• 28 جولائی, 2025

قیام عبادت اور اس کی اہمیت

الَّذِیۡنَ ہُمۡ فِیۡ صَلَاتِہِمۡ خٰشِعُوۡنَ

(المومنون:3)

ترجمہ: وہ (مومن) جو اپنی نمازوں میں عاجزانہ رویہ اختیار کرتے ہیں۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’انسان اپنے رب سے سب سے زیادہ قریب اس وقت ہوتا ہے جب وہ سجدے میں ہو اس لئے سجدہ میں بہت دعا کیا کرو۔

(مسلم کتاب الصلوٰۃ ما یقول فی الرکوع والسجود حدیث نمبر1083)

حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں۔
نماز بڑے بھاری درجے کی دعا ہے مگر لوگ اس کی قدر نہیں کرتے۔ اس زمانہ میں مسلمان درودو و ظائف کی طرف متوجہ ہیں۔ کئی ایک فرقے ہیں جیسا کہ نوشاہی اور نقشبندی وغیرہ افسوس ہے کہ ان میں سے کوئی بدعات کی آمیزش سے خالی نہیں۔ یہ لوگ نماز کی حقیقت سے بے خبر ہیں۔ احکام الٰہی کی ہجو کرتے ہیں۔ طالب کے واسطے نماز کے ہوتے ہوئے ان بدعات میں سے کسی کی ضرورت نہیں۔ پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی طریق تھا کہ مشکلات کے وقت میں وضو کر کے نماز میں کھڑے ہو جاتے تھے اور نماز میں دعا کرتے تھے۔

(تقاریر جلسہ سالانہ 1906ء صفحہ6)

نماز کیا چیز ہے وہ دعا ہے جو تسبیح تحمید، تقدیس اور استغفار اور درود کے ساتھ تضرع سے مانگی جاتی ہے۔ سو جب تم نماز پڑھو تو بے خبر لوگوں کی طرح اپنی دعاؤں میں صرف عربی الفاظ کے پابند نہ رہو کیونکہ ان کی نماز اور ان کا استغفار سب رسمیں ہیں جن کے ساتھ کوئی حقیقت نہیں لیکن تم جب نماز پڑھو تو بجز قرآن کے جو خدا کا کلام ہے اور بجز بعض ادعیہ ماثورہ کے کہ وہ رسول کا کلام ہے باقی اپنی تمام عام دعاؤں میں اپنی زبان میں ہی الفاظ متضرعانہ ادا کر لیا کرو تا ہو کہ تمہارے دلوں پر اُس عجز و نیاز کا کچھ اثر ہو۔

(کشتی نوح روحانی خزائن جلد22 صفحہ 68۔69)

نیز فرمایا۔ نماز کیا ہے؟ یہی کہ اپنے عجزو نیاز اور کمزوریوں کو خدا کے سامنے پیش کرنا اور اسی سے اپنی حاجت روائی چاہنا ۔کبھی اس کی عظمت اور اسکے احکام کی بجا آوری کے واسطے دست بستہ کھڑا ہونا اور کبھی کمال مذلت اور فروتنی سے اس کے آگے سجدہ میں ِگرجانا اس سے اپنی حا جات کا مانگنا ،یہی نماز ہے ۔ ایک سائل کی طرح کبھی اس مسئول کی تعریف کرنا کہ تو ایسا ہے توایساہےاس کی عظمت اور جلال کا اظہار کرکے اس کی رحمت کو جنبش دلانا پھر اس سے مانگنا۔

(ملفوظات جلد5 صفحہ253۔254)

آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں۔
نماز خدا تعالیٰ کی حضوری ہے اور خدا تعالیٰ کی تعریف کرنے اور اس سے اپنے گناہوں کے معاف کرانے کی مرکب صورت کا نام نماز ہے۔ اس کی نماز ہر گز نہیں ہوتی جو اس غرض اور مقصد کو مد نظر رکھ کر نماز نہیں پڑھتا۔پس نماز بہت ہی اچھی طرح پڑھو۔ کھڑے ہو۔ تو ایسے طریق سے کہ تمہاری صورت صاف بتادے کہ تم خدا تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری میں دست بستہ کھڑے ہو اور جھکو تو ایسے جس سے صاف معلوم ہو کہ تمہارا دل جھکتا ہے اور سجدہ کرو تو اس آدمی کی طرح جس کا دل ڈرتا ہے اور نمازوں میں اپنے دین اور دنیا کے لیے دعا کرو‘‘۔

(ملفوظات جلد2 صفحہ184)

ہمارے پیارے امام سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جب فرمایا کہ اپنے نفس کی تبدیلی کے لئے کوشش کرو تو سب سے پہلے نماز کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ ’’نماز میں دعائیں مانگو‘‘ کیونکہ جب انسان خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کے آگے جھکتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی نیک خواہشات کو قبول فرماتے ہوئے اس میں پاک تبدیلیاں پیدا فرماتا ہے۔ لغو اور غلط کاموں سے انسان بچتا ہے۔ نیکیوں کی طرف توجہ پیدا ہوتی ہے۔

(خطبات مسرور جلد6 صفحہ176)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ مزید فرماتے ہیں:

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نماز کی اہمیت کے ضمن میں فرماتے ہیں کہ:
’’نماز ہر ایک مسلمان پر فرض ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ آنحضرتﷺ کے پاس ایک قوم اسلام لائی اور عرض کی یا رسول اللہ! ہمیں نماز معاف فرما دی جاوے کیونکہ ہم کاروباری آدمی ہیں’’۔ آجکل کے بعض کاروباری بھی یہی بہانے کرتے ہیں۔ انہوں نے بھی یہی کہا کہ ہمیں نماز معاف فرما دی جائے کیونکہ ہم کاروبار ی آدمی ہیں۔‘‘ مویشی وغیرہ کے سبب سے کپڑوں کا کوئی اعتماد نہیں ہوتا ’’کہ صاف ہیں کہ نہیں۔‘‘ اور نہ ہمیں فرصت ہوتی ہے’’۔ دو بہانے ہیں، ایک کیونکہ جانور پالنے والے ہیں اس لئے پتہ نہیں کپڑے صاف بھی ہیں کہ نہیں اور نماز کے لئے حکم ہے کہ صاف کپڑے پہنو اور دوسرے کاروبار بھی ہے۔ دونوں صورتوں کی وجہ سے وقت نہیں ملتا۔‘‘ تو آپؐ نے (آنحضرتﷺ نے) اس کے جواب میں فرمایا کہ دیکھو جب نماز نہیں تو ہے ہی کیا؟ وہ دین ہی نہیں جس میں نماز نہیں۔ نماز کیا ہے؟ یہی کہ اپنے عجزو نیاز اور کمروزریوں کو خدا کے سامنے پیش کرنا اور اسی سے اپنی حاجت روائی چاہنا۔ کبھی اس کی عظمت اور اس کے احکام کی بجا آوری کے واسطے دست بستہ کھڑا ہونا اور کبھی کمال مذلّت اور فروتنی سے اس کے آگے سجدے میں گر جانا۔ اس سے اپنی حاجات کا مانگنا، یہی نماز ہے۔ ایک سائل کی طرح کبھی اس مسؤل کی تعریف کرنا کہ تو ایسا ہے ’’یعنی جس سے مانگا جا رہا ہے، اس کی تعریف کرنا کہ تو ایسا ہے۔‘‘ اس کی عظمت اور جلال کا اظہار کرکے اس کی رحمت کو جنبش دلانا پھر اس سے مانگنا، پس جس دین میں یہ نہیں وہ دین ہی کیا ہے۔ انسان ہر وقت محتاج ہے اس سے اس کی رضا کی راہیں مانگتا رہے اور اس کے فضل کا اسی سے خواستگار ہو کیونکہ اس کی دی ہوئی توفیق سے کچھ کیا جا سکتا ہے۔ اے خدا ہم کو توفیق دے کہ ہم تیرے ہو جائیں اور تیری رضا پر کار بند ہوکر تجھے راضی کر لیں۔ خداتعالیٰ کی محبت، اسی کا خوف، اسی کی یادمیں دل لگا رہنے کا نام نماز ہے اور یہی دین ہے‘‘۔

پھر فرماتے ہیں کہ: ’’پھر جوشخص نماز ہی سے فراغت حاصل کرنی چاہتا ہے، اس نے حیوانوں سے بڑھ کر کیا کیا؟ وہی کھانا پینا اور حیوانوں کی طرح سو رہنا۔ یہ تو دین ہرگز نہیں۔ یہ سیرتِ کفار ہے بلکہ جو دم غافل وہ دم کافر والی بات بالکل راست اور صحیح ہے‘‘۔

(ملفوظات جلد3 صفحہ189 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ) (خطبہ جمعہ 22؍ فروری 2008ء)

اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی نمازوں میں کثرت سے مقبول دعائیں کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 مارچ 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 مارچ 2021