• 23 اپریل, 2024

کفّارات اور درجات کیا ہیں؟

ایک دفعہ سرور کائنات حضرت محمد مصطفی ﷺ فجر کی نماز میں بہت تاخیر سے تشریف لائے حتیٰ کہ سورج نکلنے والا تھا۔ حضورﷺ نے مختصر نماز پڑھا کر مقتدیوں سے مخاطب ہو کر اپنے تاخیر سے آنے کی وجہ بتلاتے ہوئے فرمایا کہ۔

میں رات جب نماز تہجد کے لئے اٹھا تو حسب توفیق نماز پڑھی اور نماز تہجد میں مجھے اونگھ آگئی۔ میں نے اُ س دوران اپنے ربّ جلّ شانہ کو نہایت خوبصورت شکل میں دیکھا۔ اللہ نے مجھے مخاطب ہو کر فرمایا ۔اے محمد! تجھے معلوم ہے کہ فرشتے اس وقت کس بارہ میں بحث کر رہے ہیں؟ میں نے کہا مجھے کچھ علم نہیں۔ دوسری دفعہ اللہ تعالیٰ کے پوچھنے پر میں نے پھر لاعلمی کا اظہار کیا۔ تب اللہ تعالیٰ نے اپنی ہتھیلی میرے کندھے پر رکھی یہاں تک کہ میں نے اس کی ٹھنڈک اپنے سینے میں محسوس کی اور ہر چیز میر ے پر روشن ہو گئی۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہی سوال تیسری بار دہرایا۔ کہ فرشتے کس بارے میں بحث کر رہے ہیں؟ میں نے کہا ’’کفّارات‘‘ کے بارہ میں۔ اللہ نے فرمایا ۔اے محمد! کفّارات کیا ہیں؟ (یعنی وہ چیزیں جن سے گناہ دور ہوتے ہیں) میں نے کہا۔

  1. نماز باجماعت کے لئے چل کر مسجد جانا
  2. نماز کے بعد مسجد میں بیٹھ کر ذکر الٰہی کرنا
  3. اور ناپسندیدگی کے باوجود مکمل وضو کرنا

پھر اللہ تعالی نے ’’درجات‘‘ کے متعلق مجھے سے پوچھا۔ میں نے کہا

  1. کھانا کھلانا
  2. نرم کلام کرنا
  3. نماز پڑھنا جب کہ لوگ سوئے ہوئے ہوں

تب اللہ تعالیٰ نے مجھے فرمایا ۔اے محمد! اب مانگو جو مانگتے ہو۔ تب میں نے یہ دعا کی۔

اَللّٰہُمَّ اِنِّی اَسْأَلُکَ فِعْلَ الْخَیْرَاتِ وَتَرْکَ الْمُنْکَرَاتِ وَحُبَّ المَسَاکِینِ وَاَنْ تَغْفِرْلِی وَتَرْحَمْنِیْ وَاِذَا اَرَدْتُّ فِتْنَۃٌ فِیْ قَوْمٍ فَتَوَفَّنِیْ غَیْرُمَفْتُوْنِ وَ اَسْأَلُکَ حُبَّکَ وَحُبَّ مَنْ یُّحِبُّکَ وَحُبَّ عَمَلٍ یُقَرِّبُنِیْ اِلیٰ حُبِّکَ

(مسند احمد جلد5 صفحہ243)

ترجمہ۔ اے اللہ! میں تجھ سے نیک کام کرنے اوربُری باتیں چھوڑنے کی توفیق چاہتا ہوں۔ مجھے مساکین کی محبت عطا کر اور مجھے بخش دے اور مجھ پر رحم کر اور جب تو قوم کو فتنہ میں مبتلا کرنے کا ارادہ کرے تو مجھے بغیر فتنہ میں ڈالے موت دے دینا۔ اے اللہ!میں تجھے سے تیری محبت چاہتا ہوں اور اُس کی محبت جس سے تو محبت کرتا ہے اور ایسے عمل کی محبت جو مجھے تیری محبت کے قریب کر دے۔ آمین

نوٹ۔ 1۔ آنحضور ﷺ نے اس دعا کے متعلق فرمایا ہے کہ یہ دعا برحق ہے اسے خود بھی یاد کرو اور دوسروں کو بھی سکھاؤ۔

2۔ یہ دُعا قدرے الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ ترمذی کتاب الدعوات میں بھی درج ہے۔

مندرج نیکیوں کی اہمیت و فادیت

جہاں تک کفارات اور درجات کے تحت نیکیوں اور اعمال صالح کی اسلامی تعلیم کے مطابق اہمیت، افادیت اور برکات کا تعلق ہے۔ ان مندرجہ بالاچھ امور میں سےتین کا تعلق عبادت یعنی نماز کی ادائیگی اور ایک کا تعلق عبادت کی تیاری سے ہے۔ جسے وضو کہا جاتا ہے۔ گویا چار حقوق اللہ میں سے ہیں اور دو حقوق العباد میں سے ہیں۔ آنحضور ﷺ نے صحابہ کو گنا ہ مٹانے اور درجات بلندہونے کا گُر بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ (سردی وغیرہ کی وجہ سے) دل نہ چاہنے کے باوجود خوب اچھی طرح وضو کرنا، مسجد میں دُور سے چل کر آنا اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا ایک قسم کا رباط یعنی سرحدوں پر چھاؤنی قائم کرنا ہے۔

(مسلم کتاب الطہارۃباب فضل اسباغ الوضوء)

پھر متعد د بار فرمایا کہ اچھی طرح وضو کرنے سے تمام گناہ جسم سے یہاں تک کہ ناخنوں کے اندر سے بھی نکل جاتے ہیں۔ اور مومن گناہوں سے پاک و صاف ہو کر نکلتا ہے۔

(مسلم کتا ب الطہارۃ باب خروج الخطایا)

٭جہاں تک مسجد کی طرف پیدل چل کر آنے کا تعلق ہے تو اس کا بھی بہت ثواب ہے۔ مسجد کی طرف ایک قدم اُٹھانے سے ایک نیکی اس کے حق میں لکھی جاتی ہے اور اگلا قدم اُٹھانے سے ایک گناہ معاف ہو تا ہے۔

(مسلم باب المشی الی الصلوٰۃ)

٭ مسجدمیں بیٹھ کر نماز کا انتظار کرنا بھی ثواب کے زمرہ میں آتا ہے۔ آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ اذان اور اقامہ کے دوران دعا ردّ نہیں ہوتی۔

(ترمذی کتاب الصلوٰۃ ان العداء لا یرد بین الاذان و الاقامۃ)

٭ آنحضور ﷺ کا یہ دستور مبارک تھا کہ نماز کے اختتام پر آپ تسبیحات کیا کرتے تھے۔ بالخصوص سبحان اللہ 33بار، الحمدللہ 33بار، اللہ اکبر 34بار۔ ہمارے پیارے اما م حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز بھی نماز باجماعت کی ادائیگی کے بعد بہت اہتمام کے ساتھ سنت نبوی ﷺ کی پیروی میں تسبیحات مکمل فرماتے ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک کو اس سنت کو اپنانا چاہیے۔

ایک دفعہ غریب صحابہ کو یہ نسخہ کیمیا بتاتے ہوئے فرمایا کہ ایسا کرنے سے آپ کو بھی امیر صحابہ جیسے افعال کا ثواب ملے گا۔

(مسلم کتاب الصلوٰۃباب التحباب الذکر)

٭ حقوق اللہ میں سے آخری امر ایسے نوافل کی ادائیگی ہے جو ایسے وقت میں ہو جب لوگ سوئے ہوتے ہیں۔ یہ نماز خدا کو بہت محبوب ہے جب انسان اپنی نیند کو انفاق فی سبیل اللہ میں صرف کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس نماز کا اپنی پیاری کتاب میں دو بار ذکر فرما یا ہے ۔سورۃ بنی اسرائیل میں تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس نماز کی ادائیگی سے قریب ہےکہ اللہ تہجد ادا کرنے والوں کو ’’مقام محمود‘‘ تک پہنچا دے گا جو جنت کا بلند ترین مقام ہے۔

آنحضور ﷺ روزانہ گیا رہ رکعت (بشمول تین وتر) نماز تہجد خشوع و خضوع سے ادا فرماتے تھے۔ (بخاری کتاب الدعوات باب الضجع على الشق الأيمن) اور اپنے گھروں میں نماز (نوافل) ادا کرنے کی تلقین کرتے ہوئے فرماتے۔ جماعت کے ساتھ فرضوں کے سوا باقی نماز گھر میں پڑھنا بہترین نماز ہے۔

(مسند دار می فی کتاب الصلوٰۃ باب صلوٰۃ التطوع فی ای موضع افضل)

حدیث قدسی ہے ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نوافل کے ذریعہ میر ا بندہ میرے اس قدر قریب ہو جاتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں۔ میں اُسے اپنا دوست بنا لیتا ہوں۔ میں اس کے کان، آنکھیں، ہاتھ اور پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا، دیکھتا، پکڑتا اور چلتا ہے یعنی میں اس کا کفیل و کار ساز ہو جاتا ہوں۔ وہ جو مانگتا ہے میں اس کو دیتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے پناہ مانگے تو میں پناہ دیتا ہوں

(بخاری کتاب الرقاق)

سعدی نے کیا خوب کہا ہے کہ

کلید در دوزخ است نماز
کہ در چشم مردم گزاری دراز

کہ وہ نماز جو تو لوگوں کو دکھانے کے لیے لمبی کرتا ہے وہ نماز دوزخ کے دروازہ کی چابی ہے۔

حقو ق العباد

مندرجہ بالا چھ امور میں سے دو کا تعلق حقوق العباد سے ہے جو ’’درجات‘‘ کہلاتے ہیں۔ یعنی کھانا کھلانا اور نرم کلام کرنا۔ یہاں تک کھانا کھلانے کا تعلق ہے تو اس کا ذکر قرآن میں بھی ملتا ہے کہ یتیموں، مسکینوں اور غربا ء کو کھانا کھلانا مومنوں اور متقیوں کا خاصا ہے۔ آنحضور ﷺ نے یہاں تک فرمایا کہ اگر کوئی اچھا کھانا کھا رہا ہے تو وہ اس کا کچھ حصہ اپنے پاس بیٹھے غریبوں اور کام کرنے والوں کو بھی دے دیا کرے۔ بلکہ اپنے متعلق حضور ﷺ نے فرمایا اِبْغُوْنِیْ فِیْ ضُعَفَآءِکُمْ فَاِ نَّمَا تُرْزَقُوْنَ وَ تُنْصَرُوْنَ بِضُعَفَآءِکُمْ (ترمذی ابواب الجہاد) کہ مجھے کمزوروں میں تلاش کرو۔ یہ حقیقت ہے کہ کمزوروں اور غریبوں کی وجہ سے تم خدا کی مدد پاتے ہواور اس کے حضور سے رزق کے مستحق بنتے ہو۔

ایک موقع پر آنحضور ﷺ نے فرمایا اَلْخَلْقُ عِیَالُ اللّٰہِ فَاَحَبُّ الْخَلْقِ اِلَی اللّٰہِ مَنْ اَحْسَنَ اِلٰی عِیَالِہٖ

(حدیقۃ الصالحین از ملک سیف الرحمن صفحہ 573ایڈیشن)

کہ تمام مخلوق اللہ کاخاندان ہے۔ اللہ کو ان میں سے وہ پسند ہے جو اس کی مخلوق سے اچھا سلوک کرتا اور ان کی ضروریات کا خیال رکھتا ہے۔ آنحضور ﷺ نے تو جانوروں سے بھی حسن سلوک کرنے اور ان کو کھانا کھلانے کی تاکید فرمائی ہے کیونکہ یہ بھی اللہ کی مخلوق میں سے ہیں۔

چونکہ اس عنوان کے تحت ’’درجات‘‘ کی بات ہو رہی ہے تو ایک حدیث نوٹ کرتا ہوں ۔آنحضور ﷺ نے فرمایا کہ انسان بعض اوقات بے خیالی میں اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کی کوئی بات کہہ دیتا ہے جس کی وجہ سے اللہ تعالی اس کے بے انتہا درجات بلند کر دیتا ہے اور بسا اوقات لاپرواہی میں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی کوئی بات کر بیٹھتا ہے جس کی وجہ سے جہنم رسید کیا جاتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ سے ہر وقت رہنمائی اور ہدایت کی توفیق مانگنی چاہیے کہ وہ ہمیشہ بھلی اور نیک بات ہی مُنہ سے نکلوائے۔ (بخاری کتاب الرقاق) انسان کی تمام بُرائیاں اور اچھائیاں زبان سے تعلق رکھتی ہیں۔ جس طرح کمان سے نکلا ہوا تیر واپس نہیں آتا ویسے ہی مُنہ سے نکلا ہوا کوئی لفظ واپس نہیں آتا۔ اس لئے پہلے تولو پھر بولو۔ اچھی اور بھلی بات کہو ورنہ خاموش رہو۔ آنحضور ﷺ بہت نرم گفتارتھے۔ آپؐ کے کلام سے کبھی کسی کا دل نہ دکھتا تھا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں۔ ’’تم میں بڑا وہ ہے جو غریب کی بات تحمل سے سنے۔‘‘

پس آج ہم اپنے معاشرے کو بُرائیوں اور بدیوں سے پاک بنانا چاہتے ہیں تو ہمیں ایسی راہ اپنانی ہو گی جس کی نشاندہی آنحضور ﷺ نے فرمائی اور آج ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح اس طرف توجہ دلاتے رہتے ہیں۔

آمین اللہ تعالیٰ ہمیں کفّارات اور درجات میں درج حقوق اللہ اور حقوق العباد ادا کرنے کی توفیق سے نوازتا چلا جائے۔

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 اپریل 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 اپریل 2021