• 28 اپریل, 2024

خطبہ جمعہ – حضرت مسیح موعودؑ کے غیر معمولی صبر اور تحمل کے پُر اثر واقعات

خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

فرمودہ مورخہ 26؍ نومبر 2010ء بمطابق26؍ نبوت 1389 ہجری شمسی بمقام مسجد بیت الفتوح۔ مورڈن

حضرت مسیح موعودؑ کے غیر معمولی صبر اور تحمل کے پُر اثر واقعات

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔

گزشتہ خطبہ میں مَیں نے صبر کے عظیم خُلق کے بارہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اُسوۂ حسنہ اور صحابہ علیہم السلام کی چند مثالیں نمونے کے طور پر پیش کی تھیں۔ یہ اعلیٰ خُلق جس کے اپنانے کی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ماننے والوں کو تلقین فرمائی اور سب سے بڑھ کر اپنا اسوہ پیش کیا، اس لئے تھا کہ اللہ تعالیٰ کے حکم وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ پر عمل کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کی مدد صبر کا اعلیٰ نمونہ دکھاتے ہوئے اور دعاؤں کے ذریعے وہی لوگ چاہ سکتے ہیں جن کو خدا تعالیٰ پر کامل ایمان ہو، اُس پر توکّل ہو۔ اس یقین پر قائم ہوں کہ خدا تعالیٰ ہمارے صبر اور خالص ہو کر اس کے آگے جھکنے کی وجہ سے ضرور ہماری مدد فرمائے گا۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کون ہو سکتا ہے جو اس بات کا ادراک اور ایمان رکھتا ہو، یقین رکھتا ہو۔ اور پھر آپؐ کی قوتِ قدسی سے صحابہ کو یہ ادراک اور ایمان حاصل ہوا۔ پس انہوں نے اپنے اس عمل کی وجہ سے مختلف موقعوں پر یہ نظارے دیکھے کہ اللہ تعالیٰ کی مدد کس طرح ان کے شاملِ حال رہی۔ اس زمانے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق سے بڑھ کر اور کون اس بات کا فہم اور ادراک رکھ سکتا ہے کہ اِسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ کی روح کیا ہے؟ اور یہی بات حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے اصحاب میں پیدا کرنے کی کوشش فرمائی اور پیدا کی۔ مختلف ارشادات اور تحریرات کے ذریعے اپنی جماعت کی تربیت کے لئے اُن کو اس خُلق پر عمل کرنے کی تلقین فرمائی۔

پس آج آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشقِ صادق کی یہ جماعت ہے جو اس تربیت کی وجہ سے صبر و استقامت کے نمونے دکھاتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے حضور جھکتے ہوئے صرف اور صرف اسی کے حضور اپنے دل کی حالت پیش کرتی ہے۔ اور یہ سب عملی رنگ میں ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کر کے دکھایا اور اس تربیت کا یہی اثر اب تک جماعت میں چلتا چلا آ رہا ہے کہ جماعت اس اُسوہ کو، اس اہم خُلق کو قائم رکھے ہوئے ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو اپنے دعویٰ کے بعد ہر قسم کی سختیوں سے گزرنا پڑا لیکن آپ نے نہ صرف خود ہمیشہ حوصلے اور صبر کا مظاہرہ کیا بلکہ اپنے اصحاب کو بھی یہی کہا کہ اگر میرے ساتھ منسلک ہوئے ہو تو پھر وہ نمونے قائم کرنے ہوں گے جن کا اُسوہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے قائم فرمایا تھا اور جس پر چلتے ہوئے صحابہ رضوان اللہ علیہم نے اپنی زندگیاں گزارنے کی کوشش کی تھی۔

اس وقت مَیں آپ کے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی زندگی کے بعض واقعات پیش کروں گا کہ کس طرح آپؑ نے مختلف مواقع پر چھوٹی چھوٹی باتوں سے لے کر بڑی باتوں تک صبر کا نمونہ دکھایا۔ اپنے ماننے والوں کو بھی اس کی نصیحت کی اور بڑی سختی سے اس بارہ میں عمل کرنے کے لئے فرمایا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو براہِ راست بھی مختلف وقتوں میں الہاماً اس اہم امر کی طرف توجہ دلائی کہ صبر اور اعلیٰ اخلاق کا دامن ہمیشہ پکڑے رہنا اور چاہے جو بھی حالات ہو جائیں، دشمن چاہے جیسی بھی ذلیل اور گھٹیا حرکتیں کرے، نقصان پہنچانے کے چاہے جتنے بھی حیلے اور وسیلے تلاش کئے جائیں اور عملاً نقصان پہنچائے، تمہارا صبر اور استقامت کا دامن کبھی نہیں چھوٹنا چاہئے۔ دعاؤں کے ذریعہ سے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے چلے جاؤ اور اللہ تعالیٰ کی مدد کے انتظار میں رہو۔ اللہ تعالیٰ کے بندوں پر ابتلااور آزمائشیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتی ہیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کے وہ بندے اُن کو اللہ کی خاطربرداشت کرتے ہیں۔ چنانچہ براہینِ احمدیہ میں آپؑ نے اس بارہ میں اپنے ایک الہام کا ذکر فرمایا ہے۔ اُس کے الفاظ یوں ہیں کہ اَلْفِتْنَۃُ ھٰھُنَا فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُوْلُوالْعَزْمِ۔ اَلَآ اِنَّھَا فِتْنَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ لِیُحِبَّ حُبًّا جَمًّا۔ حُبًّا مِّنَ اللّٰہِ الْعَزِیْزِ الْاَکْرَمِ۔ عَطَآئً غَیْرَ مَجْذُوْذٍ۔ اس جگہ فتنہ ہے۔ پس صبر کر جیسے اولوالعزم لوگوں نے صبر کیا۔ خبردار ہو۔ یہ فتنہ خدا کی طرف سے ہے تا وہ ایسی محبت کرے جو کامل محبت ہے۔ اُس خدا کی محبت جو نہایت عزت والا اور نہایت بزرگ ہے۔ وہ بخشش جس کا کبھی انقطاع نہیں ہوتا۔ (یعنی کبھی وہ ختم نہیں ہوتی)۔ (براہین احمدیہ حصہ سوم روحانی خزائن جلد اوّل صفحہ 609-610حاشیہ در حاشیہ نمبر 3)

پس نبوت کے دعوے سے بھی پہلے، بیعت لینے سے بھی پہلے بلکہ ابتدا میں ہی اللہ تعالیٰ نے آپ کو صبر کے اعلیٰ خُلق کی جوتلقین فرمائی تھی اس کا اظہار اور اس پر عمل آپ کی زندگی کے آخری لمحہ تک جاری رہا۔ جس کی بعض مثالیں جیسا کہ میں نے کہا مَیں پیش کروں گا۔

حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ 1898ء میں مولوی محمد حسین صاحب نے اپنا ایک گالیوں کا بھرا ہوا رسالہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حضور بھیجا۔ اپنی رپورٹ میں وہ لکھتے ہیں کہ مَیں نے 27جولائی 1898ء کے الحکم میں اس کیفیت کو درج کر دیا ہے۔ کہتے ہیں کہ آج قریباً تیس سال ہوئے جب اسے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حوصلہ، ضبطِ نفس اور توجہ الی اللہ پر غور کرتے ہوئے پڑھتا ہوں تو میری آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکل جاتے ہیں۔

(سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام از مولانا یعقوب علی عرفانی صاحب صفحہ463-462)

بے تحاشا گالیوں سے بھرا ہوا جورسالہ تھا آپؑ نے اُس کے جواب میں پورے حلم اور حوصلہ اور صبر و تحمل کا اظہار کیا۔ آپ کے سکونِ خاطر اور کوہِ وقاری کو کوئی چیز جنبش نہ دے سکتی تھی۔ بڑی پُر سکون طبیعت تھی۔ بڑی باوقار طبیعت تھی۔ یعنی اس طرح کہ جس طرح پہاڑ ہو۔ گویا کہ وہ ایک عظیم شخصیت تھے۔ وقار کا ایک پہاڑ تھے اور یہ ثبوت تھا اس امر کا کہ کسی قسم کی گالیوں کا آپ پر کوئی اثر نہیں ہوتا تھا۔ یعنی کبھی یہ نہیں ہوا کہبے وقاری دکھاتے ہوئے گالیوں کے جواب میں، گالیوں کا جواب آپ کی طرف سے جائے۔ فرماتے ہیں کہ یہ ثبوت تھا اس امر کا کہ خدا تعالیٰ کی وحی جو آپ پر ان الفاظ میں نازل ہوئی تھی کہ فَاصْبِرْ کََمَا صَبَرَ اُوْلُوالْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ(احقاف: 36) فی الحقیقت خدا کی طرف سے تھی اور اُسی خدا نے وہ خارق عادت اور فوق الفطرت صبر اور حوصلہ آپ کو عطا فرمایا تھا جو اولواالعزم رسولوں کو دیا جاتا ہے۔ قبل از وقت خدا تعالیٰ نے متعدد فتنوں کی آپ کو اطلاع دی تھی اور وہ فتنے اپنے اپنے وقت پر پوری شدت اور قوت کے ساتھ ظاہر ہوئے۔ مگر کسی موقعہ اور مرحلہ پر آپ کے پائے ثبات کو جنبش نہ ہوئی۔ (ماخوذ از سیرت حضرت مسیح موعودؑ ازمولانا یعقوب علی صاحب عرفانیؓ صفحہ 463-464)

پھر ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی مزید لکھتے ہیں کہ محبوب رایوں والے مکان کا واقعہ ہے۔ ایک جلسہ میں جہاں تک مجھے یاد ہے ایک برہمو لیڈر (غالباً انباش موزم دار بابو تھے) حضرت سے کچھ استفسار کر رہے تھے (ایک ہندو لیڈر استفسار کر رہے تھے، سوال پوچھ رہے تھے)۔ حضرت جواب دیتے تھے۔ اسی اثناء میں ایک بد زبان مخالف آیا اور اس نے حضرت مسیح موعودؑ کے بالمقابل نہایت دلآزار اور گندے حملے آپ پر کئے۔ کہتے ہیں وہ نظارہ اس وقت بھی میرے سامنے ہے۔ آپ منہ پر ہاتھ رکھے ہوئے تھے، جیسا کہ اکثر آپ کا معمول تھا کہ پگڑی کے شملے کا ایک حصہ منہ پر رکھ لیا کرتے تھے۔ پگڑی کا حصہ منہ پر رکھ دیا کرتے تھے۔ یا بعض اوقات صرف ہاتھ رکھ کر بیٹھ جایا کرتے تھے۔ خاموش بیٹھے رہے، اس کی گالیاں سنتے رہے اور وہ شورہ پُشت بکتا رہا۔ فسادی طبیعت کا آدمی بولتا رہا۔ آپ اسی طرح پر مست اور مگن بیٹھے تھے کہ گویا کچھ ہو ہی نہیں رہا یا کوئی نہایت ہی شیریں مقال گفتگو کر رہا ہے۔ اس ہندو لیڈر نے اسے منع کرنا چاہا مگر اس نے پرواہ نہ کی۔ حضرت نے ان کو فرمایا کہ آپ اسے کچھ نہ کہیں، کہنے دیجئے۔ آخر وہ خود ہی بکواس کر کے تھک گیا اور اٹھ کر چلا گیا۔ برہمو لیڈر بے حد متأثر ہوا۔ اور اس نے کہا کہ یہ آپ کا بہت بڑا اخلاقی معجزہ ہے۔ اس وقت حضور اسے چُپ کرا سکتے تھے۔ اپنے مکان سے نکلوا سکتے تھے (یعنی آیا بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی جگہ پر تھا۔ ) اور بکواس کرنے پرآپ کے ایک ادنیٰ اشارہ سے اُس کی زبان کاٹی جا سکتی تھی۔ مگر آپ نے اپنے کامل حلم اور ضبطِ نفس کا عملی ثبوت دیا۔ (ماخوذ از سیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام مصنفہ شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ صفحہ444-443)

حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی صاحبؓ لکھتے ہیں کہ جالندھر کے مقام پر وہ “یعنی میر عباس علی صاحب! حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے حضور بیٹھے ہوئے اعتراضات کر رہے تھے۔ حضرت مخدوم الملت مولوی عبد الکریم صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اس مجلس میں موجود تھے اور مجھے خود انہوں نے ہی یہ واقعہ سنایا۔ کہتے ہیں کہ مولانا نے فرمایا کہ مَیں دیکھتا تھا کہ میر عباس علی صاحب ایک اعتراض کرتے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نہایت شفقت اور رأفت اور نرمی سے اس کا جواب دیتے تھے۔ اور جوں جوںحضرت صاحب اپنے جواب اور طریقِ خطاب میں نرمی اور محبت کا پہلو اختیار کرتے، میر صاحب کا جواب بڑھتا جاتا۔ یہاں تک کہ وہ کھلی کھلی بے حیائی اور بے ادبی پر اتر آیا اور تمام تعلقاتِ دیرینہ اور شرافت کے پہلوؤں کو ترک کر کے توُ توُ، مَیں مَیں پر آ گیا۔ میں دیکھتا تھا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس حالت میں اسے یہی فرماتے: جناب میر صاحب! آپ میرے ساتھ چلیں۔ میرے پاس رہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کے لئے کوئی نشان ظاہر کر دے گا اور آپ کو رہنمائی کرے گا وغیرہ وغیرہ۔ مگر میر صاحب کا غصہ اور بیباکی بہت بڑھتی گئی۔ مولوی صاحب کہتے ہیں کہ مَیں حضرت کے حلم اور ضبطِ نفس کو دیکھتے ہوئے میر عباس علی صاحب کی اس سُبک سری کو برداشت نہ کر سکا۔ جو زیادتی ہو رہی تھی، اس کو برداشت نہیں کر سکاکہ باوجود اس کے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اپنا بڑا صبر اور حلم دکھا رہے تھے اور (مولوی عبدالکریم صاحب) کہتے ہیں، مَیں جو دیر سے پیچ و تاب کھا رہا تھا اور اپنے آپ کو بے غیرتی کا مجرم سمجھ رہا تھا کہ میرے سامنے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر یہ اس طرح حملہ کر رہا ہے اور میں خاموش بیٹھا ہوں، مجھ سے نہ رہا گیا اور میں باوجود اپنی معذوری کے اس پر لپکا اور للکارا اور ایک تیز آوازہ اس پر کَسا۔ (اونچی آواز میں اس کو للکارا) جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ اُٹھ کر بھاگ گیا۔ حضرت مولوی صاحب فرماتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے ضبطِ نفس اور حلم کا جو نمونہ دکھایا، میں اسے دیکھتا تھا اور اپنی حرکت پر منفعل ہوتا تھا۔ اور مجھے خوشی بھی تھی کہ مَیں نے اپنے آپ کو بے غیرتی کا مجرم نہیں بنایا کہ وہ میرے سامنے حضرت کی شان میں نا گفتنی باتیں کہے اور مَیں سنتا رہوں۔ کہتے ہیں گو بعد کی معرفت سے مجھ پر کھلا کہ حضرت کا ادب میرے اس جوش پر غالب آنا چاہئے تھا۔

(ماخوذازسیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام مصنفہ شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ صفحہ445-444)

یعنی ادب کا یہ تقاضا تھاکہ مَیں حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے سامنے بیٹھا تھا تو خاموش رہتا۔ گو بے شک جوش میرے دل میں تھا۔ بلکہ کئی ایسے موقعوں پر ایسے واقعات بھی ہوئے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ کے اصحاب میں سے کسی نے اٹھ کے کسی پر زیادتی کی یا جوش دکھایا تو آپ نے اس پر ناپسندیدگی اور ناراضگی کا اظہار بھی فرمایا کہ غیروں کے ساتھ اس طرح نہیں کرنا چاہئے۔

حضرت مولوی عبدالکریم صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ ایک روز ایک ہندوستانی جس کو اپنے علم پر بڑا ناز تھا اور اپنے تئیں جہاں گرد اور سرد و گرم زمانہ دیدہ و چشیدہ ظاہر کرتا تھا (اپنے آپ کویہ سمجھتا تھا کہ مَیں دنیا میں بہت پِھرا ہوا ہوں اور بڑا زمانہ دیکھا ہوا ہے اور ہر چیز کا مجھے علم ہے۔) ہماری مسجد میں آیا اور حضرت سے آپ کے دعوے کی نسبت بڑی گستاخی سے بابِ کلام وا کیا۔ تھوڑی گفتگو کے بعد کئی دفعہ کہا۔ آپ اپنے دعویٰ میں کاذب ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے منہ پر کہتا تھا کہ آپ اپنے دعویٰ میں جھوٹے ہیں اور مَیں نے ایسے مکار بہت دیکھے ہیں۔ (نعوذ باللہ)۔ اور مَیں تو ایسے کئی بغل میں دبائے پھرتا ہوں۔ غرض ایسے ہی بیباکانہ الفاظ کہے۔ مگر آپ کی پیشانی پر بَل تک نہ آیا۔ بڑے سکون سے سُنا کئے، اور پھر بڑی نرمی سے اپنی نوبت پر کلام شروع کیا۔

کسی کا کلام کیسا ہی بیہودہ اور بے موقع ہو اور کسی کا کوئی مضمون نظم میں یا نثر میں کیسا ہی بے ربط اور غیر موزوں ہو، آپ نے سننے کے وقت یا بعد خلوت میں کبھی نفرت و ملامت کا اظہار نہیں کیا۔ (نہ سننے کے وقت، نہ بعد میں۔ کبھی علیحدگی میں اس شخص کے بارہ میں نفرت یا ملامت کا اظہار نہیں کیا)۔ کہتے ہیں بسا اوقات بعض سامعین اس دل خراش لغو کلام سے گھبرا اٹھے اور آپس میں نفرین کے طور پر کانا پھوسی کی ہے۔ اور مجلس کے برخاست ہونے کے بعد تو ہر ایک نے اپنے اپنے حوصلے اور ارمان بھی نکالے ہیں کہ یہ کیا بیہودگی ہو رہی تھی۔ (جو بھی غصہ آپس میں باتیں کر کے نکال سکتے تھے نکالتے رہے۔) مگر مظہرِ خدا کے حلیم اور شاکر ذات نے کبھی بھی ایسا کوئی اشارہ کنایہ نہیں کیا۔ یعنی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اشارۃً بھی کبھی بات نہیں کی کہ کون مجھے کیا کہہ گیا تھا؟

(ماخوذ از سیرت حضرت مسیح موعودؑ از مولانا عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ۔ صفحہ 44۔ پبلشر ابوالفضل محمود۔ قادیان)

پھر شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ ہی بیان فرماتے ہیں کہ 29 جنوری 1904ء کا یہ واقعہ ہے کہ حضرت مسیح موعود کے حضور ایک گالیاں دینے والے اخبار کا تذکرہ آیا کہ فلاں اخبار جو ہے بڑی گالیاں دیتا ہے۔ آپ نے فرمایا صبر کرنا چاہئے۔ ان گالیوں سے کیا ہوتا ہے۔ آپؑ نے فرمایاکہ ایسا ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت کے لوگ آپ کی مذمت کیا کرتے تھے اور آپ کو نعوذ باللہ مذمّم کہا کرتے تھے۔ تو آپؐ ہنس کر فرمایا کرتے تھے کہ مَیں ان کی مذمت کو کیا کروں۔ میرا نام تو اللہ تعالیٰ نے محمدؐ رکھا ہوا ہے (صلی اللہ علیہ وسلم۔) فرمایا کہ اسی طرح اللہ نے مجھے بھیجا ہے اور اللہ تعالیٰ نے مجھے اور میری نسبت فرمایا ہے، یَحْمَدُکَ اللّٰہ مِنْ عَرْشہٖ یعنی اللہ اپنے عرش سے تیری حمد کرتا ہے، تعریف کرتا ہے اور یہ وحی براہینِ احمدیہ میں موجود ہے۔

(ماخوذازسیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام مصنفہ شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ صفحہ450)

حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانی ؓ پھر لکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام پر بالمشافہ زبانی گندے حملے ہی نہ ہوتے تھے (یعنی کہ آمنے سامنے سے ہی گندے حملے نہیں ہوتے تھے) اور آپؑ کی جان پر اس طرح کے بازاری حملوں پر ہی اکتفا نہ کیا جاتا تھا۔ آپ کے قتل کے فتووں اور منصوبوں پر پھر اِس کے لئے کوششوں کو ہی کافی نہیں سمجھا جاتا تھا۔ قتل کے لئے فتوے بھی موجود تھے۔ اس کے لئے منصوبے بھی بنائے گئے۔ کوششیں بھی کی گئیں اور صرف یہی نہیں بلکہ اخبارات اور خطوط میں بھی گالیوں کی بوچھاڑ کی جاتی تھی۔ اور پھر اسی پر بس نہیں۔ ایسے خطوط عموماً بے رنگ آپ کو بھیج دئیے جاتے تھے، یعنی جس پر ٹکٹ نہیں لگایا جاتا تھا۔ ڈاک کے ذریعے سے خط بھیجے جاتے تھے اور ٹکٹ نہیں لگایا جاتا تھا۔ اگر ٹکٹ نہ لگا ہوا خط آئے تو جو خط وصول کرتا ہے وہ اس ٹکٹ کی جو postal stamp ہے اس کے پیسے ادا کرتا ہے۔ سو لوگ اس طرح بغیر ٹکٹ لگائے خط بھیج دیا کرتے تھے اور اس کے پیسے بھی پھر اپنے پاس سے وصول کرنے والے کو دینے پڑتے تھے۔ یعنی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام اس کی ادائیگی کرتے تھے۔ کہتے ہیں کہ خدا کا برگزیدہ ان خطوط کو ڈاک کا محصول اپنی گِرہ سے ادا کر کے لیتا تھا (جیسا کہ مَیں نے بتایا) اور جب کھولتا تھا تو ان میں اول سے لے کر آخر تک گندی اور فحش گالیوں کے سوا کچھ نہ ہوتا تھا۔ آپ ان پر سے گزر جاتے اور ان شریروں اور شوخ چشموں کے لئے دعا کر کے ان کے خطوط ایک تھیلے میں ڈال دیتے تھے۔ مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی ان ایام میں اپنی مخالفت میں حد سے بڑھے ہوئے تھے۔ اور اس نے اپنی گالیوں پر اکتفا نہ کر کے سعد اللہ لدھیانوی، جعفر زٹلی اور بعض دوسرے بے باک آدمیوں کو اپنا رفیق اور معاون بنا رکھا تھا۔ وہ ہر قسم کی اہانت کرتے مگر خدا کے برگزیدہ کو اس کا شیریں کلام اِنِّیْ مُھِیْنٌ مَنْ اَرَادَ اِھَانَتَکَ تسلی دیتا اور کامل صبر سے ان گندی تحریروں پر سے گزر جاتے۔ ایک مرتبہ 1898ء میں مولوی محمد حسین صاحب نے اپنا ایک گالیوں کا بھرا ہوا رسالہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حضور بھیجا۔ وہ لکھتے ہیں کہ مَیں نے27جولائی 1898ء کے الحکم میں اس کو درج کر دیا۔ کہتے ہیں کہ آج بھی میں تیس سال کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حوصلہ اور ضبطِ نفس اور توجہ الی اللہ پر غور کرتے ہوئے پڑھتا ہوں تو میری آنکھوں سے بے اختیار آنسو نکل جاتے ہیں۔ انہوں نے آگے شعر لکھاہے کہ ؎

دل میں اک درد اُٹھا آنکھوں میں آنسو بھر آئے
بیٹھے بیٹھے کیا جانئے ہمیں کیا یاد آیا

پُرانے واقعات یاد کر کے کہتے ہیں اب بھی مجھے رونا آجاتا ہے۔
لکھتے ہیں کہ 25جولائی 1898ء کا واقعہ ہے جبکہ ایک شخص محمد ولد چَو غَطہ قوم اعوان ساکن ہموگھگڑ ضلع سیالکوٹ نے مولوی صاحب کا رسالہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے حضور پیش کیا جسے مولوی محمد حسین صاحب نے بھیجا تھا۔ آپ نے وہ رسالہ لانے والے قاصد کو اس پر ایک فقرہ لکھ کر واپس کر دیا اور وہی اس کا جواب تھا۔ (مولوی محمد حسین کاجو رسالہ لے کر ان کی طرف سے آیا تھا اس پر ایک فقرہ لکھا اور واپس کر دیا کہ لے جاؤ ان کو دے دو) اور جواب مذکور مولانا مولوی عبدالکریم صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حاضرین کو پڑھ کے سنایا، (جو جواب لکھا تھا وہ پھر مجلس میں پڑھ کے سنایا گیا) اور سب نے آمین کہی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کا جواب یہ تھا کہ رَبِّ اِنْ کَانَ ھٰذَا الرَّجُلُ صَادِقًا فِی قَوْلِہٖ فَاَکْرِمْہُ وَاِنْ کَانَ کَاذِبًا فَخُذْہُ۔ اٰمِیْن۔ وہ خط جوحضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مضمون لکھ کر بھیجا، اس پر آپ نے یہ جواب لکھ کر بھیج دیا کہ اے میرے ربّ! اگر یہ شخص اپنے اس قول میں جو اس نے کتاب میں لکھا ہے سچا ہے تو تُو اس کو معزز اور مکرم بنا دے۔ اور اگر جھوٹا ہے تو پھر آپ ہی اس سے مؤاخذہ کراور اس جھوٹ کی وجہ سے پکڑ۔ آمین۔ اس سے زیادہ کوئی بات نہیں کی۔

(ماخوذ ازسیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام مصنفہ شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ صفحہ463-462)

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں کہ ’’مجھے چوہدری حاکم علی صاحب نے بتایا کہ ایک دفعہ حضرت صاحب بڑی مسجد میں کوئی لیکچر یا خطبہ دے رہے تھے کہ ایک سکھ مسجد میں گھس آیا اور سامنے کھڑا ہو کر حضرت صاحب کو اور آپ کی جماعت کو سخت گندی اور فحش گالیاں دینے لگا۔ اور ایسا شروع ہوا کہ بس چُپ ہونے میں ہی نہ آتا تھا۔ مگر حضرت صاحب خاموشی کے ساتھ سنتے رہے۔ اس وقت بعض طبائع میں اتنا جوش تھا کہ حضرت صاحب کی اجازت ہوتی تو اس کی وہیں تکہ بوٹی اُڑ جاتی۔ مگر آپ سے ڈر کر سب خاموش تھے۔ آخر جب اس فحش زبانی کی حد ہو گئی تو حضرت صاحب نے فرمایا۔ دو آدمی اسے نرمی سے پکڑ کر مسجد سے باہر نکال دیں مگر اسے کچھ نہ کہیں۔ اگر یہ نہ جاوے تو حاکم علی سپاہی کے سپرد کر دیں۔‘‘

(سیرت المہدی جلد اول حصہ اول صفحہ258-257روایت نمبر281جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)

حضرت مرزا بشیر احمد صاحب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے حافظ روشن علی صاحبؓ نے بتایا کہ جب منارۃ المسیح کے بننے کی تیاری ہوئی تو قادیان کے لوگوں نے افسران گورنمنٹ کے پاس شکایتیں کیں کہ اس منارہ کے بننے سے ہمارے مکانوں کی پردہ دری ہو گی۔ (بے پردگی ہوگی) چنانچہ گورنمنٹ کی طرف سے ایک ڈپٹی قادیان آیا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو مسجد مبارک کے ساتھ والے حجرے میں ملا۔ اس وقت قادیان کے بعض لوگ جو شکایت کرنے والے تھے، وہ بھی اس کے ساتھ تھے۔ حضرت صاحب سے ڈپٹی کی باتیں ہوتی رہیں اور اسی گفتگو میں حضرت صاحب نے ڈپٹی کو مخاطب کر کے فرمایا کہ یہ بُڈّھا مَل بیٹھا ہے (ایک ہندو تھااس کا نام تھا بُڈّھا مَل) آپ اس سے پوچھ لیں کہ بچپن سے لے کر آج تک کیا کبھی ایسا ہوا ہے کہ اسے فائدہ پہنچانے کا مجھے کوئی موقع ملا ہو اور مَیں نے فائدہ پہنچانے میں کوئی کمی کی ہو، (یعنی وہ شخص جو ہندو تھا کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ مجھے اس کو فائدہ پہنچانے کا موقع ملا ہو اور پھر مَیں نے اس میں کوئی کمی کی ہو بلکہ ہمیشہ اسے فائدہ پہنچایا ہے) اور پھر فرمایا کہ اسی سے پوچھیں کہ کبھی ایسا ہوا ہے کہ مجھے تکلیف دینے کا اسے کوئی موقع ملا ہو تو اس نے مجھے تکلیف پہنچانے میں کوئی کَسر چھوڑی ہو۔ (یعنی وہ جب بھی اس کو موقع ملا اس نے ہمیشہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو تکلیف پہنچائی لیکن حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اس کے جواب میں جب بھی موقع ملا اسے فائدہ پہنچایا۔) حافظ صاحب نے بیان کیا کہ مَیں اُس وقت بڈھا مَل کی طرف دیکھ رہا تھا (وہ شخص وہیں سامنے بیٹھاہوا تھا)۔ اُس نے شرم کے مارے اپنا سر نیچے اپنی رانوں میں دیا ہوا تھا۔ اپنے گھٹنوں میں سر دیا ہوا تھا۔ اور اس کے چہرے کا رنگ سفید پڑ گیا تھا۔ وہ ایک لفظ بھی نہیں بول سکا۔

(سیرۃ المہدی جلد اول حصہ اول صفحہ 139-138روایت نمبر 148جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)

سچائی کے سامنے اگر اس طرح آمنے سامنے ہو جائیں تو کسی میں شرافت کی ہلکی سی بھی رمق ہو، بے شک نقصان پہنچانے والا دشمن ہی ہوتو وہ ایک لفظ بھی نہیں بول سکتا۔ (آج کل کے جو دشمن ہیں ان کے اخلاق تو بالکل ہی تباہ و برباد ہو کر رہ گئے ہیں۔ ان میں ذرا سی بھی شرافت کی رمق نہیں۔ حضرت شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ بیان فرماتے ہیں کہ 13فروری 1903ء کو ایک ڈاکٹر صاحب لکھنؤ سے تشریف لائے۔ بقول ان کے وہ بغدادی الاصل تھے۔ اور عرصے سے لکھنؤ میں مقیم تھے۔ انہوں نے یہ بھی بیان کیا کہ چند احباب نے ان کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں بغرضِ دریافتِ حال بھیجا ہے۔ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے پھر سوال و جواب کا سلسلہ شروع کیا۔ اُن کے بیان میں شوخی، استہزاء اور بیباکی تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کی کچھ بھی پرواہ نہ کی اور ان کی باتوں کا جواب دیتے تھے۔ سلسلہ کلام میں ایک موقع پر انہوں نے سوال کیا کہ عربی میں آپ کا دعویٰ ہے کہ مجھ سے زیادہ فصیح کوئی نہیں لکھ سکتا۔ (سوال کرنے والے نے کہا کہ آپ کہتے ہیں کہ مجھ سے زیادہ فصیح عربی کوئی نہیں لکھ سکتا۔) حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے کہا کہ ہاں۔ میرا دعویٰ ہے اللہ تعالیٰ نے مجھے عربی زبان سکھائی ہے۔ کوئی نہیں لکھ سکتا۔ اس پر نوواردنے نہایت ہی شوخی سےمستہزیانہ طریق پر (استہزاء کرتے ہوئے) کہا کہ بے ادبی معاف۔ آپ کی زبان سے تو ق (قاف) بھی نہیں نکل سکتا۔ (اس نے آگے سے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو جواب دیا کہ آپ کہتے ہیں کہ مَیں بڑی اچھی عربی لکھ سکتا ہوں، میرے سے زیادہ کوئی نہیں لکھ سکتا۔ لیکن آپ کی زبان سے تو عربی میں ق (قاف) بھی ادا نہیں ہوتا۔) شیخ صاحب کہتے ہیں کہ مَیں خود اس مجلس میں موجود تھا۔ اس کا طریقِ بیان بہت کچھ دُکھ دہ تھا۔ ایسا تکلیف دہ تھا کہ ہم اسے برداشت نہ کر سکتے تھے۔ مگر حضرت کے حلم کی وجہ سے خاموش تھے۔ لیکن حضرت صاحبزادہ مولانا عبداللطیف صاحب شہیدؓ مرحوم ضبط نہ کر سکے۔ وہ بھی وہاں مجلس میں بیٹھے تھے۔ وہ اس کی طرف لپک کر بولے کہ یہ حضرت اقدس ہی کا حوصلہ ہے۔ سلسلہ کلام کسی قدر بڑھ گیا (یعنی مولوی عبداللطیف صاحب شہید اور اس شخص کے درمیان تلخی زیادہ بڑھ گئی) اور یہ کہتے ہیں کہ قریب تھا دونوں گتھم گتھا ہو جائیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے مخلص اور جانثار غیور فدائی کو روک دیا۔ اس پر نووارد صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو مخاطب کر کے کہا کہ استہزاء اور گالیاں سننا انبیاء کا ورثہ ہے۔ حضرت اقدس نے فرمایا کہ ہم تو ناراض نہیں ہوتے۔

(ماخوذ از سیرت المہدی حصہ اول۔ صفحہ139-138۔روایت نمبر 148 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)

یہاں تو خاکساری ہے (یعنی میری طرف سے تو خاکساری ہے، میں تواس بات پر ناراض نہیں ہوا۔ اگر مولوی صاحب نے کچھ کیا تو انہوں نے اپنے دل کا جوش نکالا اور مَیں نے ان کو روک دیا)۔ وہ آگے لکھتے ہیں کہ جب اس نے ق (قاف) ادا نہ کرنے کا حملہ کیا تو حضرت اقدس نے فرمایا کہ لکھنؤ کا رہنے والا تو نہیں ہوں کہ میرا لہجہ لکھنوی ہو۔ مَیں تو پنجابی ہوں۔ فرمایا کہ حضرت موسیٰؑ پر بھی یہ اعتراض ہوا کہ لَایَکَادُیُبِیْن (الزخرف: 53) اور احادیث میں مہدی کی نسبت بھی آیا ہے کہ اس کی زبان میں لکنت ہو گی۔ حضرت صاحبزادہ عبداللطیف صاحب سے جب یہ واقعہ پیش آیا تو حضرت نے اپنی جماعتِ موجودہ کو (جو لوگ وہاں بیٹھے تھے ان کو) خطاب کر کے فرمایا کہ میرے اصول کے موافق اگر کوئی مہمان آوے اور سبّ و شتم تک بھی نوبت پہنچ جاوے (یعنی گالیوں تک بھی نوبت جاوے) تو اس کو گوارا کرنا چاہئے کیونکہ وہ مُریدوں میں تو داخل نہیں ہے۔ ہمارا کیا حق ہے کہ ہم اس سے وہ ادب اور ارادت چاہیں جومُریدوں سے چاہتے ہیں۔ یہ بھی ان کا احسان سمجھتے ہیں کہ نرمی سے باتیں کریں۔ فرمایا کہ پیغمبرِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ زیارت کرنے والے کا تیرے پر حق ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ اگر مہمان کو ذرا سا بھی رنج ہو تو وہ معصیت میں داخل ہے۔ اس لئے مَیں چاہتا ہوں کہ آپ ٹھہریں چونکہ کلمہ کا اشتراک ہے یعنی کہ نرمی دکھائیں۔ کلمہ تو ہمارا ایک ہے۔ جب تک یہ نہ سمجھیں۔ جو کہیں اُن کا حق ہے۔

(ماخوذازسیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام مصنفہ شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ صفحہ451تا453)

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ فرماتے ہیں کہ میر شفیع احمد صاحب محقق دہلوی نے مجھ سے بذریعہ خط بیان کیا کہ جب آخری دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام لاہور جا کر ٹھہرے تو میں ان دنوں خواجہ صاحب کا، (خواجہ کمال الدین صاحب کا)ملازم تھا اور حضرت صاحب کی ڈاک لا کر حضور کو پہنچایا کرتا تھا۔ اور ڈاک میں دو تین خط بے رنگ ہوا کرتے تھے۔ (جیسا کہ پہلے ذکر آ چکا ہے۔ بے رنگ خط جو ہوتے تھے ان میں عموماً گالیاں ہوا کرتی تھیں اور اپنے پاس سے پیسے دے کر اُن خطوں کو وصول کرنا پڑتا تھا۔) کہتے ہیں دو تین خط بے رنگ ہوا کرتے تھے جو مَیں وصول کر لیا کرتا تھا اور حضرت صاحب کو پہنچا دیا کرتا تھا۔ (وہ خط مَیں ڈاکخانہ سے وصول کرتا تھا اور حضرت صاحب کو پہنچا دیا کرتا تھا) اور حضرت صاحب مجھے ان کے پیسے دے دیا کرتے تھے۔ ایک دن مَیں نے خواجہ صاحب کے سامنے بے رنگ خط وصول کئے تو خواجہ صاحب نے مجھے روکا کہ بے رنگ خط مت لو۔ مَیں نے کہا مَیں تو ہر روز وصول کرتا ہوں اور حضرت صاحب کو پہنچاتا ہوں اور حضرت نے مجھے کبھی نہیں روکا۔ مگر اس پر بھی مجھے خواجہ صاحب نے سختی کے ساتھ روک دیا کہ یہ بے رنگ خط وصول نہیں کرنے۔ جب مَیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ڈاک پہنچانے گیا تو مَیں نے عرض کی کہ حضور! آج مجھے خواجہ صاحب نے بے رنگ خط وصول کرنے سے سختی سے روک دیا ہے۔ حضور فرمائیں تو اب بھی بھاگ کر ڈاکخانے سے لے آؤں؟ حضرت صاحب مسکرائے اور فرمانے لگے کہ ان بے رنگ خطوں میں سوائے گالیوں کے کچھ نہیں ہوتا۔ اور یہ خط گمنام ہوتے ہیں۔ (نام بھی نہیں لکھا ہوتا۔ ) اگر یہ لوگ اپنا پتہ لکھ دیں تو ہم انہیں سمجھا سکیں مگر شاید یہ لوگ ڈرتے ہیں کہ ہم ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی نہ کریں۔ حالانکہ ہمارا کام مقدمہ کرنا نہیں ہے۔ کہتے ہیں اس دن کے بعد سے پھر میں نے بے رنگ خط وصول کرنے چھوڑ دئیے۔

(ماخوذ از سیرت المھدی جلد اول حصہ دوم روایت نمبر455 صفحہ434 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)

حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ رسول بی بی صاحبہ بیوہ حافظ حامد علی صاحب نے بواسطہ مولوی عبدالرحمن صاحب جٹ مولوی فاضل مجھ سے بیان کیا کہ بعض دفعہ مرزا نظام الدین کی طرف سے کوئی رذیل آدمی اس بات پر مقرر کر دیا جاتا تھا کہ وہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو گالیاں دے۔ (اُن کے چچا زاد تھے جو اسلام سے بھی برگشتہ تھے۔ وہ کسی کو مقرر کر دیا کرتے تھے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو گالیاں دو۔) چنانچہ بعض دفعہ ایسا ہوا کہ ساری رات وہ شخص گالیاں نکالتا رہتا تھا۔ (جس کو مقرر کیا گیا ہے، وہ آپ کے گھر کے سامنے کھڑا ہے، ساری رات اونچی اونچی گالیاں نکالتا چلا جا رہا ہے)۔ اور جب سحری کا وقت ہوتا تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام دادی صاحبہ کو کہتے کہ اب اس کو کھانے کو کچھ دو کہ یہ ساری رات گالیاں نکال نکال کے تھک گیا ہو گا۔ اس کا گلا خشک ہو گیا ہو گا۔ وہ کہتی ہیں کہ مَیں حضرت صاحب کو کہتی کہ ایسے کمبخت کو کچھ نہیں دینا چاہئے تو آپ فرماتے ہم اگر کوئی بدی کریں گے تو خدا دیکھتا ہے اور ہماری طرف سے کوئی بات نہیں ہونی چاہئے۔

(سیرت المہدی جلد دوم حصّہ چہارم روایت نمبر 1130 صفحہ نمبر 102 جدید ایڈیشن مطبوعہ ربوہ)

مولوی عبدالکریم صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ مجلس میں آپ کسی دشمن کا ذکر نہیں کرتے اور جو کسی کی تحریک سے ذکر آ جائے تو بُرے نام سے یادنہیں کرتے۔ (اوّل تو مجلس میں کسی دشمن کا ذکر ہی نہیں کرتے اور اگر ذکر آ بھی جائے تو کبھی یہ نہیں ہوا کہ اس کو کسی بُرے نام سے پکارا ہو)۔ یہ ایک بیّن ثبوت ہے کہ آپ کے دل میں کوئی جلانے والی آگ نہیں۔ ورنہ جس طرح کی ایذا قوم نے دی ہے اور جو سلوک مولویوں نے کیا ہے اگر آپ اسے واقعی دنیا دار کی طرح محسوس کرتے تو رات دن کُڑھتے رہتے۔ اور ہیر پھیر کر انہی کا مذکور درمیان میں لاتے۔ اور یوں حواس پریشان ہو جاتے اور کاروبار میں خلل آ جاتا۔ زٹلی جیسا گالیاں دینے والا عرب کے مشرک بھی حضور سید سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابل نہ لا سکے۔ مگر میں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ یہ ناپاک پرچہ اوقاتِ گرامی میں کوئی بھی خلل کبھی بھی ڈال نہیں سکا۔ تحریر میں ان موذیوں کا بر محل ذکر کوئی دیکھے تو یہ شاید خیال کرے کہ رات دن اِنہی مفسدین کا آپ ذکر کرتے ہوں گے۔ (اگر کبھی تحریر میں کسی بات میں ان لوگوں کا ذکر کر دیا تو شاید خیال آئے کہ رات دن شاید انہی لوگوں کا آپ کے دل میں خیال ہوتا ہو گا، تب یہ کتابوں میں ذکر ہو گیا۔ کہتے ہیں، نہیں اس طرح کبھی نہیں ہوا) بلکہ ایک مجسٹریٹ کی طرح جو ایک مفوضہ ڈیوٹی سے فارغ ہو کر پھر کسی کی ڈگری یا dissmiss یا سزا سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔ وہ تو اس طرح کرتے تھے کہ جس طرح ایک مجسٹریٹ کرتا ہے، کوئی سرکاری افسر کرتا ہے کہ جو بھی اس کے فرائض میں شامل ہے وہ فیصلہ کر دیا تو پھراُس کے بعد اُس کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ (یہی حال آپ کا تھا۔ کتاب میں لکھنا تھا، لکھنے کی ضرورت محسوس کی، لکھ دیا۔ لیکن یہ نہیں ہے کہ پھر مجلسوں میں اور محفلوں میں اس کا ہی ذکرچلتا رہا ہے۔) کہتے ہیں کہ اور نہ اسے (جس طرح مجسٹریٹ کو) درحقیقت کسی سے ذاتی لگاؤ یا اشتعال ہوتا ہے اسی طرح حضرت صاحب بھی تحریر میں ابطالِ باطل اور احقاقِ حق کے لئے لوجہ اللہ لکھتے تھے۔ (یعنی کہ حق کو ظاہرکرنے کے لئے اور جھوٹ کو جھٹلانے کے لئے، اس کی حقیقت بیان کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کی خاطر لکھتے تھے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں تھا)۔ آپ کے نفس کا اس میں کوئی دخل نہیں ہوتا تھا۔ ایک روز فرمایا، مَیں اپنے نفس پر اتنا قابو رکھتا ہوں اور خدا تعالیٰ نے میرے نفس کو ایسا مسلمان بنایا ہے کہ اگر کوئی شخص ایک سال بھر میرے سامنے بیٹھ کر میرے نفس کو گندی سے گندی گالی دیتا رہے، آخر وہی شرمندہ ہو گا۔ اور اسے اقرار کرنا پڑے گا کہ وہ میرے پاؤں جگہ سے اکھاڑ نہ سکا۔

(ماخوذ ازسیرت حضرت مسیح موعودؑ از مولانا عبدالکریم ؓ صاحب سیالکوٹی صفحہ52-51 پبلشرز ابوالفضل محمود قادیان)

حضرت میاں بشیر احمد صاحبؓ لکھتے ہیں کہ ہماری جماعت کے اکثر پرانے دوست حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے چچا زاد بھائیوں مرزا امام الدین صاحب اور مرزا نظام الدین صاحب کو جانتے ہیں۔ یہ دونوں اپنی بے دینی اور دنیا داری کی وجہ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سخت ترین مخالف تھے۔ بلکہ حقیقتاً وہ اسلام کے ہی دشمن تھے۔ ایک دفعہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو نقصان پہنچانے کے لئے حضور کے گھر کے سامنے مسجد مبارک کے قریب دیوار کھینچ کر راستہ بند کر دیا۔ یہ مشہور واقعہ ہے۔ اس کی وجہ سے نمازیوں کو دِقّت ہوتی تھی۔ ملاقاتیوں کو جوحضرت مسیح موعود علیہ السلام کوملنے آتے تھے آنے جانے میں دِقّت ہوتی تھی۔ اور تھوڑی سی جماعت جو تھی وہ سخت مشکل میں گرفتار تھے بلکہ سخت مصیبت میں گرفتار تھے گویا کہ قید ہو گئے تھے۔ اس وجہ سے وکلاء کے مشورے سے قانونی چارہ جوئی کرنا پڑی اور لمبا عرصہ یہ مقدمہ چلتا رہا۔ پھر آخر اللہ تعالیٰ کی بشارت کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اس مقدمے سے فتح ہوئی اور دیوار گرائی گئی۔ حضرت مسیح موعودؑ کے وکیل نے حضور سے اجازت لینے، بلکہ اطلاع تک دینے کے بغیر مرزا امام دین صاحب اور نظام دین صاحب کے خلاف خرچے کی ڈگری کر دی اور اس کی وجہ سے ان کی جو جائیداد تھی اس کی قرقی کا حکم جاری ہو گیا۔ اور (ان کے پاس) مرزا صاحبان کے پاس تو کچھ بھی نہیں تھا جو دیتے۔ انہوں نے باوجود ساری دشمنی کے جب فیصلہ حضرت مسیح موعودؑ کے حق میں ہو گیا تو پھر لجاجت سے یہ خط لکھا کہ بھائی ہو کر اس قرقی کے ذریعے ہمیں کیوں ذلیل کرتے ہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ان حالات کا علم ہوا تو آپ وکیل پر سخت ناراض ہوئے کہ مَیں نے کب کہا تھا کہ یہ مقدمہ کرو؟ فوراً یہ واپس لیا جائے اور ان کو جواب بھیجا کہ آپ بالکل مطمئن رہیں۔ کوئی قرقی وغیرہ نہیں ہو گی۔ یہ ساری کارروائی میرے علم کے بغیر ہوئی ہے۔

(ماخوذ از سیرت طیبہ از حضرت مرزا بشیر احمدؓ صاحب ایم اے صفحہ60-59۔ مطبع ضیاء الاسلام پریس ربوہ)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ اس روایت کے بارہ میں لکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ کو عشاء کے وقت اللہ تعالیٰ نے بذریعہ الہام یا خواب یہ اطلاع دی تھی کہ یہ بَار ان پر بہت زیادہ ہے اور اس کی وجہ سے مخالف رشتہ دار بہت تکلیف میں ہیں (اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ اطلاع دی کہ عدالت کاقُرقی کا، جائیداد بیچنے کا جو حکم ہوا یہ ان پر بہت زیادہ بَار ہے اور اس کی وجہ سے رشتے دار تکلیف میں ہیں)۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے تھے کہ مجھے ساری رات نیندنہیں آئے گی۔ اسی وجہ سے فوراً آدمی بھیجا کہ جو ان کو جا کر بتا دے کہ تمہیں سارا خرچ معاف ہے کوئی قرقی وغیرہ نہیں ہو گی۔

(ماخوذ از تاریخ احمدیت جلددوم صفحہ81۔ مطبوعہ ربوہ)

حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ تحریر فرماتے ہیں۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت صاحب کے زمانے میں خصوصاً ابتدائی ایام میں قادیان کے لوگوں کی طرف سے جماعت کو سخت تکلیف دی جاتی تھی۔ مرزا امام دین صاحب(جن کا پہلے ذکر ہو چکا ہے) اور مرزا نظام دین صاحب وغیرہ کی انگیخت سے قادیان کی پبلک خصوصاً سکھ ایذاء رسانی پر تلے ہوئے تھے۔ وہ لوگ ان لوگوں کو، سکھوں کو بھڑکاتے تھے اور وہ خاص طور پر احمدیوں کویا جو بھی شخص حضرت مسیح موعودؑ سے ملنے آتا تھا اُسے بہت تکلیفیں دیا کرتے تھے۔ اور صرف باتوں تک ایذاء رسانی محدودنہیں تھی بلکہ دنگا فساد کرنے اور زدوکوب تک نوبت پہنچ جاتی تھی۔ مار پیٹ تک ہو جاتی تھی۔ اگر کوئی احمدی مہاجر بھولے سے کسی زمیندار کے کھیت میں رفع حاجت کے واسطے چلا جاتا (ہمارے دیہاتوں کے رہنے والے جانتے ہیں کہ وہاں تو باقاعدہ انتظام نہیں ہوتا) تو وہ سکھ جو تھے انہیں مجبور کرتے تھے کہ اپنے ہاتھ سے اپنا گند اٹھائیں اور کئی دفعہ معزز احمدی اُن کے ہاتھوں سے مار بھی کھاتے تھے، پِٹ جاتے تھے۔ اور اگر کوئی احمدی ڈھاب میں سے کچھ مٹی لینے لگتا تو یہ لوگ مزدوروں سے ٹوکریاں اور کدالیں چھین کر لے جاتے اور اُن کو وہاں سے نکال دیتے۔ اور اگر کوئی سامنے سے کچھ بولتا تو گندی اور فحش قسم کی گالیوں کے علاوہ اسے مارنے کے واسطے تیار ہو جاتے۔ کہتے ہیں آئے دن یہ شکایتیں حضرت صاحب کے پاس پہنچتی رہتی تھیں، مگر آپ ہمیشہ یہی فرماتے کہ صبر کرو۔ لوگوں کو ہمیشہ یہی نصیحت کی کہ گالیاں سنو۔ بے شک ماریں کھاؤ۔ بس صبر کرو۔ بعض جوشیلے احمدی حضرت صاحب کے پاس آتے اور عرض کرتے کہ حضور ہم کو صرف ان کے مقابلہ کی اجازت دے دیں اور بَس پھر ہم ان کو خود سیدھا کر لیں گے۔ حضور فرماتے: نہیں، صبر کرو۔ ایک دفعہ سید احمدنور مہاجر کابلی نے اپنی تکلیف کا اظہار کیا۔ (کابل کے رہنے والے تھے، پٹھان تھے) اور مقابلے کی اجازت چاہی۔ غصے کی طبیعت تھی۔ حضرت صاحب نے فرمایا دیکھو اگر امن اور صبر کے ساتھ یہاں رہنا ہے تو یہاں رہو اور اگر لڑنا ہے اور صبر نہیں کر سکتے تو کابل چلے جاؤ۔ چنانچہ یہ اسی تعلیم کا نتیجہ تھا کہ بڑے بڑے معزز احمدی جو کسی دوسرے کی ذرا سی بات بھی برداشت نہیں کر سکتے تھے وہ ذلیل و حقیر لوگوں کے ہاتھ سے تکلیف اور ذلت اٹھاتے تھے اور دَم نہ مارتے تھے۔ مگر ایک دفعہ ایسا اتفاق ہوا کہ ایک غریب احمدی نے اپنے مکان کے واسطے ڈھاب سے کچھ بَھرتی اٹھائی (مکان کے لئے اس نے کچھ مٹی اُٹھائی۔) تو سکھ وغیرہ ایک بڑا جتھہ بنا کر اور لاٹھیوں سے مسلح ہو کر اُن کے مکان پر حملہ آور ہو گئے۔ پہلے تو احمدی بچتے رہے لیکن جب انہوں نے بے گناہ آدمیوں کو مارنا شروع کیا اور مکان کو بھی نقصان پہنچانے لگے تو بعض احمدیوں نے بھی مقابلہ کیا جس پر طرفین کے آدمی زخمی ہوئے اور بالآخر حملہ آوروں کو بھاگنا پڑا۔ چنانچہ یہ پہلا موقعہ تھا کہ قادیان کے غیر احمدیوں کو عملاً پتہ لگا کہ احمدیوں کا ڈر اُن سے نہیں بلکہ اپنے امام سے ہے۔ اس کے بعد پولیس نے اس واقعہ کی تحقیقات شروع کیں اور چونکہ احمدی سراسر مظلوم تھے اور غیر احمدی جتھہ بنا کر ایک احمدی کے مکان پر جارحانہ طور پر لاٹھیوں سے مسلح ہو کر حملہ آور ہوئے تھے اس لئے پولیس باوجود مخالف ہونے کے اُن کا چالان کرنے پر مجبور تھی۔ جب ان لوگوں نے دیکھا کہ اب ہتھکڑی لگتی ہے تو اُن کے آدمی حضرت صاحب کے پاس دوڑے آئے کہ ہم سے قصور ہو گیا ہے۔ حضور ہمیں معاف کر دیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے معاف کر دیا۔

(ماخوذ ازسیرت المھدی جلد اول حصہ اول روایت نمبر140۔ صفحہ129تا131مطبوعہ ربوہ)

حضرت یعقوب علی صاحب عرفانیؓ لکھتے ہیں کہ میرٹھ سے احمد حسین شوکت نے ایک اخبار شحنۂ ہند جاری کیا ہوا تھا۔ یہ شخص اپنے آپ کو مجدد السنۃ المشرقیہ کہا کرتا تھا۔ (یعنی کہ مشرقی زبانوں کا مجدد)۔ حضرت مسیح موعود کی مخالفت میں اس نے اپنے اخبار کا ایک ضمیمہ جاری کیا جس میں ہر قسم کے گندے مضامین مخالفت میں شائع کرتا۔ اور اس طرح پر جماعت کی دل آزاری کرتا۔ میرٹھ کی جماعت کو خصوصیت سے تکلیف ہوتی۔ کیونکہ وہاں سے ہی وہ گندہ پرچہ نکلتا تھا۔ 2؍اکتوبر1902ء کا واقعہ ہے کہ میرٹھ کی جماعت کے پریذیڈنٹ جناب شیخ عبدالرشید صاحب جو ایک معزز زمیندار اور تاجر ہیں تشریف فرماتھے۔ حضرت اقدس کی خدمت میں عرض کیا کہ مَیں نے ارادہ کیا ہے کہ ضمیمہ شحنۂ ہند کے توہین آمیز مضامین پر عدالت میں نالش کر دوں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ ہمارے لئے خدا کی عدالت کافی ہے۔ یہ گناہ میں داخل ہو گا اگر ہم خدا کی تجویز پر تقدم کریں۔ اس لئے ضروری ہے کہ صبر اور برداشت سے کام لیں۔ (کیونکہ ایسا گندہ لٹریچر تھا کہ جو لوگ گندگی کے لحاظ سے اُس لٹریچر سے واقف ہیں، وہ کہیں گے کہ اس پر ضرور مقدمہ ہونا چاہئے تھا)۔

(ماخوذ ازسیرت حضرت مسیح موعود علیہ السلام مصنفہ شیخ یعقوب علی صاحب عرفانیؓ صفحہ114-113)

پھر حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ حضرت مسیح موعودؑ کی ایک نصیحت جوآپؑ نے اپنی جماعت کو کی لکھتے ہیں۔ مفتی محمد صادق صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ ایک دفعہ میاں الہ دین صاحب عرف فلاسفر نے جن کی زبان کچھ آزاد واقع ہوئی ہے، مولوی عبدالکریم صاحب کی کچھ گستاخی کی جس پر مولوی صاحب کو غصہ آ گیا۔ انہوں نے فلاسفر صاحب کو تھپڑ مار دیا۔ اس پر فلاسفر اور تیز ہو گیا اور بُرا بھلا کہنے لگا۔ جس پر بعض لوگوں نے اس فلاسفر کو خوب اچھی طرح مارا پیٹا۔ اس پر اس نے چوک میں کھڑے ہو کر رونا چلانا شروع کر دیا۔ اتنی آواز بلند ہوئی کہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے کانوں تک آواز پہنچ گئی۔ آپ نماز مغرب سے قبل مسجد میں تشریف لائے تو آپ کے چہرے پر ناراضگی کے آثار تھے اور آپ مسجد میں ادھر اُدھر ٹہلنے لگے۔ اس وقت حضرت مولوی عبدالکریم صاحب بھی موجود تھے۔ آپ نے فرمایا کہ اس طرح کسی کو مارنا بہت ناپسندیدہ فعل ہے اور یہ بہت بُری حرکت کی گئی ہے۔ مولوی صاحب نے فلاسفر کا گستاخانہ رویہّ اور اپنی بریّت کے متعلق کچھ عرض کیا۔ آپ نے بڑے غصے میں فرمایا بہر حال یہ ناواجب بات ہوئی ہے۔ جب خدا کا رسول آپ لوگوں کے اندر موجود ہے تو آپ کو خود بخود اپنی رائے سے کوئی فعل نہیں کرنا چاہئے تھا بلکہ مجھ سے پوچھنا چاہئے تھا۔ کہتے ہیں کہ ان باتوں پر مولوی صاحب رو پڑے اور حضرت صاحب سے معافی مانگی اور اس کے بعد مارنے والے ساروں نے، اس فلاسفر سے جس کو مارا تھا جا کر معافی مانگی اور اس کو راضی کیا بلکہ لکھا ہے کہ اُس کو دودھ وغیرہ بھی پلایا۔

(ماخوذاز سیرت المھدی حصہ دوم جلد اول روایت نمبر437۔ صفحہ395-394مطبوعہ ربوہ)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
’’اے تمام لوگو! سُن رکھو کہ یہ اُس کی پیشگوئی ہے جس نے زمین و آسمان بنایا وہ اپنی اس جماعت کو تمام ملکوں میں پھیلاوے گا اور حجت اور برہان کے رو سے سب پر ان کو غلبہ بخشے گا۔ وہ دِن آتے ہیں بلکہ قریب ہیں کہ دنیا میں صرف یہی ایک مذہب ہوگا جو عزت کے ساتھ یاد کیا جائے گا۔ خدا اس مذہب اور اس سلسلہ میں نہایت درجہ اور فوق العادت برکت ڈالے گا اور ہر ایک کو جو اس کے معدوم کرنے کا فکر رکھتا ہے نامراد رکھے گا۔ اور یہ غلبہ ہمیشہ رہے گا یہاں تک کہ قیامت آجائیگی۔ اگر اب مجھ سے ٹھٹھا کرتے ہیں تو اس ٹھٹھے سے کیا نقصان؟ کیونکہ کوئی نبی نہیں جس سے ٹھٹھا نہیں کیا گیا۔ پس ضرور تھا کہ مسیح موعود سے بھی ٹھٹھا کیا جاتا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: یٰحَسۡرَۃً عَلَی الۡعِبَادِ ۚؑ مَا یَاۡتِیۡہِمۡ مِّنۡ رَّسُوۡلٍ اِلَّا کَانُوۡا بِہٖ یَسۡتَہۡزِءُوۡنَ (یٰس: 31) پس خدا کی طرف سے یہ نشانی ہے کہ ہر ایک نبی سے ٹھٹھا کیا جاتا ہے۔ مگر ایسا آدمی جو تمام لوگوں کے روبرو آسمان سے اُترے اور فرشتے بھی اُس کے ساتھ ہوں اُس سے کون ٹھٹھا کرے گا‘‘۔ (یہ غیر احمدیوں کا نظریہ ہے نا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے اتریں گے اور فرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر اتریں گے۔ فرمایا کہ اس طرح اگر کوئی اترے گا تواُس سے کون ٹھٹھا کرے گا؟) ’’پس اس دلیل سے بھی عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ مسیح موعود کا آسمان سے اُترنا محض جھوٹا خیال ہے۔ یاد رکھو کہ کوئی آسمان سے نہیں اُترے گا۔ ہمارے سب مخالف جواب زندہ موجود ہیں وہ تمام مریں گے اور کوئی اُن میں سے عیسیٰؑ بن مریم کو آسمان سے اُترتے نہیں دیکھے گا۔ اور پھر ان کی اولاد جو باقی رہے گی وہ بھی مرے گی اور اُن میں سے بھی کوئی آدمی عیسیٰؑ بن مریم کو آسمان سے اُترتے نہیں دیکھے گا۔ اور پھر اولاد کی اولاد مرے گی اور وہ بھی مریم کے بیٹے کو آسمان سے اُترتے نہیں دیکھے گی۔ تب خدا اُن کے دلوں میں گھبراہٹ ڈالے گا کہ زمانہ صلیب کے غلبہ کا بھی گزر گیا اور دنیا دوسرے رنگ میں آگئی مگر مریم کا بیٹا عیسیٰؑ اب تک آسمان سے نہ اُترا۔ تب دانشمند یکدفعہ اس عقیدہ سے بیزار ہو جائیں گے۔ اور ابھی تیسری صدی آج کے دن سے پوری نہیں ہوگی کہ عیسیٰ کے انتظار کرنے والے کیا مسلمان اور کیا عیسائی سخت نومید اور بدظن ہو کر اس جھوٹے عقیدہ کو چھوڑیں گے اور دنیا میں ایک ہی مذہب ہوگا اور ایک ہی پیشوا۔ مَیں تو ایک تخم ریزی کرنے آیا ہوں۔ سو میرے ہاتھ سے وہ تخم بویا گیا اور اب وہ بڑھے گا اور پھولے گا اور کوئی نہیں جو اُس کو روک سکے‘‘۔

(تذکرۃ الشہادتین روحانی خزائن جلد 20 صفحہ 67-66)

اب جو یہ احمدیوں کو کہتے ہیں، اعتراض کرتے ہیں اور بعض کمزور طبع ان غیروں کی باتوں میں آ جاتے ہیں کہ تم لوگ کب تک صبر کرتے رہو گے۔ مَیں نے پچھلے (خطبہ) میں بھی ذکر کیا تھا۔ پتہ نہیں یہ جو ہمارے نام نہاد ہمدردی کرنے والے ہیں ان کو ہماری اتنی فکر کیوں ہے؟ اپنے آپ کو سنبھالیں اور اپنی عاقبت کی فکر کریں کہ اپنی عاقبت خراب نہ ہو رہی ہو۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ نہیں فرمایا کہ یہ مشکلات اور مخالفتیں تھوڑے عرصے میں دور ہو جائیں گی اور احمدیت کی اکثریت دنیا میں تیس سال یا چالیس سال یا سو سال میں ہو جائے گی بلکہ فرمایا کہ ابھی تیسری صدی آج کے دن سے پوری نہیں ہو گی (اور یہ حوالہ جو آپ نے لکھا ہے یہ تذکرۃ الشہادتین کا ہے جو 1903ء میں لکھی گئی تھی۔ یعنی ایک سو سات سال پہلے)۔ اور آج جماعت احمدیہ تمام مخالفتوں سے صبر اور دعا کے ساتھ گزرتی ہوئی اللہ تعالیٰ کے فضل سے 198ممالک میں پہنچ چکی ہے، اور روز بروز یہ جماعت ترقی کر رہی ہے اور آج ہم دنیا کے ہر خطہ میں جماعت احمدیہ کو دیکھ رہے ہیں۔ اور اس ترقی نے ہی دشمن کو بوکھلا دیا ہے۔ یہ جو مخالفتیں بڑھ رہی ہیں، دشمنیاں بڑھ رہی ہیں، جماعت کے خلاف منصوبہ بندیاں بڑھ رہی ہیں، یہ صرف اس لئے ہیں کہ جماعت ان کو پھیلتی نظر آ رہی ہے۔ پس یہ تخم جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام نے بویا تھا جیسا کہ آپ نے فرمایا وہ تو پھل پھول رہا ہے۔ ہاں قانونِ قدرت ہے کہ سرسبز اور پھلنے والے جو درخت ہوتے ہیں اُن میں بھی بعض دفعہ اِکّا دُکّا خشک ٹہنیاں نظر آنے لگ جاتی ہیں تو درخت کا جومالک ہے وہ ایسی ٹہنیوں کو کاٹ کر پھینک دیتا ہے اور اس سے درخت کے پھل پھول لانے میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ پس حضرت مسیح موعودؑ کا لگایا ہوا یہ سرسبز درخت جو ہے یہ تو صبر اور دعا کے پانی سے سینچا جا رہا ہے اور انشاء اللہ تعالیٰ پھلتا پھولتا رہے گا۔ جو شاخ بھی اس پانی سے فیض حاصل نہیں کرے گی، اُس کی حالت سوکھی ٹہنی کی طرح ہو گی اور وہ کٹ جائے گی، کاٹ دی جائے گی۔ پس ان حالات میں جبکہ احمدیت کی مخالفت میں جیسا کہ میں نے کہا تیزی آئی ہے اور مزید مخالفت بڑھ رہی ہے بلکہ بعض جگہ جہاں افریقن ممالک میں کم ہو گئی تھی، وہاں دوبارہ شروع ہوئی ہے۔ تو صبر اور دعا کے ساتھ ہر احمدی اللہ تعالیٰ سے پہلے سے بڑھ کر مدد مانگے اور اس سرسبز اور بڑھنے اور پھلنے اور پھولنے والے درخت کا حصہ بنا رہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔

٭…٭…٭

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 جولائی 2020

اگلا پڑھیں

Covid-19 عالمی اپڈیٹ 17 جولائی 2020ء