• 20 اپریل, 2024

عید الاضحیہ کے احکام و مسائل

خلفاء احمدیت کے ارشادات کی روشنی میں
عید الاضحیہ کے احکام و مسائل

حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو اہلِ مدینہ دو دن کھیل کود کے لئے منایا کرتے تھے۔ حضور ﷺ نے دریافت فرمایا: ان دودنوں کی کیا حقیقت ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ہم جاہلیت کے زمانہ میں بھی ان دنوں کھیل کود کیا کرتے تھے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ان کے بدلے دو دن عطا فرمائے ہیں جو ان سے بہتر ہیں۔ ایک عید الاضحی دوسرا عید الفطر۔

(سنن ابی داؤد کتاب الصلوۃ باب صلوۃ العیدین)

عید قربان کا حقیقی مقصد

ہمارے پیارے آقا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز عید الاضحیہ کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’آج ہم عید الاضحی منارہے ہیں جو قربانی کی عید بھی کہلاتی ہے۔ اس عید پر جن کو توفیق ہے جانوروں کی قربانی کرتے ہیں، پھر حج کرنے والوں کی طرف سے ہزاروں لاکھوں جانور ذبح ہو رہے ہوتے ہیں، تو آج کروڑوں جانور ذبح ہو رہے ہوں گے دنیامیں آج یا کل ۔لیکن کیا یہ قربانی اور عیدکی خوشیاں جو ہیں جو ہم عید پر مناتے ہیں یہی اس عید کا مقصد ہیں۔ یہ بکرے اور بھیڑیں ذبح کرنا اور خود بھی باربی کیو سے لطف اُٹھانا گوشت سے تکّے بنا کر اور اپنے عزیزوں اور دوستوں کو بھی اپنے ساتھ اس میں شامل کرنا کیا یہی اس قربانی کا مقصد ہے؟ کیا یہ کوئی ایساکام ہے جس پر اللہ تعالیٰ بہت خوش ہو اورمسلمانوں سے کہہ رہا ہے اس بات پر کہ آج میں تم پر بہت خو ش ہوں کہ تم بکرے اور بھیڑیں اور گائیاں اور بعض لوگ اُونٹ بھی ذبح کرتے ہیں کہ جو جانور ذبح کر رہے ہو؟ ۔۔۔ قربانی کی عید کے پیچھے صرف اتنی سی بات نہیں ہے کہ بکرا ذبح کرلو اور عید کی نماز کے بعد سب سے پہلا یہی کام کرو کہ بکرا ذبح کرنا ہے اور اس کے بعد اس کا گوشت کھانا ہے ۔۔۔ پس ہمیں یہ دیکھنا چاہیئے کہ ہرسال جو عید آتی ہے اس سے ہم اپنے روحانی معیار کس طرح بلند کرسکتے ہیں ،اپنی قربانیوں کے معیار کس طرح بلند کر سکتے ہیں۔ورنہ اللہ تعالیٰ کو ہمارے اِن بکرے، دنبے ،گائے وغیرہ ذبح کرنے سے کوئی غرض نہیں ۔اللہ تعالیٰ نے جس مقصد کے لئے انسان کوپیدا کیا ہے ،اللہ تعالیٰ تو وہ مقصد پورا کرنے والے انسان دیکھنا چاہتا ہے ۔ورنہ یہ گوشت وغیرہ جو ہیں یہ تو صرف اگر صرف ذبح کرنے کی نیت سے ہی کئے جارہے ہیں تو یہ تو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والے نہیں ہوسکتے۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے ۔۔۔ لَنۡ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوۡمُہَا وَ لَا دِمَآؤُہَا یاد رکھو کہ ان قربانیوں کے گوشت اور خون ہرگز اللہ تعالیٰ تک نہیں پہنچتے۔ پس ہمیشہ یاد رکھنا چاہیئے کہ ہم ہر سال جب عید الاضحی مناتے ہیں تو وہ روح تلاش کریں جو ان قربانیوں کے پیچھے ہونی چاہئیے اور ہے اور وہ روح کیا ہے، اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں دے دیا وَلٰکِنۡ یَّنَالُہُ التَّقۡوٰی مِنۡکُمۡ لیکن تمہارے دل کا تقویٰ جو ہے وہ اللہ تعالیٰ تک پہنچتا ہے ۔۔۔ پس یہ ظاہری نمونے اس روح کو قائم کرنے کے لئے ہیں، ورنہ ہمارا جانور قربانی کرنا یہ نیکی نہیں ہے، نہ گوشت کھانا نیکی ہے، نہ ہی یہ گوشت اور خون اللہ تعالیٰ تک پہنچتے ہیں۔‘‘

(خطبہ عید الاضحیہ فرمودہ 20دسمبر2007ء)

اسی طرح حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’خدا تعالیٰ کا حکم ہے کہ عید مناؤ اس لئے کہ یہ قربانی کی عیدتمہیں قربانی کے اسلوب سکھاتی ہے تمہیں اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق چلنے کی طرف توجہ دلاتی ہے، ان حکموں پر غور کرنے کی طرف توجہ دلاتی ہے جو تقویٰ کے معیار بلند کرتے ہیں ،اُن ماں، بیٹا اور باپ کی قربانیوں کی طرف توجہ دلاتی ہے، جنہوں نے اپنے جذبات کو قربان کیا، جو صرف چھری پھروانے اور پھیرنے کے عارضی نمونہ دکھانے والے نہیں تھے، بلکہ مسلسل لمبا عرصہ قربانیاں دینے والے تھے، جنہوں نے دنیاکو امن اور سلامتی کے اسلوب سکھانے کے لئے، نہ صرف اپنے جذبات کو قربان کیا، اپنے آرام کو قربان کیا،اپنے وطن کو قربان کیا بلکہ ان دعاؤں میں مسلسل لگے رہے کہ خدا تعالیٰ آئندہ آنے والی نسلوں میں بھی ایسا انتظام کردے (کہ وہ) دنیا کے لئے امن اور سلامتی دینے والے بن جائیں، تقویٰ کی وہ راہیں دکھانے والے ہوں (اور وہ) اللہ تعالی ٰ کی رضا کو ہر چیز پرمقدم کرتے ہوئے تقویٰ کا اعلیٰ معیار قائم کر دیں، جن کے نمونے دنیا کے لئے ہمیشہ کے لئے رہنمابن جائیں۔ پس حضرت ابراہیم ؑ اور آپؑ کی بیوی اور بیٹے کی قربانی کی یاد میں جو ہم عید قربان مناتے ہیں اور مناسک ِحج ادا کرتے ہیں یہ ظاہری قربانیاں اور اظہار نہیں ہے بلکہ ایک بہت بڑے مقصد کی طرف توجہ دلانے والی ہیں ،ہماری قربانیاں جوبکروں، بھیڑوں اور گائیوں کی ہم کرتے ہیں، یہ صرف ہماری بڑائی کے اظہار یا لوگوں پر اپنی نیکیاں ظاہر کرنے کے لئے نہیں کہ فلاں شخص نے بڑا خوبصورت اورمہنگا دنبہ قربان کیا یا فلاں نے بڑی خوبصورت اور مہنگی گائے قربان کی۔ اگر تقویٰ سے عاری یہ قربانیاں ہیں اگر اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کی خواہش اور دعا کے بغیر یہ قربانیاں ہیں ،تو اللہ تعالیٰ کےہاں یہ ردّ کرنے کے قابل ہیں ،اِسی طرح ہلاکت کا باعث بن جاتی ہیں یہ، جس طرح نمازیں ہلاکت کا باعث بنتی ہیں، جو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے نہیں پڑھی جاتیں، بلکہ صرف دکھاوے کی ہوتی ہیں ۔۔۔ پس ہر عبادت اور قربانی تقویٰ کی روح کو چاہتی ہے ، اللہ تعالیٰ کی رضا کو چاہتی ہے اس کے بغیر یہ سب عبادتیں اور قربانیاں منہ پر ماری جاتی ہیں ۔۔۔ ہم جو آنحضرت ﷺ کے عاشق صادق کے ماننے والے ہیں، ہمیں یہ کوشش کرنی چاہئے کہ اُس روح کی تلاش کریں جو اِن قربانیوں کی روح ہے … اللہ کرے کہ ۔۔۔ یہ حقیقی ادراک مسلمانوں میں پیدا ہو کہ حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ کی قربانی، خانہ کعبہ کی تعمیر اور حضرت رسول اللہ ﷺ کی بعثت کا مقصد، اپنی قربانی کے معیار کو بلند کر تے ہوئے ،حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کا قیام اور سلامتی اور امن کو دنیا میں قائم کرنا تھا۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بھی حقیقی رنگ میں اس قربانی کا ادراک عطا فرمائے اور … ہم قربانی کی روح کو سمجھتے ہوئے اپنےحق اداکرنے والے بنیں ۔دنیا کو امن اور سکون اور سلامتی دینے والے بنیں۔‘‘

(خطبہ عید الاضحیہ بیان فرمودہ 06اکتوبر 2014ء)

تکبیرات عیدا لاضحیہ

حضورﷺ نو ذوالحجہ کی فجر سے ایام تشریق کے آخری دن یعنی تیرہ ذوالحجہ کی نماز عصر تک تمام فرض نمازوں کے بعد بالعموم تکبیرات پڑھتے تھے۔ چنانچہ احادیث میں لکھا ہے:

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِاللّٰہِ قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِﷺیُکَبِّرُ فِیْ صَلَاۃِالْفَجْرِ یَوْمَ عَرَفَۃَ اِلٰی صَلَاۃِ الْعَصْرِ مِنْ اٰخِرِ اَیَّامِ التَّشْرِیْقِ حِیْنَ یُسَلِّمُ مِنَ الْمَکْتُوْبَاتِ

(دار قطنی کتاب العیدین حدیث نمبر:27)

اسی طرح ایک اور حدیث میں لکھا ہے :

عَنْ عَلِیٍّ وَّعَمَّارٍ اَنَّ النَّبِیَّ ؐ کَانَ یُکَبِّرُ مِنْ یَوْمِ عَرَفَۃَ صَلٰوۃَ الْغَدَاۃِ وَ یَقْطَعُہَا صَلٰوۃَ الْعَصْرِ اٰخِرَ اَیَّامِ التَّشْرِیْقِ

ترجمہ:۔ حضرت علی ؓ اور حضرت عمار ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ؐ نو ذوالحجہ کی نماز فجر سے تیرہ ذوالحجہ کی نماز عصر تک تکبیرات کہا کرتے تھے۔

(المستدرک للحاکم کتاب العیدین باب تکبیرات التشریق)

سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ آیت قرآنی وَ اذۡکُرُوا اللّٰہَ فِیۡۤ اَیَّامٍ مَّعۡدُوۡدٰتٍ یعنی اور اللہ کو (بہت) ىاد کرو، خصوصاً اِن گنتى کے چند دنوں مىں (البقرہ 204) کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’اس آیت میں جن مقررہ دنوں میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے کا خصوصیت کے ساتھ حکم دیا گیا ہے وہ ایام تشریق ہیں ۔یعنی 11۔12۔13 ذوالحجہ یا ایام منٰی ہیں۔ جو دسویں تاریخ سے شروع ہوتے ہیں اور 13 کو ختم ہو جاتے ہیں۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ448)

سیدناحضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’ہم عید کی نماز میں جو بہت سی تکبیریں کرتے ہیں بلکہ ایام تشریق میں برابر تکبیر بلند کرتے رہتے ہیں تو گویا ابراہیم کی قربانی کےلئے اپنے جذبات استحسان کا ہدیہ پیش کرتے ہیں۔‘‘

(خطبات محمود جلد دوم صفحہ204)

حضرت قاضی محمد ظہور الدین صاحب اکمل رضی اللہ عنہ نے ’’سنت احمدیہ‘‘ کے نام سے 1910ء میں ایک کتاب لکھی جس کی بابت حضرت خلیفۃالمسیح الاول رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’میں نے اس کتاب کو پڑھا ۔ کتاب ہر ایک پہلو میں مجھے پسند ہے۔‘‘

(سنت احمدیہ صفحہ 84)

اس میں وہ لکھتے ہیں:
’’عید الاضحی میں نویں حج کی صبح سے لیکر تیرہویں کی عصر تک 23نمازوں میں بعد فرض پڑھنے کے بھی تکبیریں آئی ہیں۔ جو سنت ہیں۔‘‘

(سنت احمدیہ صفحہ54 مطبوعہ بدر پریس قادیان ،اپریل 1910ء بار اوّل)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ ان دنوں میں تیسرے دن تک تکبیر تحمید کیا کرتے تھے اور اس کے مختلف کلمات ہیں اصل غرض تکبیر وتحمید ہے خواہ کسی طرح ہو اور اس کے متعلق دستور تھا کہ جب مسلمانوں کی جماعتیں ایک دوسری سے ملتی تھیں تو تکبیر کہتی تھیں۔ مسلمان جب ایک دوسرے کو دیکھتے تو تکبیر کہتے۔ اٹھتے بیٹھتے تکبیر کہتے۔ کام میں لگتے تو تکبیر کہتے لیکن ہمارے ملک میں یہ رائج ہے کہ محض نماز کے بعد کہتے ہیں اس خاص صورت میں کوئی ثابت نہیں اور یہ غلط طریق رائج ہوگیا۔ باقی یہ کہ تکبیر کس طرح ہو یہ بات انسان کی اپنی حالت پر منحصر ہے جس کا دل زور سے تکبیر کہنے کو چاہے وہ زور سے کہے جس کا آہستہ وہ آہستہ مگر آواز نکلنی چاہئے۔‘‘

(الفضل17 اگست1922ء، الفضل11 ستمبر1951ء)

سوال:۔ اگر عید اور جمعہ ایک دن میں جمع ہوجائیں ۔ تو نماز جمعہ کی ادائیگی کے متعلق کیاحکم ہے؟

جواب:۔ حدیث شریف میں آیا ہے :

عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ اجْتَمَعَ عِیْدَانِ عَلٰی عَہْدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ فَصَلَّی بِالنَّاسِ ثُمَّ قَالَ مَنْ شَآءَ أَنْ یَّأْتِیَ الْجُمُعَۃَ فَلْیَأْتِہَا وَمَنْ شَآءَأَنْ یَّتَخَلَّفَ فَلْیَتَخَلَّفْ۔

(سنن ابن ماجہ ۔کِتَابُ إِقَامَۃِ الصَّلَاۃِ، وَالسُّنَّۃُ فِیہَا ۔بَابُ مَا جَاء َ فِیمَا إِذَا اجْتَمَعَ الْعِیدَانِ فِی یَوْمٍ۔ روایت نمبر1312)

ترجمہ: حضرت ابن عمر ؓفرماتے ہیں کہ رسول پاک ؐکے عہد مبارک میں دونوں عیدیں (جمعہ اور عید) جمع ہوگئیں تو آپ ؐ نے عید کی نماز پڑھا کر فرمایا جو جمعہ کی نماز کے لیے آنا چاہے آجائے اور جو نہ آنا چاہے وہ نہ آئے۔

عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ ﷺ أَنَّہٗ قَالَ اجْتَمَعَ عِیْدَانِ فِیْ یَوْمِکُمْ ہٰذَا فَمَنْ شَآءَ أَجْزَأَہٗ مِنَ الْجُمُعَۃِ وَإِنَّا مُجَمِّعُوْنَ إِنْ شَآءَ اللّٰہُ ۔

(سنن ابن ماجہ ۔کِتَابُ إِقَامَۃِ الصَّلَاۃِ، وَالسُّنَّۃُ فِیہَا ۔بَابُ مَا جَاء َ فِیمَا إِذَا اجْتَمَعَ الْعِیدَانِ فِی یَوْمٍ۔ روایت نمبر1311)

ترجمہ: حضرت ابن عباس ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ؐنے فرمایا آج کے دن دو عیدیں جمع ہوگئی ہیں جو چاہے اس کے لئے جمعہ کی بجائے عید کافی ہوگئی۔ اور ہم تو ان شاء اللہ جمعہ ضرور پڑھیں گے۔

حضرت مصلح موعودؓ متذکرہ بالا احادیث اور اس سے ملتی جلتی دیگر روایات میں بیان شدہ مضامین کی بابت فرماتے ہیں:
’’رسول کریم ؐ سے یہ بات ثابت ہے کہ آپ ؐ نے فرمایا جب جمعہ اور عید جمع ہو جائیں تو اجازت ہے کہ جو لوگ چاہیں جمعہ کی بجائے ظہر کی نماز ادا کرلیں مگر فرمایا ہم تو جمعہ ہی پڑھیں گے۔

کل بھی میرے پاس ایک مفتی صاحب کا فتویٰ آیا تھا کہ بعض دوست کہتے ہیں اگر جمعہ کی بجائے ظہر کی نماز ہو جائے تو قربانیوں میں ہم کو سہولت ہو جائے گی اور انہوں نے اس قسم کی حدیثیں لکھ کر ساتھ ہی بھجوا دی تھیں۔میں نے ان کو یہی جواب دیا تھا کہ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جمعہ اور عید جب جمع ہو جائیں تو جمعہ کی بجائے ظہر کی نماز پڑھنے کی اجازت ہے مگر ہم تو وہی کریں گے جو رسول کریم ؐنے کیا ۔رسول اللہؐ نے فرمایا تھا اگر کوئی جمعہ کی بجائے ظہر کی نما زپڑھنا چاہے تو اسے اجازت ہے مگر ہم تو جمعہ ہی پڑھیں گے۔

ہمارا رب کیسا سخی ہے کہ اس نے ہمیں دودو (عیدیں) دیں …….. یعنی جمعہ بھی آیا اور عید الاضحیہ بھی آئی اور اس طرح دو عیدیں خدا تعالیٰ نے ہمارے لئے جمع کر دیں۔ اب جس کو دو، دو چپُٹری ہوئی چپاتیاں ملیں وہ ایک کو کیوں رد کرے گا۔ وہ تو دونوں لے گا۔سوائے اس کے کہ اسے کوئی خاص مجبوری پیش آ جائے اور اسی لئے رسول کریم ؐنے اجازت دی ہے کہ اگر کوئی مجبور ہو کر ظہر کی نماز پڑھ لے جمعہ نہ پڑھے تو دوسرے کو نہیں چاہئے کہ اس پر طعن کرے اور بعض لوگ ایسے ہوں جنھیں دونوں نمازیں ادا کرنے کی توفیق ہو تو دوسرے کو نہیں چاہئے کہ ان پر اعتراض کرے اور کہے کہ انہوں نے رخصت سے فائدہ نہ اٹھایا۔‘‘

(خطبہ عید الاضحیہ از حضرت مصلح موعود ؓ فرمودہ 11فروری 1938ء بحوالہ الفضل 15مارچ 1938ء)

حضرت مصلح موعودؓ نے ایک اور موقع پر فرمایا:
’’شریعت نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ اگر عید اور جمعہ اکٹھے ہو جائیں تو جائز ہے کہ جمعہ کی بجائے ظہر کی نماز پڑھ لی جائے۔لیکن یہ بھی جائز ہے کہ عید اور جمعہ دونوں ہی پڑھ لئے جائیں۔ کیونکہ ہماری شریعت نے ہر امر میں سہولت کو مدنظر رکھا ہے ۔چونکہ عام نمازیں اپنے اپنے محلوں میں ہوتی ہیں لیکن جمعہ کی نماز میں سارے شہر کے لوگ اکٹھے ہوتے ہیں۔ اسی طرح عید کی نماز میں بھی سب لوگ اکٹھے ہوتے ہیں اور ایک دن میں دو ایسے اجتماع جن میں دور دور سے لوگ آ کر شامل ہوں مشکلات پیدا کر سکتا ہے اس لئے شریعت نے اجازت دی ہے کہ اگر لوگ برداشت نہ کر سکیں توجمعہ کی بجائے ظہر پڑھ لیں۔بہرحال اصل غرض شریعت کی یہ ہے کہ مسلمان اپنی زندگی میں زیادہ سے زیا دہ عرصہ کے لئے اکٹھے بیٹھ سکیں کیونکہ اسلام صرف دل کی صفائی کے لئے نہیں آیا۔اسلام قومی ترقی اور معاشرت کے ارتقاء کے لئے بھی آیا ہے اور قوم اور معا شرت کا پتہ بغیر اجتماع میں شامل ہونے کے نہیں لگ سکتا۔‘‘

(خطبہ جمعہ از حضرت مصلح موعودؓ فرمودہ 21اگست 1956ء بمقام کراچی۔ بحوالہ المصلح کراچی 20اکتوبر 1956ء)

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:
’’میں نے عید کے خطبہ میں بیان کیا تھا کہ اگر عید جمعہ کے دن ہو تو اگرچہ نماز ظہر اد اکرنی بھی جائز ہے مگر میں جمعہ ہی پڑھوں گا ۔جمعہ کا اجتماع بھی دراصل ایک عید ہی ہے اور اس میں دو سبق دئے گئے ہیں ۔ایک قومی اتحاد کی طرف اس میں توجہ دلائی گئی ہے اور دوسرے تبلیغ کی طرف۔ خطبہ کے لئے جمعہ کی نماز میں ظہر کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ نے دو رکعت کی کمی کردی۔‘‘

(خطبہ جمعہ 11فروری 1939ء۔ الفضل 19فروری 1939ء)

حضرت خلیفۃ المسیح الاول ؓ فرماتے ہیں:
’’عید میں تنگی نہیں کی بلکہ فرمایا کہ اگر جمعہ و عید اکٹھے ہو جائیں تو گاؤں کے لوگوں کو جو باہر سے شریک ہوئے ہیں جمعہ کے لئے انتظار کی تکلیف نہ دی جائے۔‘‘

(بدر جلد 9 نمبر 10 ۔۔۔۔ 30 دسمبر 1909ء صفحہ1 تا 3)

سوال:۔ کیا قربانی دینے والے کو بال نہیں منڈوانے چاہئیں؟

جواب:۔ حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت ؐنے فرمایا :
’’جب ذی الحجہ کا چاند نکل آئے تو جو شخص قربانی کرنا چاہتا ہو اسے قربانی ذبح کرنے تک اپنے بال اور ناخن نہیں کٹوانے چاہئیں۔‘‘

(مسلم کتاب الاضاحی باب نھی من دخل علیہ عشر ذی الحجہ)

سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس بارہ میں فرماتے ہیں:
’’جو لوگ قربانی کرنے کا ارادہ کریں انکو چاہیئے کہ ذی الحجہ کی پہلی تاریخ سے لے کر قربانی کرنے تک حجامت نہ کرائیں۔ اس امر کی طرف ہماری جماعت کو خاص توجہ کرنی چاہیئے۔ کیونکہ عام لوگوں میں اس سنت پر عمل کرنا مفقود ہو گیا ہے۔‘‘

(الفضل 22 ستمبر1917ء صفحہ 4)

قربانی کا فلسفہ اور حکمت

آیت قرآنی لَنۡ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوۡمُہَا وَ لَا دِمَآؤُہَا وَ لٰکِنۡ یَّنَالُہُ التَّقۡوٰی مِنۡکُمۡ۔ (الحج:38) حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
’’خدا تعالیٰ نے شریعتِ اسلام میں بہت سے ضروری احکام کے لئے نمونے قائم کئے ہیں چنانچہ انسان کو یہ حکم ہے کہ وہ اپنی تمام قوتوں کے ساتھ اور اپنے تمام وجود کے ساتھ خدا تعالیٰ کی راہ میں قربان ہو۔ پس ظاہری قربانیاں اسی حالت کے لئے نمونہ ٹھہرائی گئی ہیں لیکن اصل غرض یہی قربانی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

لَنۡ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوۡمُہَا وَ لَا دِمَآؤُہَا وَ لٰکِنۡ یَّنَالُہُ التَّقۡوٰی مِنۡکُمۡ۔

(الحج:38)

یعنی خدا کو تمہاری قربانیوں کا گوشت نہیں پہنچتا اورنہ خون پہنچتا ہے مگر تمہاری تقویٰ اُس کو پہنچتی ہے۔ یعنی اُس سے اتنا ڈرو کہ گویا اُس کی راہ میں مرہی جاؤ اور جیسے تم اپنے ہاتھ سے قربانیاں ذبح کرتے ہو۔ اسی طرح تم بھی خدا کی راہ میں ذبح ہو جاؤ۔ جب کوئی تقویٰ اس درجہ سے کم ہے تو ابھی وہ ناقص ہے۔‘‘

(روحانی خزائن جلد نمبر23 صفحہ نمبر99)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ بھی اسی آیت کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’قربانیوں میں یہ حکمت نہیں کہ اُن کا گوشت یا اُن کا خون خودا اللہ تعالیٰ کو پہنچتا ہے بلکہ ان میں حکمت یہ ہے کہ ان کی وجہ سے تقویٰ پیدا ہوتا ہے اور وہ تقویٰ خدا تعالیٰ کو پسند ہے۔ بعض لوگ اعتراض کیا کرتے ہیں کہ کیا خدا تعالیٰ نعوذ با للہ ہندوؤں کے دیوتاؤں کی طرح خون کا پیاسا اور گوشت کا بھوکا ہے کہ وہ جانوروں کی قربانی کرنے کا حکم دیتا ہے اور اُن کی جان کی قربانی کو شوق سے قبول فرماتا ہے اور قربانی کرنے والوں کو بہشت کی بشارت دیتا ہے۔ اس کا جواب اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ دیا ہے کہ قربانیوں میں یہ حکمت نہیں ہے کہ ان کا گوشت یا اُن کا خون خداتعالیٰ کو پہنچتا ہے بلکہ اس میں حکمت یہ ہے کہ ان کی وجہ سے انسانی قلب میں تقویٰ پیدا ہوتا ہے اور وہ تقویٰ خدا تعالیٰ کو پسند ہے۔ پس وہ لوگ جو بکرے یا اونٹ یا گائے کی قربانی کر کے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کو پالیاوہ غلطی کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ صاف طور پر فرماتا ہے کہ یہ کوئی چیز نہیں کہ خود ہی جانور ذبح کیا اور خود ہی کھا لیا۔ اس سے اللہ تعالیٰ کو کیا۔ یہ تو تصویری زبان میں ایک حقیقت کا اظہار ہے جس کے اندر بڑی گہری حکمت پوشیدہ ہے جیسے مصور ہمیشہ تصویریں بناتے ہیں مگر ان کی غرض صرف تصویر بنانا نہیں ہوتی بلکہ ان کے ذریعہ قوم کے سامنے بعض اہم مضامین رکھنے ہوتے ہیں … ۔

اسی طرح یہ ظاہری قربانی بھی ایک تصویری زبان ہے جس کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ جانور ذبح کرنے والا اپنے نفس کی قربانی پیش کرنے کے لیے تیار ہے پس جو شخص قربانی کرتا ہے وہ گویا اس امر کا اظہار کرتا ہے کہ میں خداتعالیٰ کی راہ میں سب کچھ قربان کر دوں گا۔ اس کے بعد دوسرا قدم یہ ہوتا ہے کہ انسان جس امر کا تصویری زبان میں اقرار کرے عملاً بھی اسے پورا کرکے دکھاوے کیونکہ محض نقل جس کے ساتھ حقیقت نہ ہو کسی عزت کا موجب نہیں ہو سکتی۔

(تفسیر کبیر۔ جلدششم، سورۃ الحج زیر آیت لَنۡ یَّنَالَ اللّٰہَ لُحُوۡمُہَا وَ لَا دِمَآؤُہَا صفحہ57)

سوال:۔ عید الاضحیہ کے موقع پرقربانی کس تاریخ سے کس تاریخ تک ہوتی ہے؟

جواب:۔ حدیث میں آتا ہے کہ آنحضرت ؐ نے فرمایا:

کُلُّ اَیَّامِ التَّشْرِیْقِ ذَبْحٌ۔

(مسند احمد بن حنبل جز4 صفحہ82 حدیث نمبر:16798)

ترجمہ: تشریق کے تمام ایام قربانی ہو سکتی ہے۔

سنن دارقطنی میں روایت ہے کہ آنحضرت ؐ نے فرمایا:

اَیَّام التَّشْرِیْقِ کُلّھَا ذَبْحٌ۔

(دارقطنی کتاب الاشربۃ وغیرھا باب الصید والذبائح والاطعمۃ)

ترجمہ: تشریق کے تمام دنوں میں قربانی ہو سکتی ہے۔

ایام تشریق سے مراد ذوالحجہ کی گیارہ، بارہ اور تیرہ تاریخ ہے۔ تشریق کے معنی گوشت کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے دھوپ میں خشک کرنے کے ہیں۔ عید الاضحی کے بعد کے تین ایام کو ایام تشریق کہا جاتا ہے۔ کیو نکہ ان ایام میں قربانیوں کا گوشت خشک کیا جاتا تھا۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے 5/اگست 1922ء کو قادیان میں خطبہ عید الاضحیہ میں فرمایا:
’’قربانی آج اور کل اور پرسوں کے دن ہو سکتی ہے لیکن اگر سفر ہو یا کوئی اور مشکل ہو تو حضرت صاحبؑ کا بھی اور بعض اور بزرگوں کا بھی خیال ہے کہ اس سارے مہینے میں قربانی ہو سکتی ہے۔‘‘

(خطبات محمود جلد دوئم صفحہ73)

حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ سے سوال ہوا کہ قربانی عید کے بعد کتنے دن تک جائز ہے۔ اہل حدیث کے نزدیک 13 تاریخ تک اور فقہاء کے نزدیک 12 تاریخ تک۔ کس پر عمل کرنا چاہیے؟ حضور نے فرمایا:۔
’’قربانی ہمارے نزدیک 12تار یخ تک جائز ہے ہاں فقہاء نے 13 تاریخ بھی رکھی ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تعامل میں ضرور اس امر میں کچھ فرق ہوا ہے۔‘‘

(الحکم نمبر5 جلد9، 10 فروری 1905ء صفحہ11)

کیا موجودہ حالت میں قربانی کے جانور ذبح کرنے کی بجائے نقد روپیہ غرباء یا مستحقین کی ضروریات کے لیے استعمال ہو سکتا ہے؟

احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ حضور ؐ نے اپنی زندگی میں تین حج کئے، دو ہجرت سے پہلے اور ایک ہجرت کے بعد

(ترمذی ابواب الحج باب ما جاء کم حج النبی ؐ)

لیکن آپ نے ہر سال عید الاضحیہ کے موقعہ پر قربانی کی اور صحابہ کو بھی اس کی تاکید فرمائی۔چنانچہ احادیث میں آتا ہے:
حضرت ابن عمرؓ بیان کرتے ہیں آنحضرت ؐ مدینہ کے دس سالہ قیام میں قربانیاں کیا کرتے تھے:

(ترمذی کتاب الاضاحی باب الدلیل علی ان الاضحیۃ سنۃ)

حضرت رسول پاک ؐ نے فرمایا: اے لوگو!ہر گھر کو ہر سال قربانی کرنی چاہیئے۔

(ابن ماجہ کتاب الاضاحی باب الاضاحی واجبۃ ھی ام لا)

مذکورہ بالا احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ ہر وہ شخص جو قربانی کا جانور پال کر یا خرید کر قربانی کر سکتا ہے اسے ضرور قربانی کرنی چاہیئے۔ آنحضرتؐ مدنی زندگی میں ہر سال قربانی کیا کرتے تھے حالانکہ مدنی زندگی کے ابتدائی سال انتہائی تنگی کے تھے ۔اس سے یہ بھی پتہ چلا کہ غریب اور مستحقین کی موجودگی کے باوجود نقد روپیہ ان میں تقسیم کرنے سے قربانی نہیں ہوتی۔ قربانی تو قربانی کرنے سے ہی ہوتی ہے۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’وَ لِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلۡنَا مَنۡسَکًا لِّیَذۡکُرُوا اسۡمَ اللّٰہِ عَلٰی مَا رَزَقَہُمۡ مِّنۡۢ بَہِیۡمَۃِ الۡاَنۡعَامِ‘‘ اور ہم نے ہر اُمّت کے لئے قربانی کا طریق مقرر کیا ہے تا کہ وہ اللہ کا نام اس پر پڑھیں جو اس نے انہیں مویشی چوپائے عطا کئے ہیں۔‘‘

(الحج:35)

اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ قربانی کرنے کا جو طریق شریعت میں مقرر شدہ ہے اسی طریق سے قربانی ہوتی ہے یعنی بَہِیۡمَۃِ الۡاَنۡعَامِ کو ذبح کرنے سے۔

11 فروری 1907ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں ایک خط سے سوال پیش ہوا کہ کئی اشخاص نے ایک گائے قربانی کرنے کے لیے خریدی تھی جن میں سے ایک احمدی تھا۔ غیر احمدیوں نے اس کو اس وجہ سے اس گائے کا حصہ قیمت واپس دے دیا کہ اس کا حصہ قربانی میں رکھنے سے قربانی نہ ہو گی۔ اس لیے اس شخص نے لکھا کہ میں اپنی قربانی کا حصہ نقد قادیان میں بھیج سکتا ہوں یا نہیں؟

حضرت اقدس علیہ الصلوٰۃ نے فرمایا:
’’اس کو لکھو کہ قربانی کا جانور اس قیمت سے لے کر وہاں ہی قربانی کر دے۔‘‘

عرض کی گئی کہ اس کا حصہ قیمت جو گائے کے خریدنے میں تھا وہ بہت ہی تھوڑا ہے۔ اس سے دنبہ بکرا خرید نہیں سکے گا۔

حضور علیہ السلام نے فرمایا :
’’اس کو لکھو کہ تم نے جبکہ اپنے اوپر قربانی ٹھہرائی ہے اور طاقت ہے تو اب تم پر اس کا دینا لازم ہے اور اگر طاقت نہیں تو پھر اس کا دینا لازم نہیں۔‘‘

(الحکم 24فروری 1907ء صفحہ14)

11 فروری 1907ء کی مجلس میں پیش کردہ سوال کا جواب اخبار بدر میں یوں شائع ہوا:
’’(حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی خدمت میں) ایک شخص کی عرضی پیش ہوئی کہ میں نے تھوڑی سی رقم ایک قربانی میں حصہ کے طور پر ڈال دی تھی۔ مگران لوگوں نے مجھے احمدی ہونے کے سبب اس حصہ سے خارج کر دیا ہے۔ کیا میں وہ رقم قادیان کے مسکین فنڈ میں دے دوں تو میری قربانی ہو جائے گی؟

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:
’’قربانی تو قربانی کرنے سے ہی ہوتی ہے۔ مسکین فنڈ میں روپے دینے سے نہیں ہو سکتی،اگر وہ رقم کافی ہے تو ایک بکرا قربانی کرو،اگر کم ہے اور زیادہ کی تم کو توفیق نہیں تو تم پر قربانی کا دینا فرض نہیں ہے‘‘

(بدر 14فروری 1907ء صفحہ8 کالم نمبر 2)

سوال:۔ عید الاضحیہ کے موقع پرکیسے جانور کی قربانی دینی چاہئے؟

جو جانور قربانی کےلئے خدا کے حضور پیش کئے جائیں وہ بے عیب ہونے چاہیئں۔ عیب دار جانور کی قربانی کو حضور ؐ نے ناجائز فرمایا ہے۔ چنانچہ فرمایا:

’’اَ رْبَعٌ لَّا تَجُوْزُ فِی الْاَضَاحِیْ اَلْعَوْرَآءُ بَیِّنٌ عَوَرُھَا وَالْمَرِیْضَۃُ بَیِّنٌ مَرَضُہَاوَالْعَرْجَآءُ بَیِّنٌ ظَلْعُہَا وَالْکِسِیْرُ الَّتِیْ لَا تَنْقٰی۔

چار قسم کے جانور قربانی کئے جانے کے لائق نہیں ہیں، ایک تو وہ جانور جس کا کانا پن واضح طور پر نظر آتا ہو، وہ بیمار جانور جس کی بیماری نظر آتی ہو، وہ لنگڑا جانور جس کا لنگڑا پن ظاہر ی طور پر نظر آتا ہو اور وہ کمزور اور دبلا جانور جس کی ہڈیوں میں مغز تک باقی نہ ہو۔‘‘

(ابوداؤد کتاب الضحایا باب مایکرہ من الضحایا)

حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’قربانیاں دو جو بیمار نہ ہوں، دبلی نہ ہوں، بے آنکھ کی نہ ہوں، کان چری نہ ہوں،عیب دار نہ ہوں، لنگڑی نہ ہوں- اس میں اشارہ ہے کہ جب تک کامل طور پر قویٰ قربان نہ کرو گے ساری نیکیاں تمہاری ذات پر جلوہ گر نہ ہوں گی- اصل منشا قربانی کا یہ ہے- پھر جس کو مناسب سمجھتا ہودے۔‘‘

(الحکم جلد7 نمبر11۔ 24مارچ1903ء صفحہ3تا5۔ خطبات نور143)

حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ سے سوال ہوا کہ
’’بکری بھیڑ اہل حدیث کے نزدیک 2 برس کی جائز ہے فقہاء کے نزدیک ایک برس کی۔ آپ کا فیصلہ؟

اس کے جواب میں آپ ؓ نے فرمایا:
’’میں آپ بکری اور دنبہ کی نسبت یہ تحقیق رکھتا ہوں کہ بکری دو برس سے کم کی نہ ہو اور دنبہ ایک برس سے کم نہ ہو۔ آپ تعجب کریں گے ہمارے ملک میں بھیڑ کا نام عرب میں نہیں اور نہ شریعت میں اس کا نام ملا ہے۔ عربی میں ضان اس کو کہتے ہیں جو چکی والا ہو۔ پس عرب میں مَیں نے تحقیقات کیا ہے وہ کہتے ہیں کہ اس بھیڑ کو ہم نہیں جانتے اور زیادہ سے زیادہ اس کو ایک قسم کی غنم کہتے ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ ہمارے مولوی ضان کا ترجمہ وہ دنبی کرتے ہیں یا بھیڑ۔ پس ہمارے ملک کی بھیڑ بکری میں داخل کر کے دو برس میعاد مقرر کرتا ہوں۔ اور دنبی کو ایک برس میں اور یہی شریعت سے ثابت ہے۔‘‘

(الحکم نمبر5 جلد9، 10 فروری 1905ء صفحہ11)

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’اب وہ جس مینڈھے کا ذکر تھا وہ ایک سال کا تھا اس پر رسول اللہ ؐ نے فرما دیا تھا کہ اس کی تمہیں اجازت ہے مگر آئندہ سے یہ دوسروں کو اجازت نہیں ہوگی۔ پس اب قانون یہی ہے کہ جانور کم سے کم دو برس کا ہونا چاہئے۔

(خطبہ عید الاضحیہ 23فروری 2002ء۔ خطبات طاہر عیدین۔ صفحہ نمبر700تا701)

حضرت خلیفۃ المسیح الاول رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’قربانی کے لئے نبی کریم کو وہ نر بکرے پسند تھے، جن کے منہ اور پاؤں میں سیاہی ہو ۔۔۔۔۔۔ جس کا پیدائشی سینگ نہ ہو وہ بھی جائز ہے۔ہاں جس کا سینگ آدھے سے زیادہ ٹوٹا ہوا ہو یا کان چیرا ہوا ہو وہ ممنوع ہے۔ علماء کا اختلاف ہے کہ دو برس سے کم کا بکرا اور ایک برس سے کم کا دنبہ جائز ہے یا نہیں؟ اہل حدیث تو اسے جائز نہیں رکھتے مگر فقہا کہتے ہیں کہ دو برس سے کم ایک برس کا بکرا بھی جائز ہے اور دنبہ چھ ماہ کا بھی۔

مومن اس اختلاف سے فائدہ اٹھا سکتا ہے، ضروری بات تو یہ ہے کہ انسان ان سب باتوں میں تقویٰ کو مدنظر رکھے اور قربانی کی حقیقت سمجھے، دو چار روپے کا جانور ذبح کر دینا قربانی نہیں۔ قربانی تو یہ ہے کہ خود اپنے نفس کی اونٹنی کو خدا کی فرمانبرداری کے نیچے ذبح کر دے۔

(بدر جلد7 نمبر3۔جنوری 1908ء صفحہ8تا10۔خطبات نور صفحہ278-279)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے 5 اگست 1922ء کو قادیان میں خطبہ عید الاضحیہ میں فرمایا:
’’قربانی کے جانور کے لئے یہ شرط ہے کہ بکرے وغیرہ دو سال کے ہوں۔ دنبہ اس سے چھوٹا بھی قربانی میں دیا جا سکتا ہے۔ قربانی کے جانور میں نقص نہیں ہونا چاہئے۔ لنگڑا نہ ہو، بیمار نہ ہو، سینگ ٹوٹا نہ ہو یعنی سینگ بالکل ہی نہ ٹوٹ گیا ہو۔ اگر خول اوپر سے ٹوٹ گیا ہو اور اس کا مغز سلامت ہو تو وہ ہو سکتا ہے۔کان کٹا نہ ہو لیکن اگر کان زیادہ کٹا ہوا نہ ہو تو جائز ہے۔

(خطبات محمود جلد2 صفحہ73)

مسائل متعلقہ ذی الحجہ بحکم حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ

1۔ ذی الحجہ کی نویں تاریخ کی فجر کی نماز کے بعد سے لیکر تیرہویں تاریخ کی عصر تک بعد سلام نماز فرض کے حسب ذیل تکبیرات کہیں اَللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَ اللّٰہُ اَکْبَرُ اَللّٰہُ اَکْبَرُ وَلِلّٰہِ الْحَمْدُ۔ سہ دفعہ۔ یہ تکبیرات بآواز بلند ہوں تو نہایت انسب ہے۔

2۔ دسویں تاریخ کو سورج کے بلند ہونے کے بعد دورکعت نماز صلوٰۃ العید جماعت کے ساتھ ادا کرے۔

3۔ بعد نماز عید قربانی کرنی چاہئے۔قربانی کا وقت عید کی نماز کے بعد شروع ہوتا ہے اور بارہویں تک اتفاقاً ختم ہوتا ہے لیکن بعض کے نزدیک تیرھویں تاریخ کے عصر تک ہے۔

4۔ قربانی اونٹ، گائے، دنبہ، بکرے سے ہو سکتی ہے۔ بھیڑ بھینس کو بھی حنفی علماء نے جائز رکھا ہے۔ اونٹ پانچ سال کا، گائے تین سال کی، بکری دنبہ دو سال کا بشرطیکہ یہ قربانی کے حیوانات لنگڑے، اندھے، یک چشم، نہایت دبلے، کان کٹے اور بیمار نہ ہوں۔ سینگ ٹوٹا بھی مناسب نہیں۔ ہاں نر خصی اور آنڈل قربانی میں یکساں ہیں۔

5۔ گائے اونٹ سات آدمیوں کی طرف سے ہوسکتی ہے

6۔ قربانی سنت مؤکدہ ہے۔جس شخص میں قربانی دینے کی طاقت ہو وہ ضرور کرے۔

7۔ قربانی کا گوشت خواہ خود استعمال کرے چاہے صدقہ کرے اور اس کی کھال اگر گھر میں رکھے تو ایسی چیز تیار کرائے جس کو عام استعمال کر سکیں۔ احمدیوں کو صدر انجمن احمدیہ قادیان میں کھال یا اس کی قیمت صدقات میں ارسال کرنا چاہئے۔

8۔ اگر دو سالہ مینڈھا یا بکرا نہ ملے تو ایک سالہ بھی ہو سکتا ہے اور دنبہ سال سے کم کا بھی ہو تب بھی جائز ہے۔

9۔ اور جو لوگ قربانی کرنے کا ارادہ کریں ان کو چاہئے کہ ذی الحجہ کی پہلی تاریخ سے لے کر قربانی کرنے تک حجامت نہ کرائیں۔ اس امر کی طرف ہماری جماعت کو خاص توجہ کرنی چاہئے کیونکہ عام لوگوں میں اس سنت پر عمل کرنا مفقود ہو گیا ہے۔

(الفضل قادیان 22 ستمبر 1917ء)

سوال:۔ کیا قربانی کے گوشت کے تین حصے کرنا ،اور صرف تین دن استعمال کرنا لازم ہے؟

جواب:۔ اللہ تعالیٰ قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے قرآن کریم میں فرماتا ہے:

فَکُلُوۡا مِنۡہَا وَ اَطۡعِمُوا الۡبَآئِسَ الۡفَقِیۡرَ

(الحج:29)

ترجمہ: اس قربانی کے گوشت میں سے خود بھی کھاؤاور محتاج ناداروں کو بھی کھلاؤ۔

اس آیت قرآنی میں اپنے افراد خاندان، اعزہ و اقارب، دوست احباب اور ضرورتمندوں کو قربانی کا گوشت بھجوانے کا حکم دیا گیا ہے۔

حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:

’’قَالَ النَّبِیُّ ﷺ مَنْ ضَحَّی مِنْکُمْ فَلَا یُصْبِحَنَّ بَعْدَ ثَالِثَۃٍ وَّبَقِیَ فِیْ بَیْتِہٖ مِنْہُ شَیْءٌ فَلَمَّا کَانَ الْعَامُ الْمُقْبِلُ قَالُوْا یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ نَفْعَلُ کَمَا فَعَلْنَا عَامَ المَاضِی؟ قَالَ کُلُوْا وَأَطْعِمُوْا وَادَّخِرُوْا فَإِنَّ ذَالِکَ الْعَامَ کَانَ بِالنَّاسِ جَہْدٌ فَأَرَدْتُّ أَنْ تُعِیْنُوْا فِیْہَا‘‘

(صحیح بخاری کِتَابُ الأَضَاحِیِّ بَابُ مَا یُؤْکَلُ مِنْ لُحُومِ الأَضَاحِیِّ وَمَا یُتَزَوَّدُ مِنْہَا)

حضرت نبی کریم ؐنے فرمایا جو شخص تم میں سے قربانی کرے اس کو چاہیے کہ تین دن سے زیادہ اس کے گھر میں گوشت باقی نہ رہے۔ اور جب دوسرا سال آیا تو لوگوں نے عرض کی یا رسول اللہ ؐ! کیا اب بھی ہم گزشتہ سال ہی کی طرح کریں۔ آپؐ نے فرمایا (نہیں! بلکہ) کھاؤ اور کھلاؤ اور جمع کرو ۔ اور گزشتہ سال چونکہ لوگوں پر تنگی تھی اس لیے میں نے چاہا تھا کہ تم اس طریقہ سے ان کی مدد کرو۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’قربانیوں کے گوشت کے متعلق یہ حکم ہے کہ یہ صدقہ نہیں ہوتا ۔چاہئے کہ خود کھائیں، دوستوں کو دیں، چاہے سُکھا بھی لیں۔ امیر غریبوں کو دیں، غریب امیروں کو ۔اس سے محبت بڑھتی ہے لیکن محض امیروں کو دینا اسلام کو قطع کرنا ہے اور محض غریبوں کو دینا اور امیروں کو نہ دینا اسلام میں درست نہیں۔ امیروں کے غریبوں اور غریبوں کے امیروں کو دینے سے محبت بڑھتی ہے اور مذہب کی غرض جو محبت پھیلانا ہے پوری ہوتی ہے‘‘

(خطبہ عید الأضحیہ 5اگست 1922ء۔ الفضل 17 اگست 1922ء جلد10 نمبر13)

حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں سوال ہوا کہ ایک شخص نے قربانی کا گوشت گھر میں رکھ کر اس کی بڑیاں بنالیں ہیں کیا یہ جائز ہے؟ فرمایا:
’’منع تو نہیں ۔حدیثوں میں اس کا ذکر آتا ہے مگر بہتر یہی ہے کہ مسکینوں کو دیا جائے‘‘

(الفضل 19دسمبر 1915ء نمبر71 جلد3)

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ فرماتے ہیں:
’’جہاں تک قربانی کے گوشت کا تعلق ہے ۔یاد رکھیں کہ اگر تیسرا حصہ اس کا اپنے لئے رکھ لیں اور باقی دوحصوں کو غربا اور مسکینوں اور دوسرے رشتہ داروں وغیرہ پر تقسیم کردیں تو یہ عین سنت کے مطابق ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں اور ایسے گوشت کوسنبھالا بھی جاسکتاہو کچھ عرصہ کے لئے قربانی کے گوشت کو تو یہ منع نہیں ہے ۔لیکن بعض حدیثوں سے صحابہ کو یہ شبہ پڑا کہ گویا تین دن کے اندر یہ گوشت تقسیم کردینا ضروری ہے اور باقی نہیں رکھا جاسکتا اس لئے آنحضرت ؐ کو اس کی وضاحت کرنی پڑی ۔یہ تفصیلی حدیث اس مضمون سے تعلق رکھتی ہے ۔عبد اللہ بن واقد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آنحضور ؐ نے قربانی کا گوشت تین دن سے زائد کھانے سے منع فرمایا ۔یہ روایت ہے جس کی بنا پر صحابہ کو غلط فہمی ہوئی ۔عبد اللہ بن ابوبکر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے یہ بات حضرت عمر رضی اللہ عنھا سے کہی تو انہوں نے اس کی تصدیق کی اور کہا کہ میں نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا کہ حضور ؐ کے زمانے میں عید الاضحی کے موقع پر بادیہ نشینوں میں سے گیت گانے والے آئے ۔یہ گیت گانے والے کون ہیں جو مانگنے کے لئے نکلتے ہیں اور ساتھ گیت گاتے پھرتے ہیں۔ آج تک یہی رواج ہے بہت سے فقراء کا کہ وہ گیت گاتے چلتے ہیں تاکہ ان کی آواز سن کر اہل خانہ متوجہ ہوں۔ پس وہ بھی اس طرح گلیوں میں پھر رہے تھے اور گیت گارہے تھے۔ اس پر آنحضور ؐ نے فرمایا تین دن تک کے استعمال کے لئے گوشت جمع کر رکھو باقی انہیں خیرات کردو۔ تو یہ ایک خاص موقع کا حکم تھا۔

اس کے بعد کی عید کی دفعہ یہ ہوا کہ صحابہ رضوان اللہ علیہم نے عرض کی یا رسول اللہ ؐ !لوگ اپنی قربانی کی کھالوں سے مشکیں بناتے ہیں اور ان میں چربی ڈالتے ہیں۔ مطلب کیا تھا؟ مطلب یہ تھا کہ چربی کو وہ ممنوع نہیں سمجھتے کہ چربی بعد میں بھی رکھی جاسکتی ہے کیونکہ آپ ؐنے گوشت فرمایا تھا اس لئے صحابہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ گوشت کو تین دن سے زیادہ رکھنا منع ہے اور تین دن کے اند رہی استعمال کرلیا جائے ،جتنا ہوسکتا ہے۔ اس لئے وہ قربانی کی کھالوں کی مشکیں بناتے ہیں اور ان میں چربی بھر لیتے ہیں جتنی چربی بھی میسر ہو۔ حضور ؐ نے فرمایا تو اب کیا ہوا ہے ان کو؟ کیوں یہ ایسا کرتے ہیں؟ انہوں نے کہا آپ ؐ نے ہی تین دن کے بعد قربانی کا گوشت کھانے سے منع فرمایا تھا۔ اب آپ ؐ پوچھ رہے ہیں کیوں ایسا کرتے ہیں؟ حضور ؐ نے فرمایا میں نے تو تمہیں ان باہر سے آنے والوں کی وجہ سے منع کیا تھا جو اس وقت آگئے تھے ۔یعنی ایک ہلّہ بولا تھا ان فقیروں نے تو ان کی خاطر یہ خیال تھا کہ قربانیاں تھوڑی نہ ہوجائیں اور ان کی اشتہا ،وہ جس وجہ سے وہ پھر رہے ہیں وہ پوری نہ ہوسکے اس لئے میں نے منع کیا تھا ۔اب گوشت کھاؤ اور جمع کرو اور خیرات کرو۔‘‘

(صحیح مسلم کتاب الاضاحی باب بیان ماکان من النھی عن أکل لحوم الاضاحی بعد ثلاث)

’’پس اس حدیث کو پیش نظر رکھتے ہوئے جس حد تک آپ اپنے حصہ کے لئے قربانی کا گوشت جمع کرنا چاہیں اس کی مناہی نہیں ہے لیکن اگر ایسے غریب علاقوں میں آپ ہوں جہاں قربانی کے ساتھ اردگرد عام بھوک ہو اور لوگ کثرت کے ساتھ بھوک سے نڈھال ہوکر فاقہ کشی کررہے ہوں، موت کے قریب پہنچتے ہیں بعض جگہ ایسے علاقے بھی ہیں ،اور بعض دفعہ صبر کے ساتھ بیٹھے رہتے ہیں لیکن بھوک ان کوعملاً موت کے کنارے تک پہنچا دیتی ہے ۔ایسی جگہ پر اگر کوئی احمدی قربانی کرتاہے تو یہ ہوہی نہیں سکتا کہ وہ ان کا خیال نہ کرے اور تین دن سے زائد اپنے لئے گوشت جمع کرلے۔تین دن بھی اس کا دل نہیں چاہے گا ،وہ چاہے گا کہ ایک دولقمے کھائے اور سب قربان کردے مگر سنت یہی ہے اس لئے تین دن اسے ضرور اپنی قربانی کا گوشت کچھ نہ کچھ اپنے استعمال میں لانا چاہئے اور باقی جس حد تک بھی ہوسکے ایسے غریب علاقوں میں خدا کے بندوں کی خاطر خدا کی خاطر کی ہوئی قربانی کا گوشت پیش کردیں‘‘

(خطبہ عید الأضحیہ 28مارچ 1999ء۔از خطبات طاہر عیدین صفحہ649-651)

قربانی کے گوشت کے بارہ میں سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ مزید فرماتے ہیں :
’’آنحضور ؐ کے زمانے میں عید الاضحی کے موقع پر بادیہ نشینوں میں سے کچھ گیت گانے والے آئے، یہ محتاج لوگ تھے۔ حضور اکرم ؐنے فرمایا تین دن تک کھانے کے لئے گوشت جمع کرلو اور باقی انہیں خیرات کر دو تا کہ وہ بھوکے نہ رہیں۔ اس کے بعد آئندہ سال صحابہ ؓ نے عرض کیا یارسول اللہؐ ! لوگ اپنی قربانیوں کی کھالوں سے مشکیں بناتے ہیں اور ان میں چربی ڈالتے ہیں اس پر حضور ؐ نے فرمایا پھر کیا ہوا؟ انہوں نے کہا کہ آپ نے ہی تو ہمیں تین دن کے بعد قربانی کے گوشت سے منع فرمایا ہے ۔حضور ؐ نے فرمایا میں نے تو تمہیں ان باہر سے آنے والوں کی وجہ سے منع کیا تھا جو اس وقت آگئے تھے ۔جاؤ اور گوشت کھاؤ اور جمع کرو اور اس سے صدقہ اور خیرات بھی کرو‘‘

(مسلم کتاب الاضاحی باب بیان ماکان من النھی عن اکل لحوم الاضاحی بعد ثلاث)

اس لئے اب آپ لوگ اچھی طرح سمجھ لیں ،ضروری نہیں ہے تین۔ یہی تین دن کی حکمت رسول اللہ ؐنے بیان فرما دی، آج کل تو لوگ آتے بھی نہیں باہر سے آنے والے۔ یہاں تو ملک بھی امیر ہے اور یہاں تو قربانی کے بعد تقسیم کرنے کے لئے بھی آدمی ڈھونڈنے پڑتے ہیں۔ اس لئے آپ بڑے شوق سے رکھ لیا کریں قربانی کا گوشت۔لیکن زیادہ دیر فریج میں رکھنا بھی ٹھیک نہیں۔ وہ کنجوسی ہے۔ جس حد تک ممکن ہو اس کو تقسیم کر دیا کریں‘‘

(خطبہ عید الأضحیہ 12فروری 2003ء۔از خطبات عیدین 709تا710)

(رحمت اللہ بندیشہ۔استاذ جامعہ احمدیہ جرمنی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 جولائی 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 جولائی 2021