احمدیت کا فضائی دور
ایم ٹی اے- تقدیر الٰہی کا زندہ و تابندہ نشان
قسط 5
احمدیت کی فجر
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے سورۃ الفجر کی ابتدائی آیات وَالْفَجْرِ وَلَيَالٍ عَشْرٍ وَالشَّفْعِ وَالْوَتْرِ وَاللَّيْلِ إِذَا يَسْرِ سے استنباط کرتے ہوئے ٹھوس دلائل کے ساتھ احمدیت کی ترقی کے کئی ادوار کا ذکر کیا اور 1945ء میں پیشگوئی کرتے ہوئے فرمایا:
’’آخری ترقی خواہ کچھ لمبے عرصے کے بعد ہو احمدیت کی ایک فتح آج سے آٹھ سال بعد ہوگی یا آج سے 37سال بعد ہوگی یا آج سے 46سال بعد ہوگی یا ان سالوں کے لگ بھگ وہ فتح ظاہر ہو جائے گی کیونکہ پیشگوئیوں میں دن نہیں گنے جاتے بلکہ ایک موٹا اندازہ بتایا جاتا ہے اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان چاروں اوقات میں چار مختلف قسم کی فتوحات ظاہر ہوں۔‘‘
(تفسیر کبیر جلد8 صفحہ529 تفسیر سورہ الفجر)
1945ء میں جب حضورؓ کے بیان کردہ سالوں کو جمع کیا جائے تو یہ علی الترتیب 1953ء، 1982، 1991ء قرار پاتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک کے بعد جماعت ترقیات کے نئے ادوار میں داخل ہوتی ہے۔
- 1953ء کے فسادات کے بعد
- 1982ء میں خلافت رابعہ کے قیام کے بعد
- 1991ء میں حضورؒ کے قادیان تشریف لے جانے کے بعد
اگست 1992ء میں حضورؒ کے خطبات چار براعظموں میں نشر ہونے شروع ہوئے۔ اس طرح چاروں پہلوؤں سے سورہ الفجر کے باریک اشارے اظہر من الشمس ہوگئے۔
سلسلہ سوال و جواب
سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کی ایک رؤیا میں ایم ٹی اے پر ٹیلی فون کالوں اور اعتراضوں کا جواب دینے کا ذکر بھی موجود ہے۔ فرماتے ہیں:
’’اس رؤیا کے شروع میں میں نے دیکھا کہ کسی سرکاری افسر نے کوئی تقریر ایسی کی ہے جس میں احمدیت پر کچھ اعتراضات ہیں اس کو سن کر حضرت مسیح موعودؑ ایک پبلک فون کی جگہ پر چلے گئے ہیں اور فون پر اس کی تردید شروع کی ہے مگر بجائے آپ کی آواز فون میں جانے کے ساری دنیا میں پھیل رہی ہے اس فون میں آپ نے سب اعتراضوں کو رد کیا ہے جو اس افسر کی طرف سے کئے گئے ہیں۔‘‘
(الفضل 5؍اکتوبر 1954ء صفحہ3)
ایم ٹی اے کے قیام کے ساتھ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے عالمی مجالس سوال و جواب کا سلسلہ شروع کیا اور خلافت خامسہ میں ایم ٹی اے پر Live سوال و جواب کے پروگرام کئی زبانوں میں نشر ہورہے ہیں۔ جو دشمنوں کے ہر اعتراض کو رد کر رہے ہیں۔ ٹیلی فون پر وہ سوال آتا ہے اور پھر ساری دنیا میں وہ آواز پھیل جاتی ہے۔ ان میں راہ ھدیٰ خصوصیت سے ذکر کے قابل ہے۔
بٹتا رہتا ہے ڈشوں میں مائدہ
سب کی بھرتا جھولیاں ہے ایم ٹی اے
جلوہ فرما جس پہ ہے مہدی مرا
اب وہ تختِ قادیاں ہے ایم ٹی اے
بلاد عرب میں ایم ٹی اے کے ذریعہ قبولیت
حضرت مصلح موعودؓ کی درج ذیل رؤیا میں خلافت خامسہ میں ایم ٹی اے کے ذریعہ بلاد عربیہ میں احمدیت پھیلنے کی طرف خاص اشارہ معلوم ہوتا ہے۔حضرت مصلح موعودؓ خطبہ جمعہ 23؍ نومبر 1945ء میں فرماتے ہیں:
’’تین چار دن ہوئے، میں نے ایک رؤیا میں دیکھا کہ میں عربی بلاد میں ہوں اور ایک موٹر میں سوار ہوں۔ ساتھ ہی ایک اور موٹر ہے جو غالباً میاں شریف احمد صاحب کی ہے۔ پہاڑی علاقہ ہے اور اس میں کچھ ٹیلے سے ہیں۔ جیسے پہل گام، کشمیر یا پالم پور میں ہوتے ہیں۔ ایک جگہ جا کر دوسری موٹر جو میں سمجھتا ہوں میاں شریف احمد صاحب کی ہے کسی اور طرف چلی گئی ہے اور میری موٹر اور طرف۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ میری موٹر ڈاک بنگلے کی طرف جارہی ہے۔ بنگلہ کے پاس جب میں موٹر سے اترا تو میں نے دیکھا کہ بہت سے عرب جن میں کچھ سیاہ رنگ کے ہیں اور کچھ سفید رنگ کے، میرے پاس آئے ہیں میں اس وقت اپنے دوسرے ساتھیوں کی طرف جانا چاہتا ہوں لیکن ان عربوں کے آجانے کی وجہ سے گیا ہوں۔ انہوں نے آتے ہی کہا:
السلام علیکم یاسیدی!
میں ان سے پوچھتا ہوں۔ من أین جئتم؟ کہ آپ لوگ کہاں سے آئے ہیں؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ
جئنا من بلاد العرب وذھبنا الٰی قادیان وعلمنا أنک سافرت فاتبعناک علمنا أنک جئت الٰی ھذاالمقام۔ یعنی ہم عربی بلاد سے آئے ہیں اور ہم قادیان گئے اور وہاں معلوم ہوا کہ آپ باہر گئے ہیں اور ہم آپ کے پیچھے چلے یہاں تک کہ ہمیں معلوم ہوا کہ آپ یہاں ہیں۔ اس پر میں نے ان سے پوچھا کہ لأی مقصد جئتم؟ کس غرض سے آپ تشریف لائے ہو؟ تو ان میں سے لیڈر نے جواب دیا کہ جئنا لنستشیرک فی الأمور القتصادیة والتعلیمیة اور غالباً سیاسی اور ایک اور لفظ بھی کہا۔ اس پر میں ڈاک بنگلہ کی طرف مڑا اور ان سے کہا کہ مکان میں آجایئے، وہاں مشورہ کریں گے۔ جب میں کمرہ میں داخل ہوا تو دیکھا کہ میز پر کھانا چنا ہوا ہے اور کرسیاں لگی ہیں اور میں نے خیال کیا کہ شاید کوئی انگریز مسافر ہوں۔ ان کے لئے یہ انتظام ہو اور میں آگے دوسرے کمرے کی طرف بڑھا۔ وہاں فرش پر کچھ پھل اور مٹھائیاں رکھی ہیں اور اردگرد اس طرح بیٹھنے کی جگہ ہے جیسے کہ عرب گھروں میں ہوتی ہے۔ میں نے ان کو وہاں بیٹھنے کو کہا اور دل میں سمجھا کہ یہ انتظام ہمارے لئے ہے۔ ان لوگوں نے وہاں بیٹھ کر پھلوں کی طرف ہاتھ بڑھایا کہ میری آنکھ کھل گئی۔ اس رؤیا سے میں یہ سمجھتا ہوں کہ اللہ کے فضل سے بلاد عرب میں احمدیت کی ترقی کے دروازے کھلنے والے ہیں۔
(مطبوعہ الفضل 17؍دسمبر 1945ء)
خاکسار کے خیال میں:
٭حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ سے حضور انور خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ مراد ہیں۔
٭ان کی موٹر حضرت مصلح موعودؓ کی موٹر سے دوسری طرف جانے سے مراد الگ الگ حکمت عملی ہے جو پہلے اور تھی یعنی کتب اور اخبارات کے ذریعہ تبلیغ ہو رہی تھی اور اب ایم ٹی اے کے ذریعہ نیا رخ اختیا ر کر گئی ہے۔
٭عرب حضور سے قادیان میں نہیں ملے بلکہ سفر کے دوران باہر ملے ہیں۔ اس سے مراد حضور کا مستقر لندن ہے۔ اسی لئے رؤیا میں انگریزوں کا ذکر بھی ہے۔
٭پھلوں سے مراد بیعتیں ہیں۔
عربوں میں احمدیت کے پیغام کی خصوصی اشاعت کے حوالہ سے بہت سے عربوں کو بھی خواب دکھائے گئے۔ صرف 2 خوابیں ملاحظہ ہوں۔مکرمہ فجر عطایاصاحبہ، محترم حلمی شافعی صاحب کی نواسی اور مکرم تمیم ابو دقہ صاحب آف اردن کی اہلیہ ہیں، وہ لکھتی ہیں:
میں نے حضور انو رکے خلافت پر متمکن ہونے سے تقریباً نو ماہ قبل مورخہ 22؍جولائی 2002ء کو خواب میں دیکھا کہ گویا قیامت کا روز ہے اور آسمان پر اللّٰہ جَلَّ جَلَالُہ لکھا ہے۔ ساتھ مَیں نے ایک پہاڑ پر ایک شخص کو دیکھا جس نے سفید لباس زیب تن کیا ہوا تھا اور لوگ اسے ’’اَلدَّاعِی‘‘ کہہ کر پکار رہے تھے۔
میں اس وقت حضور انور کو جانتی تک نہ تھی اس لئے پہچاننے سے قاصر رہی۔ا ب حضورانور کے خلیفہ منتخب ہونے کے بعد جب حضور انو رکو دیکھا توبے اختیار پکار اٹھی کہ یہ تو وہی شخصیت ہے جسے لوگ ’’اَلدَّاعِی‘‘ کہہ کر پکار رہے تھے۔
مکرمہ خلود محمود صاحبہ دمشق سے لکھتی ہیں کہ:
’’انتخاب کے بعد حضورانورکو ٹی وی سکرین پر دیکھنے سے قبل اللہ تعالیٰ نے مجھے خواب میں ہی حضور انور کی زیارت سے نوازدیا تھا۔ مَیں نے دیکھا کہ حضور انور پروگرام لقاء مع العرب میں تشریف رکھتے ہیں اوردرس دے رہے ہیں۔ ایک عجیب بات جو اس وقت نظر آئی یہ تھی کہ حضور انور کے بال سرخی مائل تھے۔ پھر جب حضورانور کو ٹی وی پر دیکھا تو بالوں کے سوا باقی شکل وصورت بعینہ وہی تھی جو خواب میں دیکھی تھی۔‘‘
(الفضل 24؍مئی 2012٫)
چنانچہ پیشگوئیوں کے مطابق عربوں میں ایم ٹی اے کے ساتھ دعوت الی اللہ کا جو وسیع کام ہورہا ہے اس کی تفاصیل حضور انور ایدہ اللہ جلسہ سالانہ کے خطابات اور خطبات جمعہ میں ارشاد فرماتے رہتے ہیں۔ یہاں اس کو دہرانے کی گنجائش نہیں۔اس کی کچھ تفصیل خلافت خامسہ کے باب میں آئے گی۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی تصریحات
جوں جوں ان پیشگوئیوں کے روبہ عمل ہونے کا زمانہ قریب آتا گیا الٰہی تفہیمات بھی واضح تر ہوتی چلی گئیں اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کو خدا تعالیٰ نے ان معین سالوں کی بھی خبر دے دی جن میں اس واقعہ کاآغاز ہونا تھا۔ چنانچہ آپ نے منصب خلافت پر متمکن ہونے کے ایک ماہ بعد فرمایا:
’’میں جماعت کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ آئندہ پچیس تیس سال جماعت کے لئے نہایت اہم ہیں کیونکہ دنیا میں ایک روحانی انقلاب پیدا ہونے والا ہے۔ میں نہیں کہہ سکتا وہ کونسی خوش قسمت قومیں ہوں گی جو ساری کی ساری یا ان کی اکثریت احمدیت میں داخل ہوں گی۔ وہ افریقہ میں ہوں گے یا جزائر میں یا دوسرے علاقوں میں لیکن میں پورے وثوق اور یقین کے ساتھ آپ کو کہہ سکتا ہوں کہ وہ وقت دور نہیں جب دنیا میں ایسے ممالک پائے جائیں گے جہاں کی اکثریت احمدیت کو قبول کرلے گی اور وہاں حکومت احمدیت کے ہاتھ میں ہوگی۔‘‘
(خطبہ جمعہ 10؍دسمبر 1965ء -الفضل 9؍جنوری 1966ء)
پچیس تیس سال کا یہ زمانہ 1990-1995ء کا درمیانی عرصہ ہے۔ چنانچہ آپ نے بعد میں ان معین سالوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا 1990ء سے 1995ء کے درمیان خدا تعالیٰ دنیا کو ایک ایسی روحانی تجلی دکھائے گا جس سے غلبہ اسلام کے آثار بالکل نمایاں اور واضح ہو جائیں گے۔ (الفضل 14؍اگست 1973ء) اس کو کہتے ہیں جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی بشارات
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی نظم جو پہلی دفعہ 27؍دسمبر 1983ء کو جلسہ سالانہ کے موقع پر پڑھی گئی اس میں آپ نے دشمنوں کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
یہ صدائے فقیرانہ حق آشنا،
پھیلتی جائے گی شش جہت میں سدا
تیری آواز اے دشمن بدنوا،
دو قدم دور دو تین پل جائے گی
یہ الفاظ تو حضورؒ کے تھے مگر الٰہی تقدیر اور تصرف کے تابع تھے۔ جن میں شش جہات میں حضورؒ کی آواز پہنچنے کی تحدی کی تھی۔ حضورؒ نے اس شعر کے متعلق ایک خط کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
’’ایک صاحب نے یہ لکھا کہ جب ہم یہ خطبہ سن رہے تھے تو مجھے آپ کا وہ شعر یاد آیا اور میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے کہ:
یہ صدائے فقیرانہ حق آشنا،
پھیلتی جائے گی شش جہت میں سدا
تیری آواز اے دشمن بدنوا،
دو قدم دور دو تین پل جائے گی
اس نےلکھاکہ اب میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ آواز ساری دُنیا میں پھیل رہی ہے۔ اس پر مجھے خیال آیا کہ اللہ تعالیٰ نے جو بظاہر اتفاقی باتیں ہوتی ہیں خدا تعالیٰ جب ان میں تقدیر ڈالتا ہے تو الفاظ درست ہو جایا کرتے ہیں۔ عام طور پر چار دانگ عالم میں ساری دُنیا میں چاروں طرف سے محاورے استعمال کئے جاتے ہیں۔ آواز کے شش جہت میں پھیلنے کا محاورہ میرے علم میں نہیں آیا کہ پہلے کبھی استعمال ہوا ہو۔ لیکن اس وقت میں نے بغیر سوچے ہوئے یعنی بغیر کوشش کے کہ میں کیا کہنا چاہتا ہوں یا کیا کہہ رہا ہوں شش جہت کا لفظ مجھے اچھا لگا اور وہی محاورہ میرے منہ سے نکلا اور اب ٹیلی ویژن کے ذریعے شش جہات میں جو استعمال ہو رہی ہیں کیونکہ چاروں طرف کا سوال نہیں ہے۔ آواز اور تصویر پہلے آسمان کی طرف جاتی ہے۔ پھر آسمان سے زمین کی طرف اترتی ہے پھر چاروں طرف پھیلتی ہے تو خدا تعالیٰ نے شش جہات کے لفظ بھی پورے فرما دیئے۔اس لئے میں سمجھتا ہوں کہ بعض دفعہ تصرفات کے تابع بعض الفاظ انسان کے منہ سے نکلتے ہیں۔ خود کہنے والے کو ان کی کنہ کا علم ہی نہیں ہوتا کہ میں کیوں کہہ رہا ہوں اور بعد میں یہ بات کیا بن کر نکلے گی تو یہ اللہ تعالیٰ کے احسانات ہیں۔‘‘
(روزنامہ الفضل 12؍جنوری 1993ء)
بلند سے بلند تر عظیم سے عظیم تر
قریب سے قریب تر خدائے مہربان ہے
ہے گونج شش جہات میں صدائے حق شناس کی
اب احمدی جیالوں کی زد میں آسمان ہے
ایک رؤیا-شمع پروانے کے پاس
سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے 9؍جون 1986ء کو خطبہ عید الفطر میں اپنی تازہ رؤیا بیان کرتے ہوئے فرمایا:
’’میں نے رؤیا میں دیکھا کہ قادیان میں بہشتی مقبرہ کے ساتھ جو بڑا باغ کہلاتا ہے وہاں سڑک کے پاس میں کھڑا ہوں اور حضرت اماں جان نصرت جہاں بیگم ایسی صحت کے ساتھ کہ اس سے پہلے میں نے اپنی زندگی میں آپ کو ایسی صحت میں کبھی نہیں دیکھا تھا سیدھی چلتی ہوتی اور تنہا ہیں کوئی اور ساتھ نہیں ہے۔ وہ میری طرف ایک عجیب پیاری مسکراہٹ کے ساتھ بڑھتی ہوئی چلی آرہی ہیں۔ گویا میری ہی آپ کو تلاش تھی۔ اس وقت میرے دل کی کیفیت عجیب ہے۔ میں بے قرار ہوں کہ دونوں ہاتھوں سے آپ کاہاتھ تھاموں اور اسے بوسے دیتا چلا جاؤں۔
حضرت اماں جانؓ (جن کا نام نصرت جہاں پیش نظر رہنا چاہئے اسی میں دراصل بڑی خوشخبری ہے۔ ویسے آپ کی ذات بھی بڑی مبارک تھی۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں لیکن ذات کے ساتھ نام مل کر ایک مکمل خوشخبری بنتی ہے) آپ مجھے دیکھ کر ایک شعر پڑھتی ہیں۔ وہ شعر تو مجھے یاد نہیں رہا اور میں اسے خواب کے دوران بھی شرمندگی اور انکساری کی وجہ سے یاد رکھنا نہیں چاہتا تھا یعنی مجھے دہراتے ہوئے بھی شرم محسوس ہو رہی تھی اس شعر کا مضمون کچھ اس قسم کا تھا کہ جیسے شمع کو خود اپنے پروانے کی تلاش تھی اور شمع اپنے پروانے کے پاس آگئی ہے۔
ناقابل بیان لذت تھی اس شعر میں۔ ایسا روحانی سرور تھا کہ کوئی دوسرا انسان جو اس تجربے سے نہ گزرا ہو اس کو اس کا تصور بھی نہیں ہوسکتا۔ اس شعر کو حضرت اماں جان نے دو تین مرتبہ پڑھا اور وہی پاکیزہ فرشتوں کی سی مسکراہٹ آپ کے چہرے پر تھی … اس کے ساتھ وہ زیر لب وہ شعر پڑھتی رہیں اور میں نے جواب میں کوئی شعر پڑھا اور یہ بتانے کی خاطر کہ میں اس لائق کہاں۔ اس شعر میں ایک پنجابی لفظ استعمال کیا ’’جی آیاں نوں‘‘
حضرت اماں جانؓ مسکرائیں اور مجھے فوراً خیال آیا کہ اس لئے مسکرا رہی ہیں کہ تم اپنے جوش میں یہ بھول گئے ہو کہ اردو میں پنجابی ملا رہے ہو لیکن خواب میں اس رؤیا کے وقت اس سے بہتر محاورہ مجھے نظر نہیں آیا کہ آپ آئی ہیں تو جی آیاں نوں۔ اہل پنجاب اس محاورے کی لذت سے آشنا ہیں۔ بےاختیار جب بہت ہی پیار آئے کسی آنے والے پر اور انسان اپنے آپ کواس لائق نہ سمجھے کہ وہ آنے والا اسے اعزاز بخش رہا ہے اس کے گھر چلا آیا ہے تو بےاختیارپنجاب میں خصوصاً عورتوں کے منہ سے یہ آواز نکلتی ہے یہ نعرہ بلند ہوتا ہے جی آیاں نوں۔ جی آیاں نوں۔اس کے ساتھ حضرت اماں جانؓ مجھے لے کر جو دارالشیوخ کا علاقہ ہے سڑک کے پار کوئی حویلی ہے اس میں لے جاتی ہیں اور اس پر وہ خواب ختم ہوگئی۔حضورؒ نے اس رؤیا کی تعبیر کرتے ہوئے فرمایا کہ:
’’اس ملک میں اس کی ترقی روکنا چاہتے ہو مگر خدا سارے جہاں میں اپنی نصرتیں لے کر آئے گا اور تمام جہان میں اس جماعت کو غلبہ نصیب فرمائے گا۔‘‘
(خطبہ عید الفطر 9؍ جون 1986ء)
اس نصرت الٰہی کی تفصیل میں خصوصی بشارت بھی موجود تھی کہ امام یعنی شمع جو اپنے پروانوں کے لئے بے قرار ہے اسے خدا یہ توفیق عطا فرمائے گا کہ وہ اپنے پروانوں کے پاس پہنچ جائے اور اردومیں پنجابی ملانے سے یہ مراد ہوسکتی ہے کہ یہ واقعہ اردو دانوں اور اہل پنجاب کے لئے خاص طور پر خوشی کا موجب ہوگا جیسا کہ واقعات ظاہر کررہے ہیں۔
الغرض ان تمام پیشگوئیوں کے الفاظ مختلف ہیں۔تمثیلات مختلف ہیں مگر ان کے اندر ایک ربط موجود ہے۔ سب کا منشاء ایک ہی ہے۔ سب کی انگلی ایک سمت اٹھ رہی ہے اور سب نے مل کر ایم ٹی اے کے وہ رنگ پیدا کئے ہیں جو آج احمدیت کی سچائی کو دنیا پر آشکارا کررہے ہیں۔
ایم ٹی اے کاسفر
احمدیہ ٹیلی ویژن کا نظام جماعت احمدیہ کے لئے محض ایک سائنسی ایجاد نہیں، قرآن اور احمدیت کی صداقت کا زبردست نشان ہے۔ یہ محض ایک تکنیکی پروگرام نہیں امام اور جماعت کے باہمی تعلق اور بے پناہ محبتوں کا مظہر ہے۔ اس ٹی وی کی نس نس میں قربانیوں اور عقیدتوں کا زندہ لہو دوڑتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے سے امام اور جماعت کے مابین پیار کے ایسے اٹوٹ رشتے ہیں جو باہمی دید سےتسکین پاتے ہیں اور صوتی لہروں سے قرار پکڑتے ہیں۔ جماعت آغاز ہی سے اپنے امام کو دیکھنے اور سننے کی مشتاق رہی ہے اور اس میں ہمیشہ زیادتی ہی ہوئی ہے کمی کا کوئی عنصر نہیں لیکن ایک انسان کا دیدار اور سماعت کلام ایک محدود فاصلے سے ہوسکتی ہے۔ غیر معمولی فاصلوں کے لئے سائنسی ذرائع اختیار کرنے پڑتے ہیں اور یہ بھی خدا تعالیٰ کا عجیب فضل ہے کہ جوں جوں جماعت میں وسعت پیدا ہوتی چلی گئی اللہ تعالیٰ وہ تمام مطلوبہ ذرائع میسر فرماتا رہا۔
اس ارتقائی عمل کو نقشہ پر دکھایا گیا ہے۔ کس طرح براہ راست خطاب کا نظام عروج کو پہنچتا رہا اور دوسری طرف ریکارڈنگ کا نظام بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں شروع ہوچکا تھا اور دونوں نظام ایم ٹی اے پر آکر متصل ہوچکے ہیں۔
آئیے! اب دونوں نقشوں پر کسی قدر تفصیلی نظر دوڑائیں۔
پہلا جلسہ سالانہ1891ء
یہ 27؍ دسمبر 1891ء کا دن ہے۔ جماعت احمدیہ کا پہلا جلسہ سالانہ منعقد ہو رہا ہے۔ مسجد اقصیٰ قادیان میں 75؍افراد ہمہ تن گوش ہوکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور علمائے سلسلہ کا کلام سن رہے ہیں۔
25؍ مارچ 1910ء
جماعت احمدیہ کا دسمبر 1909ء کا جلسہ سالانہ 25 تا 27؍مارچ 1910ء کو منعقد ہوا۔ اس کے شرکاء 3000 سے زائد تھے۔ 25؍مارچ کو جمعہ تھا اور کثرت مخلوق کی وجہ سے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی آواز دور تک نہیں پہنچ سکتی تھی۔ اس لئے آپ نے 4افراد کو مقرر کیا تاکہ وہ آپؓ کے مبارک کلمات آگے پہنچاتے رہیں۔ سلسلہ احمدیہ کی تاریخ میں یہ پہلا موقعہ تھا جب ایسا انتظام کرنا پڑا۔
(تاریخ احمدیت جلد4 صفحہ335)
اس کے بعد حسب حالات یہ سلسلہ جاری رہا۔ یہاں تک کہ 1936ء کے جلسہ سالانہ پر پہلی دفعہ لاؤڈ سپیکر استعمال کیا گیا۔ اس جلسہ کی حاضری 25000سے زیادہ تھی۔
1937ء کے جلسہ سالانہ مستورات پر حضرت مصلح موعودؓ کی تمام تقاریر بذریعہ لاؤڈ سپیکر مردانہ جلسہ گاہ سے سنی گئیں۔
7؍جنوری 1938ء کو مسجد اقصیٰ قادیان میں پہلی دفعہ لاؤڈ سپیکر لگا اور حضرت مصلح موعودؓ نے اس کے ذریعہ خطبہ ارشاد فرمایا۔
19؍فروری 1940ء کو حضرت مصلح موعودؓ کی اپنے عقائد کے بارہ میں تقریر ممبئی ریڈیو اسٹیشن سے پڑھ کر سنائی گئی۔
25؍مئی 1941ء کو حضرت مصلح موعودؓ نے لاہور ریڈیو اسٹیشن سے ’’عراق کے حالات پر تبصرہ‘‘ کے موضوع پر تقریر فرمائی جسے دہلی اور لکھنؤ کے ریڈیو سٹیشنز نے بھی نشر کیا۔
7؍فروری 1952ء کو حضرت ام المؤمنینؓ کی آواز ریکارڈ کی گئی۔ یہ حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کے ساتھ ایک مختصر سے پیغام کی صورت میں تھی جس کی تحریری شکل الفضل 4؍جون 1952ء میں موجود ہے۔
(مضامین بشیر جلد3 صفحہ86)
8؍جون 1955ء کو حضرت مصلح موعودؓ کے سفر یورپ کے دوران سوئٹزر لینڈ میں حضور کا سوس ٹیلی ویژن پر انٹر ویو نشر کیا گیا۔یہ پہلا موقع تھا کہ خلیفہ وقت کا ٹی وی پر انٹر ویو نشر ہوا۔
دسمبر 1980ء کو جلسہ سالانہ پر آنے والے غیر ملکی وفود کے لئے غیر زبانوں میں تراجم کا انتظام کیاگیا۔
یکم جنوری 1985ء: ناروے کے سٹیٹ ریڈیو سٹیشن سے جماعت احمدیہ کا مستقل پروگرام نشر ہونا شروع ہوا۔
24؍مارچ 1989ء: احمدیت کی دوسری صدی کا پہلا خطبہ جمعہ (فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ) ماریشس اور جرمنی میں بذریعہ ٹیلیفون براہ راست سناگیا۔
18؍جنوری 1991ء: حضور کا خطبہ انگلستان سمیت 6 ممالک میں سنایا گیایعنی جاپان، جرمنی، ماریشس، امریکہ اور ڈنمارک۔
23جون 1991ء: حضور کا خطبہ عید الاضحی 24 ممالک میں سنایا گیا۔
جولائی 1991ء: جلسہ سالانہ انگلستان پر حضور کے خطابات 11 ممالک میں براہ راست سنے گئے۔ ان کا سات زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔
جولائی 1992ء: جلسہ سالانہ انگلستان براہ راست ٹیلی ویژن پر دکھایا گیا۔
21؍اگست1992ء: حضور کے خطبات جمعہ سیٹلائٹ کے ذریعہ 4 براعظموں میں نشر ہونا شروع ہوئے یعنی یورپ، ایشیا، افریقہ، آسٹریلیا۔
7؍جنوری 1994ء سے باقاعدہ مسلم ٹیلیویژن احمدیہ کی روزانہ سروس کا آغاز ہوا اور یورپ میں تین گھنٹے روزانہ اور ایشیا اور افریقہ میں روزانہ بارہ گھنٹے کے پروگرام نشر ہونا شروع ہوئے۔
یکم اپریل 1996ء- – 24 گھنٹے کی نشریات
اس تاریخی دن ایم ٹی اے کی 24 گھنٹے کی نشریات کا آغاز ہوا۔ اس موقعہ پر لندن میں ایک بہت پرمسرت تقریب منعقد ہوئی۔جس سے حضور نے خطاب فرمایا اور ایم ٹی اے کی تاریخ مقاصد اور درپیش مشکلات اور افضال الٰہی پر جذب و کیف کے عالم میں وجد آفریں خطاب فرمایا۔ اس کے مختلف حصے متفرق ابواب میں درج کئے جائیں گے۔ یہ خطاب تمام دنیا کی جماعتوں نے براہ راست سنا اور اس دن کو جشن کے طور پر منایا۔
21؍جون 1996ء دو طرفہ رابطے
اس نادرنظام نے ایک اور اہم موڑ لیا۔ حضورؒ کے سفر کینیڈا کے موقعہ پر دو طرفہ رابطوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ اس طرح کہ انگلستان میں حضورؒ کا خطبہ نشر ہو رہا تھا اور لندن کی تصاویر کینیڈا پہنچ رہی تھی اور تمام دنیا کے احمدی ان دونوں تصاویر کو بیک وقت دیکھ کر حمد و ثنا کررہے تھے۔ حضورؒ نے اس موقعہ پر فرمایا:
’’گزشتہ ایک موقعہ پر میں نے جماعت سے یہ گزارش کی تھی کہ میں امید کرتا ہوں کہ وہ دن آئیں گے جب ہم دو طرفہ ایک دوسرے کو دیکھ سکیں گے۔ پس آج کے مبارک جمعہ سے اس دن کا آغاز ہو رہا ہے۔ اس وقت انگلستان میں مختلف مراکز میں بیٹھے ہوئے احمدی ہمیں دیکھ رہے ہیں اور ان کی تصاویر یہاں پہنچ رہی ہیں اور بیک وقت ہم ایک دوسرے کو دیکھ سکتے ہیں..اب دیکھ لیجئے امام مسجد لندن عطاء المجیب راشد وہ ہمیں سامنے دکھائی دے رہے ہیں۔ وہ مجھے دیکھ رہے ہیں۔ میں انہیں دیکھ رہا ہوں۔ ان کے پیچھے جو مختلف احباب جماعت لندن کے کھڑے ہیں وہ بھی ہاتھ ہلا رہے ہیں اور بیک وقت ہم ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہیں اور مجھے وہ سن رہے ہیں لیکن ان کے دل کی دھڑکن مجھے بھی سنائی دے رہی ہیں۔ یہ دراصل ایک عظیم الشان پیشگوئی تھی جو ایک پہلو سے تو بار ہا پوری ہوچکی۔ اب ایک نئے پہلو سے بھی پوری ہو رہی ہے۔
حضرت امام جعفر صادقؒ سے مروی ہے اللہ تعالیٰ ان کے درجات بہت بلند فرمائے۔ بہت بڑے بزرگ بہت پائے کے امام تھے اور عارف باللہ تھے اس میں قطعاً ایک ذرے کا بھی شک نہیں۔ آپ نے فرمایا ہمارے امام القائم کے زمانے میں یعنی حضرت مسیح موعود و مہدی معہود کے زمانے میں مشرق میں رہنے والا مومن مغرب میں رہنے والے اپنے دینی بھائی کو دیکھ سکے گا۔ اس طرح مغرب میں بیٹھا ہوا مومن اپنے مشرق میں مقیم بھائی کو دیکھ سکے گا۔ جہاں تک دو طرفہ روایت کا تعلق ہے وہ تو بالبداہت درج ہے اور بعینہ اسی طرح ہورہا ہے۔ لیکن جہاں تک آواز کا تعلق ہے یہ پیش گوئی نہیں تھی کہ دونوں ایک دوسرے کو بھی سن سکیں گے۔ پس ایک طرف سے تو یہ آواز پہنچ رہی ہے اور تصویر بھی اور دوسری طرف بھی تصویریں بھی پہنچ رہی ہیں اور یہ آغاز ہے آگے ان شاء اللّٰہ ایسے دن آئیں گے کہ مشرق و مغرب کی جماعتیں ٹیلی ویژن کے اعلیٰ انتظامات کے ذریعے بیک وقت ایک دوسرے کو دیکھ بھی سکیں گی۔ ایک ایسا عالمی جلسہ ہوگا جس کی کوئی نظیر کبھی دنیا میں پیش نہیں کی جاسکتی، نہ کی جاسکے گی۔ اب بھی اللہ تعالیٰ کے فضل اتنے ہیں اور اتنےبرس رہے ہیں کہ بارش کے قطروں کی طرح ان کا شمار ممکن نہیں رہا۔ لیکن اس کے باوجود جو عشق حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ سے تھا۔ اس میں بارش کے قطروں کے ان گنت ہونے سے ذرہ بھر بھی اظہار محبت میں کمی نہیں آتی تھی۔ بلکہ آنحضور کے متعلق یہ پختہ مصدقہ روایات ہے کہ بعض دفعہ بارش ہوتی تو بارش کا پہلا قطرہ اپنی زبان نکال کے زبان پر لے لیا کرتے تھے اور اللہ تعالیٰ کی حمد کے گیت گاتے۔ وہ بارش جو بے انتہا ہوتی ہے جس کے قطروں کا شمار ممکن نہیں اس میں پہلے قطرے کو زبان پر لے لینا ایک بے انتہا عشق کا اظہار ہے۔‘‘
(الفضل انٹرنیشنل 9؍ اگست 1997ء)
7؍ جولائی 1996ء
یکم اپریل 1996ء سے شروع ہونے والی 24 گھنٹے کی نشریات سے مشرق و سطی کے بعض ممالک اور افریقہ اور مشرق بعید کے ممالک محروم تھے۔
7؍جولائی 1996ء سے گلوبل بیم کے ذریعہ ان ممالک تک بھی ایم ٹی اے کی نشریات پہنچانے کا انتظام ہوگیا۔ اس سلسلہ میں محمود ہال لندن میں ایک نہایت مبارک تقریب ہوئی جس میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی موجودگی میں افریقن احباب، بچوں، نوجونوں اور مستورات نے اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید پر مشتمل گیت گائے اور افریقن ممالک سے اس دن کے لئے تیار کردہ خصوصی پروگرام دکھائے گئے۔
(الفضل انٹرنیشنل 19؍جولائی 1996ء)
دوسرا رُخ۔ریکارڈنگ کا نظام
اس سفر کی دوسری پٹڑی فونو گراف کے ذریعہ ریکارڈنگ سے تیار ہوئی اس کی تفصیل یہ ہے کہ حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ مالیرکوٹلہ کے پاس ایک فونوگراف تھا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو پتہ چلا تو آپ نے انہیں خط لکھا کہ جب قادیان آئیں تو فونوگراف لیتے آئیں۔ حضور اقدسؑ کا منشاء تھا کہ حضور کی تقریر اس میں ریکارڈ کرکے بیرونی ممالک میں بھیجی جائے جو دعوت الی اللہ کا موجب ہو۔
20؍نومبر 1901ء کو قادیان میں فونو گراف میں ریکارڈنگ کی بابرکت تقریب منعقد ہوئی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس موقعہ پر ایک نظم تحریر فرمائی جس کا پہلا شعر یہ ہے:
آواز آ رہی ہے یہ فونو گراف سے
ڈھونڈو خدا کو دل سے نہ لاف و گزاف سے
حضرت مولوی عبد لکریم صاحب سیالکوٹیؓ نے اسی وقت یہ نظم اور حضور کے نعتیہ قصیدہ:
عجب نوریست درجان محمدؐ
عجب لعلیست درکان محمدؐ
کے اشعار خوش الحانی سے ریکارڈ کئے۔ اس کے بعد حضرت مولوی صاحب کی آواز میں قرآن شریف کی تلاوت ریکارڈ کی گئی۔ اسی روز بعد نماز عصر قادیان کے آریوں شرمپت وغیرہ مردوں اور ہندو عورتوں کو یہ ریکارڈ سنایا گیا۔ بعد میں حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کی ایک مختصر تقریر جو سورہ عصر کی تفسیر پر مشتمل تھی ریکارڈ کی گئی۔
(اصحاب احمد:جلد 2 صفحہ 474۔479 ملک صلاح الدین صاحب طبع اول قادیان 1952ء)
گو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مبارک آواز ریکارڈ نہ ہوسکی اور دیگر آوازیں بھی ضائع ہوگئیں۔مگر یہ واقعہ آئندہ ہونے والے واقعات کے لئے تمہید بن گیا اس کے بعد جماعت میں ٹیپ ریکارڈنگ کا دور شروع ہوا اور جلسہ سالانہ 1951ء پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی تقاریر ریکارڈ کی گئیں۔ یہ سعادت مکرم سید عبد الرحمن صاحب (متوطن امریکہ) کے حصہ میں آئی۔
(اصحاب احمد جلد2 صفحہ425)
27؍دسمبر 1952ء۔ اس وقت حضرت مصلح موعودؓ کی قدیم ترین ٹیپ شدہ تقریر جلسہ سالانہ 1952ء کی ہے۔بعنوان تعلق باللہ۔
دسمبر 1953ء: سیر روحانی کے سلسلہ کی مشہور تقریر نوبت خانے ریکارڈ کی گئی جو جماعت میں بہت مقبول ہے۔
خلافت ثانیہ میں حضرت مصلح موعودؓ کی چند مختصر ویڈیو فلمیں تیار کی گئیں۔ دسمبر 1960ء حضرت مصلح موعودؓ کے خطاب سے پہلے 1953ء کی تقریر کا ریکارڈ سنایا گیا۔
دسمبر 1961ء جلسہ سالانہ مستورات میں حضرت مصلح موعودؓ کی تقریر جلسہ سالانہ 1960ء سنائی گئی نیز مردانہ جلسہ گاہ میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی تقریر کاریکارڈ سنایا گیا۔
دسمبر 1963ء جلسہ سالانہ مستورات میں مردانہ جلسہ گاہ کی کئی تقاریر کی ریکارڈنگ سنائی گئی۔
دسمبر 1963ء – 1964ء جلسہ مستورات میں حضرت مصلح موعودؓ کے پیغام کی ریکارڈنگ اور کئی دیگر تقاریر کے ریکارڈ سنائے گئے۔
دسمبر 1965ء جلسہ مستورات میں حضرت سیدہ چھوٹی آپا اور حضرت سیدہ مہر آپا کے خطاب بذریعہ ٹیپ سنے گئے۔
1984ء لندن سے حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے خطاب کی کیسٹس تمام دنیا میں بھجوائی جاتی رہیں۔ یہ سلسلہ ایم ٹی اے کے آغاز تک جاری رہا۔
3؍ اپریل 1987ء ربوہ میں جماعت احمدیہ پاکستان کی 68ویں مجلس شوریٰ کے لئے حضور کا خصوصی ریکارڈ شدہ پیغام سنایا گیا۔
1989ء صد سالہ جشن تشکر کے موقعہ پر حضور کا ویڈیو ریکارڈ شدہ پیغام تمام عالم میں مشتہر کیا گیا۔
الحمد للّٰہ ایم ٹی اے کے ذریعہ یہ دونوں نظام اکٹھے ہوگئے ہیں اور جماعت امام کے براہ راست خطاب بھی سن رہی ہے اور سابقہ خطابوں کی ریکارڈنگ بھی۔جماعت کی ویب سائٹ alislam.org پرخلفا٫ کے تمام دستیاب خطبات،خطابات اور دیگر تقاریر آڈیو،وڈیو اور تحریری شکل میں موجود ہیں۔
جو بھی تیرے نیازمند ہوئے
سرنگوں ہو کے سربلند ہوئے
زور مارا ہزار شیطاں نے
دَر نہ جنت کے پھر بھی بند ہوئے
ہم مصائب سے سُرخرو ٹھہرے
ہم حوادث سے ارجمند ہوئے
(عبد السمیع خان۔ استاد جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا)