• 17 مئی, 2024

ربط ہے جان محمدؐ سے مری جاں کو مدام (قسط نمبر 26)

ربط ہے جان محمدؐ سے مری جاں کو مدام
دشمنوں کی خیر خواہی
قسط نمبر 26

اللہ تبارک تعالیٰ نے حضرت محمد مصطفیٰﷺ کو کل انسانیت کے لئے رحمت بناکر بھیجا ۔ آپؐ صرف مومنوں یا مسلمانوں کے لئے نہیں بلکہ بلا تفریق مذہب و ملت ’’رنگ و نسل‘‘ زمان و مکان کل عالمین کے لئے رحمت ہیں۔ آپؐ کی بعثت کے وقت عرب میں بات بات پر دشمنی ’’عداوت‘‘ رقابت اور انتقام کے سلسلے سالہا سال تک چلتے۔ قتل کرنا ’’اعضا کاٹنا‘‘ کلیجہ چبانا کھوپڑی میں شراب پینا بہادری کی علامت سمجھا جاتا تھا ان وحشیوں کو انسان اور پھر خدا نما انسان بنانا کسی آرڈینینس، قانون یا سزا سے ممکن نہیں تھا۔ آپؐ نے انتہائی محبت، حلم اور عفو و درگزر سے دشمنوں کو معاف کرنے کی ریت ڈال کر ان کے دل جیت لئے۔ جس سے رفتہ رفتہ دشمنی اور انتقام کی آگ ٹھنڈی ہوتی گئی اور وہی معاشرہ امن و سلامتی کا معاشرہ بن گیا۔

لیا ظُلم کا عَفو سے انتقام

آپؐ کے نبوت کے دعویٰ کے ساتھ دشمنی کا آغاز ہو گیا تھا مگر آپؐ کو اپنے دشمنوں کو معاف کرنے کی تعلیم دی گئی تھی ۔اسلام کے علاوہ کسی مذہب میں دشمن کو معاف کر نے کی تعلیم نہیں ملتی۔ جبکہ اسلام کے مطابق جب تک دعا اور تربیت سے اصلاح کی توقع ہو درگزر سے کام لینا بہتر ہے۔ دشمن اپنی تمام تر طاقت کے ساتھ ایذا رسانی کرتے مگر آپؐ اسلامی تعلیم کے مطابق ہر سختی برداشت کرتے اور ان کی ہدایت کی دعا کرتے۔

آپؐ کے چچا ابو لہب اور اس کی بیوی ام جمیل آپؐ کے گھر کے آگے کانٹے بچھا دیتے تھے۔

حکم ابن ابی العاص، عقبہ ابن ابی معیط بکری کی اوجھڑی یاہانڈی حالت نماز میں آپؐ پر ڈال دیتے آپؐ کے گھر پر پتھراؤ کرتے ۔

ابوجہل کی دشمنی کا یہ عالم تھا کہ آپؐ جہاں بھی اسلام کا پیغام پہنچانے کے لیے جاتے وہاں پہنچ جاتا اور لوگوں کو آپؐ کے خلاف بھڑکاتا۔

(مسند احمد جزء3 صفحہ492)

ذوالمجاز کے میلے میں ایک دفعہ دعوت الی اللہ کے دوران ابوجہل آپ پر خاک اڑاتا اور لوگوں کو آپ کی مخالفت پر اکساتا رہا۔

(مسند احمدجزء5 صفحہ371)

ایک دفعہ رسول اللہﷺصفا کے پاس بیٹھے تھے کہ ابوجہل نے آکر آپ کو بہت گالیاں دیں اور ستایا اور دین کی مذمت کی۔لیکن آپ نے ایک لفظ اس سے نہ کہا۔

(تاریخ طبری جزء2 صفحہ78)

ایک روز ذوالمجاز کے میلے میں ہی آپؐ سرخ قبہ پہنے منادیٔ توحید کر رہے تھے کہ ایک شخص نے آپؐ پر پتھر برسانے شروع کر دیے جس سے آپؐ کی پنڈلیاں اور ٹخنے لہولہان ہوگئے۔

(سیرت الحلبیہ جزء1 صفحہ354)

آپؐ کو اپنے اصحاب اور خاندان سمیت شعب ابی طالب میں محصور کرکے بنیادی حقوق تک سلب کرلیے گئے۔ اسی دوران حضرت خدیجہؓ اور آپ کے مخلص چچا حضرت ابوطالب کی وفات ہوئی۔

کفار مکہ کی ظلم و زیادتی کی انتہا پر ایک روز بے بس صحابہؓ نے آپؐ کی خدمت میں آکر عرض کیا کہ یارسول اللہؐ! جب ہم مشرک تھے تو معززین میں شمار ہوتے تھے اور جب ہم ایمان لائے تو ہمیں ذلیل کیا گیا اس پر آپﷺ نے انہیں صبر کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا:

اِنّیْ اُمِرْتُ بِا لْعَفْوِ فَلَا تُقَاتِلُوْا کہ مجھے عفو کا حکم ہوا ہے۔ اس لئے تم لڑائی سے بچو۔

نہیں نہیں ایسا نہ کرو

10نبوی میں آپؐ دعوت الی اللہ کی خاطر طائف گئے وہاں بنوثقیف کے سرداروں نے آپ کی دعوت کو قبول نہ کیا اور آپ کے پیچھے بدتہذیب لڑکوں کو لگا دیا کہ وہ آپ کو طائف سے نکال دیں۔ ان شریروں نے آپ پر آوازے کسے اور گالیاں دیں جس پر لوگ اکٹھے ہوگئے اور آپؐ پر پتھر برسانے لگے۔ آپؐ تھکاوٹ سے بیٹھتے تو وہ آپ کو زبردستی کھڑا کر دیتے۔ آپ کے ساتھی حضرت زید بن حارثہؓ نے آپ کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی اور سر پر پتھر لگنے سے زخمی بھی ہوئے۔ اس پتھراؤ کے نتیجے میں رسول اللہﷺ کی پنڈلیاں لہولہان ہوگئیں اور خون بہ کر جوتوں میں جم گیا اور سخت تکلیف کا باعث بنا۔ لیکن آپؐ نے یہاں بھی کمال صبر کا مظاہرہ کیا۔ جب آپؐ قرن الثعالب پہنچے تو حضرت جبرئیلؑ آپ کی خدمت میں تشریف لائے اور فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی قوم کا آپ سے کیا گیا سلوک دیکھ لیا ہے اور پہاڑوں کا فرشتہ بھجوایا ہے۔ آپ اسے جو حکم دیں گے یہ بجالائے گا۔ چنانچہ پہاڑوں کے فرشتے نے سلام کرکے کہا کہ آپ جو حکم دیں گے میں وہ کروں گا اگر آپ چاہیں تو میں یہ دونوں پہاڑ ان پر گرادوں۔

آپؐ نے نہایت عفو ورحم کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ نہیں نہیں ایسا نہ کرو مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسل میں سے ایسے لوگ ضرور پیدا کرے گا جو خدائے واحد کے پرستار ہوں گے اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔

(بخاری کتاب بدء الخلق، سیرت ابن ہشام جزء1صفحہ421)

رسول اللہﷺ نے طائف میں گزرے مشکل ترین دن کو غزوۂ احد والے دن سے زیادہ تکلیف دہ بیان فرمایا۔ جبکہ غزوۂ احد میں آپؐ کے دو دندان مبارک شہید ہوئے اور آپؐ شدید زخمی ہوئے پھر بھی آپ نے اپنے دشمنوں کے خلاف بددعا اور لعنت نہ فرمائی۔

قریش مکہ نے دارالندوہ میں جمع ہوکر آپ کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا۔

ہجرت مدینہ کے بعد بھی کفار مکہ نے چین سے نہ بیٹھنے دیا۔ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے کفار کے معاشی و معاشرتی، دینی و دنیاوی ظلم کی چکی میں پسنے والے مسلمانوں کو اپنے دفاع اور مظلوم مسلمانوں کی مدد کی خاطر جنگ کرنے کی اجازت مل گئی۔

جنگ احد میں جب مسلمانوں کو نقصان پہنچا اور حضورﷺ بھی زخمی ہو گئے تو کسی نے حضورﷺ کی خدمت میں مخالفین اسلام کے خلاف بد دعا کرنے کی درخواست کی تو آپﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے لعنت ملامت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا بلکہ اس نے مجھے خدا کا پیغام دینے والا اور رحمت کرنے والا بنا کر بھیجا ہے۔ اس کے بعد حضورﷺ نے اللہ کے حضور یہ دعا کی کہ اے اللہ میری قوم کو ہدایت دے دے کیونکہ وہ حقیقت سے نا آشنا ہیں۔

(شعب الایمان للبیہقی)

اسی طرح ایک اور روایت میں ہے کہ
حضورﷺ نے اللہ کے حضور یہ التجا کی کہ اے اللہ! میری قوم کو بخش دے کیونکہ وہ لاعلمی کی وجہ سے اسلام کی مخالفت کر رہی ہے۔

(المعجم الکبیر للطبرانی)

غزوہ احد کے بعد مکہ میں سخت قحط پڑا اور اہل مکہ خصوصاً غرباء سخت تکلیف میں مبتلا ہوگئے۔ آنحضرتﷺ کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپؐ نے ازراہ ہمدردی مکہ کے غرباء کے لئے اپنی طرف سے کچھ چاندی بھجوائی اور اس بات کا عملی ثبوت دیا کہ آپؐ کا دل اپنے سخت ترین دشمنوں کے ساتھ بھی حقیقی ہمدردی رکھتا ہے

مدافعتی جنگوں میں آپؐ نے ایسا اسوۂ حسنہ قائم فرمایا جو آئندہ دنیا کی تمام قوموں کے لیے ایک مثال بنا۔ قرآنی احکام کے مطابق دشمنوں اور دشمنی کو ختم کرنے کے لئے عدل وانصاف پر مبنی معاہدات اور امان نامے لکھے ۔ یہود، نصاریٰ اور قریش مکہ سب کو دینی و دنیوی معاملات میں عدل و انصاف کا حق دیا۔ میثاقِ مدینہ اور صلح حدیبیہ کی شرائط برابری کی سطح پر طے کی گئیں۔

ہم اس سے ضرور اچھا برتاؤ کریں گے

رئیس المنافقین عبد اللہ ابی سلول کے جرائم کی فہرست بہت طویل ہے۔ وہ ہر موقع پر اسلام اور بانیٔ اسلام کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتا۔ آنحضرتؐ کی شان میں برملا سخت گستاخی کرتا۔

ایک دفعہ حضرت عمرؓ نے آنحضرتؐ سے اجازت چاہی کہ اُس کی گردن اڑادیں۔ لیکن آپؐ نے فرمایا: عمر جانے دو۔ کیا تم اس بات کو پسند کرتے ہوکہ لوگوں میں یہ چرچا ہوکہ محمدؐ اپنے ساتھیوں کو قت کرواتا پھرتا ہے۔

جب اس کے بیٹے حضرت عبد اللہ بن ابیؓ جو مخلص مسلمان تھے کو یہ اطلاع ملی تو وہ آنحضورؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ اگر آپؐ چاہیں تو مَیں اپنے باپ کا سر کاٹ کر آپؐ کے قدموں میں لاڈالوں۔ آپؐ نے فرمایا
نہیں وہ تمہارا باپ ہے اس سے نیکی اور احسان کا سلوک کرو۔

(مجمع الزوائد لھیثمی جلد1 صفحہ301)

ایک دفعہ عبداللہ بن ابی نے کہا تھا لَیُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْہَا الْأَذَلَّ۔ یعنی عزت والا شخص یا گروہ ذلیل شخص یا گروہ کو اپنے شہر سے باہر نکال دے گا تو حضرت عبداللہ ؓنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ! وہی ذلیل ہے اور آپ ہی عزیز ہیں۔ خود بیٹے نے اپنے باپ کے بارے میں کہا۔

(الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جزء ثالث صفحہ941 ’’عبد اللہ بن عبد اللہ انصاری‘‘ دار الجیل بیروت)

ایک دفعہ حضرت عبداللہؓ نے اپنے والد عبداللہ بن ابی کا راستہ روک لیا اور اپنے والد سے کہنے لگے کہ جب تک تم یہ اقرار نہیں کرتے کہ تُو ذلیل ترین اور محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) عزیز ترین ہیں تب تک مَیں تجھے نہیں چھوڑوں گا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پاس سے گزرے تو آپؐ نے فرمایا اسے چھوڑ دو۔ میری عمر کی قسم! ہم اس سے ضرور اچھا برتاؤ کریں گے جب تک یہ ہمارے درمیان زندہ ہے۔

(الطبقات الکبریٰ جزء2 صفحہ50 غزوۃ رسول اللّٰہ المریسیع، دارالکتب العلمیۃ بیروت 1990ء)

غزوۂ بنو مصطلق سے واپسی پر افک کا واقعہ پیش آیا جس میں حضرت عائشہؓ کی ذات پر گندے اور انتہائی تکلیف دہ الزامات لگائے گئے تھے اس کا بانی مبانی بھی یہی ظالم شخص تھا۔ لیکن آپؐ کی فراخ دلی دیکھئے کہ جب وہ فوت ہؤا تو اس کے لئے اپنی قمیض عطا کی اور فرمایا کہ جب تم لوگ تجہیز و تکفین کے معاملات سے فارغ ہو جاؤ تو مجھے بلا لینا۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نمازِ جنازہ پڑھنے لگے تو حضرت عمرؓ نے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو منافقین کی نمازِ جنازہ سے منع کیا ہے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے اختیار دیا گیا ہے کہ مَیں ان کے لیے استغفار کروں یا نہ کروں۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نمازِ جنازہ پڑھائی پھر جب اللہ تعالیٰ نے ایسے افراد کی نمازِ جنازہ نہ پڑھنے کی کلیةً ممانعت فرما دی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے منافقین کی نمازِ جنازہ پڑھانی بند کر دی۔

(الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب جزء ثالث صفحہ941 ’’عبد اللہ بن عبد اللہ انصاری‘‘ دار الجیل بیروت)

یہ بھی روایت ہے کہ جب آپؐ پہنچے تو اس کو قبر میں رکھا جا چکا تھا۔ آپؐ نے باہر نکلوایا۔ اپنی ٹانگوں پر اس کا سر رکھا اور پھر اپنا لعاب دہن اس کے منہ میں ڈالا اور پھر دعا کی اور قمیض کرتہ اتار کے دیا۔

(صحیح بخاری کتاب الجنائز باب ھل یخرج المیت من القبر حدیث نمبر 1350)

عاشق جان نثار میں بدلا، پیاسا تھا جوخارلہو کا

اسلام کے ایک اور دشمن کا نام ثمامہ بن اثال تھا جو قبیلہ بنوحنیفہ کا ایک بااثر رئیس تھا۔ کئی بے گناہ مسلمانوں کے قتل کا مجرم تھا۔ آخر مسلمانوں کے ہاتھوں قید ہوا تو آنحضورﷺ نے اسے مسجد نبوی کے صحن میں ایک ستون سے باندھنے کا ارشاد فرمایا۔ غرض یہ تھی کہ نمازوں کے روحانی نظاروں سے متأثر ہو کر وہ اسلام کی طرف مائل ہوجائے۔ آپؐ ہر روز صبح ثمامہ کے قریب تشریف لے جاکر دریافت فرماتے کہ ’’ثمامہ! اب کیا ارادہ ہے؟‘‘۔ وہ جواب دیتا: ’’اے محمدؐ! اگر آپ مجھے قتل کردیں تو آپؐ کو اس کا حق ہے کیونکہ میرے خلاف خون کا الزام ہے لیکن اگر آپ احسان کریں تو آپؐ مجھے شکرگزار پائیں گے۔ اور اگر آپ فدیہ لینا چاہیں تو میں اس کے لئے تیار ہوں‘‘۔ تین دن یہ سوال وجواب ہوتا رہا۔ اور پھر آپؐ نے اُسے آزاد کرنے کا ارشاد فرمایا۔ وہ مسجد سے نکل کر ایک باغ میں گیا اور نہا دھو کر واپس آکر آنحضرتؐ سے عرض کیا: یا رسول اللہ! ایک وقت تھا کہ مجھے تمام دنیا میں آپؐ کی ذات سے اور آپ کے دین اور آپ کے شہر سے سب سے زیادہ دشمنی تھی لیکن اب مجھے آپؐ کی ذات اور آپ کا دین اور آپ کا شہر سب سے زیادہ محبوب ہے۔

مکہ فتح ہوا ۔ وہ جو جانی د شمن تھے جن کی وجہ سے مکہ چھوڑنا پڑا تھا یہ لوگ اپنے گھناؤنے جرائم کی وجہ سے واجب القتل تھے اور آپؐ کے رحم و کرم پر تھے آپ نے ’’لاتثریب علیکم الیوم‘‘ آج تم پر کوئی ملامت نہیں۔ آج تم سے کوئی مواخذہ نہیں کیا جائے گا فرما کر اپنے جانی دشمنوں کو معاف کردیا۔ اس عظیم الشان معافی کی مثال تاریخ عالم اور تاریخ انبیاء میں بھی نہیں ملتی۔

زہر دے کر مارنے کی سازش

فتح خیبر کے بعد مفتوح یہودیوں نے درخواست کی کہ ہمیں یہاں سے نہ نکالا جائے، ہم نصف پیداوار مسلمانوں کے حوالے کر دیا کریں گے، حضورﷺ نے قبول فرما لیا۔ مگر یہودی بد عہدی کرتے رہے حتیٰ کہ ایک یہودی عورت نے حضور ﷺ کو زہر ملا گوشت کھلا کر جان لینے کی کوشش کی۔ اور حضور ﷺ کے استفسار پر اس نے قبول بھی کرلیا کہ بے شک میری نیت آپ کو قتل کرنا تھی، آپ ﷺ نے فرمایا مگر اﷲ کی منشاء نہ تھی کہ تیری آرزو پوری ہوجائے۔ صحابہؓ نے اسے قتل کرنا چاہا تو آپ ﷺ نے منع فرما دیا، حضور ﷺ نے جب اس عورت سے پوچھا کہ تمہیں اس ناپسندیدہ فعل پر کس بات نے آمادہ کیا تو اس نے جواب دیا، میری قوم سے آپ ﷺ کی لڑائی ہوئی تھی، میرے دل میں آیا کہ آپ ﷺ کو زہر دے دیتی ہوں اگر واقعی آپ نبی ہوئے تو بچ جائیں گے۔ رسول ﷺ کو اس زہر سے آخری وقت تک تکلیف رہی آپؐ مرض الموت میں آخری سانس لے رہے تھے تو حضرت عائشہؓ سے فرمانے لگے اے عائشہ! میں اب تک اس زہر کی اذیت محسوس کرتا رہا ہوں جو خیبر میں یہودیوں نے مجھے دیا تھا اور اب بھی میرے بدن میں اس زہر کے اثر سے کٹاؤ اور جلن کی کیفیت ہے۔ مگر رسول اللہؐ اپنی ذات کے لئے کسی سے انتقام نہیں لیا کرتے تھے۔ آپؐ نے اس پر بھی یہود کو بخش دیا اور اس عورت کو معاف کردیا۔

(صحیح بخاری کتاب المغازی باب مرض النبیؐ وفاتہ)

ایک موقع پر ایک یہودی نے حضور اکرم ﷺ سے قرض کی ادائی میں سختی کرتے ہوئے گستاخی کے کلمات کہے اور حضور ﷺ کے گلے میں چادر ڈال کر بل دیا، آپ ﷺ کی رگیں ابھر آئیں، حضرت عمرؓ نے بڑی سختی سے یہودی کو ڈانٹا، مگر آپؐ نے حضرت عمر سے فرمایا تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا، تمہیں چاہیے تھا کہ اسے نرمی سے سمجھاتے، اورمجھے قرض ادا کرنے کا کہتے اب اس کا قرض ادا کرتے ہوئے اس سخت کلامی کے تاوان کے طور پر اس کو کچھ زیادہ دینا۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’خدا تعالیٰ نے عدل کے بارے میں جو بغیر سچائی پر پورا قدم مارنے کے حاصل نہیں ہو سکتی، فرمایا ہے لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی (المائدہ: 9) یعنی دشمن قوموں کی دشمنی تمہیں انصاف سے مانع نہ ہو۔ انصاف پر قائم رہو کہ تقویٰ اسی میں ہے۔ اب آپ کو معلوم ہے کہ جو قومیں ناحق ستاویں اور دُکھ دیویں اور خونریزیاں کریں اور تعاقب کریں اور بچوں اور عورتوں کو قتل کریں، جیسا کہ مکّہ والے کافروں نے کیا تھا اور پھر لڑائیوں سے باز نہ آویں، ایسے لوگوں کے ساتھ معاملات میں انصاف کے ساتھ برتاؤ کرنا کس قدر مشکل ہوتا ہے۔ مگر قرآنی تعلیم نے ایسے جانی دشمنوں کے حقوق کو بھی ضائع نہیں کیا اور انصاف اور راستی کے لئے وصیت کی…مَیں سچ سچ کہتا ہوں کہ دشمن سے مدارات سے پیش آنا آسان ہے مگر دشمن کے حقوق کی حفاظت کرنا اور مقدمات میں عدل اور انصاف کو ہاتھ سے نہ دینا یہ بہت مشکل اور فقط جوانمردوں کا کام ہے۔

(نور القرآن نمبر2، روحانی خزائن جلد9 صفحہ409)

ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ کو کسی قوم سے خوف ہوتا تو یہ دعا پڑھتے:

اَللّٰهُمَّ إنَّا نَجْعَلُكَ في نُحُورِهِمْ، وَنَعُوذُ بِكَ مِنْ شُرُورِهِمْ

ترجمہ: اے اللہ! ہم تجھ کو ان کے سامنےکرتے ہیں اور تیرے ذریعے ان کی شرارتوں (برائیوں) سے پناہ مانگتے ہیں۔

اخلاق محمدی کا کامل پَرتَو

حضرت مسیح موعودؑ اخلاقِ محمدی ﷺ کا کامل پَرتَو تھے آپؑ نے اُس سراجِ منیر سے روشنی کا ایسا اکتساب کیا کہ خود بدرِ کامل بن گئے۔ اور دور حاضر میں آپؐ کی سنت کا احیا کرکے دکھایا دشمن کو معاف کرنے اس کے حق میں دعا کرنے اور تالیف قلوب کے لئے حسن سلوک کرنے میں خلق محمدیؐ کا عکس نظر آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو بھی فرمایا تھا
وَمَاۤ اَرۡسَلۡنٰکَ اِلَّا رَحۡمَۃً لِّلۡعٰلَمِیۡنَ اور میں نے تجھے اس لئے بھیجا ہے کہ تا سب لوگوں کے لئے رحمت کا سامان پیش کروں۔

(براہین احمدیہ حصہ چہارم، روحانی خزائن جلد1 صفحہ603)

’’تَلَطَّف بالناسِ وَ ترحَّم عَلَیھم یعنی تو لوگوں کے رفق اور نرمی سے پیش آ اور ان پر رحم کر۔

(براہین احمدیہ حصہ چہارم، روحانی خزائن جلد1 صفحہ605)

خدا کی عدالت کافی ہے

میرٹھ سے احمد حسین شوکت نے ایک اخبار شحنۂ ہند جاری کیا ہوا تھا۔ یہ شخص اپنے آپ کو مجدد السنۃ المشرقیہ کہا کرتا تھا۔ حضرت مسیح موعودؑ کی مخالفت میں اس نے اپنے اخبار کا ایک ضمیمہ جاری کیا جس میں ہر قسم کے گندے مضامین مخالفت میں شائع کرتا۔ اور اس طرح پر جماعت کی دل آزاری کرتا۔ میرٹھ کی جماعت کو خصوصیت سے تکلیف ہوتی۔ کیونکہ وہاں سے ہی وہ گندہ پرچہ نکلتا تھا۔ 2؍اکتوبر 1902ء کا واقعہ ہے کہ میرٹھ کی جماعت کے پریذیڈنٹ جناب شیخ عبدالرشید صاحب جو ایک معزز زمیندار اور تاجر ہیں تشریف فرما تھے۔ حضرت اقدسؑ کی خدمت میں عرض کیا کہ مَیں نے ارادہ کیا ہے کہ ضمیمہ شحنۂ ہند کے توہین آمیز مضامین پر عدالت میں نالش کر دوں۔ حضرت حجۃ اللہ نے فرمایا ’’ہمارے لئے خدا کی عدالت کافی ہے۔ یہ گناہ میں داخل ہو گا اگر ہم خدا کی تجویز پر تقدم کریں۔ اس لئے ضروری ہے کہ صبر اور برداشت سے کام لیں۔‘‘

(ماخوذ ازسیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام مصنفہ شیخ یعقوب علی عرفانیؓ صفحہ108-109)

29 جنوری 1904ء کا واقعہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حضور ایک گالیاں دینے والے اخبار کا تذکرہ آیا کہ فلاں اخبار جو ہے بڑی گالیاں دیتا ہے۔ آپ نے فرمایا صبر کرنا چاہئے۔ ان گالیوں سے کیا ہوتا ہے۔ آپؑ نے فرمایا کہ ایسا ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت کے لوگ آپ کی مذمت کیا کرتے تھے اور آپ کو نعوذ باللہ مذمّم کہا کرتے تھے۔ تو آپؐ ہنس کر فرمایا کرتے تھے کہ مَیں ان کی مذمت کو کیا کروں۔ میرا نام تو اللہ تعالیٰ نے محمدؐ رکھا ہوا ہے (صلی اللہ علیہ وسلم)۔ فرمایا کہ اسی طرح اللہ نے مجھے بھیجا ہے اور اللہ تعالیٰ نے مجھے اور میری نسبت فرمایا ہے، یَحْمَدُکَ اللّٰہ مِنْ عَرْشہٖ یعنی اللہ اپنے عرش سے تیری حمد کرتا ہے، تعریف کرتا ہے

(ماخوذازسیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام مصنفہ شیخ یعقوب علی عرفانیؓ صفحہ450)

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں کہ
’’مجھے چودھری حاکم علی صاحب نے بتایا کہ ایک دفعہ حضرت صاحبؑ بڑی مسجد میں کوئی لیکچر یا خطبہ دے رہے تھے کہ ایک سکھ مسجد میں گھس آیا اور سامنے کھڑا ہو کر حضرت صاحب کو اور آپ کی جماعت کو سخت گندی اور فحش گالیاں دینے لگا۔ اور ایسا شروع ہوا کہ بس چُپ ہونے میں ہی نہ آتا تھا۔ مگر حضرت صاحب خاموشی کے ساتھ سنتے رہے۔ اس وقت بعض طبائع میں اتنا جوش تھا کہ حضرت صاحب کی اجازت ہوتی تو اس کی وہیں تکہ بوٹی اُڑ جاتی۔ مگر آپ سے ڈر کر سب خاموش تھے۔ آخر جب اس فحش زبانی کی حد ہو گئی تو حضرت صاحب نے فرمایا۔ دو آدمی اسے نرمی سے پکڑ کر مسجد سے باہر نکال دیں مگر اسے کچھ نہ کہیں۔ اگر یہ نہ جاوے تو حاکم علی سپاہی کے سپرد کر دیں‘‘

(سیرت المہدی جلد اول حصہ اول صفحہ257-258 روایت نمبر281جدید ایڈیشن)

’’ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک جو امرتسر کے میڈیکل مشن کے مشنری تھے اورمباحثہ آتھم میں عیسائیوں کی جانب سے پریذیڈنٹ تھے ایک دن خود بھی مناظر رہے انہوں نے 1897ء میں حضرت مسیح موعودؑ کے خلاف ایک مقدمہ اقدام قتل کا دائر کیا۔ یہ مقدمہ کچھ عرصہ تک چلتا رہا اور بالآخر محض جھوٹا اور بناوٹی پایا گیا اور حضرت اقدسؑ عزت کے ساتھ اس مقدمہ میں بَری ہوئے …کپتان ڈگلس ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ گورداسپور نے حضرت اقدسؑ کو مخاطب کر کے کہا کہ ’’کیا آپ چاہتے ہیں کہ ڈاکٹر کلارک پر مقدمہ چلائیں اگر آپ چاہتے ہیں تو آپ کو حق ہے۔حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا: ’’میں کوئی مقدمہ کرنا نہیں چاہتا ۔ میرا مقدمہ آسمان پر دائر ہے۔‘‘

اس موقع پر اگر کوئی دوسرا آدمی ہوتا جس پر قتل کے اقدام کا مقدمہ ہو وہ اپنے دشمن سے ہر ممکن انتقام لینے کی کاشش کرتا مگر حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے دشمنوں کو معاف کرو کی تعلیم پر صحیح عمل کرکے دکھایا۔

(ماخوذازسیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام مصنفہ شیخ یعقوب علی عرفانیؓ صفحہ109)

مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب مقدمہ ڈاکٹر کلارک میں عیسائیوں کے گواہ کی حیثیت سے عدالت میں پیش ہوئے تو حضرت اقدسؑ کے وکیل مولوی فضل الدین صاحب نے جرح کے دوران گواہ سے ایسے سوالات کرنے چاہے جو مولوی صاحب کی عزت و آبرو کو خاک میں ملا دیتے۔ لیکن حضورؑ نے باصرار اور بزور ایسا کرنے سے روک دیا۔

میرا مقدمہ آسمان پر ہے

حضرت مسیح موعودؑ کے چچا زاد بھائیوں میں سے مرزا امام الدین نے اپنے دوسرے بھائیوں کے ساتھ مل کر اس راستہ کو جو بازار اور مسجد مبارک کا تھا ایک دیوار کے ذریعہ بند کر دیا۔ سب نمازیوں کو پانچ وقت مسجد مبارک میں جانے کے لئے حضرت اقدس کے مکانات کا چکر کاٹ کر آنا پڑتا۔ جماعت میں بعض کمزور اور ضعیف العمر انسان بھی تھے۔ بعض نابینا تھے اور بارشوں کے دنوں میں راستہ میں کیچٹر ہوتا تھا اور بعض بھائی اپنے مولیٰ حقیقی کے حضور نماز کے لئے جاتے ہوئے گر پڑتے تھے اور ان کے کپڑے گارے کیچٹر میں لت پت ہو جاتے تھے۔ اُن تکلیفوں کا تصور بھی آج مشکل ہے جبکہ احمدیہ چوک میں پکے فرش پر سے احباب گزرتے ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ اپنے خدام کی ان تکالیف کو دیکھ کر بہت تکلیف محسوس کرتے تھے۔ مگر کچھ چارہ سوائے اس کے نہ تھا کہ حضرت ربّ العزت کے سامنے گڑگڑائیں۔ آخر مجبوراً عدالت میں جانا پڑا اور عدالت کے فیصلہ کے موافق خود دیوار بنانے والوں کو اپنے ہی ہاتھ سے دیوار ڈھانی پڑی۔ عدالت نے نہ صرف دیوار گرانے کا حکم دیا بلکہ ہرجانہ اور خرچہ کی ڈگری بھی فریق ثانی پر کر دی۔ ۔ ۔مرزا نظام الدین صاحب کو نوٹس ملا تو انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو معافی کا ایک خط لکھا۔ حضرت اقدسؑ نے دیوار کی تکلیف اٹھائی ہوئی تھی مگر کمال رحم سے اسے معاف کر دیا فرمایا کہ ’’آئندہ کبھی اس ڈگری کو اجرا نہ کرایا جاوے۔ ہم کو دُنیا داروں کی طرح مقدمہ بازی اور تکلیف دہی سے کچھ کام نہیں۔ انہوں نے اگر تکلیف دینے کے لئے یہ کام کیا تو ہمارا یہ کام نہیں ہے۔ خدا تعالیٰ نے مجھے اس غرض کے لئے دُنیا میں نہیں بھیجا۔‘‘

(خلاصہ ازسیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام مصنفہ شیخ یعقوب علی عرفانیؓ صفحہ118-119)

حضرت حکیم فضل الدینؓ کے ساتھ قادیان کے ایک جو لاہا نے (جو ہمیشہ مقدمہ بازی ضروری سمجھتا تھا) ایک زمین کے متعلق …مقدمہ بازی شروع کر دی۔ وہ جگہ دراصل حضرتؑ ہی کی تھی، حکیم فضل الدین صاحب کو دے دی گئی سو اس جولاہا نے حکیم صاحب مرحوم کے خلاف ایک مقدمہ دائر کر دیا ۔ چونکہ حضرت اقدسؑ پسند نہ فرماتے تھے کہ شرارتوں کا مقابلہ کیا جاوے، آپ نے حکیم فضل الدین صاحب کو حکم دیا کہ جوابدہی چھوڑ دو۔ زمینوں کی پروا نہیں خدا تعالیٰ چاہے گا تو آپ ہی دے دے گا، زمین خدا کی ہے۔مرزا نظام الدین صاحب کو جب معلوم ہوا تو انہوں نے کہلا بھیجا کہ آپ اپنے حق کو تو چھوڑ تے ہیں،

چنانچہ انہوں نے ایک پرامیسری نوٹ بھی لکھ کر بھیج دیا۔ حضرتؑ نے فرمایا کہ مرزا نظام الدین صاحب ہی کو یہ ٹکڑا زمین کا دے دیا جاوے۔ چنانچہ وہ قطعہ زمین کا دے دیا گیا۔ جو بعد میں مرزاصاحب موصوف نے ایک معقول قیمت پر حضرت کے ایک خادم کے ہاتھ فروخت کر دیا۔ مگر حضرت نے کبھی اس زمین کی قیمت یا پرامیسری نوٹ کی رقم کا مطالبہ نہ فرمایا۔ اس لئے کہ آپ کی فطرت میں ہی احسان و مروّت رکھی گئی تھی۔

یہ واقعہ ایسے وقت کا ہے کہ اس مقدمہ کی کل کارروائی ختم چکی تھی ۔حضرت مسیح موعودؑ کو بھی فریق ثانی نے بطور شہادت طلب کرایا تھا اور اس طرح پر آپ کو اور آپ کی جماعت کو تکلیف رسانی میں کمی نہ کی تھی۔ مقدمہ کی حالت یہ تھی کہ اس میں اب حکم سنانا باقی تھا اور وہ ہمارے حق میں تھا۔ مگر آپ نے ایسے وقت میں اس زمین کو مرزا نظام الدین صاحب کے عرض کرنے پر ان کو دے دیا۔

امر واقعہ کے طور پر یہ لکھنے پر مجبور ہوں کہ سلسلہ کے ابتدائی ایّام میں مرزا نظام الدین صاحب اور اُن کے زیر اثر لوگوں کی وجہ سے ہماری جماعت کو ایسی تکالیف پہنچ چکی تھیں کہ قدرتی طور پر کوئی دُنیا دار اُن کے مقابلہ میں ہوتا تو اُن کی تکلیف اور ایذاءر سانی کے لئے منتقمانہ طور پر جو چاہتا کرتا مگر نہیں حضرت مسیح موعودؑ کو جب موقع ملا اور اُن پر ایک اقتدار حاصل ہوا تو آپ نے اس طرح لَاتَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ کہہ دیا ۔جس طرح پر سیدالرسل ﷺ نے فتح مکہ کے دن فرمایا تھا۔

(ازسیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام مصنفہ شیخ یعقوب علی عرفانیؓ صفحہ119-120)

دشمن کے لئے دعا

میرا تو یہ مذہب ہے کہ دشمن کے لئے دعا کرنا یہ بھی سنت نبوی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اسی سے مسلمان ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے لئے اکثر دعا کیا کرتے تھے۔ اس لئے بخل کے ساتھ ذاتی دشمنی نہیں کرنی چاہئے۔ اور حقیقۃً موذی نہیں ہونا چاہیے شکر کی بات ہے کہ ہمیں اپنا کوئی دشمن نظر نہیں آتا جس کے واسطے دو تین مرتبہ دعا نہ کی ہو۔ ایک بھی ایسا نہیں اور یہی میں تمہیں کہتا ہوں اور سکھاتا ہوں۔ خدا تعالیٰ اس سے کہ کسی کو حقیقی طور پر ایذا پہنچائی جاوے اور ناحق بخل کی راہ سے دشمنی کی جاوے، ایسا ہی بیزار ہے جیسے وہ نہیں چاہتا کہ کوئی اس کے ساتھ ملایا جاوے۔ ایک جگہ وہ فصل نہیں چاہتا اور ایک جگہ وصل نہیں چاہتا۔ یعنی بنی نوع کا باہمی فصل اور اپنا کسی غیر کے ساتھ وصل۔ اور یہ وہی راہ ہے کہ منکروں کے واسطے بھی دعا کی جاوے۔ اس سے سینہ صاف اور انشراح پیدا ہوتا ہے اور ہمت بلند ہوتی ہے۔ اس لئے جب تک ہماری جماعت یہ رنگ اختیار نہیں کرتی۔ اس میں اور اس کے غیر میں پھرکوئی امتیاز نہیں ہے۔ میرے نزدیک یہ ضروری امر ہے۔ کہ جو شخص ایک کے ساتھ دین کی راہ سے دوستی کرتا ہے اور اس کے عزیزوں سے کوئی ادنیٰ درجہ کاہے تو اس کے ساتھ نہایت رفق اور ملائمت سے پیش آنا چاہیے ۔اور ان سے محبت کرنی چاہیے کیونکہ خدا کی یہ شان ہے۔

(ملفوظات جلد سوم صفحہ95-97 ایڈیشن 1984ء)

آنحضرتؐ کے خلاف شدید بدزبانی کرنے والا جب خدا کی وعید کے مطابق جان سے گیا تو آپؑ نے فرمایا: ’’ایک انسان کی جان جانے سے تو ہم دردمند ہیں اور خدا کی ایک پیشگوئی پوری ہونے سے ہم خوش بھی ہیں۔ کیوں خوش ہیں؟ صرف قوموں کی بھلائی کےلئے۔ کاش وہ سوچیں اور سمجھیں کہ اس اعلیٰ درجہ کی صفائی کے ساتھ کئی برس پہلے خبر دینا یہ انسان کا کام نہیں ہے۔ ہمارے دل کی اس وقت عجیب حالت ہے۔ درد بھی ہے اور خوشی بھی۔ درد اس لئے کہ اگر لیکھرام رجوع کرتا زیادہ نہیں تو اتنا ہی کرتا کہ وہ بدزبانیوں سے باز آجاتا تو مجھے اللہ تعالیٰ کی قسم ہے کہ میں اس کےلئے دعا کرتا۔ اور میں امید رکھتا تھا کہ اگر وہ ٹکڑے ٹکڑے بھی کیا جاتا تب بھی زندہ ہوجاتا۔‘‘

(سراج منیر، روحانی خزائن جلد12 صفحہ28)

گالیاں سن کے دعا دیتا ہوں اِن لوگوں کو
رحم ہے جوش میں اور غیظ گھٹایا ہم نے
تیرے منہ کی ہی قسم میرے پیارے احمدؐ
تیری خاطر سے یہ سب بار اُٹھایا ہم نے

(آئینہ کمالاتِ اسلام صفحہ224 مطبوعہ 1893ء)

(امۃ الباری ناصر۔ امریکہ)

پچھلا پڑھیں

پاکستان، الجزائر اور افغانستان کے احمدیوں کے لئے دعا کی تازہ تحریک

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 جون 2022