• 26 اپریل, 2024

تقوی، انصاف، مسجد اور خالص عبادت کا آپس میں تعلق

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
مَیں نے جو دوسری آیت(30) سورۃ اعراف کی تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ نے پہلے انصاف کا حکم دیا۔ فرمایا قُلْ أَمَرَ رَبِّیْ بِالْقِسْطِ۔ تو کہہ دے کہ میرے رب نے انصاف کا حکم دیا ہے۔ یہ حکم جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا وہاں ہر اُس حقیقی مومن کو بھی ہے جو آپ پر ایمان لانے کا دعویٰ کرتا ہے۔

پس یہاں سب سے پہلے اس اعلان کا حکم ہے کہ ہم وہ لوگ ہیں جن کو انصاف قائم کرنے، حقوق قائم کرنے، ہر قسم کے امتیازی سلوکوں سے بالا تر ہونے اور تقویٰ پر چلنے کا حکم ہے۔ اور جن لوگوں کی یہ حالت ہوتی ہے وہی اللہ تعالیٰ کی طرف تمام تر توجہ پھیرتے ہوئے اُس کی عبادت کا بھی حق ادا کرتے ہیں۔ پس دلوں کے پاک لوگ ہی عبادت کا بھی حق ادا کرنے والے ہوتے ہیں۔ جن کی طبیعت میں نیکی، پاکیزگی اور انصاف نہیں وہ نہ تو حقوق العباد ادا کرتے ہیں اور نہ حقوق اللہ۔ ایک معاملے میں اگر نیکی اور انصاف کرتے ہیں تو دوسرے معاملے میں عدل و انصاف ایسے لوگوں میں نظر نہیں آتا۔

پس تقویٰ ہے جو انصاف قائم کرواتا ہے اور تقویٰ ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف تمام تر توجہ پھیرنے کے لئے مائل کرتا ہے اور تقویٰ ہی ہے جو عبادت کا حق ادا کرواتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نماز کے وقت جب مسجدوں کا رُخ کرو تو اگر کسی بشری تقاضے کے تحت دنیا داری یا ذاتی مفادات نے تمہاری توجہ اِدھر اُدھر کر بھی دی ہے تو نماز کے بلاوے کے ساتھ ہی تمہارے خیالات اللہ تعالیٰ کے احکامات کی طرف منتقل ہو کر تمہیں اللہ کا حقیقی عبد بنانے والے ہونے چاہئیں۔ ورنہ یہ عبادتیں بے فائدہ ہیں یا مسجد میں آنا بے فائدہ ہے۔ پس جب دین خالص کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کو پکارنے کا حکم ہے تو عبادتوں کے معیار کے حصول کے لئے جو الٰہی احکامات ہیں اُن احکام کی پابندی کی بھی شرط لگا دی۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات پر بھی عمل کرنا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ کا خوف اور خشیت اور تقویٰ ہی ہے جو اللہ تعالیٰ کے بندوں کے حقوق کی ادائیگی بھی کرواتا ہے اور یہ سب چیزیں ہی ہیں جو پھر خدا تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کرنے والی بھی ایک انسان کو بناتی ہیں۔ اور پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کَمَا بَدَءَکُمْ تَعُوْدُوْنَ۔ کہ جس طرح اُس نے تمہیں پہلی بار پیدا کیا تھا اس طرح تم مرنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹو گے۔ انسان کو یاد رکھنا چاہئے کہ دنیا میں کئے گئے اعمال اگلے جہان کی جزا سزا کا باعث بنتے ہیں۔ پس اللہ فرماتا ہے تمہاری جسمانی پیدائش کے مختلف مرحلے اور پھر یہ زندگی گزارنا تمہیں اس بات کی طرف توجہ دلانے والا ہونا چاہئے کہ مرنے کے بعد کی زندگی کے بھی مختلف دور ہیں جن میں سے روح نے گزرنا ہے۔ پس اس اخروی زندگی اور روح کی بہتر نشوونما کے لئے، صحیح نشوونما کے لئے اس دنیا کے اپنے اعمال کے ذریعے فکر کرو۔ اور یہ فکر اُسی وقت حقیقی رنگ میں ہو سکتی ہے جب اللہ تعالیٰ کی عبادت کا حق ادا کیا جائے اور اپنی عبادتوں کو خالص اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے بجا لایا جائے۔ اُس کے احکامات پر پوری طرح عمل کرنے کی کوشش کی جائے۔ عبادت کے وقت یہ ذہن میں ہو کہ خدا تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہوں۔ اور یہ خالص عبادت ہی ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف توجہ پھیرتے ہوئے مجھے اس دنیا میں اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے والا بنائے گی اور اُخروی زندگی میں بھی۔

خالص عبادت کس طرح ہونی چاہئے؟ اس بات کا نقشہ کھینچتے ہوئے ایک سوال کرنے والے کے اس سوال پر کہ نماز میں کھڑے ہوکر اللہ جلّ شانہٗ کا کس طرح کا نقشہ پیشِ نظر ہونا چاہئے؟ حضرت مسیح موعودؑ نے اس سوال کے جواب میں فرمایا کہ:
’’موٹی بات ہے قرآنِ شریف میں لکھا ہے اُدْعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ (الاعراف: 30) اخلاص سے خدا تعالیٰ کو یاد کرنا چاہئے اور اُس کے احسانوں کا بہت مطالعہ کرنا چاہئے۔‘‘

(ملفوظات جلد پنجم۔ صفحہ335۔ ایڈیشن2003ء)

انسان پر اللہ تعالیٰ کے بیشمار احسانات ہیں اور خاص طور پر جو یہاں رہنے والے ہیں جہاں مذہبی آزادی بھی ہے اور دنیاوی معاملات میں بھی اللہ تعالیٰ کے بہت فضل اور احسان ہیں۔ فرمایا کہ ’’اُس کے احسانوں کا بہت مطالعہ کرنا چاہئے۔ چاہئے کہ اخلاص ہو، احسان ہو اور اُس کی طرف ایسا رجوع ہو کہ بس وہی ایک ربّ اور حقیقی کارساز ہے۔ عبادت کے اصول کا خلاصہ اصل میں یہی ہے کہ اپنے آپ کو اس طرح سے کھڑا کرے کہ گویا خدا کو دیکھ رہا ہے اور یا یہ کہ خدا اُسے دیکھ رہا ہے۔ ہر قسم کی ملونی اور ہر طرح کے شرک سے پاک ہو جاوے اور اُسی کی عظمت اور اُسی کی ربوبیت کا خیال رکھے۔ ادعیہ ماثورہ اور دوسری دعائیں خدا سے بہت مانگے اور بہت توبہ استغفار کرے اور بار بار اپنی کمزوری کا اظہار کرے تا کہ تزکیۂ نفس ہو جاوے اور خدا سے سچا تعلق ہو جاوے اور اُسی کی محبت میں محو ہو جاوے۔‘‘

(ملفوظات جلد5 صفحہ335۔ ایڈیشن 2003ء)

پس یہ وہ حالت ہے جو ایک مومن کو اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور مسجد اس حالت کے پیدا کرنے اور اس کی یاددہانی کروانے کا بہترین ذریعہ ہے۔

(خطبہ جمعہ 24؍ فروری 2012ء بحوالہ الاسلام ویب سائٹ)

پچھلا پڑھیں

سینکڑوں عبداللطیف درکار ہیں

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 اگست 2021