• 1 مئی, 2024

حضرت مسیح موعودؑ کا عظیم الشان علمی معجزہ ’خطبہ الہامیہ‘

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں :۔
’’آج میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے ایک ایسے نشان کا ذکر کروں گا جو آج کے دن یعنی 11؍ اپریل 1900ء میں ظاہر ہوا۔ یا یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ نشان عمل میں آیا۔ یہ نشان آپ کا عربی زبان میں خطبہ ہے جو خاص تائید الٰہی سے آپ کی زبان پر جاری ہوا، بلکہ الہام میں ہی تھا۔ یہ ایک ایسا نشان تھا جو الہامی تھا اس لئے اس کا نام ’’خطبہ الہامیہ‘‘ رکھا گیا۔ اس الہامی خطبہ اور اس الہامی کیفیت کو دو سو کے قریب لوگوں نے اُس وقت سنا اور دیکھا۔ مجھے بھی کسی نے اس طرف توجہ دلائی کہ آج کے دن کی مناسبت سے جبکہ آج جمعہ بھی ہے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس عظیم الشان نشان کو بیان کروں کیونکہ ایسے احمدی بھی ہیں جو شاید خطبہ الہامیہ کانام تو جانتے ہوں جو کتابی صورت میں شائع ہے لیکن اس کی تاریخ اور پس منظر اور مضمون کا علم نہیں رکھتے۔ اور اس بات نے مجھے حیران بھی کیا جب یہ پتا چلا کہ بعض ایسے بھی ہیں جن کو پتا ہی نہیں کہ خطبہ الہامیہ کیا چیز ہے۔ ہر احمدی کو یاد رکھنا چاہئے کہ یہ نشان جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تائید میں اللہ تعالیٰ نے دکھائے ایسے ہیں جو ہمارے ایمانوں کو مضبوط کرتے ہیں اور مخالفین احمدیت کا منہ بند کرنے کے لئے ہمیں مواد مہیا کرتے ہیں۔ آپ کی صداقت کی دلیل ہمیں مہیا کرتے ہیں۔ اور خاص طور پر ایسے نشان جیسے خطبہ الہامیہ ہے یہ تو عظیم الشان نشانوں میں سے ہے۔ جس نے بڑے بڑے علماء کے منہ بند کر دئیے۔ بہر حال جیسا کہ میں نے کہا کہ مختصرًا اس کا پس منظر اور تاریخ بیان کروں گا اور یہ بھی کہ اس نے اپنوں پر اس وقت کیا اثر کیا، کس کیفیت میں سے وہ گزرے اور غیر اس کے متعلق کیا کہتے ہیں۔ اسی طرح اس خطبہ کی چند سطریں یا بعض چھوٹے سے اقتباسات پیش کروں گا۔

اس الہامی خطبہ کی حقیقت اور عظمت کا تو اسے پڑھنے سے ہی پتا چلتا ہے لیکن یہ چند فقرے جو میں پیش کروں گا جو میں نے پڑھنے کے لئے چنے ہیں ان میں بھی اس کی عظمت اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کے مقام و مرتبے کا پتا چلتا ہے۔ تذکرہ میں یہ خطبہ الہامیہ شاید اس لئے شامل نہیں کیا گیا کہ علیحدہ کتابی صورت میں چھپا ہوا ہے لیکن بہر حال مجھے اس بارے میں کچھ تحفظات ہیں۔ اس لئے آئندہ جب بھی تذکرہ شائع ہو یا آئندہ کسی زبان میں جو بھی ایڈیشن شائع ہوں تو متعلقہ ادارے اس بارے میں مجھ سے پوچھ لیں۔ اس خطبہ الہامیہ کا پس منظر یہ ہے جو بدر نے لکھا ہے، اخبار الحکم نے بھی لکھا تھا یا جماعتی روایات میں آ رہا ہے کہ
’’یوم العرفات کو (یعنی بڑی عید، عیدالاضحی سے ایک دن پہلے) علی الصبح حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بذریعہ ایک خط کے حضرت مولانا نور الدین صاحب کو اطلاع دی۔ کہ
’’میں آج کا دن اور رات کا کسی قدر حصہ اپنے اور اپنے دوستوں کے لئے دعا میں گزارنا چاہتا ہوں۔ اس لئے وہ دوست جو یہاں موجود ہیں اپنا نام معہ جائے سکونت (یعنی پتہ وغیرہ کہاں رہتے ہیں) لکھ کر میرے پاس بھیج دیں تاکہ دعا کرتے وقت مجھ یاد رہے۔‘‘

اس پر تعمیل ارشاد میں ایک فہرست احباب کی ترتیب دے کر حضور کی خدمت میں بھیج دی گئی۔ اس کے بعد اور احباب بھی باہر سے آ گئے جنہوں نے زیارت و دعا کے لئے بیقراری ظاہر کی اور رقعے بھیجنے شروع کر دئیے۔ حضور نے دوبارہ اطلاع بھیجی کہ
’’میرے پاس اب کوئی رقعہ وغیرہ نہ بھیجے۔ اس طرح سخت ہرج ہوتا ہے۔‘‘

مغرب و عشاء میں حضور تشریف لائے جو جمع کر کے پڑھی گئیں۔ بعد فراغت فرمایا:
’’چونکہ میں اللہ تعالیٰ سے وعدہ کر چکا ہوں کہ آج کا دن اور رات کا حصہ دعاؤں میں گزاروں۔ اس لئے میں جاتا ہوں تا کہ تخلف وعدہ نہ ہو۔‘‘ (وعدہ خلافی نہ ہو)

یہ فرما کر حضور تشریف لے گئے اور دعاؤں میں مشغول ہو گئے۔ دوسری صبح عید کے دن مولوی عبدالکریم صاحب نے اندر جا کر تقریر کرنے کے لئے خصوصیت سے عرض کی۔ اس پر حضور نے فرمایا۔ ’’خدا نے ہی حکم دیا ہے‘‘ اور پھر فرمایا کہ
’’رات الہام ہوا ہے کہ مجمع میں کچھ عربی فقرے پڑھو۔ میں کوئی اور مجمع سمجھتا تھا۔ شاید یہی مجمع ہو۔ (یعنی عید کا)‘‘

پھر یہ بھی رپورٹس میں ہے کہ ’’جب حضرت اقدس عربی خطبہ پڑھنے کے لئے تیار ہوئے تو حضرت مولوی عبدالکریم صاحب اور حضرت مولوی نور الدین صاحب کو حکم دیا کہ وہ قریب تر ہو کر اس خطبہ کو لکھیں۔ جب حضرات مولوی صاحبان تیار ہو گئے تو حضور نے یَاعِبَادَ اللّٰہِ کے لفظ سے عربی خطبہ شروع فرمایا۔ اثناء خطبہ میں حضرت اقدس نے یہ بھی فرمایا کہ
’’اب لکھ لو پھر یہ لفظ جاتے ہیں‘‘ (یعنی ساتھ ساتھ لکھتے جاؤ۔ اگر کوئی لفظ سمجھ نہیں آیا تو ابھی پوچھ لینا)

جب حضرت اقدس خطبہ پڑھ کر بیٹھ گئے تو اکثر احباب کی درخواست پر مولانا مولوی عبدالکریم صاحب اس کا ترجمہ سنانے کے لئے کھڑے ہوئے۔ اس سے پیشتر کہ مولانا موصوف ترجمہ سنائیں، حضرت اقدس نے فرمایا کہ
’’اس خطبہ کو کل عرفہ کے دن اور عید کی رات میں جو مَیں نے دعائیں کی ہیں ان کی قبولیت کے لیے نشان رکھا گیا تھا کہ اگر مَیں یہ خطبہ عربی زبان میں ارتجالاً پڑھ گیا، تو وہ ساری دعائیں قبول سمجھی جائیں گی۔ الحمد للہ کہ وہ ساری دعائیں بھی خدا تعالیٰ کے وعدے کے موافق قبول ہو گئیں …‘‘ آپ نے یہ فرمایا اور پھر اس کا اردو میں ترجمہ شروع ہوا۔‘‘ … ابھی مولانا عبدالکریم صاحب ترجمہ سناہی رہے تھے کہ حضرت اقدس علیہ السلام فرطِ جوش کے ساتھ سجدہ شکر میں جا پڑے۔ حضورؑ کے ساتھ تمام حاضرین نے سجدہ شکر ادا کیا۔ سجدہ سے سر اٹھا کر حضرتِ اقدسؑ نے فرمایا۔
’’ابھی میں نے سرخ الفاظ میں لکھا دیکھا ہے کہ ’’مبارک‘‘ یہ گویا قبولیت کا نشان ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد اول صفحہ324-325)

یہ رپورٹ الحکم میں شائع ہوئی تھی جو ملفوظات میں بھی درج ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی کتاب ’’نزول المسیح‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں کہ
’’عید اضحی کی صبح کو مجھے الہام ہو اکہ کچھ عربی میں بولو۔ چنانچہ بہت احباب کو اس بات سے اطلاع دی گئی اور اس سے پہلے میں نے کبھی عربی زبان میں کوئی تقریر نہیں کی تھی لیکن اس دن میں عید کا خطبہ عربی زبان میں پڑھنے کے لئے کھڑا ہوا تو اللہ تعالیٰ نے ایک بلیغ فصیح پُرمعانی کلام عربی میں میری زبان میں جاری کی جو خطبہ الہامیہ میں درج ہے۔ وہ کئی جز کی تقریر ہے جو ایک ہی وقت میں کھڑے ہو کر زبانی فی البدیہہ کہی گئی۔ اور خدا نے اپنے الہام میں اس کا نام نشان رکھا کیونکہ وہ زبانی تقریر محض خدائی قوت سے ظہور میں آئی۔ میں ہرگز یقین نہیں مانتا کہ کوئی فصیح اور اہل علم اور ادیب عربی بھی زبانی طور پر ایسی تقریر کھڑا ہو کر کر سکے۔ یہ تقریر وہ ہے جس کے اِس وقت قریبا ڈیڑھ سو آدمی گواہ ہوں گے۔‘‘

(نزول المسیح، روحانی خزائن جلد18 صفحہ588)

(خطبہ جمعہ 11؍ اپریل 2014ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 جولائی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 جولائی 2021