حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے نصیحت فرمائی:۔
حق مہر کا بخشنا
حق مہر کی ادائیگی کے بارے میں ایک اور مسئلہ بھی پیدا ہوتا ہے۔ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں ایک سوال پیش ہوا کہ ایک عورت اپنا مہر نہیں بخشتی۔ شادی کرکے اس کو کہتے ہیں کہ بخش بھی دو۔ تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ یہ عورت کا حق ہے۔ اسے دینا چاہئے اول تو نکاح کے وقت ہی ادا کرے ورنہ بعد ازاں ادا کر دینا چاہئے۔ پنجاب اورہندوستان میں یہ شرافت ہے کہ موت کے وقت یا اس سے پیشتر، یعنی عورتوں کی یہ شرافت ہے کہ موت کے وقت یا اس سے پیشتر، خاوند کو اپنا مہر بخش دیتی ہیں۔ یہ صرف رواج ہے۔
(فتاویٰ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام صفحہ148)
ایک دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ایک صحابی نے عرض کیا کہ میری بیوی نے مجھے مہر بخش دیا ہے، معاف کر دیا ہے۔ تو آپ نے فرمایا تم نے اس کے ہاتھ پر رکھا تھا۔ انہوں نے کہا نہیں۔ آپ نے فرمایا جاؤ پہلے ہاتھ پہ رکھو پھر اگر وہ بخش دے، معاف کر دے تو پھر ٹھیک ہے۔ تو جب واپس آئے کہتے ہیں مَیں نے تو اس کے ہاتھ پر رکھا اور وہ دینے سے انکاری ہے۔ فرمایا یہی طریقہ ہے، اصل طریقہ بھی یہی ہے پہلے ہاتھ پر رکھو پھر معاف کرواؤ۔ اس لئے جو کوشش کرتے ہیں ناں مقدمہ لانے سے پہلے کہ جو ہم نے یہ کہہ دیا وہ کہہ دیا ان کو سوچنا چاہئے۔
حق مہر کے متعلق ایک فتویٰ
اور پھر اسی ضمن میں ایک اوربات بھی بیان کر دوں کیونکہ کل ہی بنگلہ دیش سے ایک نے خط لکھ کر پوچھا تھا کہ میری بیوی فوت ہو گئی ہے اور مہر میں نے ادا نہیں کیا تھا تو ایسی صورت میں اب مجھے کیا کرنا چاہئے۔ تو اسی قسم کا ایک سوال حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں پیش ہوا تھا کہ میری بیوی فوت ہو گئی ہے مَیں نے نہ مہر اس کو دیا ہے نہ بخشوایا ہے۔ اب کیا کروں۔ تو آپ نے فتویٰ دیا، فرمایا کہ مہر اس کا ترکہ ہے اورآپ کے نام قرض ہے۔آپ کو ادا کرنا چاہئے اور اس کی یہ صورت ہے کہ شرعی حصص کے مطابق اس کے دوسرے مال کے ساتھ تقسیم کیا جاوے۔ جس میں ایک حصہ خاوند کا بھی ہے اور دوسری صورت یہ ہے کہ اس کے نام پر صدقہ دیا جاوے۔
(فتاویٰ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام صفحہ148)
یورپ میں حق مہر کے متعلق ہدایت
تو بعض لوگ جو یہ سمجھتے ہیں یہاں یورپ میں بعض دفعہ ایسے جھگڑے آ جاتے ہیں کہ ملکی قانون جو ہے وہ حقوق دلوا دیتا ہے طلاق کی صورت میں وہ کافی ہے حق مہر نہیں دینا چاہئے۔ ایک تو یہ ہے کہ وہ حقوق بعض دفعہ اگر بچے ہوں تو بچوں کے ہوتے ہیں۔ دوسرے کچھ حد تک اگر بیوی کے ہوں بھی تو وہ ایک وقت تک کے لئے ہوتے ہیں اس لئے بعد میں یہ مطالبہ کرنا کہ حق مہر نہ دلوایا جائے اور حق مہر میں اس کو ایڈجسٹ کیا جائے یہ میرے نزدیک جائز نہیں۔
جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ پہلی تو بات یہ کہ دیکھ کر حق مہر مقرر کیا جائے۔ حیثیت سے بڑھ کر نہ ہو۔ اس کا تعین قضا کر سکتی ہے کتنا ہے۔ اور جب تعین ہو گیا ہے تو فرمایا کہ یہ تو ایک قرض ہے اور قرض کی ادائیگی بہرحال کرنی ضروری ہے اس لئے یہ بہانے نہیں ہونے چاہئیں کہ حق مہر ادا نہیں کیا۔ تو یہ قرض جو ہے وہ قرض کی صورت میں ادا ہونا چاہئے اس کا ان حقوق سے کوئی تعلق نہیں جو ملکی قانون دلواتے ہیں۔
(خطبہ جمعہ فرمودہ 25 نومبر2005ء) (الفضل انٹرنیشنل 16تا22دسمبر2005ء)