یادرفتگان
میرے والدِ محترم چوہدری عبدالحفیظ مرحوم
جن سے مل کر زندگی سے عشق ہو جائے وہ لوگ
آپ نے شاید نہ دیکھے ہوں مگر ایسے بھی ہیں
مىرے والد اىک حد درجہ محبت کرنے والى شخصىت کہ جنہىں اپنى اولاد تو اولاد، اعزّاواقارب بھى ان کے اصل نام سے پکارنے کى بجائے نہاىت محبت بھرے انداز مىں ’’ابّی‘‘ پکارتے تھے۔ آپ ہمہ جہت شخصىت، زندگى کى امنگوں سے لبرىز اور مثبت سوچ سے سرشار تھے۔ ذاتى تجربات کو سبق آموز طرىق مىں بىان کرنے مىں ماہر، دوسروں کے لئے نىک اور برمحل مشوروں کا خزانہ اور چھوٹے بڑے ہر شخص کى خوشى و کامىابى مىں اىسے شرىک کہ جىسے خود آپ کى اپنى خوشى ہو۔ گوىا آپ مذکورہ بالا شعر کے جىتے جاگتے مصداق تھے۔۔۔!
ابتدائى زندگى
آپ کى ولادت پاکستان کے مردم خىز ضلع جھنگ مىں دسمبر 1940ء مىں ہوئى۔ آپ کے والدمحترم چوہدرى محمد عبداللہ اىک نہاىت شرىف النفس، محنتى، اىماندار، ذہىن اور منکسر المزاج سادہ انسان تھے ۔ ہمارے والد صاحب دراصل ہمارے عزىز دادا جان کى شخصىت کا پرتو تھے۔ خاص طور پر زبردست ىادداشت، بذلہ سنج مزاج، حس ظرافت، لسانىات پر عبور ىعنى باترجمہ قرآن، فصىح وبلیغ اردو تحرىر اور دفترى وبامحاورہ انگرىزى مىں ىکساں مہارت محض اللہ کے فضل سے ہمارے والد صاحب کو دادا جان سے وراثت مىں ودىعت ہوئى تھى۔ دادا جان مغربى پاکستان سىکرٹىرىٹ مىں سىکشن آفىسر تھے، اس لئے ملازمت کے سلسلے مىں دادا جان کى تعىناتى مختلف شہرو ں جىسے لاہور،جھنگ،ساہىوال، فىصل آباد، ڈىرہ غازى خان وغىرہ ہوتى رہى۔ ىوں والد صاحب کا بچپن مختلف شہروں مىں گزرااور مسلسل نقل مکانى کى وجہ سے آپ کے مشاہدہ و مطالعہ کى عادت پروان چڑھى ۔ والد صاحب اس دور کى ىادوں کو تربىت کے پىرائے مىں دلچسپ، مزاح سے بھرپور اور معنى خىزسبق آموز واقعات کی شکل مىں بىان کرتے۔
آپ نے مىٹرک کے امتحان مىں اپنے سکول مىں اول پوزىشن حاصل کى۔ بى ۔کام کى ڈگرى کے حصول کے بعد عملى تجربہ کے حصول کے لئے کچھ عرصہ واپڈا اور حبىب بنک مىں ملازمت کى۔ بعد ازاں پنجاب ىونىورسٹى سےاىم کام (آنرز) ڈگرى لى اور نىشنل بنک آف پاکستان مىں ملازمت اختىار کى جہاں رىٹائر منٹ تک ملازم رہے۔ آپ بنکارى کے شعبہ مىں کہنہ مشق، محنتى اور اعلىٰ درجہ مہارت کے حامل تھے، چاہے برانچ مىنىجر شپ ہو ىا بنک کے ضلعى/ڈوىژن سطح کے لاہور زونل آفس مىں 34 برانچوں کا مىنجر کرىڈٹ کا کام، سٹاف کالج کے کورسز ہوں ىا نئے ملازمىن کى تربىت و رہنمائى، اىڈوانسز ہوں ىا ضابطے کی خلاف ورزی کے معاملات (ڈسپلنرى کىسز)، انتظامى (اىڈمنسٹرىٹو) عہدہ ہو ىا قرضہ فراہمى (LOAN SANCTIONING) کىس کے معاملات مىں دورے کرنا اور تفصىلى جانچ پڑتال ۔۔۔ہر عہدہ کى ضرورىات کے موافق نگىنے کى طرح موزوں ثابت ہوتے۔ آپ کى سالانہ کارکردگى کى رپورٹس ہمىشہ شاندار رہىں جس کا بالواسطہ اظہار آپ کے افسران آپ کى ستائش مىں اکثر کرتے رہتے۔ لىکن آپ کو خدمات، محنت اور کارکردگى کے لحاظ سے ترقىات نہ ملىں۔ اگرچہ آپ نے اس بات کو اپنے احمدى ہونے سے کبھى منسلک نہ کىا اور ہمىشہ ىہى کہتے کہ پروموشن مىں تاخىر ہمارے ملک مىں عمومى ناانصافى کى فضا، آپ کى اپنى بے پناہ اىماندارى، رشوت ستانى سے نفرت اورآپ کی خوش آمد سے پرہىز کى عادت کی وجہ سے ہے۔بہرحال آپ نے جب گولڈن ہىنڈ شىک کے تحت 1998ء مىں رضاکارانہ رىٹائر منٹ لى تو آپ اسسٹنٹ وائس پرىزىڈنٹ تھے، گوکہ آپ کى صلاحىتوں، اقتصادىات کے علم اور تجربہ کى رو سے آپ اس سے کہىں اعلىٰ عہدے کے حقدار تھے۔
خلافت سے تعلق اور دىن سے محبت
اللہ تعالىٰ اور رسول اللہ سے محبت اور اسلام احمدىت کى غىرت مىں بدرجہ اتم سرشار تھے۔ کسى کو خلافت کى نافرمانى کرتے دىکھتے تو مصلحتاً خاموش رہنے کى بجائے اسى وقت تنبىہ کرتے کہ بىعت بک جانے کا نام ہے، من مانى کا نہىں۔ اسى طرح تبلىغ مىں بھى نڈر تھے۔ اکثر اپنى ملازمت کے دوستوں کو بالواسطہ ىا بلا واسطہ دىن حق اور مسىحِ وقت کا پىغام دىتے رہتے۔ آپ کا تبلىغ کا طرىق حالات اور تعلقات کى نوعىت کے لحاظ سے کئى مدارج پر مشتمل تھا۔ قرىبى دوستوں کو تو براہ راست تبلىغ کرتے لىکن ہمىشہ مناسب موقع کى تلاش مىں رہتے ہوئے۔آپ کہا کرتے تھے کہ تبلىغ اندھا دھند پىغام نہىں بلکہ مناسب وقت پر مناسب الفاظ کے انتخاب کا نام ہے۔ کئى بار جب آپ اپنے کسى غىر احمدى قرىبى دوست کو شرک جىسے عقائد، جىسے وفات کے موقع کى رسوم، جنات پرسطحی اور دىومالائى اىمان، تعوىز گنڈا، پىرى مرىدى، قبر پرستى وغىرہ سے ستاىا ہوا دىکھتے تو اسے بتاتے کہ ىہى خرابىاں تو ہىں جن کے لئے بطور حکَم کسى امام کا آنا ضرورى ہے۔جبکہ عام لوگوں جىسے وىگن مىں بىٹھے لوگ ىا گوشت کى دکان پر کھڑے افراد کو اجتماعى طور پر دَور حاضر کے خراب حالات سمجھاتے اور پوچھتے کہ اس کا علاج کىا ہے؟اکثر اوقات مىں نے انہىں لوکل وىگن وغىرہ مىں حالات حاضرہ اور معاشرتى برائىوں کو اس ذہانت سے بىان کرتے سنا کہ جب تک ان کا اترنے کا مقام (سٹاپ) آتا، وىگن کے تمام افراد ان سے متفق ہوتے کہ آج کے پاکستان اور دنىا کو امام مہدى کى ضرورت ہے۔
آپ نماز مىں باقاعدہ اور روزانہ قرآن شرىف کى تلاوت فرماتے۔ آپ نے 60 سال کى عمر کے بعد کئى آىات اور طوىل سورتىں ىاد کىں ۔اس عمر مىں جب لوگ حوصلے ہار بىٹھتے ہىں ہر مہىنے ان کى باجماعت نماز کی تلاوت مىں نئى سورتوں کا اضافہ ہوتا رہتا۔ ہم حىران ہو کر درىافت کرتے تو کہتے کہ مىرى اچھى ىادداشت کى وجہ اللہ کا فضل، قرآن سے پىار، خلفاء کى اطاعت کى برکت اور سورتىں ىاد کرنے کا شوق ہے۔حفّاظ سے اس قدر پىار کرتے کہ جب بھى کسى حافظ صاحب سے ملتے ان کو سىنے سے لگاتے اور کہتے کہ حافظ صاحب آپ کى وجہ سے قرآن کو سىنے سے لگالىا۔۔۔
آپ نے جماعتى خدمات کا بھى بارہا شرف حاصل کىا۔ آپ تقرىباً 20 سال تک حلقہ سمن آباد۔ لاہور مىں محاسب اور آڈىٹر کے طور پر کام کرتے رہے۔ رىٹائرمنٹ کے بعد حلقہ سمن آباد مىں ظہر اور عصر کى نماز کى امامت کا شرف بھى کئى دفعہ حاصل ہوا۔ آپ ہمىشہ بڑے فخر سے بتاىا کرتے کہ اسلامىہ پارک کى مسجد کى لائبرىرى کى ابتدائى ترتىب آپ کے ہاتھوں سے ہوئى۔چندہ جات کى اداىئگى مىں نہاىت باقاعدہ تھے ۔ اور رمضان المبارک مىں تو اپنى اسطاعت سے کہىں زىادہ چندہ دىتے۔ چندوں کى جملہ تحارىک جىسے نادار مرىضاں، مرىم فنڈ، بلال فنڈ، ىکصد ىتامىٰ، ہىومىنٹى فرسٹ، اىم-ٹى-اے، دارالضىافت، تحرىک جدىد اور وقف جدىد مىں الگ الگ باقاعدگى سے چندہ دىتے اور اولاد کو بھى بار بار تلقىن کرتے۔
1974ء کى احمدىہ مخالف تحرىک کے دوران آپ پر شرىروں نے جھنگ کى گلىوں مىں پتھراؤ بھى کىا۔ آپ تشکر الٰہى سے سرشار ہو کربتاتے کہ اس پرآشوب دور مىں چند بدنصىب لوگ دنىا دارى مىں پڑ کر احمدىت سے دور ہوگئے لىکن والد صاحب اور ہمارے خاندان کا خلافت احمدىہ سے تعلق ان واقعات کے بعد دوچند ہوگىا۔ خلفائے احمدىت بالخصوص حضرت خلىفۃالمسىح الثانى ؓ اور حضرت خلىفۃ المسىح الثالث ؒ کے ساتھ بارہا قرىبى ملاقاتوں کا فىض بھى پاىا، اور ان ملاقاتوں کو بىان کرتے ہوئے فرط جذبات سے اشکبار ہوجاتے۔ 2005ء مىں حضرت خلىفۃ المسىح الخامس اىدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزىز کى موجودگى مىں جلسہ سالانہ قادىان مىں شمولىت کا موقع ملنا آپ کى حسىن ىادوں مىں سے تھا۔ کىنىڈا آنے پر 2016ء مىں پہلے ہى سال کے جلسہ سالانہ مىں اىک بار حضرت خلىفۃ المسىح الخامس اىدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزىز سے ملاقات اور اس موقع پر لى گئى تصوىر آپ کى زندگى کا خوشگوار تجربہ تھا۔ وفات سے پہلے عمرہ کرنے کے ارادے سے مسلسل کچھ رقم پس انداز کرتے رہے، تاہم زندگى اور صحت نے وفا نہ کى اور ىہ خواہش تشنہٴ تکمىل رہ گئى۔
دُعا پر حد درجہ ىقىن تھا۔ ہمىشہ کہتے کہ مسىحِ وقت کی جماعت کا سب سے بڑا ہتھىار دعا ہے۔ گھر مىں کوئى نىا سامان ہو، ىا سفر کا وقت، نىا کپڑا ہو ىا کسى اہم کام جىسے امتحان کا آغاز، اولاد کے رشتے کا معاملہ ہو ىا کوئى بىمارى، ہر مرحلے پر خدا سے دعا کى تلقىن، خلىفہ وقت سے راہنمائى کے لئے خط کى نصىحت اور بکثرت استغفار کى ترغىب دىتے۔ روزانہ بچوں کے سکول جانے اور ہمارے دفتر جانے سے پہلے وہ اجتماعى دعا کرواتے۔ والد صاحب نےہر کام سے پہلے اجتماعى دعا کى اىسى عادت راسخ کروادى کہ آج ان کى سارى اولاد ہرکام دعا کر کے شروع کرتى ہے۔ الحمدللّٰہ۔ استغفار کا اس قدر کثرت سے التزام کرتے کہ نىند مىں بھى اکثر استغفار کرتے سنائى دىتے۔
اپنی اولاد کو زىارت مرکز کروانے کا خاص شوق تھا، ربوہ سال مىں کئى دفعہ جاتے اور اسے سب سے بڑى دىنى ودنىاوى تفرىح گردانتے۔ ربوہ مىں رشتے داروں کے گھر ہونے کے باوجود دارالضىافت مىں قىام کرتے، کہتے اسى بہانے مسىحؑ وقت کے مہمان بننے کا شرف حاصل ہوجاتا ہے۔ واپسى پر ہربار دارالضىافت مىں خاطر خواہ چندہ دىتے اور ہمىں تلقىن کرتے جب بھى ىہاں آو، اللہ کے مسىح ؑکے لنگر کے مددگار بنو۔بہشتى مقبرہ مىں اپنے بڑھاپے کے باوجود قطعہ خاص کے بعد اپنے تمام مرحوم اعزا کى قبور پر انفرادى طور دعا کرتے اور ہمىں تلقىن کرتے کہ ان سب جماعتى اور خاندانى بزرگوں کو سارا سال بھى دعاوں مىں ىاد رکھو۔
اولاد سے دوستانہ تعلق
بچوں کى تربىت کے لئے آپ کے طرىق اىسے دلچسپ اور پراثر تھے کہ ہم آپ ہى کہ ان اصولوں پر عمل کررہے ہىں۔ آپ اپنى اولاد کے لئے باپ سے کہىں زىادہ قرىبى دوست تھے۔ آج کے دنىا دارى کے زمانہ مىں بہت سے لوگ اپنى پرىشانى مىں والدىن سے ذکر کى بجائے دوست ڈھونڈتے ہىں، ہمىں اىسى مشکل کبھى نہ ہوتى کہ کون اىسا دوست ہے جسے رازدار بناؤں، جس سے مشورہ مانگوں۔ کىونکہ والد صاحب کا شفىق پىکر ہمارے لئے ہمىشہ مددگار اور مسائل کے بہترىن حل کا حامل ہوتا۔ مجھے اىسى کئى نشستىں ىاد ہىں جو باقاعدہ دعا کے ساتھ شروع ہوتىں، سب سے پہلے خلىفہ وقت کى خدمت مىں دعا کى درخواست کے لئے خط لکھنے کى تلقىن، پھر سىر حاصل گفتگو اور آخر مىں والد صاحب کا مدبرانہ، محبت بھرا، برموقع الفاظ سے مرصع مشورہ۔۔!
ہم بہن بھائى آپ سے اىسے بے تکلف تھے کہ لوگ بھى اس بات پر خوشگوار حىرت اور رشک کا اظہار کرتے۔ اولاد کو اپنے قرىب تر کرنے کے لئے آپ نئى نسل کے ساتھ ذہنى ہم آہنگى اختىار کرتے۔ ہم سے لطىفہ گوئى کرتے، ہمارى پسند کى چىزوں سے متعلق ہم سے بات چىت کرتے، انہى بچپن اور جوانى کى دلچسپىوں مىں اگر کچھ غىر ضرورى ىا نقصان دہ نظر آتا تو تقابلى جائزہ کرکے پىار سے سمجھا دىتے۔ والد صاحب مجھے اورمیرے بڑے بھائی عبداللطیف صاحب کو اپنے ہمراہ لے کر لمبے فاصلے پىدل طے کرتےاوراس دوران زندگى کے تجربات کو اىسے پر لطف اور آسان ماحول مىں بىان کرتے کہ نصىحت سطحى نصىحت نہىں بلکہ دلى مشورہ لگے۔آپ اپنی بیٹیوں اور بہؤوں سے یکساں محبت سے پیش آتے ۔اسی طرح دامادکو بھی بیٹے کی طرح پیار کرتے۔ آپ کے اسی پیار بھرے برتاؤ کی وجہ سے آپ کو سب ابی یعنی میرے باپ کے پیارے لقب سے پکارتے۔
روزمرہ زندگى کے مشاغل اور کچھ ىادىں
فطرت کے مشاہدہ اور معلومات عامہ کے شىدائى تھے، موسمىات ہو ىا جغرافىہ، معاشیات ہو یا حالات حاضرہ، حىوانات و نباتات کى معلومات ہوں ىا عکاسى (PHOTOGRAPHY) کا مشغلہ، ڈاک ٹکٹ ہوں ىا کرنسى نوٹ اور سکے جمع کرنا، علم الطب ہو ىا انجنیئرنگ، کار کے انجن کى معلومات ہوں ىا گھرىلو مشىنرى کو خود ہى ٹھىک کرنا، اقتصادىات کے عمىق مسائل ہوں ىا بچوں کے لئے اپنے ہاتھ سے کاغذى ىا برقى کھلونے بنانا۔۔۔ ىہ ان کى ہمہ گىر شخصىت کے چند پہلو ہىں۔ مىں اسى پر اکتفا کرتا ہوں ورنہ نا جانے اور کتنے ہى پہلو تھے جو ان کى ذات مىں موجود تھے۔
زمانہ طالب علمى ہى سے آپ کو مطالعہ کا شوق تھا اور جہاں جاتے کتب خانے کى رکنىت اختىار کرتے۔ اپنے گھر مىں دىنى اور دنىاوى علوم کى کتب اکٹھا کرنا، توجہ سے پڑھنا اور روزانہ رات کے کھانے کے وقت اولاد سے حاصل مطالعہ کا ذکر کرنا ان کا معمول تھا۔ اس کے علاوہ تفسىر کبىر، تفسىر صغىر، روحانى خزائن، تارىخ احمدىت، اور بہت سى جماعتى کتب اىک سے زائد بار پڑھىں۔ آپ کى سامسنگ ٹىبلٹ مىں بھى خاکسار نے جماعتى اور دنىاوى کتب نصب کردى تھىں جنہىں وہ آخرى عمر تک روزانہ شوق سے پڑھتے رہے۔ حتىٰ کہ کىنسر کى شدت مىں آنے والے اپنے آخرى رمضان المبارک مىں بھى قرآن کى تلاوت کرتے رہے اور پہلے سات روزوں مىں سات سپارے پڑھ لئے۔ مگر مئى 2020ء کے پہلے ہفتہ سے طبىعت خراب ہوتى چلى گئى، پھر بھى ہسپتال جانے سے 2 دن قبل تک روزانہ مطالعہ کى عادت جارى تھى اور شدىد کمزورى کے عالم مىں بھى حضرت خلىفۃ المسىح الرابعؒ کے بارے مىں کتاب ۔اىک بندہ خدا۔کو تىسرى بار پڑھا۔ آپ کہتے تھے کہ ہر روز نئى بات سىکھو، پڑھو اور عمل کروکىا پتہ کل زندگى ختم ہو جائے ۔اس اصول پر آپ تادم وصال عمل کرتے رہے۔ ترجمہ قرآن، دىنى و دنىاوى علوم پر آپ کو عُبور حاصل تھا۔ اسى لئے کسى بھى شعبہ زندگى کے فرد کے ساتھ جب آپ متکلم ہوتے تو اس شخص کو اىسے لگتا گوىا وہ اپنے ہم خىال اور ہم پىشہ سے بات کر رہے ہوں۔بچوں، جوانوں اور عمررسىدہ لوگوں کے ساتھ ان کى دلچسپى، ان کے مطابق زندہ دلى اور خندہ پىشانى سے بات کرتے، اسى لئے ہر دلعزىز تھے۔
مہمان نواز اىسے کہ آپ کا گھر خاندان کے قرىبى اور دور کے رشتہ داروں کے لئے ىکساں طور پر کھلا رہتا، صبح، شام حتىٰ کہ آدھى رات کو بھى مہمان آتے تو خندہ پىشانى سے ملتے۔ نہاىت زىرک، تجربہ کار، امىن، معاملہ فہم اور منصفانہ طبىعت کے حامل تھے اسى لئے لوگ آپ سے مشورہ لىتے اور عمل بھى کرتے۔ اىک دفعہ گھر مىں اگلے دو ماہ مىں مہمانوں کى خاندان مىں مختلف تقارىب کى وجہ سے آمد متوقع تھى۔ آپ نے بنک سے قرضہ لے لىا تاکہ مہمان نوازى مىں کمى نہ ہو۔ اللہ تعالىٰ کو بھى آپ کى ىہ قربانى اىسى پسند آئى کہ اگلے سال انہىں غىر متوقع انعامى رقوم (ملازمتى بونس) مسلسل ملتے رہے۔خاندان کى کئى بچىوں کے رشتہ مىں مشاورت، اعزاء کے بچوں اور بچىوں کى ملازمت کے معاملات مىں براہ راست مدد اور مشورہ، تعلىم کے سلسلے مىں نصائح دىتے رہتے۔
گھرکو صاف ستھرا رکھنا، ہر چىز اور سامان کو قرىنے سے رکھنا، باغبانى، گھر کے آلات کو خود ہى مرمت کرنا، اعلىٰ صحت کے لئے پىدل چلنا،کرکٹ، بىڈمنٹن کھىلنا، ذہنى جِلا کے لئے سکرىبل (SCRABBLE) کھىلنا اور قسما قسم کے عطر (PERFUMES) استعمال کرنا آپ کے من پسند مشاغل مىں سے تھا۔ صفائى پسند اىسے کہ کبھى روزانہ غسل اور وضو مىں ناغہ نہىں کىا۔ کىنسر کى علالت مىں بھى اپنے کام خود کرنے کى مقدور بھر کوشش کرتے، بىمارى مىں بھى اپنے کپڑے ضد کرکے خود استرى کرتے۔ کىنسر کے علاج، رىڈى اىشن کے تکلىف دہ اىام کو صبر سے برداشت کىا، نہ کبھى درد سے کراہتے، نہ کبھى شکوہ کىا۔ آخرى علالت مىں کہتے کہ سارى زندگى اللہ کے فضل سے اچھى گزرى، ىہ کىنسر کى مشکل گھڑى بھى مشىت ِاىزدى ہے، جو ہوگا بہتر ہوگا۔
اللہ تعالىٰ نے محض اپنے فضل سے ہمارے والد مرحوم اور ہمارى والدہ (اللہ انہىں لمبى صحت والى زندگى دے) کو بے پناہ برداشت، وسعت حوصلہ اور صبر عطا کىا ہے۔ دونوں نے اپنى جوان بىٹى (ہمارى بہن نزہت فخر) کى 2003ء مىں صرف 29 سال کى عمرمىں وفات کے صدمہ کو راضى بالرضا رہتے ہوئے قبول کىا اور بفضل تعالیٰ مثالی صبر کا مظاہرہ کىا۔ والد صاحب جوانى سے ہى کمر درد کے عارضہ مىں بھى مبتلا تھے لىکن اس تکلىف کو آپ نے ہمىشہ خندہ پىشانى سے برداشت کىا، کہا کرتے اللہ کى آزمائش ہے وہى ہمت بھى دىتا رہتا ہے!!
والدصاحب، والدہ، مىرى ہمشىرہ تسنیم کوثر اور خاکسار کے کنبہ نے 2016ء مىں کىنىڈا ہجرت کرکے سکونت اختىار کى۔ والد صاحب کے لئےىہاں آکر پاکستان کے مقابلے مىں سب سے بڑى خوشى،وضو کے لئے ہر وقت پانى کى موجودگی تھى۔ اسى طرح کئى دہائىوں بعد اپنى مسجد مىں اذان سننا اور جماعت کو حاصل مجموعى آزادى پر بار بار شکر کرتے۔ کىنسر کے آپرىشن سے دو ہفتہ پہلے بھى شدىد تکلىف مىں مسجد جا کر اجلاس مىں شرکت کى۔
اکثر کہا کرتے کہ جب کسى انسان کى تعرىف کرو تواس تعریف کو اللہ کی طرف منسوب کرو اور کہو، اللہ کا احسان کہ اس نے ىہ خوبى آپ مىں ودىعت کى۔اسى طرح غىراللہ کے لئے عظىم کا لفظ استعمال کرنا آپ کو سخت ناگوار گزرتا۔ آپ ہمىں سمجھاتے ہوئے کہتے کہ عظىم صرف اللہ کى ذات ہے۔کسى عام انسان کو عظىم( گرىٹ) کہنا مناسب نہىں۔اپنى ىادداشتوں کى ڈائرى مىں انہوں نے وفات سے پہلے بطور وصىت ہمىں نماز اور تلاوت قرآن مىں باقاعدگی، خلافت سے مضبوط تعلق قائم کرنے، اور چندوں کى زىادہ سے زىادہ مدات مىں تواتر اور دوام کے ساتھ شمولىت کى نصىحت کى۔
وفات
بفضل تعالیٰ ماسوائے دیرینہ کمر درد کے، آپ تمام عمر ذیابیطس، فشارخون اور دیگر بیماریوں سے آزاد رہے۔ آپ نے کبھی سگریٹ نوشی کی، نہ پان اور سپاری استعمال کی۔ بہرحال اللہ تعالیٰ کے حضور حاضری کے لئے کوئی تو سبب بننا تھا۔ چنانچہ اس سب احتیاط کے باوجود 2019ء میں گلے کاسرطان (CANCER) ہوگیا۔ مارچ 2019ء مىں ٹورنٹو مىں گلے کے کىنسر کى تشخىص ہوئى، جون مىں 10 گھنٹے آپرىشن کے بعد کىنسر کى بافتوں کو نکال دىا گىا۔ستمبر مىں تابکاری علاج (RADIATION THERAPY) ہوا، دسمبر تک ڈاکٹروں کے بقول گلے کا کىنسر ٹھىک ہوگىا تھا۔ لىکن (METASTATIC RELAPSE) ہوا اور اس بار فرورى 2020ء مىں پھىپھڑوں پر کىنسر کا شدىد حملہ ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے معجزانہ طور پر کرونا سے مکمل طور پر محفوظ رکھا، لىکن باىاں پھىپھڑا کىنسر نے ناکارہ کردىا، دوسرے پھىپھڑے مىں کىنسر کى وجہ سے پانى بھر گىا اسى حالت مىں 9 جون 2020ء کو جان جانِ آفرىن کے سپرد کردى۔ احمدىہ قبرستان برىمپٹن، کىنىڈا مىں تدفىن ہوئى۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ۔
آپ کى وفات پر دنىا کے طول و عرض سے تعزىتى پىغام اس کثرت سے موصول ہوئے کہ جس نے ثابت کىا کہ قرىبى اور دور کے اعزاواقارب ہمارے پیارے ’’ابّی‘‘ کے لئے کس قدر محبت اور تعظىم کے جذبات رکھتے تھے۔
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہى بدل گئى
اک شخص سارے شہر کو وىران کر گىا
اللہ کرے کہ آپ خدائے بزرگ وبرتر کى بے پناہ بخشش، مغفرت، رحمتوں اور برکتوں کے وارث ہوں اور اللہ تعالىٰ محض اپنے فضل سے آپ کے ساتھ بے حد رحم کا سلوک کرے، جنت الفردوس مىں جگہ دے۔ آمىن۔
رَبِّي ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا
(عبدالعلیم ۔سکاربورو، کینیڈا)