• 26 اپریل, 2024

اشاعت دین میں مامور من اللہ دوسروں سے امداد چاہتے ہیں مگر کیوں؟ (حضرت مسیح موعودؑ)

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
پھر اپنی ایک تقریر کے دوران آپؑ نے فرمایا کہ ’’انسان کی ظاہری بناوٹ، اُس کے دو ہاتھ، دو پاؤں کی ساخت ایک دوسرے کی امداد کا رہنما ہے۔ جب یہ نظارہ خود انسان میں موجود ہے پھر کس قدر حیرت اور تعجب کی بات ہے کہ وہ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی (المائدہ: 3) کے معنی سمجھنے میں مشکلات کو دیکھے‘‘۔ (یعنی انسانی جسم کے ہاتھ ہیں، پاؤں ہیں، یہ جو انسانی جسم کی بناوٹ ہے۔ جسم کا جو ہر عضو ہے ایک دوسرے کی مدد کرنے کے لئے ہے)۔ تو فرمایا اسی طرح ’’تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی (المائدہ: 3) کے معنی سمجھنے میں مشکلات کو دیکھے۔ ہاں مَیں یہ کہتا ہوں کہ تلاشِ اسباب بھی بذریعہ دعا کرو‘‘۔ (یعنی جو دنیاوی سامان ہے اُس کی تلاش کرنی ہے تو بھی دعا کے ذریعہ کرو)۔ ’’امدادِ باہمی میں نہیں سمجھتا کہ جب مَیں تمہارے جسم کے اندر اللہ تعالیٰ کا ایک قائم کردہ سلسلہ اور کامل رہنما سلسلہ دکھاتا ہوں تم اس سے انکار کرو۔ اللہ تعالیٰ نے اس بات کو اور بھی صاف کرنے اور وضاحت سے دنیا پر کھول دینے کے لئے انبیاء علیہم السلام کا ایک سلسلہ دنیا میں قائم کیا۔ اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر تھا اور قادر ہے کہ اگر وہ چاہے تو کسی قسم کی امداد کی ضرورت اُن رسولوں کو باقی نہ رہنے دے۔ مگر پھر بھی ایک وقت اُن پر آتا ہے کہ وہ مَنْ اَنْصَارِیْ اِلَی اللّٰہ کہنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ کیا وہ ایک ٹکڑگدا فقیر کی طرح بولتے ہیں؟ نہیں۔ مَنْ اَنْصَارِیْ اِلَی اللّٰہ کہنے کی بھی ایک شان ہوتی ہے۔ وہ دنیا کو رعایتِ اسباب سکھانا چاہتے ہیں‘‘۔ (انبیاء جب مَنْ اَنْصَارِیْ اِلَی اللّٰہِ (سورۃ آل عمران: 53) کہ کون ہیں اللہ کے لئے میرے مدد گار؟ کہتے ہیں۔ تو وہ اُن کو ضرورت نہیں ہوتی)۔ فرمایا ’’وہ دنیا کو رعایتِ اسباب سکھانا چاہتے ہیں‘‘۔ (یہ بھی دنیا کو سکھانے کے لئے ہے) ’’جو دعا کا ایک شعبہ ہے۔ ورنہ اللہ تعالیٰ پر اُن کو کامل ایمان اُس کے وعدوں پر پورا یقین ہوتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اِنَّا لَنَنْصُرُرُسُلَنَا وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا (المومن: 52)۔ ایک یقینی اور حتمی وعدہ ہے۔ مَیں کہتا ہوں کہ بھلا اگر خدا کسی کے دل میں مدد کا خیال نہ ڈالے تو کوئی کیونکر مدد دے سکتا ہے۔ اصل بات یہی ہے کہ حقیقی معاون و ناصر وہی پاک ذات ہے جس کی شان ہے نِعْمَ الْمَوْلٰی وَنِعْمَ الْوَکِیْل وَنِعْمَ النَّصِیْر۔ دنیا اور دنیا کی مددیں اِن لوگوں کے سامنے کا لمیّت ہوتی ہیں اور مُردہ کیڑے کے برابر بھی حقیقت نہیں رکھتی ہیں۔ لیکن دنیا کو دعا کا ایک موٹا طریق بتلانے کے لئے وہ یہ راہ بھی اختیار کرتے ہیں۔ وہ حقیقت میں اپنے کاروبار کا متولّی خدا تعالیٰ ہی کوجانتے ہیں اور یہ بات بالکل سچ ہے۔ وَھُوَ یَتَوَلَّی الصّٰلِحِیْنَ (الاعراف: 197)۔ اللہ تعالیٰ اُن کو مامور کر دیتا ہے کہ وہ اپنے کاروبار کو دوسروں کے ذریعہ سے ظاہر کریں۔ ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مختلف مقامات پر مدد کا وعظ کرتے تھے۔ اسی لئے کہ وہ وقت نصرتِ الٰہی کا تھا، اُس کو تلاش کرتے تھے کہ وہ کس کے شامل حال ہوتی ہے۔

یہ ایک بڑی غور طلب بات ہے۔ دراصل مامور من اللہ لوگوں سے مدد نہیں مانگتا بلکہ مَنْ اَنْصَارِیْ اِلَی اللّٰہِ کہہ کر وہ اس نصرت الٰہیہ کا استقبال کرنا چاہتا ہے اور ایک فرطِ شوق سے بے قراروں کی طرح اس کی تلاش میں ہوتا ہے۔ نادان اور کوتاہ اندیش لوگ سمجھتے ہیں کہ وہ لوگوں سے مدد مانگتا ہے بلکہ اس طرح پر اس شان میں وہ کسی دل کے لئے جو اس نصرت کا موجب ہوتا ہے ایک برکت اور رحمت کا موجب ہوتا ہے۔ پس مامور من اللہ کی طلب امداد کا اصل سرّ اور راز یہی ہے جو قیامت تک اسی طرح رہے گا۔ اشاعت دین میں مامور من اللہ دوسروں سے امداد چاہتے ہیں مگر کیوں؟ اپنے ادائے فرض کے لئے تاکہ دلوں میں خدا تعالیٰ کی عظمت کو قائم کریں۔ ورنہ یہ تو ایک ایسی بات ہے کہ قریب بہ کفر پہنچ جاتی ہے اگر غیراللہ کو متولّی قرار دیں۔ اور ان نفوس قدسیہ سے ایسا امکان محال مطلق ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد 9صفحہ 12-14 مطبوعہ لندن 1984ء)

پھر آپ فرماتے ہیں: ’’دعا کی مثال ایک چشمۂ شیریں کی طرح ہے جس پر مومن بیٹھا ہوا ہے۔ وہ جب چاہے اس چشمہ سے اپنے آپ کو سیراب کر سکتا ہے۔ جس طرح ایک مچھلی بغیر پانی کے زندہ نہیں رہ سکتی، اسی طرح مومن کا پانی دعا ہے کہ جس کے بغیر وہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ اس دعا کا ٹھیک محل نماز ہے جس میں وہ راحت اور سرور مومن کو ملتا ہے کہ جس کے مقابل ایک عیاش کا کامل درجہ کا سرور جو اسے کسی بدمعاشی میں میسر آ سکتا ہے، ہیچ ہے۔ بڑی بات جو دعا میں حاصل ہوتی ہے وہ قربِ الٰہی ہے۔ دعا کے ذریعہ ہی انسان خدا تعالیٰ کے نزدیک ہو جاتا اور اُسے اپنی طرف کھینچتا ہے۔ جب مو من کی دعا میں پورا اخلاص اور انقطاع پیدا ہو جاتا ہے تو خدا تعالیٰ کو بھی اُس پر رحم آ جاتا ہے اور خدا تعالیٰ اس کا متولّی ہو جاتا ہے۔ اگر انسان اپنی زندگی پر غور کرے تو الٰہی تولّی کے بغیر انسانی زندگی قطعاً تلخ ہو جاتی ہے۔ دیکھ لیجئے جب انسان حدّ بلوغت کو پہنچتا ہے اور اپنے نفع نقصان کو سمجھنے لگتا ہے تو نامرادیوں ناکامیابیوں اور قسما قسم کے مصائب کا ایک لمبا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ وہ اُن سے بچنے کے لئے طرح طرح کی کوششیں کرتا ہے۔ دولت کے ذریعہ، تعلق حکام کے ذریعہ، قسما قسم کے حیلہ و فریب کے ذریعہ‘‘۔ (جب دنیا میں مصائب شروع ہو جائیں تو وہ بچنے کے لئے کیا کرتا ہے۔ اگر اُس کے پاس دولت ہے، پیسہ ہے، تو اُس سے بچنے کے لئے اُس کو استعمال کرتا ہے۔ اگر اُس کے بڑے افسران سے تعلقات ہیں تو اُن تعلقات کو استعمال کرتا ہے یا مختلف قسم کے حیلے اور فریب، دھوکے کے ذریعہ سے، کسی نہ کسی طریقے سے) ’’وہ بچاؤ کے راہ نکالتا ہے، لیکن مشکل ہے کہ وہ اُس میں کامیاب ہو۔ بعض وقت اُس کی تلخ کامیوں کا انجام خود کشی ہو جاتی ہے۔ اب اگر اِن دنیا داروں کے غموم و ہموم اور تکالیف کا مقابلہ اہل اللہ یا انبیاء کے مصائب کے ساتھ کیا جاوے تو انبیاء علیہم السلام کے مصائب کے مقابل اوّل الذکر جماعت کے مصائب بالکل ہیچ ہیں۔ لیکن یہ مصائب و شدائد اُس پاک گروہ کو رنجیدہ یا محزون نہیں کر سکتے‘‘۔ (انبیاء اور اولیاء کو جو مشکلات آتی ہیں وہ انہیں رنجیدہ نہیں کرتیں، افسردہ نہیں کرتیں۔) ’’اُن کی خوشحالی اور سرور میں فرق نہیں آتا کیونکہ وہ اپنی دعاؤں کے ذریعے خدا تعالیٰ کی تولّی میں پھر رہے ہیں۔ دیکھو اگر ایک شخص کا ایک حاکم سے تعلق ہو اور مثلاً اُس حاکم نے اُسے اطمینان بھی دیا ہو کہ وہ اپنے مصائب کے وقت اس سے استعانت کر سکتا ہے تو ایسا شخص کسی ایسی تکلیف کے وقت جس کی گرہ کشائی اُس حاکم کے ہاتھ میں ہے، عام لوگوں کے مقابل کم درجہ رنجیدہ اور غمناک ہوتا ہے تو پھر وہ مومن جس کا اس قسم کا بلکہ اس سے بھی زیادہ مضبوط تعلق اَحکم الحاکمین سے ہو، وہ کب مصائب و شدائد کے وقت گھبراوے گا؟ انبیاء علیہم السلام پر جو مصیبتیں آتی ہیں اگر اُن کا عشرِ عشیر بھی ان کے غیر پر وارد ہو تو اُس میں زندگی کی طاقت باقی نہ رہے۔ یہ لوگ جب دنیا میں بغرضِ اصلاح آتے ہیں تو اُن کی کُل دنیا دشمن ہو جاتی ہے۔ لاکھوں آدمی اُن کے خون کے پیاسے ہو جاتے ہیں۔ لیکن یہ خطرناک دشمن بھی اُن کے اطمینان میں خلل انداز نہیں ہوسکتے۔ اگر ایک شخص کا ایک دشمن بھی ہو تو وہ کسی لمحہ بھی اُس کے شر سے امن میں نہیں رہتا۔ چہ جائیکہ ملک کا ملک اُن کا دشمن ہو اور پھر یہ لوگ باامن زندگی بسر کریں۔ ان تمام تلخ کامیوں کو ٹھنڈے دل سے برداشت کر لیں۔ یہ برداشت ہی معجزہ و کرامت ہے۔ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی استقامت اُن کے لاکھوں معجزوں سے بڑھ کر ایک معجزہ ہے۔ کُل قوم کا ایک طرف ہونا، دولت، سلطنت، دنیاوی وجاہت، حسینہ جمیلہ بیویاں وغیرہ سب کچھ کے لالچ قوم کا اس شرط پر دینا کہ وہ اعلائے کلمۃ اللہ، لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ سے رُک جاویں۔ لیکن ان سب کے مقابل جناب رسالت مآب کا فرمانا کہ میں اگر اپنے نفس سے کرتا تو یہ سب باتیں قبول کرتا۔ میں تو حکمِ خدا کے ماتحت یہ سب کچھ کر رہا ہوں اور پھر دوسری طرف سب تکالیف کی برداشت کرنا، یہ ایک فوق الطاقت معجزہ ہے۔ یہ سب طاقت اور برداشت اُس دعا کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے جو مومن کو خدا تعالیٰ نے عطا کی ہے۔ اِن لوگوں کی دردناک دعا بعض وقت قاتلوں کے سفاکانہ حملہ کو توڑ دیتی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے لئے جانا آپ لوگوں نے سُنا ہو گا۔ ابوجہل نے ایک قسم کا اشتہار قوم میں دے رکھا تھا کہ جو جناب رسالت مآب کو قتل کرے گا وہ بہت کچھ انعام و اکرام کا مستحق ہو گا۔ حضرت عمرؓ نے مشرف بہ اسلام ہونے سے پہلے ابوجہل سے معاہدہ کیا اور قتلِ حضرت کے لئے آمادہ ہو گیا۔ اُس کو کسی عمدہ وقت کی تلاش تھی، دریافت پر اُسے معلوم ہوا کہ حضرت‘‘ (یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم) ’’نصف شب کے وقت خانہ کعبہ میں بغرضِ نماز آتے ہیں۔ یہ وقت عمدہ سمجھ کر حضرت عمرؓ سرِ شام خانہ کعبہ میں جا چھپے۔ آدھی رات کے وقت جنگل میں سے لَااِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کی آواز آنا شروع ہوئی۔ حضرت عمر نے ارادہ کیا کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سجدہ میں گریں تو اُس وقت قتل کروں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے درد کے ساتھ مناجات شروع کی اور سجدہ میں اس طرح حمدِ الٰہی کا ذکر کیا کہ حضرت عمرؓ کا دل پسیج گیا۔ اُس کی ساری جرأت جاتی رہی اور اُس کا قاتلانہ ہاتھ سست ہو گیا۔ نماز ختم کر کے جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم گھر کو چلے تو اُن کے پیچھے حضرت عمرؓ ہو گئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آہٹ پا کر دریافت کیا اور معلوم ہونے پر فرمایا کہ اے عمر! کیا تو میرا پیچھا نہ چھوڑے گا؟ حضرت عمر بد دعا کے ڈر سے بول اُٹھے کہ حضرت! مَیں نے آپ کے قتل کا ارادہ چھوڑ دیا۔ میرے حق میں بددعا نہ کیجئے گا۔ چنانچہ حضرت عمر فرمایا کرتے تھے کہ وہ پہلی رات تھی جب مجھ میں اسلام کی محبت پیدا ہوئی‘‘۔

(ملفوظات جلدنمبر7 صفحہ61-59۔ مطبوعہ لندن ایڈیشن 1984ء)

(خطبہ جمعہ 20؍ مئی 2011ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 مئی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 مئی 2021