• 26 اپریل, 2024

مسافر جہازوں پر پیراشوٹ کیوں نہیں ہوتے؟

جہاز سے گر کر بچ جانے والوں کے لیے Soul Survivor کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے ۔

اگر آپ الفضل کے انہی صفحات پر ان دو soul survivor خواتین کے بارے میں پڑھ چکے ہیں جو جہاز سے گرنے کے باوجود بچ گئی تھیں تو آپ کے ذہن میں بھی یہ خیال ضرور پیدا ہوا ہوگا کہ کیوں نہ ہر مسافر کو ایک ایک پیراشوٹ دے دیا جائے تاکہ کسی حادثہ کی صورت میں مسافر جہاز سے چھلانگ لگائیں پیراشوٹ کھلے اور مسافر آرام سے زمین پر اتر جائیں۔ دیکھا جائے تو یہ خیال بہت اچھا ہے لیکن اگر ایک سطر میں اس کا جواب دیا جائے تو یہ ہوگا کہ ‘‘ایسا ممکن نہیں ہے’’

اس کی متعدد وجوہات ہیں،

سب سے پہلے ہوائی حادثات کی تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ زیادہ تر حادثات اڑانے بھرنے اور زمین پر اترنے کے دوران ہوتے ہیں۔ اس وقت جہاز کی بلندی پیراشوٹ سے چھلانگ لگانے کے لیے بالکل بھی مناسب نہیں ہوتی ہے۔بلکہ بہت زیادہ امکان ہے کہ پیراشوٹ ہونے کے باوجود مسافر زمین پر گرنے کے بعد بچ نا پائیں۔

پیراشوٹ سے چھلانگ لگانے کے لیے خاص تربیت کی ضرورت ہوتی ہے۔چھلانگ لگانے سے پہلے کسی مجاز ادارہ سے کم از کم چار گھنٹے کا ’’کریش کورس‘‘ کرنا لازم ہے۔ جو ظاہر ہے ہر مسافر کے لیے کرنا ممکن نہیں۔سکائی ڈرائیورز ایک گروپ کی صورت میں یا پھر انفرادی طور پر جہاز سے چھلانگ لگاتے ہیں اور تقریباً دوہزار فٹ کی بلندی پر اپنے پیراشوٹ کھول دیتے ہیں۔ گروپ کی صورت میں چھلانگ لگانے پر یہ ضروری ہوتا ہے کہ جب پیراشوٹ کھولنے کا وقت آئے تو ان کے درمیان محفوظ فاصلہ ہو تاکہ پیراشوٹ ایک دوسرے میں الجھ نا جائیں۔ (غیر تربیت یافتہ مسافروں کے لیے ایسا کر پانا تقریباً ناممکن بات ہے)۔

صرف ماہر تربیت یافتہ اسکائی ڈائیور ہی پندرہ ہزار فٹ کی بلندی یا اس سے زیادہ بلندی سے چھلانگ لگا سکتے ہیں۔ اتنی بلندی پر آکسیجن بہت کم ہوتی ہے، درجہ حرارت منفی ساٹھ ڈگری تک ہو سکتا ہے اور 120 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے نیچے گرتے ہوئے غیر تربیت یافتہ فرد کے لیے اس وقت اپنے حواس برقرار رکھنا بہت مشکل کام ہے۔

پیراشوٹ کا اپنا وزن اوسطاً سات سے پندرہ کلو تک ہوتا ہے۔ زیادہ وزن مطلب ایندھن کی زیادہ کھپت اور ایندھن کی زیادہ کھپت مطلب ہوائی ٹکٹ کا زیادہ کرایہ، کل ملا کر ہوائی سفر بہت مہنگا ہو جائے گا۔ مزید یہ کہ پیراشوٹ بھی کافی مہنگے ہوتے ہیں۔ایک عام پیراشوٹ اور اس کے ساتھ دیگر لوازمات کی قیمت چھے سے نوہزار ڈالر تک ہوتی ہے۔ اگر مسافروں کو پیراشوٹ دے دیے جائیں تو یہ سارے اخراجات بھی مسافروں کو ہی ادا کرنے پڑیں گے۔

جہاز کی اڑان سے پہلے دی جانے والی دس منٹ کی پری فلائٹ ہدایات میں ممکن نہیں کہ چار گھنٹوں پر مشتمل اسکائی ڈائیونگ کی تربیت دی جاسکے۔

فضاء میں دوران پرواز کسی حادثہ کی صورت میں شدید اضطراب اور بے چینی کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔آکسیجن ماسک لگا ہوا ہو سیٹ بیلٹ میں جکڑے ہوئے ہوں تو ایسی صورت بہت مشکل ہوجائے گا کہ مسافر سیٹ کے نیچے سے اپنا اپنا پیراشوٹ نکالیں اور اسے اچھی طرح پہن لیں یہ بھی بہت مشکل مرحلہ ہے جو ہنگامی حالت میں حالات کو مزید بگاڑ دے گا۔

تربیت یافتہ اسکائی ڈائیور ایک ایک کرکے جہاز سے چھلانگ لگاتے ہیں لیکن ذرا تصور کریں جہاز میں کھلبلی مچی ہے اور دو سو مسافروں میں جہاز سے چھلانگ لگانے کے لیے دھکم پیل ہو رہی ہے۔یہ صورتحال کو سلجھانے کے بجائے مزید خراب کرے گی۔

جہاز میں پیراشوٹ نصب کرنے کے لیے اضافی جگہ درکار ہوگی جس کامطلب ہوگا مسافروں کے لیے کم جگہ اور کم جگہ سفر کو مشکل اور غیر آرام دہ بنا دے گی۔

انتہائی بلندی پر حادثات کی بڑی وجہ خراب موسم ہے۔ایسے موسم میں سکائی ڈائیونگ بذات خود خطرناک اور جان لیوا ہوگا۔کمرشل جہاز سکائی ڈائیونگ کے لیے درکار رفتار کی نسبت بہت زیادہ تیزی سے اڑتے ہیں۔ اتنی رفتار پر جہاز سے چھلانگ لگانے پر جہاز کے کسی حصے سے ٹکرانے کا امکان بہت زیاد ہے۔

حاصل کلام یہ کہ موجودہ ٹیکنالوجی اور دستیاب وسائل ابھی اس سطح پر نہیں پہنچے کہ مسافر جہازوں پر ہر مسافر کے لیے انفرادی پیراشوٹ مہیا کیا جائے اور مسافر بوقت ہنگامی حالت اسے استعمال کرنے پر بھی بخوبی قادر ہوں۔

شاید مستقبل میں ایسا ہو جائے۔

(ترجمہ و تلخیص م ۔ ظفر)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 اپریل 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 اپریل 2021