• 4 مئی, 2024

انسان سمجھتا ہے کہ نرا زبان سے کلمہ پڑھ لینا ہی کا فی ہے

انسان سمجھتا ہے کہ نرا زبان سے کلمہ پڑھ لینا ہی کا فی ہے یا نرا اَسْتَغْفِرُ اللّٰہ کہہ دینا ہی کافی ہے …پڑھ لینا ہی اللہ تعالیٰ کا منشاء نہیں وہ تو عمل چاہتا ہے (حضرت مسیح موعودؑ)

حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ اس حوالہ سے حضرت مسیح موعودؑ کے ارشادات پیش کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔
پھر آپؑ فرماتے ہیں: ’’انسان سمجھتا ہے کہ نرا زبان سے کلمہ پڑھ لینا ہی کا فی ہے یا نرا اَسْتَغْفِرُ اللّٰہ کہہ دینا ہی کافی ہے۔ مگر یادرکھو زبانی لا ف وگزاف کا فی نہیں ہے۔ خواہ انسان زبان سے ہزار مر تبہ اَسْتَغْفِرُ اللّٰہ کہے یا سو مرتبہ تسبیح پڑھے اس کا کو ئی فائدہ نہیں ہو گا کیو نکہ خدا نے انسان کو انسان بنا یا ہے، طوطا نہیں بنا یا۔ یہ طوطے کا کام ہے کہ وہ زبان سے تکرار کرتا رہے اور سمجھے خاک بھی نہیں۔ انسان کا کام تو یہ ہے کہ جو کچھ منہ سے کہتا ہے اس کو سوچ کر کہے اور پھر اس کے موافق عملدرآمد بھی کرے۔ لیکن اگر طوطے کی طرح بولتا جاتا ہے تو یادرکھو نری زبان سے کوئی برکت نہیں ہے۔ جب تک دل سے اس کے ساتھ نہ ہو اور اس کے موافق اعمال نہ ہوں وہ نری باتیں سمجھی جائیں گی جن میں کو ئی خوبی اور برکت نہیں کیو نکہ وہ نرا قول ہے خواہ قرآنِ شریف اور استغفار ہی کیو ں نہ پڑھتا ہو۔ خدا تعالیٰ اعمال چاہتا ہے۔ اس لیے بار بار یہی حکم دیا ہے کہ اعمالِ صالحہ کرو۔ جب تک یہ نہ ہو خدا کے نزدیک نہیں جا سکتے۔ بعض نادان کہتے ہیں کہ آج ہم نے دن بھر میں قرآن ختم کر لیا ہے۔ لیکن کو ئی ان سے پو چھے کہ اس سے کیا فائد ہ ہوا؟ نِری زبان سے تم نے کا م لیا مگر باقی اعضاء کو بالکل چھوڑدیا حالانکہ اللہ تعالیٰ نے تمام اعضاء اس لیے بنائے ہیں کہ ان سے کام لیا جاوے۔ یہی وجہ ہے کہ حدیث میں آیا ہے کہ بعض لوگ قرآن کی تلاوت کرتے ہیں اور قرآن اُن پر لعنت کرتا ہے کیو نکہ ان کی تلاوت نراقول ہی قول ہوتا ہے اور اس پر عمل نہیں ہوتا۔‘‘

(ملفوظات جلد3 صفحہ611 ایڈیشن 2003ء)

پس اعمال کی اصلاح صرف ظاہری طور پر علم سے نہیں ہو گی، بلکہ اللہ تعالیٰ اُس وقت اپنے وعدے کے مطابق اصلاح کرتا ہے جب سچائی کو سامنے رکھتے ہوئے، صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کا خوف سامنے رکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل کرنے کی کوشش ہو۔ جیسا کہ میں نے کہا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی جماعت میں شامل ہونے کے لئے یا اپنی جماعت میں شامل ہونے والوں کی جو نشانی بتائی ہے، وہ یہ ہے کہ وہ قرآنِ کریم کے سات سو حکموں پر عمل کرتے ہیں۔ کسی علم اور کسی خاص مقام کے ہونے کا آپ نے ذکر نہیں فرمایا۔ پس ہمیں، ہم میں سے ہر ایک کو اپنے اعمال کی طرف نظر رکھنے کی ضرورت ہے اور اپنے آپ کو اس تعلیم کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے۔

پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ: ’’جو شخص اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حدود کے موافق اپنا چال چلن نہیں بنا تا ہے وہ ہنسی کرتا ہے کیو نکہ پڑھ لینا ہی اللہ تعالیٰ کا منشاء نہیں۔ وہ تو عمل چاہتا ہے۔ اگر کو ئی ہرروز تعزیراتِ ہند کی تلاوت تو کرتا رہے مگر ان قوانین کی پابندی نہ کرے بلکہ ان جرائم کو کرتا رہے اور رشوت وغیرہ لیتا رہے توایسا شخص جس وقت پکڑا جاوے گا تو کیا اس کا یہ عذر قابل سماعت ہو گا کہ مَیں ہر روز تعزیرات کو پڑھا کرتا ہوں؟ یا اس کو زیادہ سزا ملے گی کہ تو نے باوجود علم کے پھر جرم کیا ہے۔‘‘ جو قانون جانتا ہے، جو ملکی قانون کو پڑھتا رہتا ہے، صرف قانون پڑھنے سے سزا معاف نہیں ہو جاتی۔ اگر قانون پڑھ رہا ہے اور جرم کر رہا ہے تو فرمایا کہ اُس کو تو زیادہ سزا ملے گی کہ تو نے باوجود علم کے پھر جرم کیا ہے۔ ’’اس لیے ایک سال کی بجائے چار سال کی سزا ہو نی چاہئے۔‘‘

(ملفوظات جلد3 صفحہ611 ایڈیشن 2003ء)

(خطبہ جمعہ 21؍جون 2013ء)

پچھلا پڑھیں

پاکستان، الجزائر اور افغانستان کے احمدیوں کے لئے دعا کی تازہ تحریک

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 جون 2022