسی کوئی سورۃ تو لا کر دکھاؤ اور اپنے سرپرستوں کو بھی بلا لاؤ جو اﷲ کے سوا (تم نے بنا رکھے) ہیں اگر تم سچے ہو۔

(البقرۃ: 24، الحجر: 88)

بعض جگہ قرآن کریم کی صرف ایک سورت لانے کا چیلنج دیا گیا ہے اور بعض جگہ 10 سورتوں کا اور بعض جگہ پورے قرآن کریم کا۔

ہستی باری تعالیٰ کا رسول خاتم النبیّین ﷺ سے تعلق

باری تعالیٰ نے سرور کائنات فخر موجودات حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ کو نبی مبعوث فرمایا اور روح الامین، روح القدس نے قرآن کریم کو آپ کے دل پر اتارا ہے۔

(البقرۃ:98۔ الشعرآء:192 تا 194)

یہ اعجاز آپ آنحضرت ﷺ کو باری تعالیٰ نے بخشا ہے کہ اس نے آپ پر قرآن کریم اتارا جو انسانیت پر عظیم احسان ہے اور انسانیت کے لئے رہتی دنیا تک بے مثل انعام ہے جس کی مثال جب سے دنیا قائم ہوئی ہے نہیں ملتی۔ قرآن کریم میں باری تعالیٰ نے آپ سے قبل مبعوث کئے گئے انبیاء پر نازل کی گئی تعلیم میں سے بہترین تعلیم بھی قرآن میں جمع کر دی۔

(الاعلیٰ:20۔ الشعرآء: 196)

آپؐ سے پہلے جتنے بھی انبیاء علیہ السلام مبعوث ہوئے ہیں وہ کسی ایک قوم ایک امت یا مخصو ص دورانیہ کے لئے تھے لیکن آپ کو باری تعالیٰ نے تمام دنیا کی کل اقوام اور مذاہب کے لئے مبعوث فرمایا ہے۔ آپ کی شریعت آخری شریعت ہے اور قرآن کریم جو آپ پر پرشوکت انداز میں باری تعالیٰ نے تئیس برس میں تدریج کے ساتھ نازل فرمایا ہے وہ آخری کتاب ہے اور رہتی دنیا تک رشدو ہدایت کا منبع ہے۔ آپ پر قرآن کا نزول ایک بہت بڑی ذمہ داری باری تعالیٰ نے ڈالی جو آپ نے نہایت خوش دلی سے قبول کی اور خوش اسلوبی سے نبھائی۔ کسی نبی یا رسول کو اس روحانی خزانے کے اٹھانے کی سعادت نصیب نہیں ہوئی۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے :
ترجمہ: یقیناً ہم نے امانت کو آسمانوں، زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو انہوں نے اسے اٹھانے سے انکار کر دیا اور اس سے ڈر گئے جبکہ انسان کامل نے اسے اٹھا لیا یقیناً وہ (اپنی ذات پر) بہت ظلم کرنے والا (اور اس ذمہ واری کے عواقب کی) بالکل پرواہ نہ کرنے والا تھا۔

(الاحزاب:73)

اس آیت کریمہ میں آنحضرت ﷺ کی دیگر انبیاء پر فضیلت کا ذکر ہے کیونکہ جو امانت قرآنی تعلیم کے طور پر نازل کی جانی تھی وہ رسول اﷲ ﷺ سے پہلے کسی نبی کو یہ استطاعت نہیں تھی کہ اس کا بوجھ اٹھا سکے۔ اس امانت سے مراد قرآن کریم ہے۔ رسول االلہ ﷺ پر جتنے بھی مظالم ہوئے وہ قرآن کریم کے نزول کے بعد شروع ہوئے۔

قرآن کریم کی ایک اور آیت کریمہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
ترجمہ: اگر ہم نے اس قرآن کو کسی پہاڑ پر اتارا ہوتا تو تو ضرور دیکھتا کہ وہ اﷲ کے خوف سے عجز اختیار کرتے ہوئے ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا اور یہ تمثیلات ہیں جو ہم لوگوں کے لئے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ تفکر کریں۔

(الحشر:21)

آپ آنحضرت ﷺ سے باری تعالیٰ نے نہایت پیار اور شفقت کے ساتھ بہت سے مکالمے اور مخاطبے فرمائے جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
1۔ترجمہ:کہہ دے کہ اگر سمندر میرے رب کے کلمات کے لئے روشنائی بن جائیں تو سمندر ضرور ختم ہو جائیں گے پیشتر اس کے کہ میرے رب کے کلمات ختم ہوں۔ خواہ ہم بطور مدد اس جیسے اور (سمندر) لے آئیں۔

(الکہف:110)

2۔ترجمہ: پڑھ اپنے رب کے نام کے ساتھ جس نے پیدا کیا ۔

(العلق:2)

3۔ترجمہ: پڑھ اور تیرا رب سب سے معزز ہے۔

(العلق:4)

4۔ترجمہ: جس نے قلم کے ذریعہ سے سکھایا۔

(العلق:5)

5۔ترجمہ: انسان کو وہ کچھ سکھایا جو وہ نہیں جانتا تھا۔

(العلق:6)

6۔ترجمہ: یقیناً ہم نے ہی تجھ پر قرآن کو ایک پرشوکت تدریج کے ساتھ اتارا۔

(الدھر:24)

7۔ترجمہ: اور ہم نے حق کے ساتھ اسے اتارا ہے اور ضرورت حقہ کے ساتھ یہ اترا ہے اور ہم نے تجھے نہیں بھیجا مگر ایک مبشر اور نذیر کے طور پر۔

(بنی اسرائیل:106)

8۔ترجمہ: اور قرآن وہ ہے جسے ہم نے ٹکڑوں میں تقسیم کیا ہے تاکہ تو اسے لوگوں کے سامنے ٹھہر ٹھہر کر پڑھے اورہم نے اسے بڑی قوت اور تدریج کے ساتھ اتارا ہے۔

(بنی اسرائیل:107)

9۔ترجمہ:اور کہہ کہ تمام تعریف اﷲ ہی کے لئے ہے جس نے کبھی کوئی بیٹا اختیار نہیں کیا اور جس کی بادشاہت میں کبھی کوئی شریک نہیں ہوا اور کبھی اسے ایسے ساتھی کی ضرورت نہیں پڑی (گویا) کمزوری کی حالت میں اس کا مددگاربنتا اور تو بڑے زور سے اس کی بڑائی بیان کر۔

(بنی اسرائیل:112)

10۔ترجمہ:کہہ دے کہ وہی ہے جس نے تمہیں پیدا کیا اور تمہارے لئے کان آنکھیں اور دل بنائے بہت کم ہے جو تم شکر کرتے ہو۔

(الملک:24)

11۔ترجمہ:تو کہہ دے کامل علم تو اﷲ کے پاس ہے میں تو محض ڈرنے والا ہوں۔

(الملک:27)

12۔ترجمہ: تیرا رب ہی یقیناً بہت باکمال خالق (اور) صاحب علم ہے۔

(الحجر:87)

13۔ترجمہ: وہی اﷲ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ غیب کا جاننے والا ہے اور حاضر کا بھی بن مانگے دینے والا۔ بے انتہا رحم کرنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔

(الحشر:23)

14۔ترجمہ : اپنے رب کے حکم (پر عمل) کے لئے مضبوطی سے قائم رہ اور ان میں سے کسی گناہگار اور سخت ناشکرے کی پیروی نہ کر۔

(الدھر:25)

15۔ترجمہ : اور اپنے رب کے نام کاصبح بھی ذکر کر اور شام بھی

(الدھر:26)

16۔ترجمہ: تو کہہ دے کہ اے انسانوں۔ یقیناً میں تم سب کی طرف اﷲ کا رسول ہوں۔ جس کے قبضے میں آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہے۔ اس کے سوا اور کوئی معبود نہیں۔ وہ زندہ کرتا اور مارتا بھی ہے۔ پس ایمان لے آؤ اﷲ اور اس کے اُمی نبی پر۔ جو اﷲ اور اس کے کلمات پر ایمان رکھتا ہے اور اس کی پیروی کرو تاکہ تم ہدایت پاؤ۔

(الاعراف:159)

17۔ترجمہ : اور رات کے ایک حصہ میں اس کے حضور سجدہ ریز رہ اور ساری ساری رات اس کی تسبیح کرتا رہ۔

(الدھر:27)

18۔ترجمہ : پس اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح کر اور سجدہ کرنے والوں میں سے ہو جا۔

(الحجر:99)

19۔ترجمہ : اور اپنے رب کی عبادت کرتا چلا جا یہاں تک کہ تجھے یقین آ جائے۔

(الحجر:100)

20۔ترجمہ : پس اﷲ سچا بادشاہ بہت رفیع الشان ہے قرآن (کے پڑھنے) میں جلدی نہ کیا کر کہ پیشتر اس کے اس کی وحی تجھ پر مکمل کر دی جائے اور یہ کہا کر کہ اے رب! مجھے علم میں بڑھا دے۔

(طٰہٰ:115)

21۔ترجمہ: اور وہ (آنحضرت ﷺ) خواہش نفس سے کلام نہیں کرتا۔

(النجم:4)

22۔ترجمہ: جو اس رسول کے پیروی کرے تو اس نے اﷲ کی پیروی کی۔

(النساء:81)

23۔ ترجمہ: یقیناً وہ لوگ جو تیری بیعت کرتے ہیں وہ اﷲ ہی کی بیعت کرتے ہیں۔ اﷲ کا ہاتھ ہے جو ان کے ہاتھ پر ہے۔

(الفتح:11)

مندرجہ بالا آیات کریمہ کے علاوہ بھی بہت سی آیات کریمہ ہیں جس میں باری تعالیٰ نے فرمایا ہے میرا محبوب وہی کہتا ہے جو میں کہتا ہوں۔ اس کی زبان میری زبان ہے۔ پس آپ آنحضرت ﷺ باری تعالیٰ کے پَرتو انسان تھے۔ آپ چلتے پھرتے قرآن کریم کی تفسیر تھے۔ آپ کا اوڑھنا بچھونا، کھانا پینا، سونا جاگنا، خلق خدا سے محبت کرنا ان کے دکھ سے غمگین ہو جانا اور خلق خدا کو پیغام اسلام پہنچانا صرف اور صرف باری تعالیٰ کی حصول رضا کی خاطر تھا جس میں ذاتی انا یا مفاد کا شائبہ تک نہیں۔

دین اسلام کے بارے میں آپ نے جس طرح خلق خدا تک باری ہستی تعالیٰ کا پیغام پہنچایا اس کی مثال جب سے دنیا قائم ہوئی ہے نہیں ملتی۔ جو ہدایات آپ کو باری تعالیٰ نے اپنے پاک کلام قرآن کریم کے ذریعہ سے ارشاد فرمائیں۔ آپ نے اس پیغام حق کو پہنچانے کے لئے اس قدر جستجو اور تکالیف برداشت کیں کہ باری تعالیٰ کو کہنا پڑا کہ اے میرے محبوب تیرا کام صرف میرا پیغام پہنچانا ہے تو غمگین نہ ہو کہ لوگ کیوں ایمان نہیں لاتے۔ میں نے تجھے انسانوں پر دروغہ مقرر نہیں کیا تیرا کام صرف پیغام پہنچانا ہے۔

ترجمہ: جو اس رسول کی پیروی کرے تو اس نے اﷲ کی پیروی کی اور جو پھر جائے تو ہم نے تجھے ان پر دروغہ بنا کر نہیں بھیجا۔

(النساء:81)

ترجمہ: محمد تمہارے (جیسے) مردوں میں سے کسی کا باپ نہیں بلکہ وہ اﷲ کا رسول ہے اور خاتم النبیین ہے اور اﷲ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔

(الاحزاب:41)

ترجمہ: پس کیا تو شدت غم کے باعث ان کے پیچھے اپنی جان کو ہلاک کر دے گا اگر وہ اس بات پر ایمان نہ لائیں۔

(الکہف:7)

ترجمہ: اور اﷲ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو ۔ پس اگر تم منہ موڑ لو تو (جان لو کہ) ہمارے رسول پر محض پیغام کا صاف صاف پہنچا دینا ہے۔

(التغابن:13)

ارشاد باری تعالیٰ ہے :
ترجمہ: اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس لئے کہ اﷲ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔

(النساء:65)

دین اسلام کے بارے میں قرآن کریم کی بہت سی آیات کریمہ ہیں جن میں باری تعالیٰ نے تمام متعلقہ امور کی نشاندہی کی ہے اور کھول کھو ل کر وضاحت فرمائی ہے۔ باری تعالیٰ نے اپنے محبوب حضرت اقدس آنحضرت ﷺ کو اپنا رسول بنا کر بھیجا اور لوگوں کو تاکید کی کہ اسلام جو ایک مکمل دین اور ضابطہ حیات ہے وہ میں نے قرآن کریم میں بیان فرمایا ہے تم دین اسلام میرے بھیجے ہوئے رسول سے سیکھو۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: جیسا کہ ہم نے تمہارے اندر تم ہی میں سے رسول بھیجا ہے جو تم پر ہماری آیات پڑھ کر سناتا ہے اور تمہیں پاک کرتا ہے اور تمہیں کتاب اور( اس کی) حکمت سکھاتا ہے۔ اور تمہیں ان باتوں کی تعلیم دیتا ہے جس کا تمہیں پہلے کچھ علم نہ تھا۔

(البقرہ:152)

ان آیات کریمہ کے بعد باری تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر تم میرے رسول کی کامل پیروی کرتے ہوئے دین اسلام پر عمل کرو گے اور مجھے صدق دل سے یاد کرو گے اور میرا شکر ادا کرو گے تو میں بھی تم کو یاد رکھوں گا یعنی اپنی رحمت تم پر نازل کروں گا۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: پس میرا ذکر کیا کرو۔ میں بھی تمہیں یاد رکھوں گا اور میرا شکر کرو اورمیری ناشکری نا کرو۔

(البقرۃ:153)

اس سے اگلی آیت کریمہ میں اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے ۔ صبر اور صلوٰۃ کے ساتھ مانگنا ضروری ہے۔ یقیناً اﷲ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
ترجمہ: اے وہ لوگوں جو ایمان لائے ہو! (اﷲ سے) صبر اور صلوٰۃ کے ساتھ مدد مانگو۔ یقیناً اﷲ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

(البقرہ:154)

قرآن کریم میں دین اسلام کے بارے میں ارشادات باری تعالیٰ بار بار دہرائے گئے ہیں جیسا کہ درج ذیل آیات کریمہ سورۃ البقرۃ میں 44۔ 45۔ 46۔ 111۔187۔197۔ 198۔ 239۔ 278۔ 286 میں مذکور ہیں۔ جبکہ نماز کے لئے وضو کا ارشادباری تعالیٰ آیت کریمہ 17سورۃ المائدہ میں مذکور ہے۔

اسلام کے پانچ بنیادی ارکان یہ ہیں۔ (۱) کلمہ طیبہ (ب) نماز (ج) روزہ (د) زکوٰۃ اور(ر) حج۔ اسی طرح ارکان ایمان سات ہیں جن پر ایمان لانا ضروری ہے۔ (ا) ﷲ پر (ب) فرشتوں پر (ج) کتابوں پر (د) رسولوں پر (ر) عالم الغیب پر (س) آخرت کی زندگی اور (ش) جزا سزا کے دن پر۔

قرآن کریم میں حقوق اﷲ اور حقوق العباد کے بارے میں وضاحت سے احکام مذکور ہیں جن پر کاربند ہونے کی تاکید کی گئی ہے۔ ارشاد پاک ہے کہ تم تبھی تقویٰ کا مقام حاصل کرو گے جب رسول خدا ﷺ کی اطاعت اور رہنمائی میں قرآن کریم کے احکامات پر عمل باری تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے صبر اور استقامت سے کرو گے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے آنحضرت ﷺ کو مخاطب کرکے فرمایا :
ترجمہ: یقیناً ہم نے تجھے حق کے ساتھ بشیر اور نذیر بنا کر بھیجا ہے۔ کوئی امت نہیں مگر ضرور اس میں کوئی ڈرانے والا گزار ہے۔

(الفاطر:25)

ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: پس (اﷲ کی طرف) ہمیشہ مائل رہتے ہوئے اپنی توجہ دین پر مذکو ر رکھ۔ یہ اﷲ کی فطرت ہے جس پر اس نے انسانوں کو پیدا کیا۔ اﷲ کی تخلیق میں کوئی تبدیلی نہیں۔ یہ قائم رکھنے والا اور قائم رہنے والا دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

(الروم:31)

ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: اور جو بھی اسلام کے سوا کوئی دین پسند کرے تو ہرگز اسے قبول نہیں کیا جائے گا اور آخرت میں وہ گھاٹا پانے والوں میں سے ہو گا۔

(آل عمران:86)

آنحضرت ﷺ نے شب و روز اپنے محبوب باری تعالیٰ کی عبادت کی اور عبادت کے بعد دین اسلام کا پیغام حق انسانوںتک پہنچانے کے لئے بے پناہ تکالیف برداشت کیں۔ باری تعالیٰ نے آپ کی صفات حسنہ قرآن کریم میں بار بار بیان فرمائی ہیں اور آپ کو خاتم النبیین، رحمۃ للعالمین اور خلق عظیم کے اعلیٰ مقام پر فائز فرمایا ہے۔ قیامت کے دن آپ باری تعالیٰ کے خاص فضل اور مشیّت ایزدی سے مقام محمود پر فائز ہوں گے جیسے کہ باری تعالیٰ نے آپ سے وعدہ فرمایا ہے اور اس روز تمام انبیا ، رسول اور ان کی امتیں آپ کی شفاعت سے بہرہ مند ہوں گی۔ انشاء اﷲ! اپنے محبوب خاتم النبیّین سے محبت کی انتہا ہے کہ باری تعالیٰ نے اپنے پاک کلام قرآن کریم میں فرمایا۔

ترجمہ:یقیناً اﷲ اور اس کے فرشتے نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے وہ لوگو! جو ایمان لائے ہو تم بھی درود اور خوب خوب سلام بھیجو۔

(الاحزاب:57)

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ

ہستیٔ باری تعالیٰ کا مامور

جیسا کہ قرآن کریم اور احادیث نبوی میں پیشگوئیاں موجود ہیں کہ 13ویں صدی کے آخر میں اور چودہویں صدی کے شروع میں خدا تعالیٰ مسیح و مہدی کو مبعوث فرمائے گا جو آنحضرت ﷺ کے دین اسلام کی احیاء و تراویح کے فرائض انجام دے گا اور یہ وہ وقت ہو گا جب لوگ اسلام کی سنہری تعلیم کو چھوڑ کر بدعات، بدرسوم، بداعتقادات اور فسق فجور میں مبتلا ہو چکے ہوں گے۔ جب کہ ہر صدی کے سر پر ایک مجدد احیاء دین کے لئے آتا رہے گا۔ 14ویں صدی کے شروع میں مسیح و مہدی آئے گا جو اسلام کو دنیا میں قائم کرے گا چاہے ایمان ثریا پر ہی کیوں نہ ہو وہ وہاں سے بھی واپس لے آئے گا۔

سو مسیح و مہدی موعودؑ عاشق صادق آنحضرت ﷺ اَنۡعَمۡتَ عَلَیۡھِمۡ کے مصداق بن کر آئے اور آقائے دو جہاں خاتم النبیین۔ ختم المرسلین کی شریعت کاملہ پر لوگوں کو عمل پیرا کرنے کے لئے قلمی جہاد کیا۔

آپ نے اﷲ تعالیٰ تبارک تعالیٰ کے خاص فضل اور رہنمائی سے قرآن کریم کی ایسی ایسی پرمغز اور پرمعارف تفاسیر تحریر فرمائیں جس سے اﷲ تبارک تعالیٰ اور آقائے دو جہاں رحمت اللعالمین حضرت اقدس محمد مصطفیٰ۔ احمد مجتبیٰ فخر موجودات ﷺ کا حقیقی مقام و منصب کو قرآن کریم اور اﷲ تبارک تعالیٰ کے آخری باشریعت نبی کی روح کے عین مطابق اجاگر فرمایا۔

آپ جس زمانہ میں مبعوث ہوئے۔ لوگ اسلام کی تعلیم کو فراموش کر چکے تھے۔ بدرسوم، بد اعتقادات اور بدعات میں مبتلا ہو چکے تھے۔ توکل علی اﷲ ختم ہو چکا تھا۔ تقاریر تحریر اور خطبات میں علی الاعلان کہا جاتا تھا کہ اب اﷲ تبارک تعالیٰ نے انسان سے کلام کرنا بند کر دیا ہے۔ اب اﷲ نہ تو دعا سنتا ہے نہ ہی قبول کرتا ہے اور نا ہی جواب دیتا ہے۔ الفرض فسق و فجور کے اس دور میں انسان باری تعالیٰ اور اس کے محبوب رسول ﷺ کی تعلیم مبارکہ اور احکامات صالح سے علی الاعلان روگردانی کر چکا تھا۔

ایسے میں چودہویں صدی کے آغاز پر مامور من اﷲ نے نہ صرف دنیائے اسلام کو بتایا اور واضح کیا کہ آج بھی دنیا میں حاکمیت صرف اور صرف اﷲ تبارک تعالیٰ کی ہے وہی خالق وارض وسماں ہے اور دین و دنیا کا وحدہ لاشریک خدا ہے وہ آج بھی پہلے کی طرح بولتا ہے۔ سنتا ہے اور جواب دیتا ہے جیسا کہ ہمیشہ ہمیش سے کرتا چلا آیا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: اور جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق سوا ل کریں تو یقیناً میں قریب ہوں۔ میں دعا کرنے والے کی دعا کا جواب دیتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے۔ پس چاہئے کہ وہ بھی میری بات پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ ہدایت پا جائیں۔

(البقرۃ:187)

مامور من اﷲ نے فرمایا:

؎غیرممکن کو یہ ممکن میں بدل دیتی ہے
میرے فلسفیو زور دعا تو دیکھو

آپ سرور کائنات حضرت اقدس ﷺ پر اپنی جان نچھاور کرتے ہوئے اﷲ تعالیٰ سے التجا کرتے ہیں۔

؎ یَا رَبِّ صَلِّ عَلٰی نَبِیِّکَ دَائِمًا
فِیۡ ھٰذِہِ الدُّنۡیَا وَ بَعۡثٍ ثَانٖ

ترجمہ: اے میرے رب! اپنے نبی پر ہمیشہ درود بھیجتا رہ اس دنیا میں بھی اور دوسری دنیا میں بھی۔

آپ نے قرآن کریم اور احادیث نبوی کی ایسی پر معارف تفاسیر تحریر فرمائی ہیں جنہیں پڑھ کر سعید فطرت انسان عش عش کر اٹھتا ہے۔

اگر کتب حضرت مسیح موعودؑ کے پُر معارف اقتباسات کو یہاں ضبط تحریر میں لایا جائے تو ہزاروں اوراق درکار ہوں گے۔ اس لئے یہاں تحریر کرنا ممکن نہیں صرف اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ مسیح و مہدی موعودؑ نے باری تعالیٰ کا اعلیٰ اور ارفع مقام اور جو حقیقی مرتبہ اور مقام باری تعالیٰ کے سب سے مقرب انسان فخر موجودات، خاتم النبیین، ختم المرسلین، رحمۃ للعالمین، مقام خلق عظیم پر فائز کا بیان فرمایا ہے۔ وہ درحقیقت رسول مقبول ﷺ کی اس پیشگوئی کے عین مطابق ہے کہ مامور من اﷲ مسیح و مہدی موعود آخری زمانہ میں ایمان کو بام ثریا سے واپس لے آئے گا۔ پس آپ کی بعثت کا جو مقصد و مدعا آخری نبی الزماں حضرت اقدس محمد مصطفی ﷺ نے اپنی پیشگوئی میں 1400 برس قبل فرمایا تھا جس کی تائید و تصدیق قرآن کریم اور احادیث نبوی سے ہوتی ہے بےشک آپ نے احیاء اسلام کا فریضہ اﷲ تبارک تعالیٰ اور اس کے محبوب رسول پاک ﷺ کی پیشگوئی کے عین مطابق سرانجام فرمایا اور یوں آپ خداوند تعالیٰ اور اس کے رسول پاک ﷺ کے حضور سرخرو قرار پائے۔ الحمد اﷲ ثم الحمد اﷲ!

ہستی باری تعالیٰ کا تفویض کردہ جماعت احمدیہ کا نظام خلافت مسیح و مہدی کے ماننے والوں کی جماعت کا نام جماعت احمدیہ رکھا گیا ہے۔ اس جماعت میں خدا کے فضل سے خلافت احمدیہ جاری و ساری ہے۔ خلیفۂ وقت افراد جماعت کی رہنمائی فرماتے ہیں۔ یہ نظام مسیح و مہدی موعود نے اﷲ تبارک تعالیٰ سے اطلاع پا کر مشیت ایزدی کے تحت جاری فرمایا۔

مامور من اﷲ ایک مقررہ مدت کے لئے دنیا میں تشریف لاتے ہیں۔ وہ اﷲ کے عطا کردہ منصب پر فائز ہو کر دین کی ذمہ داریوں کو بطور احسن ادا کرتے ہیں اور ہر وقت اﷲ تبارک تعالیٰ سے رہنمائی اور مدد حاصل کرنے کے لئے سر بسجود رہتے ہیں۔ جب خدا تعالیٰ کا تفویض کردہ کام وہ مکمل کر لیتے ہیں تو اﷲ کا حکم آتا ہے کہ تم چلے آؤ۔ تو یہ اﷲ کے نیک بندے لبیک لبیک کہتے ہوئے اپنے پیارے آقا اور مولا کے حضور حاضر ہوجاتے ہیں۔

ان کے چلے جانے کے بعد اﷲ تعالیٰ قدرت ثانیہ کا ظہور فرماتا ہے تاکہ مامور من اﷲ کا احیاء دین کا قائم کیا ہوا مشن ہمیشہ جاری و ساری رہے جسے حضرت اقدس مسیح و مہدی موعود نے اﷲ تبارک تعالیٰ سے خبر پا کر یوں بیان فرمایا ہے:

’’چونکہ خدائے عزّوجل نے متواتر وحی سے مجھے خبر دی ہے کہ میرا زمانہ وفات نزدیک ہے اور اس بارے میں اس کی وحی اس قدر تواتر سے ہوئی کہ میری ہستی کو بنیاد سے ہلا دیا اور اس زندگی کو میرے پر سرد کر دیا۔ اس لئے میں نے مناسب سمجھا کہ اپنے دوستوں اور ان تمام لوگوں کے لئے جو میرے کلام سے فائدہ اٹھانا چاہیں چند نصائح لکھوں۔

(الوصیت، روحانی خزائن جلد20 صفحہ301)

آگے چل کر آپؑ فرماتے ہیں:

’’سو اے عزیزو! جبکہ قدیم سے سنت الہٰی یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو قدرتیں دکھاتا ہے۔ تامخالفوں کی وہ خوشیوں کو پامال کرکے دکھا دے۔ سو اب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے۔ اس لئے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو کہ تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہو گا اور دوسری قدرت نہیں آسکتی جب تک میں نہ جاؤں لیکن میں جب جاؤں گا تو پھر خدا اس دوسری قدرت کو تمہارے لئے بھیج دے گا جو ہمیشہ تمہارے ساتھ رہے گی۔‘‘

(الوصیت، روحانی خزائن جلد نمبر20 صفحہ305)

اس میں ذرہ بھر بھی شک نہیں کہ نظام خلافت ایسا بابرکت نظام ہے جو جماعت احمدیہ کی تعمیر و ترقی اور بقاء کے لئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 مارچ 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 مارچ 2020