• 24 اپریل, 2024

صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا (قسط 6)

صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا
قسط 6

خاکسار کا ایک مضمون مندرجہ بالا عنوان کے تحت بالاقساط الفضل آن لائن میں جگہ پا رہا ہے۔ اب تک اس کی پانچ اقساط منظر عام پر آ چکی ہیں۔ جلسہ سالانہ نمبرز 2022ء کی تیاری کے دوران مکرم فخر الحق شمس کا مضمون بعنوان صحابہ حضرت مسیح موعودؑ کی عقیدت کے واقعات نظروں سے گزرا۔ ان واقعات میں سے ایک واقعہ کو اس مضمون کی مناسبت سے قسط 6 بنا کر ہدیہ قارئین کیا جارہا ہے۔ اس سے قبل کی اقساط میں سے کچھ واقعات خاکسار نے 2019ء میں مرکزی نمائندہ کی حیثیت سے سیرالیون جلسہ سالانہ میں 24700 سامعین کے سامنے خطبہ جمعہ دیتے ہوئے بیان کیے تھے۔ جس میں نائب صدر مملکت نے اپنی کیبنیٹ ممبران کے ہمراہ اور سینکڑوں اعلی سرکاری و نجی شخصیات نے شرکت کی تھی اور احمدی نہ ہوتے ہوئے بھی ہماری اقتداء میں نماز جمعہ ادا کی تھی۔ الحمد للّٰہ علٰی ذالک

حضرت ابوبکرؓ کی قربانی کی یاد تازہ ہو گئی

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے 28؍مئی 1900ء کو ایک اشتہار دیا کہ حدیث نبویؐ میں مسیح موعود کے منارہ شرقی کے قریب اترنے کی پیشگوئی ہے جو وسیع معانی پر مشتمل ہے لیکن اس کو ظاہری شکل میں پورا کرنے کے لئے کئی مصالح کی خاطر ہم ایک منارہ تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔ اس مقصد کے لئے حضورؑ نے احباب جماعت کو مالی قربانی کی تحریک کی تو اخلاص و وفا کی بے نظیر مثالیں رقم ہوئیں۔

(تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں:مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ 288)

ان جاں نثاروں میں سے ایک حضرت منشی شادی خان رضی اللہ عنہ بھی تھے ان کے متعلق حضورؑ فرماتے ہیں:
’’دوسرے مخلص جنہوں نے اس وقت بڑی مردانگی دکھلائی ہے۔میاں شادیخاں لکڑی فروش ساکن سیالکوٹ ہیں۔ ابھی وہ ایک کام میں ڈیڑھ سو روپیہ چندہ دے چکے ہیں اور اب اس کام کے لئے دو سوروپیہ چندہ بھیج دیا ہے اور یہ وہ متوکل شخص ہے کہ اگر اس کے گھر کا تمام اسباب دیکھا جائے تو شاید تمام جائیداد پچاس روپیہ سے زیادہ نہ ہو۔ انہوں نے اپنے خط میں لکھا ہے کہ ’’چونکہ ایام قحط ہیں اور دنیوی تجارت میں صاف تباہی نظر آتی ہے تو بہتر ہے کہ ہم دینی تجارت کر لیں۔ اس لئے جو کچھ اپنے پاس تھا سب بھیج دیا اور درحقیقت وہ کام کیا جو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کیا تھا۔‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد3 صفحہ315)

حضرت منشی صاحب نے جب حضور کا یہ ارشاد سنا تو سوچا کہ ابھی ابوبکرکی قربانی میں کچھ کسر رہ گئی ہے اور گھر میں جو چارپائیاں تھیں ان کو بھی فروخت کرڈالا اور ان کی رقم بھی حضور کی خدمت میں پیش کر دی۔

(تاریخ احمدیت جلد3)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب 1900ء میں ایک اشتہار کے ذریعہ منارۃ المسیح کی تعمیر کے لئے مالی قربانی کی تحریک فرمائی تو 101 صحابہ کی فہرست بھی شائع کی اور ان سے کم از کم ایک ایک سو روپیہ چندہ کامطالبہ فرمایا کیونکہ کل تخمینہ اخراجات دس ہزار روپیہ تھا۔ یہ اعلان بھی فرمایا کہ اس تحریک میں مطلوبہ چندہ دینے والوں کے نام بطور یاد گار مینار پر کندہ کئے جائیں گے۔ اس تحریک میں جس ذوق وشوق اور روح پرور جذبہ کا مظاہر ہ ہو ا وہ بھی اپنی مثال آپ ہے۔

چنانچہ منارہ کی تکمیل پر 298مخلصین کے نام کندہ ہوئے جنہوں نے کم از کم سو سو روپیہ چندہ دیا۔

حضرت مسیح موعودؑ ایسے ہی سرفروشوں کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’میں اپنی جماعت کے محبت اور اخلاص پر تعجب کرتا ہوں کہ ان میں سے نہایت ہی کم معاش والے جیسے میاں جمال الدین اور خیردین اور امام الدین کشمیری میرے گاؤں سے قریب رہنے والے ہیں وہ تینوں غریب بھائی ہیں جو شاید تین آنہ یا چار آنہ روزا نہ مزدوری کرتے ہیں سرگرمی سے ماہوار ی چندہ میں شریک ہیں۔ ان کے دوست میاں عبدالعزیز پٹواری کے اخلاص سے بھی مجھے تعجب ہے کہ وہ باوجود قلت معاش کے ایک دن سو روپیہ دے گیا کہ میں چاہتا ہوں کہ خدا کی راہ میں خرچ ہو جائے۔ وہ سو روپیہ شاید اس غریب نے کئی برسوں میں جمع کیا ہو گا۔ مگر للہی جوش نے خدا کی رضا کا جوش دلایا۔‘‘

(ضمیمہ انجام آتھم، روحانی خزائن جلد11 صفحہ313)

حضرت ابوبکرؓ کی طرح

اکتوبر 1899ء میں اپنے اشتہار بعنوان ’’جلسہ الوداع‘‘ میں وفد نصیبین کے اخراجات کے متعلق تحریر فرمایا۔
’’منشی عبدالعزیز صاحب پٹواری ساکن اوجلہ ضلع گورداسپور نے باوجود قلت سرمایہ کے ایک سو پچیس روپے دئیے ہیں۔ میاں جمال الدین کشمیر ساکن سیکھواں ضلع گورداسپور اور ان کے دو برادر حقیقی میاں امام الدین اور میاں خیرالدین نے پچاس روپے دئیے ہیں۔ ان چاروں صاحبوں کے چندہ کا معاملہ نہایت عجیب اور قابل رشک ہے کہ وہ دنیا کے مال سے نہایت ہی کم حصہ رکھتے ہیں گویا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی طرح جو کچھ گھروں میں تھا وہ سب لے آئے ہیں اور دین کو آخرت پرمقدم کیا جیسا کہ بیعت میں شرط تھی۔‘‘

(مجموعہ اشتہارات جلد3 صفحہ166)

ان عشاق خدام نے اس زمانہ میں مسیح موعود کی تحریک پر اپنا سب کچھ قربان کر دیا مگر ان کے نام خدا کے ابدی رجسٹر میں لکھے گئے وہ ہمیشہ کے لئے زندہ ہو گئے۔ انہوں نے دین خدا کی نصرت کی۔خدا کی نصرت نے ان کی اولادوں کو اس قدر نوازا کہ ان کی جھولیاں بھر گئیں اور ان سے سنبھالا نہیں جاتا۔

صحابہ سے ملا جب مجھ کو پایا

تین ایمان افروز واقعات

خاکسار کو جلسہ سالانہ برطانیہ 2022ء کے موقع پر Reserve کرسیوں کا پاس جاری ہوا تھا۔ جس کا انکلیو اسٹیج کے بالکل قریب بائیں طرف تھا۔ اس کے ارد گرد نوجوان خدام چاک و چوبند ڈیوٹی دے رہے ہوتے تھے۔ انکلیو میں سے کسی ایک دوست نے ڈیوٹی پر کھڑے خادم سے قریب سے گزرنے والے دوست کو بلوانے کو کہا۔ ڈیوٹی پر تعینات نو جوان نے کہا کہ

I can`t move from here, I am on duty

تاہم اس نوجوان نے کسی اور کو کہہ کر مطلوبہ شخص کو بلوا دیا۔

اسی طرح انکلیو میں سے ایک دوست نے ڈیوٹی پر مامور نوجوان کو اپنے مو بائل سے Snape لینے کی درخواست کی۔ اس نوجوان نے یوں جواب دیا

I can`t do that right now. I am on duty

اس سے ملتا جلتا واقعہ جلسہ گاہ سے اگلے روز مسجد مبارک اسلام آباد میں اس وقت دیکھنے کو ملا۔ جب حضرت اقدس ایدہ اللہ تعالیٰ ظہر و عصر کی نمازوں کی ا مامت کے لئے تشریف لانے والے تھے اور نمازوں کے بعد حضور انور نے نکاحوں کا اعلان فرمانا تھا۔ محرابوں کے پاس روسٹرم ذرا ٹیڑھا تھا۔ کسی عہدیدار نے سیکیورٹی پر مامور عملہ حفاظت کے ایک دوست سے اسے سیدھا کرنے کو کہا۔ عملہ حفاظت کے اس دوست نے دو خدام کو اشارہ کر کے بلوایا تا وہ اسے سیدھا کر دیں اور خود اپنی ڈیوٹی پر کھڑا رہ کر نگرانی کرتا رہا۔

اللہ اکبر! یہ وہ واقعات ہیں جن سے ملتے جلتے واقعات آج سے 1400سال قبل آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ملتے ہیں اور ہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس مبارک پیش گوئی کو بار بار پورا ہوتا دیکھتے ہیں۔

آنحضورؐ کے دور میں

• حضرت طلحہؓ احد کے دن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوئے۔ وہ ان لوگوں میں سے تھے جو اس روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ ثابت قدم رہے اور آپؐ سے موت پر بیعت کی۔ مالک بن زُھَیر نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تیر مارا تو حضرت طلحہؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کو اپنے ہاتھ سے بچایا۔ تیر ان کی چھوٹی انگلی میں لگا جس سے وہ بے کار ہو گئی۔ جس وقت انہیں تیر لگا، تو تکلیف سے ان کی‘سی’کی آواز نکلی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر وہ بسم اللہ کہتے تو اس طرح جنت میں داخل ہوتے کہ لوگ انہیں دیکھ رہے ہوتے۔ بہرحال تاریخ کی ایک کتاب میں آگےلکھا ہے کہ جنگِ احد کے اس روز حضرت طلحہؓ کے سر میں ایک مشرک نے دو دفعہ چوٹ پہنچائی۔ ایک مرتبہ جبکہ وہ اس کی طرف آ رہے تھے۔ دوسری دفعہ جبکہ وہ اس سے رخ پھیر رہے تھے۔ اس سے کافی خون بہا۔

(الطبقات الکبریٰ لابن سعد جزء3 صفحہ162-163 طلحہ بن عبید اللہ قریشی دار الکتب العلمیۃ بیروت 1990ء بحوالہ خطبہ جمعہ 13؍مارچ 2020ء)

• حضرت انسؓ بیان کرتے ہیں کہ جب احد کی جنگ ہوئی تو لوگ شکست کھا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جدا ہو گئے اور حضرت ابوطلحہؓ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آپؐ کو اپنی ڈھال سے آڑ میں لیے کھڑے رہے اور حضرت ابو طلحہؓ ایسے تیر انداز تھے کہ زور سے کمان کھینچا کرتے تھے۔ انہوں نے اس دن دو یا تین کمانیں توڑیں۔ یعنی اتنی زور سے کھینچتے تھے کہ کمان ٹوٹ جاتی تھی اور جو کوئی آدمی تیروں کا ترکش اپنے ساتھ لیے گزرتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اسے فرماتے کہ ابو طلحہؓ کے لیے پھینک دو یعنی کہ دوسروں کو بھی نصیحت کرتے کہ یہ بہت تیر انداز ہیں۔ اپنے تیر بھی انہی کو دے دو۔ یہ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کھڑے تھے۔ حضرت انسؓ کہتے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سر اٹھا کر لوگوں کو دیکھتے تو حضرت ابوطلحہؓ کہتے

بِأَبِیْ أَنْتَ وَأُمِّیْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ، لَا یُصِیْبُکَ سَہْمٌ، نَحْرِیْ دُوْنَ نَحْرِکَ میرے ماں باپ آپؐ پر قربان! سر اٹھا کر نہ دیکھیں۔ مبادا ان لوگوں کے تیروں میں سے کوئی تیر آپؐ کو لگے۔ میرا سینہ آپؐ کے سینے کے سامنے ہے۔

(ماخوذ ازصحیح البخاری کتاب المغازی باب اذ ھمت طائفتان منکم ان تفشلا …الخ حدیث 4064)
(ماخوذ از الطبقات الکبریٰ لابن سعد جلد3 صفحہ384-385 دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان 1990ء)

غزوۂ احد میں حضرت ابو طلحہؓ کے اس شعر کے پڑھنے کا بھی ذکر آتا ہے کہ

وَجْہِیْ لِوَجْہِکَ الْوِقَاءُ
وَنَفْسِیْ لِنَفْسِکَ الْفِدَاءُ

میرا چہرا آپؐ کے چہرے کو بچانے کے لیے ہے اور میری جان آپؐ کی جان پر قربان ہے۔

(مسند احمد بن حنبل، جلد4 مسند انس بن مالک حدیث13781 عالم الکتب بیروت لبنان 1998ء خطبہ جمعہ 31جنوری 2020ء)

• جب غارِ ثور تک پہنچے تو حضرت ابوبکرؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ آپؐ ابھی یہاں ٹھہریں پہلے مجھے اندر جانے دیں تا کہ میں اچھی طرح غار کو صاف کر لوں اور کوئی خطرے کی چیز ہو تو میرا اس سے سامنا ہو۔ چنانچہ وہ اندر گئے اور غار کو صاف کیا، جو بھی سوراخ اور بِل وغیرہ تھے ان کو اپنے کپڑے سے بند کیا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اندر آنے کی دعوت دی۔ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکرؓ کی ران پر سر رکھ کر لیٹ گئے اور ایک سوراخ جس کے لیے کپڑا نہ تھا یا شاید اس وقت نظر نہ آیا ہو اس پر حضرت ابوبکرؓ نے اپناپاؤں رکھ دیا۔

روایت میں ہے کہ اسی سوراخ سے کوئی بچھو یا سانپ وغیرہ ڈستا رہا لیکن حضرت ابوبکرؓ اس ڈر سے کہ اگر کوئی حرکت کی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آرام میں خلل واقع ہوگا جنبش نہ فرماتے۔

یہاں تک کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب آنکھ کھولی تو حضرت ابوبکرؓ کے چہرے کی بدلی ہوئی رنگت کو دیکھ کر پوچھا کہ کیا ماجرا ہے تو انہوں نے ساری بات بتائی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا لعاب مبارک وہاں لگایا اور اس کے بعد پاؤں ایسا تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔

(شرح الزرقانی جلد2 صفحہ121 باب ھجرۃ المصطفیٰ و اصحابہ الی المدینۃ۔ دار الکتب العلمیة بیروت 1996ء، خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ 24؍دسمبر 2021ء)

• براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جنگ احد کے موقع پر جب مشرکین سے مقابلہ کے لیے ہم پہنچے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیر اندازوں کا ایک دستہ عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہما کی ماتحتی میں (پہاڑی پر) مقرر فرمایا تھا اور انہیں یہ حکم دیا تھا کہ تم اپنی جگہ سے نہ ہٹنا، اس وقت بھی جب تم لوگ دیکھ لو کہ ہم ان پر غالب آ گئے ہیں پھر بھی یہاں سے نہ ہٹنا اور اس وقت بھی جب دیکھ لو کہ وہ ہم پر غالب آ گئے، تم لوگ ہماری مدد کے لیے نہ آنا۔ پھر جب ہماری مڈبھیڑ کفار سے ہوئی تو ان میں بھگدڑ مچ گئی۔ میں نے دیکھا کہ ان کی عورتیں پہاڑیوں پر بڑی تیزی کے ساتھ بھاگی جا رہی تھیں، پنڈلیوں سے اوپر کپڑے اٹھائے ہوئے، جس سے ان کے پازیب دکھائی دے رہے تھے۔ عبداللہ بن جبیر رضی اللہ عنہما کے (تیر انداز ساتھی کہنے لگے کہ غنیمت غنیمت۔ اس پر عبداللہ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید کی تھی کہ اپنی جگہ سے نہ ہٹنا (اس لیے تم لوگ مال غنیمت لوٹنے نہ جاؤ) لیکن ان کے ساتھیوں نے ان کا حکم ماننے سے انکار کر دیا۔ ان کی اس حکم عدولی کے نتیجے میں مسلمانوں کو ہار ہوئی اور ستر مسلمان شہید ہو گئے۔

(بخاری كِتَاب الْمَغَازِي. بَابُ غَزْوَةِ أُحُدٍ)

تمہارے اوپر واجب ہے کہ تم جماعت کو لازم پکڑے رہو اور تفرقہ بازی سے بچو کیونکہ شیطان ایک کے ساتھ ہوتاہے اور دو لوگوں کے ساتھ دور رہتا ہے۔‘‘

(الترمذی اب الفتن)

حضرت عبداللہ بن عمرؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے:
’’جس شخص نے امیر کی طاعت سے اپنا ہاتھ کھینچ لیا تو قیامت کے دن وہ اللہ سے ایسے ملے گا کہ اس کے پاس کوئی حجت نہیں ہوگی اور وہ شخص جس کی گردن میں کسی امیر کی بیعت کا قلادہ نہیں اور اسی حالت میں اس کی موت ہوجائے تو گویا اس کی موت جاہلیت کی موت ہوگی۔‘‘

(مسلم کتاب الامارہ)

ایک دوسری روایت میں حضرت معقلؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا:
’’اللہ نے کسی کو ذمہ دار بنایا اور اس نے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے میں جان بوجھ کر کوتاہی کی تو جنت اس پر حرام ہوگی۔‘‘

(بخاری کتاب الاحکام)

اَللّهُمَّ صَلَّ عَلیَ مُحَمَّدٍ وَّ عَلیَ الِ مُحَمَّدٍ کَمَا صَلَّیتَ عَلیَ اِبرَاهِیمَ وَعَلیَ الِ اِبرَاهِیمَ اِنَّکَ حَمیدٌ مَّجِیدٌ
اَللّهُمَّ بَارِک عَلیَ مُحَمَّدٍ وَّ عَلیَ الِ مُحَمَّدٍ کَمَا بَارکتَ عَلیَ اِبرَاهِیمَ وَعَلیَ الِ اِبرَاهِیمَ اِنَّکَ حَمیدٌ مَّجِیدٌ

آج بھی ہر مومن کیلئے صلائے عام ہے امام وقت کی نصرت کرے اور آسمانی نصرت کو حاصل کرے۔

(حنیف احمد محمود)

پچھلا پڑھیں

ریجنل اجتماع لجنہ اماء اللہ واگا ڈوگو برکینافاسو

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 مارچ 2023