• 18 اپریل, 2024

فرض شناس

چند روز قبل ٹلفورڈ برطانیہ میں علی الصباح ہی خوب برف باری ہوئی خاکسار اپنے بیٹے کے ہاں مقیم تھا۔ برف باری کے معاً بعد مطلع صاف ہوگیا اور دھوپ نکل آئی۔ ہم بھی موسم enjoy کرنے کے لئے گھرکےسامنے بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر میں ہی کیا دیکھتے ہیں کہ سامنے گھر سے ایک جوڑا (میاں بیوی) ہاتھوں میں بیلچے لئے باہر نمودار ہوا اور دونوں اپنی گاڑی کے سامنے سے برف ہٹانے میں مصروف ہو گئے اور دیکھتے ہی دیکھتے 80,70 میٹر کا رستہ صاف کرکے نمک بھی پھینک دیا۔ ان کے اس عمل سے ہمیں فکر لاحق ہوئی کہ اس وقت ان کو کیا ایمرجنسی ہے؟ بیٹے نے قریب جا کر پوچھا توپتہ چلاکہ خاتون نے اگلے روز صبح سویرے اپنی نوکری پر جانا ہے۔ جس کے لئے سڑک صاف کر رہے ہیں ان کے اس عمل سے میں سکتے میں آگیا اور خاموشی کے ساتھ سوچنے پر مجبور ہو گیا۔ کہ ایک طرف ایشیائی ممالک کے بعض لوگ ذرا سی بارش ہو تو دفتروں سے رخصت کر لیتے ہیں یا تاخیری حربے اپنائے جاتے ہیں۔ اور مغربی ممالک کی ترقی کا راز ہی فرض شناسی، احساس ذمہ داری اور فرائض منصبی کی بر وقت اور احسن طریق سے ادائیگی ہے۔ جس طرح اس خاتون کو دفتر جانے سے تقریباً 16گھنٹے قبل سے فکر لاحق ہوئی اور دفتر جانے کے لئے راستے صاف کرنے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ اگلے روز یہ خاتون ہی نہیں بلکہ کا لونی سے بہت لوگ ایک ایک فٹ کی برف کو چیرتے ہوئے اپنی گاڑیوں پر کام پر گئے۔

اسلام نے احساس ذمہ داری کی طرف بہت توجہ دلائی ہے۔ ہمارے بہت ہی پیارے رسول حضرت محمد رسول اللہﷺ نے بہت ہی احسن طریق پر اپنی ذمہ داریوں اور فرائض کو نبھا یا۔ کبھی فارغ نہ رہے۔ ہر وقت دینی و تربیتی نیز دعوت الی اللہ اور انسانیت کی فلاح وبہبود اور خدمت میں مصروف رہے۔ آپ ﷺ کی اقتداء اور مبارک نہج پر خلفا ئے راشدین اور صحابہ رسول ﷺ اپنے فرائض سے باحسن طریق سبکدوش ہوئے۔

اللہ تعالیٰ نے آنحضور ﷺ کو قرآن کریم میں یہ ہدایت دی۔ فَاِذَا فَرَغتَ فَانصَب (الم نشرح:8) پس جب بھی تو فارغ ہو تو خدا تعالیٰ سے ملنے کیلئے پھر کوشش میں لگ جا۔ حضرت مصلح موعود ؓ نے اس آیت کریمہ کے فٹ نوٹ میں تحریر فرمایا ہے۔
’’جب بھی امورمملکت اور تعلیم مسلمانان سے فارغ ہو تو سیر روحانی میں لگ جا کیونکہ تیرا وہ غیر متناہی سفر ہے اور اس سے فارغ ہونے کا کوئی سوال ہی نہیں۔‘‘

خلفائے راشدین میں سے حضرت عمر بن الخطاب ؓ کے متعلق تاریخ نے آپ کے فرائض منصبی کی ادائیگی کو محفوظ کیا ہے۔ آپ اپنے دور خلافت میں اپنی رعایا سے باخبر رہے ان کی ضروریات کا خیال رکھا۔ راتوں کو گلی محلوں کا گشت فرماتے۔ غلہ اپنی پیٹھ پر رکھ کر غریب اور مستحق گھروں تک پہنچاتے۔ ایک رات گشت کے دوران ایک گھر سے بچوں کے رونے کی آواز سنائی دی۔ پتہ کرنے پر معلوم ہوا کہ گھرمیں کھانے کو کچھ نہیں۔ ممتا نے پانی ابلنے کو رکھا ہے تا بچوں کو تسلی ہو۔ آپ واپس بیت المال تشریف لائے۔ غلّے کی بوری اپنے کاندھوں پر رکھی اور متعلقہ گھر میں جا کر نہ صرف دی بلکہ چولہے کے پاس بیٹھ کر اُ سے پکنے کا انتظار فرمایا جب تک بچوں نے کھانا نہیں کھا لیا آپ واپس نہ آئے۔

یہ ہے احساس ذمہ داری اور فرائض منصبی کی ادائیگی۔ یہ فرض شناسی انسان کے گھر سے شروع ہو تی ہے۔ اورکاروبار، دفتر، فلاحی اداروں، قومی و ملکی ذمہ داریوں تک پھیلتی چلی جاتی ہے۔ جس میں انسان کام اورخدمت کے حوالے سے اس وقت تک کامیابی کے زینے طے کر کے اپنا لوہا نہیں منوا سکتا جب تک وہ اپنے مفوضہ کام کو پوری دیانت داری، محنت اور سنجیدگی سے اپنا کام سمجھ کرنہ کرے ا نسان کا یہ وہ مقام ہے جہاں اس ذوق و شوق سے کام نہ کرنے پر اس کا ضمیر اسے ملامت کرے۔ کیونکہ کہتے ہیں کہ احساس ذمہ داری کا دوسرا نام ضمیر کا جاگنا ہے۔ یہ جبھی جاگتا ہے جب انسان اپنے کام میں اس حد تک مگن ہوجائے کہ وہ اپنا وجود کھو بیٹھے۔ حضرت علی ؓ سے ایک قول منسوب ہے فرماتےہیں کسی شخص کی قدرو قیمت کا اندازہ اس کے اندر کے احساس ذمہ داری سے لگا یا جا سکتا ہے۔

(نہج البلاغہ)

قائد اعظمؒ نے قوم کو مخاطب ہو کر فرمایا تھا کہ ’’میں آپ کو مصروف عمل ہونے کی تاکید کر تا ہوں، کام، کام اور بس کام، سکون کی خاطر صبر، برداشت اور انکساری کے ساتھ اپنی قوم کی سچی خدمت کرتے جائیے۔

(آل انڈیا مسلم سٹوڈنٹس کانفرنس 15نومبر 1942ء)

آج ہم اس فرمان کو با لائے طاق رکھ کر سُست ہو تے جارہے ہیں اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں ہم loyal نہیں۔ ہم میں احساس ذمہ داری مفقود اور ناپیدہو تا جا رہا ہے۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے (زمین وآسمان) سنبھالنے کی بار امانت آسمان، زمین اورپہاڑوں کے روبرو پیش کی۔ ان تمام نے اس ذمہ داری کو اٹھانے سے انکار کر دیا مگر انسان نے اُٹھا لیا۔ یہ امانت فرائض اور ذمہ داری ہی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان پر فرض ہے۔

نیز اللہ تعالیٰ نے سورۃ البلد آیت 5میں فرمایا لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنسَانَ فِیْ کَبَدٍ کہ ہم نے یقینا ًانسان کو بڑی محنت اور مشقت کرنے والا بنا یا ہے اور اس مضمون کو اللہ تعالیٰ نے سورۃ القیامہ آیت 37 میں ایک مختلف انداز میں یوں بیان فرمایا اَیَحْسَبُ الِْانْسَانُ اَنْ یُّتْرَکَ سُدًی کہ کیا انسان یہ خیال کرتا ہے کہ اس کو بے کار اور بے لگام چھوڑ دیا جائے گا۔ احادیث میں بھی اپنے آپ کو مصروف رکھنے کی تلقین ملتی ہے۔ آنحضور ﷺ کا بہت واضح ارشاد ہے کہ پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت جانو۔ ان پانچ میں سے ایک یہ تھی کہ فراغت کو مصروفیت سے پہلے غنیمت جان کر کسی اچھی چیز میں مشغول رہنا دین و دنیا کی بھلائی کا سبب ہے۔

(مشکوٰۃ: 5065)

اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کو ’’خیرامۃ‘‘ کہہ کر پکارا اور اس کے فرائض سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایا اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعرُوْفِ وَتَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ (آل عمران:111) کہ امت مسلمہ خیر امم ہے جو دنیا کے تمام لوگوں کی بھلائی کے لئے پیدا کی گئی ہے۔ جو معروف باتوں کا حکم دیتی ہے اور بُری باتوں سے روکتی ہے۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کا منصب بیان فرما کر اسے فرائض منصبی سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی نصیحت فرمائی ہے۔ جیسے انسان کی تخلیق کا مقصد عبادت الٰہی ہے۔ اپنی نمازوں، نوافل، تسبیحات، درود کو ایسی شان و شوکت اور اہتمام کے ساتھ ادا کیا جائے جس کا اسلام، قرآن اور احادیث متقاضی ہیں۔ پھر قرآن کریم کی تلاوت اور دیگر حقوق اللہ ہیں۔

٭ اللہ کے حقوق کی احسن طریق پر ادائیگی کے بعد اپنی فیملی اوراہل وعیال کے حقوق اور فرائض ہیں بیو ی کے لئے اچھا خاوند بننا، خاوند کے لئے اچھی بیوی بننا، والدین کا بچوں کے لئے اچھا ماں باپ بننا، بچوں کا والدین کے لئے اچھے بچے بننا، اسی طرح خاندان میں دیگر رشتہ داروں کا درجہ بدرجہ احترام کرنا، اور چھوٹوں سے پیار و محبت سے پیش آنا ہم میں سے ہر ایک کے فرائض منصبی میں شامل ہے۔

٭ تیسرے نمبر پر ہمارے فرائض میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی تعمیل ہے جسے ہم اپنی زبان میں دعوت الی اللہ کہتے ہیں۔ اس کام کو بھی بر وقت اور احسن انداز میں ادا کرنا نہ صرف فرائض منصبی میں شامل ہے بلکہ اِسے احساس ذمہ داری سمجھتے ہوئے ادا کرنا ضروری ہے۔

٭ چوتھے نمبر پر ماحول میں معاشرہ کو متوازن معاشرہ بنانے کے لئے اپنے آپ کو اعلیٰ اخلاق سے آراستہ کرنا بھی ہر احمدی مسلمان کا فرض ہے۔

٭ پانچویں نمبر پر قومی، ملکی اور دفتری ذمہ داریاں جو عائد ہوتی ہیں۔ اُسے اپنے ایمان کا حصہ سمجھ کر ادا کرنا بھی فرض منصبی میں شامل ہے۔ اسے اوپر بیان کر دہ امورکواسلامی تعلیم کے مطابق نبھانا، اس کے حقوق اد ا کرنا ایک مسلمان کا اولین فرض ہے۔ اگر ایک مسلمان اپنی جان لگا کر فرائض منصبی ادا کر ے تو وہ ان مشکلات سے گزر کر ایسا کندن بن جاتا ہے جو خدا کو بہت پسند ہے اور اسی کندن سے پھر قومیں ترقی پاتی ہیں۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اکثر فرما یا ہے کہ اگر آپ ترقی اور کامیابی چاہتے ہیں تو جماعتی کاموں میں جُت جائیں۔

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 مارچ 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 مارچ 2021