• 24 اپریل, 2024

محمدؐ عظیم الشان خوبیوں کے حامل انسان

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
Sir Thomas Carlyle آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اُمّی ہونے کے متعلق لکھتے ہیں کہ: ’’ایک اور بات ہمیں ہر گز بھولنی نہیں چاہئے کہ اُسے کسی مدرسہ کی تعلیم میسر نہ تھی۔ اس چیز کو جسے ہم سکول لرننگ (School Learning) کہتے ہیں، ایسا کچھ بھی نہیں تھا۔ لکھنے کا فن تو عرب میں بالکل نیا تھا۔ یہ رائے بالکل سچی معلوم ہوتی ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کبھی خودنہ لکھ سکا۔ اس کی تمام ترتعلیم صحراء کی بودو باش اور اس کے تجربات کے گرد گھومتی ہے۔ اس لامحدود کائنات، اپنے تاریک علاقہ اور اپنی انہی مادی آنکھوں اور خیالات سے وہ کیا کچھ حاصل کر سکتے تھے؟ مزید حیرت ہوتی ہے جب دیکھا جائے کہ کتابیں بھی میسر نہ تھیں۔ عرب کے تاریک بیابان میں سُنی سُنائی باتوں اور اپنے ذاتی مشاہدات کے علاوہ وہ کچھ بھی علم نہ رکھتے تھے۔ وہ حکمت کی باتیں جو آپ سے پہلے موجود تھیں یا عرب کے علاوہ دوسرے علاقہ میں موجود تھیں، ان تک رسائی نہ ہونے کے باعث وہ آپ کے لئے نہ ہونے کے برابرتھیں۔ ایسے حکام اور علماء میں سے کسی نے اس عظیم انسان سے براہِ راست مکالمہ نہیں کیا۔ وہ اس بیابان میں تنِ تنہا تھے اور یونہی قدرت اور اپنی سوچوں کے محور میں پروان چڑھا۔‘‘

(Six Lectures by Thomas Carlyle, Edition 1846, Lecture 2 page 47)

پھرآپؐ کی شادی کے بارے میں اور آپ کے گھریلو تعلقات کے بارہ میں لکھتا ہے کہ وہ کیسے خدیجہ کا ساتھی بنا؟ کیسے ایک امیر بیوہ کے کاروباری امور کامہتمم بنا اور سفر کر کے شام کے میلوں میں شرکت کی؟ اُس نے یہ سب کچھ کیسے کر لیا؟ ہر ایک کو بخوبی علم ہے کہ اُس نے یہ انتہائی وفاداری اور مہارت کے ساتھ کیا۔ خدیجہ (رضی اللہ عنہا) کے دل میں اُن کا احترام اور ان کے لئے شکر کے جذبات کیونکر پیدا ہوئے؟ ان دونوں کی شادی کی داستان، جیسا کہ عرب کے مصنفین نے ذکر کیا ہے، بڑی دلکش اور قابلِ فہم ہے۔ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی عمر 25سال تھی اور خدیجہ کی عمر40 سال تھی‘‘۔ پھر لکھتا ہے کہ ’’معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اس محسنہ کے ساتھ انتہائی پیار بھری، پرسکون اور بھرپور زندگی بسر کی۔ وہ خدیجہ سے حقیقی پیار کرتے تھے اور صرف اُسی کے تھے۔ اس کو جھوٹا نبی کہنے میں یہ حقیقت روک ہے کہ آپ نے زندگی کا یہ دور اس انداز سے گزارا کہ اس پر کوئی اعتراض نہیں کر سکتا۔ یہ دور انتہائی سادہ اور پُر سکون تھا یہاں تک کہ آپ کی جوانی کے دن گزر گئے۔‘‘

(Six Lectures by Thomas Carlyle, Edition 1846, Lecture 2 page 48)

پھر Thomas Carlyle ہی لکھتے ہیں کہ: ’’ہم لوگوں یعنی عیسائیوں میں جو یہ بات مشہور ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ایک پُرفن اور فطرتی شخص اور جھوٹے دعویدارِ نبوت تھے اور ان کا مذہب دیوانگی اور خام خیالی کا ایک تودہ ہے، اب یہ سب باتیں لوگوں کے نزدیک غلط ٹھہرتی چلی جاتی ہیں‘‘۔ کہتا ہے ’’جو جھوٹ باتیں متعصب عیسائیوں نے اس انسان یعنی (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم) کی نسبت بنائی تھیں اب وہ الزام قطعاً ہماری رُوسیاہی کا باعث ہے اور جو باتیں اس انسان (یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم) نے اپنی زبان سے نکالی تھیں، بارہ سو برس سے اٹھارہ کروڑ آدمیوں کے لئے بمنزلہ ہدایت کے قائم ہیں‘‘۔ (جب یہ انیسویں صدی میں تھا، اُس وقت کی باتیں ہیں )، ’’اس وقت جتنے آدمی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتقاد رکھتے ہیں اس سے بڑھ کر اور کسی کے کلام پر اس زمانے کے لوگ یقین نہیں رکھتے۔ میرے نزدیک اس خیال سے بدتر اور ناخدا پرستی کا کوئی دوسرا خیال نہیں ہے کہ ایک جھوٹے آدمی نے یہ مذہب پھیلایا۔‘‘ (یعنی یہ بالکل غلط چیز ہے)۔

(Six Lectures on Heroes, Hero-Worship and the Heroic in History by Thomas Carlyle)

پھر ایک فرنچ فلاسفر لا مانٹین (Lamartine) اپنی کتاب ’’ہسٹری آف ٹرکی‘‘ (History of Turkey) میں لکھتا ہے کہ: ’’اگرکسی شخص کی قابلیت کو پرکھنے کیلئے تین معیار مقرر کئے جائیں کہ اُس شخص کا مقصد کتنا عظیم ہے، اُس کے پاس ذرائع کتنے محدود ہیں اور اُس کے نتائج کتنے عظیم الشان ہیں توآج کون ایسا شخص ملے گا جو محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) سے مقابلہ کرنے کی جسارت کرے۔ دنیا کی شہرہ آفاق شخصیات نے صرف چند فوجوں، قوانین اور سلطنتوں کو شکست دی اور انہوں نے محض دنیاوی حکومتوں کا قیام کیا اور اُن میں سے بھی بعض طاقتیں اُن کی آنکھوں کے سامنے ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہو گئیں۔ مگر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) نے نہ صرف دنیا کی فوجوں، قوانین، حکومتوں، مختلف اقوام اور نسلوں بلکہ دنیا کی کل آبادی کے ایک تہائی کو یکجا کر دیا۔ مزید برآں اُس نے قربانگاہوں، خداؤوں، مذاہب، عقائد، افکار اور روحوں کی تجدید کی۔ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی بنیادصرف ایک کتاب تھی جس کا حرف حرف قانون بن گیا۔ اُس شخص نے ہرزبان اور ہر نسل کو ایک روحانی تشخص سے نوازا۔‘‘

پھر لکھتا ہے: ’’محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) ایک فلسفہ دان، خطیب، پیغمبر، قانون دان، جنگجو، افکار پر فتح پانے والا، عقلی تعلیمات کی تجدید کرنے والا، بیسیوں ظاہر ی حکومتوں اور ایک روحانی حکومت کو قائم کرنے والا شخص تھا۔ انسانی عظمت کو پرکھنے کا کوئی بھی معیار مقرر کر لیں، کیامحمد (صلی اللہ علیہ وسلم) سے بڑھ کر کبھی کوئی عظیم شخص پیدا ہوا؟‘‘

(History of Turkey by A. De Lamartine, New York:D. Appleton and Company, 346 & 348 Broadway, 1855. vol.1 pp.154-155)

(خطبہ جمعہ 5؍اکتوبر 2012ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

ریجنل اجتماع لجنہ اماء اللہ واگا ڈوگو برکینافاسو

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 مارچ 2023