حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بھی ایک دفعہ عورتوں کے جمعہ پڑھنے کے بارے میں مسئلہ پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ جو امر سنّت اور حدیث سے ثابت ہے اس سے زیادہ ہم اس کی تفصیل کیا کر سکتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو جب مستثنیٰ کر دیا تو پھر یہ حکم صرف مردوں کے لئے ہی رہا۔ (یعنی جمعہ کا۔)
(البدر 11 ستمبر 1903ء صفحہ366 جلد 2 نمبر 34)
پس مردوں پر تو بہرحال واجب ہے کہ اگر وہ مریض نہیں اور کوئی جائز مجبوری نہیں تو بہرحال جمعہ پر آنا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جمعہ کی اہمیت کے بارے میں بتایا اور اسی اہمیت کے پیش نظر آپ نے اپنے زمانے میں 1895-96ء میں گورنمنٹ میں ایک تحریک کرنی چاہی کہ ہندوستان میں جمعہ ادا کرنے کے لئے سرکاری دفتروں میں دو گھنٹے کی رخصت ہوا کرے اور مسلمانوں سے دستخط لینے شروع کر دئیے۔ لیکن اس وقت مولوی محمد حسین صاحب نے ایک اشتہار دیا کہ یہ کام تو اچھا ہے لیکن مرزا صاحب کے ہاتھ سے یہ کام نہیں ہونا چاہئے، ہم خود اس کو سرانجام دیں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ ہمیں تو کوئی نام و نمود کا شوق نہیں ہے۔ آپ خود کر لیں۔ اور پھر آپ نے کارروائی بند کر دی۔ لیکن پھر نہ مولوی محمد حسین صاحب کو، نہ کسی دوسرے مسلمان عالم کو یہ توفیق ہوئی کہ اس پر کارروائی ہو اور وہ کارروائی آگے نہیں چلی۔
(ماخوذ از ذکرِ حبیب از حضرت مفتی محمد صادقؓ، رخصت برائے نمازِ جمعہ صفحہ 42-43)
’’روز جمعہ ایک اسلامی عظیم الشان تہوار ہے اور قرآن شریف نے خاص کرکے اس دن کو تعطیل کا دِن ٹھہرایا ہے اور اس بارے میں خاص ایک سورة قرآن شریف میں موجود ہے جس کا نام سورة الجمعة ہے اور اس میں حکم ہے کہ جب جمعہ کی بانگ دی جائے تو تم دنیا کاہر ایک کام بند کردو اور مسجدوں میں جمع ہوجاوٴ اورنماز جمعہ اس کی تمام شرائط کے ساتھ ادا کرواور جو شخص ایسا نہ کرے گا وہ سخت گنہ گار ہے اور قریب ہے کہ اسلام سے خارج ہواور جس قدر جمعہ کی نماز اور خطبہ سننے کی قرآن شریف میں تاکید ہے اس قدر عید کی نماز کی بھی تاکید نہیں۔‘‘
(الحکم 24جنوری 1903ء صفحہ6-5)