• 4 مئی, 2024

ذکر الٰہی، درود شریف اور استغفار

انسانی زندگی میں ذکرِالٰہی کی ایک خاص اہمیت ہے۔تمام مذاہب میں کسی نہ کسی رنگ میں ایسے کلمات اور دعائیں موجود ہیں جو خدا تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے کے لئے ضروری ہیں لیکن اسلام وہ کامل دین ہے جس نے سب سے کامل اور آخری شریعت قرآن کریم اور ہمارے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے ذریعہ ہمیں ایسے کلمات اور دعائیں سکھائیں جو کہ موسلادھار بارش کی طرح خدا کے فضل و برکات کا نزول ممکن بناتے ہیں۔ اسی طرح یہ کلمات اللہ تعالیٰ کے قرب کے حصول اور آنحضرت ﷺ سے اکتسابِ فیض کا ذریعہ بھی ہیں۔

اللہ تعالیٰ کا ذکر

اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ فَاذۡکُرُوۡنِیۡۤ اَذۡکُرۡکُمۡ (البقرہ: 153) ترجمہ پس میرا ذکر کیا کرو میں بھی تمہیں یاد رکھوں گا۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے لا حول ولا قوة إلا باللّٰہ گناہوں سے دوری اور عبادات و اطاعت کی قوت صرف اللہ رب العزت کی طرف سے ہے پڑھتے ہوئے سنا تو فرمایا عبداللہ بن قیس! کیا میں تمہیں وہ کلمہ نہ بتلاؤں جو جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے؟ میں نے عرض کیا کیوں نہیں ضرور بتائیے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم لا حول ولا قوة إلا باللّٰه کہا کرو۔

(صحیح البخاری کتاب المغازي)

حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ذکر الٰہی کرنے والے اور ذکر الٰہی نہ کرنے والے کی مثال زندہ اور مردہ کی طرح ہے۔ یعنی جو ذکر الٰہی کرتا ہے وہ زندہ ہے اور جو نہیں کرتا وہ مردہ ہے۔پھر مسلم کی روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ وہ گھر جن میں خدا تعالیٰ کا ذکر ہوتا ہے اور وہ گھر جن میں خدا تعالیٰ کاذکر نہیں ہوتا ان کی مثال زندہ اور مردہ کی طرح ہے۔

(بخاری کتاب الدعوات باب فضل ذکر اللّٰہ تعالیٰ۔
مسلم کتاب الصلوٰۃ باب استحباب صلوٰۃ النافلۃ فی بیتہ و جوازھا فی المسجد)

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ نے فرمایا کہ ذکر الٰہی سے قویٰ مضبوط ہو جاتے ہیں حتی کہ بوڑھے جوان ہو جاتے ہیں اور اس امر کا ثبوت قرآن شریف سے ہی ملتا ہے۔ حضرت زکریاؑ نے اپنی کمزوری کا ذکر کیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کا علاج، یہی علاج بتایاہے کہ تم ذکر الٰہی کرو اور تین روز تک کسی سے کلام نہ کرو۔ چنانچہ انہوں نے اس پر عمل کیا اورخدا نے جیتی جاگتی اولاد عطا فرمائی۔ حدیث شریف میں ذکر ہے کہ حضرت فاطمہؓ نے رسول اللہ ﷺ سے ایک خادمہ مانگی۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہر نماز کے بعد 33 مرتبہ سبحان اللّٰہ، الحمدللّٰہ اور اللّٰہ اکبر پڑھ لیا کرو اور سوتی دفعہ بھی۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا اور وہ ضرورت محسوس نہ ہوئی۔

(الحکم 30؍ستمبر 1903ء)

درود شریف

اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوۡنَ عَلَی النَّبِیِّ ؕ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا صَلُّوۡا عَلَیۡہِ وَسَلِّمُوۡا تَسۡلِیۡمًا ﴿۵۷﴾ (الاحزاب: 57) ترجمہ: یقیناً اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! تم بھی اس پر درود اور خوب خوب سلام بھیجو۔

حضرت عامر بن ربیعہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جو مسلمان مجھ پر درود بھیجتا ہے تو جب تک وہ مجھ پر درود پڑھتا ہے اس وقت تک فرشتے اس کے لئے درود پڑھتے رہتے ہیں۔اب وہ شخص چاہے تو اس میں کمی کرے یا چاہے تو اس میں اضافہ کرے۔

(سنن ابن ماجہ کتاب الاقامۃ الصلوٰۃ باب الصلوٰۃ علیٰ النبی)

آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ جبریل نے مجھے خوشخبری دی ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس شخص نے تجھ پر درود بھیجا میں اس پر رحمت نازل کروں گا اور جو تجھ پر سلام بھیجے گا میں اس پر سلامتی نازل کروں گا۔

(مسند احمد حدیث نمبر 15767)

حضرت ابو بکر صدیقؓ فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ پر درود بھیجنا اس سے کہیں بڑھ کر گناہوں کو نابود کرتا ہے جتنا کہ ٹھنڈا پانی پیاس کواور آپ ﷺ پر سلام بھیجنا گردنوں کو آزاد کرنے سے بھی زیادہ فضیلت رکھتا ہے اور آپ ﷺ کی محبت اللہ کی راہ میں جان دینے یا جہاد کرنے سے بھی افضل ہے۔

(در منثور جلد6 صفحہ654)

حضرت امام غزالیؒ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی حضور ﷺ پر درود نہیں بھیجتا تھا۔ ایک رات اس نے خواب میں دیکھا کہ حضور ﷺ نے اس کی طرف توجہ نہ فرمائی اس شخص نے عرض کیا کہ حضور مجھ سے ناراض ہیں اس لئے آپ نے توجہ نہیں فرمائی؟ آپ نے جواب دیا نہیں میں تجھے پہچانتا ہی نہیں۔ اس نے عرض کی حضور آپ مجھے کیسے نہیں پہچانتے؟ علماء کہتے ہیں کہ آپ اپنے امتیوں کو ان کی ماں سے بحق زیادہ پہچانتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا علماء نے سچ اور درست کہا لیکن تو نے مجھ پر درود بھیج کر اپنی یاد نہیں دلائی۔ میرا کوئی امتی جتنا مجھ پر درود بھیجتا ہے،اسے اتنا ہی میں پہچانتا ہوں۔یہ بات اس شخص کے دل میں اتر گئی۔ اس نے روزانہ ایک سو مرتبہ درود پڑھنا شروع کیا۔ کچھ عرصہ کے بعد اسے پھر سرورکائنات ﷺ کا دیدار ہوا۔ آپ ﷺ نے فرمایا میں اب تجھے پہچانتاہوں اور میں تیری شفاعت کروں گا۔

(مکاشفۃ القلوب 62-63 مصنفہ امام ابو حامد محمد غزالیؒ مترجم علامہ عنصر صابری چشتی قادری۔ ناشر تصوف پبلیکیشنزرائے ونڈ روڈ لاہور اشاعت 1986ء)

حضرت اقدس مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ ’’درود شریف کے طفیل۔۔۔ اللہ تعالیٰ کے فیوض عجیب نوری شکل میں آنحضرت ﷺ کی طرف جاتے ہیں اور پھر وہاں جا کر آنحضرت ﷺ کے سینہ میں جذب ہو جاتے ہیں اور وہاں سے نکل کر ان کی لا انتہا نالیاں ہو جاتی ہیں اور بقدر حصہ رسدی ہر حقدار کو پہنچتی ہیں۔۔۔ درود شریف کیا ہے۔رسول ﷺ کے اس عرش کو حرکت دینا ہے جس سے یہ نور کی نالیاں نکلتی ہیں جو اللہ تعالیٰ کا فیض اور فضل حاصل کرنا چاہتا ہے اس کو لازم ہے کہ وہ کثرت سے درود شریف پڑھے تا کہ اس فیض میں حرکت پیدا ہو۔‘‘

(اخبار الحکم 28؍فروری 1903ء صفحہ نمبر 7)

استغفار

حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے آنحضرتؐ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میں روزانہ اللہ کے حضور ستر سے زیادہ مرتبہ استغفار اور توبہ کرتا ہوں۔

(صحیح بخاری کتاب الدعوات باب استغفار النبیؐ)

حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فر ما یاسید الاستغفاریہ ہے کہ یوں کہو:

اَللَّهُمَّ أَنْتَ رَبِّى، لاَ إِلَهَ إِلاَّ أَنْتَ، خَلَقْتَنِى وَأَنَا عَبْدُكَ، وَأَنَا عَلَى عَهْدِكَ وَوَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ، أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ، أَبُوءُ لَكَ بِنِعْمَتِكَ عَلَىَّ وَأَبُوءُ بِذَنْبِى، فَاغْفِرْ لِى، فَإِنَّهُ لاَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلاَّ أَنْتَ۔

اے اﷲ! تو میر ا رب ہے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو نے ہی مجھے پیدا کیا اور میں تیرا ہی بندہ ہو ں میں اپنی طاقت کے مطابق تجھ سے کیے ہو ئے عہد اور وعدہ پر قائم ہو ں، ان بر ی حرکتوں کے عذاب سے جو میں نے کی ہیں تیری پناہ ما نگتا ہوں، مجھ پرجو تیری نعمتیں ہیں ان کا اقرار کرتا ہوں، اور اپنے گنا ہوں کا اعتراف کر تا ہوں۔ میری مغفرت کر دے کہ تیرے سوا اور کوئی بھی گناہ معاف نہیں کرتا۔آپﷺ نے فر ما یا جس نے اس دعا کے الفا ظ پر یقین رکھتے ہو ئے دل سے ان کو کہہ لیا اور اسی دن شام ہونے سے پہلے اس کا انتقال ہو گیا تو وہ جنتی ہے اور جس نے اس دعا کے الفاظ پر یقین رکھتے ہوئے رات میں ان کو پڑھ لیا اور پھر اس کا صبح ہو نے سے پہلے انتقال ہو گیا تو وہ جنتی ہے۔

(صحيح بخاری،کتاب الدعوات، باب أفضل الإستغفار)

ایک شخص نے حسن بصری رحمہ اللہ کو خشک سالی کی شکایت کی تو حسن بصری رحمہ اللہ نے انہیں کہا اللہ سے استغفار کرو۔ دوسرے شخص نے حسن بصری رحمہ اللہ کو تنگ دستی کی شکایت کی تو حسن بصری رحمہ اللہ نے انہیں کہا اللہ سے استغفار کرو۔ تیسرے شخص نے حسن بصری رحمہ اللہ سے اولاد کیلئے دعا کی درخواست کی تو حسن بصری رحمہ اللہ نے انہیں کہااللہ سے استغفار کرو۔ چوتھے شخص نے حسن بصری رحمہ اللہ کو اپنے باغ کے خشک ہو جانے کی شکایت کی تو حسن بصری رحمہ اللہ نے انہیں بھی کہااللہ سے استغفار کرو۔ تو ہم نے اُن سے سب کو یکساں جواب دینے کے بارے میں استفسار کیا تو حسن بصری رحمہ اللہ نے کہامیں نے اپنی طرف سے کوئی بات نہیں کی کیونکہ اللہ تعالیٰ سورہ نوح میں فرماتے ہیں فَقُلۡتُ اسۡتَغۡفِرُوۡا رَبَّکُمۡ ؕ اِنَّہٗ کَانَ غَفَّارًا ﴿ۙ۱۱﴾ یُّرۡسِلِ السَّمَآءَ عَلَیۡکُمۡ مِّدۡرَارًا ﴿ۙ۱۲﴾ وَّیُمۡدِدۡکُمۡ بِاَمۡوَالٍ وَّبَنِیۡنَ وَیَجۡعَلۡ لَّکُمۡ جَنّٰتٍ وَّیَجۡعَلۡ لَّکُمۡ اَنۡہٰرًا ﴿۱۳﴾ (نوح: 11-13) ترجمہ: پس میں نے کہا اپنے رب سے بخشش طلب کرو یقیناً وہ بہت بخشنے والا ہے۔ وہ تم پر لگاتار برسنے والا بادل بھیجے گا اور وہ اموال اور اولاد کے ساتھ تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے لئے باغات بنائے گا اور تمہارے لئے نہریں جاری کرے گا۔

(تفسیر قرطبی:18 / 301 – 303)

حضرت مولانا غلام رسول صاحبؓ راجیکی بیان کرتے ہیں کہ قادیان مقدس میں جب سیدنا حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ و السلام کی بیعتِ راشدہ سے مشرف ہؤا تو حضور اقدس علیہ السلام نے از راہ نصیحت فرمایا کہ نمازوں کو سنوار کر پڑھنا چاہیے اور مسنونہ دعاؤں کے علاوہ اپنی مادری زبان میں بھی دعا کرنی چاہیے۔ مولوی امام الدین صاحبؓ نے عرض کیا کہ حضور کیا مادری زبان میں دعا کرنے سے نماز ٹوٹ تو نہ جائے گی۔ حضور اقدس فداہ نفسی علیہ الصلوٰۃوالسلام نے فرمایا نماز ٹوٹی ہوئی تو پہلے ہی ہے ہم نے تو نماز جوڑنے کے لئے یہ بات کہی ہے۔ اس کے بعد حضرت اقدس مسیح موعود الصلوٰۃ و السلام نے ہمیں کثرت سے درود شریف اور استغفار پڑھنے کا ارشاد فرمایا۔

مجھے ایک عرصہ تک درود و استغفار کی کثرت کے متعلق خلجان رہا کہ کثرت سے نہ معلوم کتنی تعداد مراد ہے۔ تب سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام مجھے بحالت کشف ملے اور میری بیعت لی اور فرمایا کہو استغفر اللّٰہ ربّی من کل ذنب و اتوب الیہ مائۃ مرّۃ یعنی سو مرتبہ استغفار پڑھو۔ اس سے مجھے معلوم ہوگیا کہ کثرت سے مراد عام حالات میں کم از کم سو مرتبہ استغفار کا وِرد ہے۔ واللّٰہ اعلم بالصواب۔

(حیات قدسی حصہ دوم صفحہ3 شائع 1951ء)

حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے خط بنام حضرت چوہدری رستم علی صاحبؓ فروری 1988ء میں مندرجہ ذیل دعاارسال فرمائی۔

یَا مَنْ ھُوَ اَحَبُّ مِنْ کُلِّ مَحْبُوْبٍ۔ اِغْفِرْلِیْ وَ تُبْ عَلیَّ وَ اَدْخِلْنِیْ فِیْ عِبَادِکَ الْمُخْلَصِیْن ترجمہ: اے وہ جو ہر محبوب سے زیادہ محبت کرنے کے قابل ہے! مجھے بخش دے اور مجھ پر رحمت نازل فرما اور مجھے اپنے مخلص بندوں میں داخل فرما۔آمین

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
ہر احمدی ہر وقت سچے دل سے استغفار کرتے ہوئے، توبہ کرتے ہوئے، خداتعالیٰ کے حضور جھکے تا کہ اس کا پیار حاصل ہو۔ اللہ تعالیٰ تو اپنے بندے کو اپنا پیاراور قرب دینے کے لئے ہر وقت تیار رہتا ہے بلکہ بے چین رہتا ہے۔بلکہ بندے کی اس بارے میں ذرا سی کوشش کو بے حد نوازتا ہے۔۔۔اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم ہر وقت استغفار کرتے ہوئے اس کے حضور جھکے رہیں۔ آمین

(خطبہ جمعہ20؍مئی 2005ء)

(ابن زاہد شیخ)

پچھلا پڑھیں

ریجنل اجتماع لجنہ اماء اللہ واگا ڈوگو برکینافاسو

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 مارچ 2023