• 26 ستمبر, 2025

اسلامی طریقہ سرمایہ کاری کا تعارف

اسلامی طور پر سرمایہ کاری کی تاریخ چودہ سو سال پرانی ہے۔ لیکن مو جودہ دور میں اسلامی سرمایہ کاری کا آغاز 1970کی دہائی سے شروع ہوا جب سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں خالصتا ًاسلامی سرمایہ کاری کے لیے بینکوں کا اجراء ہوا۔اس کے بعد بحرین اور ملائیشیا میں 1990 کی دہائی میں اسلامی سرمایہ کاری کو خوب پذیرائی ملی۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت اسلامی سرمایہ کاری کے اصولوں کے تحت دنیا بھر میں 1ٹریلین امریکی ڈالر سے بھی زائد مالیت کے اثاثوں کاکاروبار کیا جا رہا ہے۔

یہ سرمایہ کاری کا نظام اسلامی قوانین و ضابطہ اخلاق پر مبنی ہے جس کی بنیاد قرآن اور حدیث پر رکھی گئی ہے۔اس طریقہ سرمایہ کاری میں عدل و انصاف پر سختی سے عمل کیا جاتا ہے۔منافع ہمیشہ جائز تجارت اور اثاثوں کے جائزکاروبار سے حاصل کیا جاتا ہے۔(پیسے کا استعمال خالصتا پیسے کمانے کے لیے کرنا ممنوع ہے)۔اس نظام کے چند ایک اصول یہ ہیں کہ: سرمایہ کاری کا فائدہ صر ف دولت میں اضافہ کرنے کے علاوہ سماجی اور اخلاقی طور پر معاشرے کے ایک بڑے حصے کو ہونا چایئے۔ منافع یا نقصان کا خدشہ تقسیم ہونا چاہئے۔تمام غیر اسلامی اور حرام چیزوں کا کارو بار منع ہے ۔

سود کا لین دین: سود کا نظام عدل و انصاف اور نقصان تقسیم کرنے کے قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہے اس لیے کاروبار میں منافع پر اور قرض کی رقم پر سود لینا منع ہے۔ اس کے علاوہ وہ کاروباری کمپنیاں جو کہ بہت زیادہ قرض لے رہی ہیں (کمپنی کا قرض اس کی سٹاک مارکیٹ میں قدر کا 33 فیصدسے کم ہونا چاہئے)وہ بھی اصل میں سود کا کاروبار کر رہی ہیں۔

تمام غیر اسلامی اور غیر اخلاقی کاروبا ر میں سرمایہ کاری کرنا منع ہے۔ایسی سرمایہ کاری جس میں غیر یقینی کی صورتحال ہو اور قیاس آرائیاں شامل ہوں یا نقصان کا اندیشہ بہت زیادہ ہو جوا کرنے کے مترادف ہے۔ نقصان کا خدشہ کبھی بھی مکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا بلکہ اس کو کم کیا جاسکتا ہے اور اسی لئے ایک باہمی فنڈ کا قیام عمل میں لایاجاتا ہے تا کہ تمام لوگوں میں نقصان برابر تقسیم ہو۔

جیسا کہ بتایا جا چکا ہے کہ قرض پر سود لینا بھی حرام ہے تو سوال اب یہ اٹھتا ہے کہ اسلامی بینکوں نے اگر قرض پر سود نہیں لینا تو پھرمنافع کمانے کا کوئی تو اور حل ہونا چاہئے۔ اس کاجواب یہ ہے کہ قرض کی رقم سے کی جانے والی سرمایہ کاری سے حاصل ہونے والا منافع میں بینک کو بھی حصہ ملتا ہے۔ ایک نمایاں خصوصیت اسلامی سرمایہ کاری کی یہ ہے کہ جب بھی کاروبار کے لیے قرض دیا جاتا ہے تو قرض دینے وا لا بھی کسی دوسرے شراکت دار کی طرح نفع اور نقصان میں برابر کا شریک ہوتا ہے۔منافع کی رقوم قرض واپسی کی اقساط کے طور پر شمار ہوتی ہیں اور اگر قرض کی اصل رقم سے زائد کوئی رقم لی جائے تو یہ سود کے زمرے میں آئے گا۔

کسی گھر یا جائیداد کو اسلامی بینک سے رہن رکھوانے میں ہوتا یہ ہے کہ بینک وہ گھر خرید لیتا ہے اور ایک معاہدے کے تحت واپس آپ کو کرائے پردے دیتا ہے۔ آپ باقاعد گی سے بینک کو اس جائیداد پررہنے اوراسے استعمال کرنے کا کرایہ اور اس کی انشورنس کے لئے ادائیگی کرتے رہیں اوریہ ادائیگیاں ختم ہونے پر مکان آ پ کی ملکیت میں منتقل ہو جائے گا۔

2003میں ہانگ کانگ شنگھائی بینکنگ کارپوریشن وہ پہلا بینک تھا جس نے برطانیہ میں اس طریقے کے مطابق گھروں کو رہن رکھا اور اس کے بعد سے اب تک اسلامی بینک سے رہن رکھنے کا یہ طریقہ کافی مقبولیت حاصل کر رہا ہے۔

اسلامی سرمایہ کاری کے قوانین کی نگرانی کے لیے ایک تنظیم
Accounting and Auditing Organisation for Islamic Financial Institutions (AAOIFI)

سلطنت بحرین میں قائم ہے۔ جو کہ تمام ممالک کے اسلامی مالیاتی اداروں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کر رہی ہے۔ اس تنظیم کے مطابق اس کو 45 ممالک کے مختلف مرکزی بینکس، اسلامی مالیاتی ادارے اور بین الاقوامی بینکس کی حمایت حاصل ہے جبکہ تقریباً 20 اسلامی ممالک میں اس تنظیم کےاسلامی قوانین پر عملدرآمد کیا جا رہا ہے جن میں سلطنت بحرین، اردن، لبنان، قطر، سوڈان، متحدہ عرب امارات اور پاکستان شامل ہیں ۔

٭…٭…٭

(حماد احمد ریحان۔ ربوہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 15 اگست 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 اگست 2020