• 18 مئی, 2024

ایڈیٹر کے نام خطوط

•مکرمہ رضیہ بیگم ۔نیویارک سے لکھتی ہیں ۔
الفضل اخبار اللہ کے فضل سے روز افزوں ترقی کی منازل پر رواں دواں ہے اور قارئین کے لئے ایک عمدہ علمی اور روحانی مائدہ ہے۔اس میں شائع ہونے والے حضرت مسیح موعود کے اقتبا سات اور سب مضامین کی الگ الگ شان اور تاثیر ہے اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا یہ الہام کہ ’’میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور سے اور اپنے دلائل اور نشانوں کی رو سے سب کا منہ بند کر دیں گے اور ہر ایک قوم اس چشمہ سے پانی پیئے گی۔‘‘

(تجلیات الہیہ، روحانی خزائن جلد20 صفحہ409-410)

اس رنگ میں بھی پورا ہوتا نظر آتا ہے کہ سب لکھنے والے علم اور دلائل سے اپنا مدعا بیان کرتے ہیں اور ’’روحانی بگھار‘‘ سے اپنی تحریر میں ایک نیا رنگ بھرتے ہیں تو کہیں روحانی ترقی کے ساتھ ساتھ ہمارے بچپن اور زمانہ طالب علمی کی حسین یادوں کوظرافت کے تڑکے سے خوب لبھاتے ہیں۔ جس سے نہ صرف ہم (احمدی) بلکہ دوسرے بھی حظ اٹھاتے ہیں۔ جہاں یہ تحریریں ہمارے دل و دماغ کو سرور بخشتی ہیں وہاں ہمیں ہمارے ماضی سے بھی جوڑے رکھتی ہیں مثلاً امة الباری صاحبہ کا مضمون ’’نایاب ہوتے پانی کی قدر کریں‘‘ واقعاتی طور پر کچھ نہ کچھ ہماری کہانی بھی ہے کہ نلکے کا ہینڈل چھٹ جانے سے انگلی پر زخم کا نشان ابھی بھی ہے۔لائن میں کھڑے ہو کر پانی بھرنے کے لئے اپنی باری کا انتظار کرنا، خشک جھاڑیاں اور کیکر کی لکڑیاں اکھٹی کر کےتنور گرم کرنا اور سردیوں میں پانی گرم کرنے کے لئے چولہے میں آگ جلانا، سکول سے آتے ہوئے ابا جان (مرحوم) کے ساتھ سائیکل کے پیچھے پرانے تولیے میں برف لپیٹ کر لانا اور گھر تک پہنچتے ہوئے برف کا آدھی رہ جانا جلدی سے برف کے ٹکڑے کر کےواٹر کولر میں ڈالنا، امی جان کا ٹھنڈا پانی بنا کر دینا اور اس وقت وہ پانی ہر نعمت سے اچھا لگنا اور اس پر اللہ کا شکر ادا کرنا و غیرہ وغیرہ ۔اللہ تعا لیٰ ہمیں اور ہماری اولادوں کو صبر و قناعت سے اپنی زندگیاں بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔ فقہی کارنر میں ہماری زندگی کے روزمرہ مسائل کاصحیح علم اور ادراک بہت ہی مفید اور علم میں اضافے کا باعث ہے۔ مثلاً رشوت کے صحیح معانی سے علم میں اضافہ ہوا۔ اللہ تعالیٰ آپ سب لکھنے والوں کو مزید کامیابیوں اور ترقیات سے نوازتا چلا جائے آمین ۔

•مکرمہ درثمین احمد ۔جرمنی سے لکھتی ہیں۔
مورخہ 25 تا 28مئی کے الفضل آن لائن کے تمام تر شمارہ جات انتہائی عمدہ تھے ۔خاص کر ان دنوں کی اشاعتوں میں شائع ہونے والے اداریے انتہائی جاندار اور سوچ کو جھنجھوڑنے والے تھے ۔کاش ہم میں سے ہر ایک ان باتوں کا لطف ہی نہ لے بلکہ انہیں اپنی عملی زندگیوں کا حصہ بھی بنانے والا ہو۔ آمین۔ ’’پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ‘‘ میں جس خوبصورت انداز میں خلافت کی شجر سے وابستگی میں ہماری بقا کو بیان کیا گیا ہے وہ قابل تعریف ہے ۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:۔ ’’وہ شاخ جو اپنے تنے اور درخت سے سچا تعلق نہیں رکھتی وہ بے پھل رہ جاتی ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد4 صفحہ233)

اس فقرے میں روحانی طور پر خلافت سے وابستگی کی جانب توجہ دلائی گئی ہے۔ اسی طرح ’’اس بجلی کو اپنے اندر سے نکلنے نہ دو‘‘ (حضرت مصلح موعودؓ) میں بھی خلافت سے پختہ تعلق کا وہ نکتہ بیان ہوا ہے جس کی بدولت ہماری اور ہماری نسلوں کی بقا کی ضمانت ہے کیونکہ مومنوں کے اندر یہ روحانی کرنٹ اس حد تک تیز ہوتا ہے کہ کوئی دشمن جب بھی اس مومن کو چھوئے گا اسے یا جھٹکا لگے گا یا منہ کے بل گر کر دور جاپڑے گا۔اور یہی حقیقت ہے جس پر تقریبا سوا سو سال پہ محیط خلافت احمدیہ کی تاریخ بطور ثبوت و گواہ کے ہے۔ پھر اداریہ ’’اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو دارالعمل اور اُخروی زندگی کو دارالجزاء قرار دیا‘‘ عنوان میں ہی مضمون کا لب لباب بیان کردیا دیا ہے ۔اس مضمون کو پڑھ کر مجھے انتظار حسین صاحب کا مضمون ’’کتبہ‘‘ جو کسی زمانے میں ہمارے تعلیمی نصاب کا حصہ ہوا کرتا تھا یاد آگیا ۔سچ ہے کہ انسان کی حقیقت یہی ہے کہ محلات کا مالک ہونے کے باوجود بھی اسے جانا اس زمین میں ہی ہے اور دو گز زمین ہی اس کا اصل مقدر ہے ۔ہاں جو چیز اس کے اس دنیا میں بھی کام آئے گی اور آخرت میں بھی اسکی شفاعت کا موجب ہو گی وہ عمل صالح ہی ہیں خدا تعالیٰ ہم سب کو نیک اعمال بجا لانے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین۔ 28مئی 2022ء کا اداریہ ’’اعلی اخلاق وعادات‘‘ بھی بہت عمدہ تھا مجھ جیسی ناقص معلومات والی کے لئے اسمیں بہت سی نئی معلومات تھیں۔ فجزاکم اللّٰہ احسن الجزاء۔

•مغفورہ درانی۔ جرمنی سے لکھتی ہیں۔
25مئی 2022ء الفضل میں جان سے پیارے آقا ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی بہت بہت ہی پیاری تصویر کے ساتھ ساتھ اپنی شائع غزل دیکھ کر بےاختیار تشکر کے الفاظ نکلے۔ اس سلسلہ میں آپ کی بھی حد درجہ مشکور ہوں ۔ جب تک الفضل پڑھ نہ لوں سکون نہیں آتا – 25مئی 2022ء کا اداریہ پڑھا بہت ہی خوبصورت مضمون باندھا ہے آپ نے اقبال کا شعر لکھ کر۔

واقعی خلافت تو ایک ایسا شجر ہے جس سے وابستہ رہ کر ہی ہم اپنی زندگی کامقصد پانے والے بن سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں شجرِ خلافت کے ساتھ ہمیشہ ہمیش وابستہ رکھے آمین۔

یہاں مجھے اپنی پیاری اور مخلص والدہ رابعہ بیگم ناصرہ مرحومہ اہلیہ محمد شفیع مرحوم کا ایک بہت ہی ایمان افروز اور خلافت سے عقیدت و محبت اور غیرت کا واقعہ بیان کرنا ہے جو ہمیشہ ہی ہم سب بہن بھائیوں کے لیے خلافت سے بے تحاشا عقیدت کا باعث بنا، الحمدللہ ۔خلافتِ ثالثہ کے دور میں میری والدہ ایک دکان پر کچھ خریداری کرنے گئیں تو اس دکان کے مالک کو نظام جماعت کے خلاف بات کرتے سنا تو میری والدہ یہ الفاظ سنتے ہی اس دکان سے خریداری کیے بغیر ہی نکل آئیں۔

اس کے بعد بہت سال مرکز مقیم رہیں مگرکبھی بھی اس دکان میں نہیں گئیں ۔اللہ تعالیٰ میرے والدین کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین اور ہم سب کو خلافت کی خاطر جان بھی قربان کرنے کی سعادت عطا فرمائے آمین

•ایک قاری لکھتے ہیں۔
28مئی 2022ء کو پھر ایک بہت اعلی اداریہ ’’اعلی اخلاق وعادات‘‘ پڑھنے کو ملا۔ جزاکم اللّٰہ۔

اس کو پڑھ کر احساس ہوا کہ خداتعالیٰ نے جو بار بار اللہ کی تخلیق پر غور کرنے کا فرمایا ہے تاکہ ہم نہ صرف اس کی قدرت کی حمد کریں بلکہ اپنی نسلوں کو اچھے حال میں چھوڑنے کے لئے اسکی بنائی ہوئی ہر شے کی قدر کریں اور حفاظت بھی کریں۔ اتنی اہم بات کی طرف توجہ دلائی آپ نے بہت شکریہ۔

ایک بات شائد آپ لندن کے موسم کی وجہ سے مکس کر گئے ہیں پاکستان میں کہتے ہیں جن مہینوں کے نام میں، ر، نہیں ہوتی ان میں مچھلی نہیں کھانی چاہئے کیونکہ عموما یہ گرم مہینے ہوتے ہیں ہمارے ہاں گرم ٹھنڈے کا تصور بہت زیادہ پایا جاتا ہےپہلے تو سردیوں گرمیوں کی خوراک میں بھی بہت فرق ہوتا تھااب آہستہ آہستہ یہ پرہیز کم ہوتے جارہے ہیں۔

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 جون 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ