• 13 مئی, 2025

کتاب، تعلیم کی تیاری (قسط 7)

کتاب، تعلیم کی تیاری
قسط 7

اس عنوان کے تحت درج ذیل تین عناوین پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات اکٹھےکئے جارہے ہیں۔ یہ اس کی آٹھویں قسط ہے۔

1۔ اللہ تعالیٰ کے حضور ہمارے کیا فرائض ہیں؟
2۔ نفس کے ہم پر کیا حقوق ہیں؟
3۔ بنی نوع کے ہم پر کیا کیا حقوق ہیں؟

اللہ کے حضور ہمارے فرائض

یہ بالکل سچ ہے کہ جس قدر اللہ تعالیٰ کی ہستی اور اس کی عظمت پر ایمان ہوگا۔ اسی قدر اللہ تعالیٰ سے محبت اور خوف ہوگا ورنہ غفلت کے ایام میں جرائم پر دلیر ہو جائے گا۔ اللہ تعالیٰ سے محبت اور اس کی عظمت اور جبروت کا رُعب اور خوف ہی دو ایسی چیزیں ہیں جن سے گناہ جل جاتے ہیں اور یہ قاعدہ کی بات ہے کہ انسان جن اشیاء سے ڈرتا ہے، پرہیز کرتا ہے۔ مثلاً جانتا ہے کہ آگ جلا دیتی ہے اس لئے آگ میں ہاتھ نہیں ڈالتا۔ یا مثلاً اگر یہ علم ہو کہ فلاں جگہ سانپ ہے تو اس راستہ سے نہیں گزرے گا۔ اسی طرح اگر اس کو یہ یقین ہو جاوے کہ گناہ کا زہر اس کو ہلاک کر دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی عظمت سے ڈرے اور اس کو یقین ہو کہ وہ گناہ کو ناپسند کرتا ہے اور گناہ پر سخت سزا دیتا ہے تو اس کو گناہ پر دلیری اور جرأت نہ ہو۔ زمین پر پھر اس طرح سے چلتا ہے جیسے مُردہ چلتا ہے۔ اس کی رُوح ہر وقت خدا تعالیٰ کے پاس ہوتی ہے۔

(ملفوظات ۔ جلد8 صفحہ62تا63۔ ایڈیشن 1984ء)

خدا تعالیٰ نے اس وقت ایک صادق کو بھیج کر چاہا ہے کہ ایسی جماعت تیار کرے جو اللہ تعالیٰ سے محبت کرے۔ میں دیکھتا ہوں کہ بعض کچے لوگ داخل ہو جاتے ہیں اور پھر ذرا سی دھمکی ملتی ہے اور لوگ ڈراتے ہیں تو پھر خط لکھ دیتے ہیں کہ کچھ تقیّہ کر لیا ہے۔ بتاؤ۔ انبیاء علیہم السلام اس قسم کے تقیّہ کیا کرتے ہیں؟ کبھی نہیں۔ وہ دلیر ہوتے ہیں اور انہیں کسی مصیبت اور دُکھ کی پروا نہیں ہوتی۔ وہ جو کچھ لے کر آتے ہیں اسے چھپا نہیں سکتے خواہ ایک شخص بھی دنیا میں ان کا ساتھی نہ ہو۔ وہ دنیا سے پیار نہیں کرتے۔ ان کا محبوب ایک ہی خدا ہوتا ہے۔ وہ اس راہ میں ایک مرتبہ نہیں ہزار مرتبہ قتل ہوں اس کو پسند کرتے ہیں۔ اس سے سمجھ لو کہ اگر اللہ تعالیٰ کے ساتھ سچے تعلق کا مزا اور لُطف نہیں تو پھر یہ گروہ کیوں مصائب اُٹھاتے ہیں؟ آنحضرت ﷺ کے حالات کو پڑھو کہ کفار نے کس قدر دُکھ آپ کو دیئے۔ آپ کے قتل کا منصوبہ کیا گیا۔ طائف میں گئے تو وہاں سے خون آلود ہو کر پھرے۔ آخر مکّہ سے نکلنا پڑا۔ مگر وہ بات جو دل میں تھی اور جس کے لئے آپ مبعوث ہوئے تھے اُسے ایک آن کے لئے بھی نہ چھوڑا۔

یہ مصائب اور تکالیف کبھی برداشت نہیں ہو سکتیں جب تک اندرونی کشش نہ ہو۔ ایک غریب انسان کے لئے دو چار دشمن بھی ہوں وہ تنگ آجاتا ہے اور آخر صلح کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ مگر وہ جس کا سارا جہاں دشمن ہو وہ کیونکر اس بوجھ کو برداشت کرے گا۔ اگر قوی تعلق نہ ہو۔ عقل اس کو قبول نہیں کرتی۔

مختصر یہ کہ خدا تعالیٰ کی محبت کی لذّت ساری لذّتوں سے بڑھ کر ترازو میں ثابت ہوتی ہے۔ پس وہ لذات جو بہشت میں ملیں گی۔ یہ وہی لذّتیں ہیں جو پہلے اُٹھا چکے ہیں۔ اور وہی ان کو سمجھتے ہیں جو پہلے اٹھا چکے ہیں۔

(ملفوظات ۔ جلد8 صفحہ60تا61۔ ایڈیشن 1984ء)

یاد رکھو اللہ تعالیٰ کی ساری چیزوں میں حُسن ہے تو کیا یہ ضروری نہیں کہ اس کے کلام میں بھی حُسن ہو؟ یہ اس کا ایک حُسن ہے۔ اگر قرآن مجید ژولیدہ بیان ہوتا تو اس سے کیا فائدہ ہوتا۔ طبائع کو اس کی طرف توجہ ہی نہ ہوت۔ الله تعالیٰ کی مخلوقات میں عجیب عجیب قسم کی مخلوق دیکھی جاتی ہے۔ عجائب خانہ میں جاکر بعض جانور اس قسم کے دیکھے گئے ہیں کہ گویا وہ ایک خوبصورت چھینٹ ہیں۔ ان ساری باتوں پر نظر کر کے معلوم ہوتا ہے کہ رنگینیٔ خلق خدا تعالیٰ کی عادت ہے۔

یہاں تک بھی دیکھا گیا ہے کہ بعض جانور انڈے خود دیتے ہیں اور اس کے بچے اور جانور نکالتے ہیں۔ کوئل انڈے خود دیتی ہے اور کوے کے آشیانہ میں رکھ دیتی ہے۔ پس جس جس قدر کوئی مخلوقاتِ الٰہی کا اور افعال اللہ کا مشاہدہ کرے گا۔ اسی قدر اس کا تعجب بڑھتا جائے گا۔ اسی طرح اس کے اقوال میں لا انتہا اسرار ہوتے ہیں جن کا مشاہدہ افعال ﷲکی خوردبین سے ہو جاتا ہے۔

حضرت حکیم الامت نے عرض کیا کہ شاعر اور فصیح تو اس طرز بیان پر اعتراض کر ہی نہیں سکتا۔ اس لیے کہ خود ان کو اس امر کا التزام کرنا پڑتا ہے۔

پھر حضرت حجۃ اللہ علیہ الصلوٰۃ والسّلام نے اسی سلسلہ کلام میں فرمایا:
فَبِاَیِّ اٰلَآءِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِ (الرحمٰن:14) بار بار توجہ دلانے کے واسطے ہے۔ اسی تکرار پر نہ جاؤ۔ قرآن شریف میں اور بھی تکرار ہے۔ میں خود بھی تکرار کو اسی وجہ سے پسند کرتا ہوں۔ میری تحریروں کو اگر کوئی دیکھتا ہے تو وہ اس تکرار کو بکثرت پائے گا۔ حقیقت سے بے خبر انسان اس کو منافیٔ بلاغت سمجھ لے گا۔ اور کہے گا کہ یہ بھول کر لکھا ہے، حالانکہ یہ بات نہیں ہے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ شاید پڑھنے والا پہلے جو کچھ لکھا ہے اُسے بھول گیا ہو۔اس لیے بار بار یاد دلاتا ہوں۔ تا کہ کسی مقام پر تو اس کی آنکھ کُھل جائے۔ اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ۔

علاوہ بریں تکرار پر اعتراض ہی بے فائدہ ہے۔اس لیے کہ یہ بھی تو انسانی فطرت میں ہے کہ جب تک بار بار ایک بات کو دہرائے نہیں وہ یاد نہیں ہوتی۔ سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی اور سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم بار بار کیوں کہلاوایا؟ ایک بار ہی کافی تھا۔ نہیں۔ اس میں یہی سرّ ہے کہ کثرت تکرار اپنا ایک اثر ڈالتی ہے اور غافل سے غافل قوتوں میں بھی ایک بیداری پیدا کر دیتی ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا وَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ (الانفال: 46) یعنی اللہ تعالیٰ کو کثرت سے یاد کرو تاکہ تم فلاح پا جاؤ۔ جس طرح پر ذہنی تعلق ہوتا ہے اور کثرت تکرار ایک بات کو حافظہ میں محفوظ کر دیتی ہے۔ اسی طرح ایک روحانی تعلق بھی ہے اس میں بھی تکرار کی حاجت ہے۔ بدُوں تکرار وہ روحانی پیوند اور رشتہ قائم نہیں رہتا۔ اور پھر سچ تو یہ ہے کہ اصل بات نیت پر موقوف ہے۔ جو شخص صرف حفظ کرنے کی نیت سے پڑھتا ہے وہ تو وہیں تک رہتا ہے اور جو شخص (روحانی تعلق بڑھانے کی خاطر پڑھتا ہے وہ اس تکرار سے) رُوحانی تعلق کو بڑھا لیتا ہے۔

(ملفوظات ۔ جلد8 صفحہ123-125۔ ایڈیشن 1984ء)

نفس کے ہم پر حقوق

نفس کے تین درجے

نفس کے تین درجے ہیں۔ نفس امّارہ ۔ لوّامہ۔ مطمئنّہ۔

نفس امّارہ وہ ہے جو فسق وفجور میں مبتلا ہے اور نافرمانی کا غلام ہے۔ ایسی حالت میں انسان نیکی کی طرف توجہ نہیں کرتا بلکہ اس کے اندر ایک سرکشی اور بغاوت پائی جاتی ہے لیکن جب اس سے کچھ ترقی کرتا اور نکلتا ہے تو وہ وہ حالت ہے جو نفس لوّامہ کہلاتی ہے۔ اس لیے کہ وہ اگر بدی کرتا ہے تو اس سے شرمندہ بھی ہوتا ہے اور اپنے نفس کو ملامت بھی کرتا ہے۔ اور اس طرح پر نیکی کی طرف بھی توجہ کرتا ہے۔ لیکن اس حالت میں وہ کامل طور پر اپنے نفس پر غالب نہیں آتا، بلکہ اس کے اور نفس کے درمیان ایک جنگ جاری رہتی ہے جس میں کبھی وہ غالب آجاتا ہے اور کبھی نفس اسے مغلوب کر لیتا ہے۔یہ سلسلہ لڑائی کا بدستور جاری رہتا ہے۔ یہانتک کہ اللہ تعالیٰ کا فضل اس کی دستگیری کرتا ہے اور آخر اُسے کامیاب اور بامراد کرتا ہے اور وہ اپنے نفس پر فتح پالیتا ہے۔ پھر تیسری حالت میں پہنچ جاتا ہے جس کا نام نفس مطمئنّہ ہے۔ اس وقت اس کے نفس کے تمام گند دور ہو جاتے ہیں اور ہر قسم کے فساد مٹ جاتے ہیں۔ نفس مطمئنّہ کی آخری حالت ایسی حالت ہوتی ہے جیسے دو سلطنتوں کے درمیان ایک جنگ ہو کر ایک فتح پالے اور وہ تمام مفسدہ دور کرکے امن قائم کرے اور پہلا سارا نقشہ ہی بدل جاتا ہے۔ جیسا کہ قرآن شریف میں اس امر کی طرف اشارہ ہے اِنَّ الۡمُلُوۡکَ اِذَا دَخَلُوۡا قَرۡیَۃً اَفۡسَدُوۡہَا وَ جَعَلُوۡۤا اَعِزَّۃَ اَہۡلِہَاۤ اَذِلَّۃً (النمل: 35) یعنی جب بادشاہ کسی گاؤں میں داخل ہوتے ہیں تو پہلا تانا بانا سب تباہ کر دیتے ہیں۔ بڑے بڑے نمبردار، رئیس نواب ہی پہلے پکڑے جاتے ہیں اور بڑے بڑے نامور ذلیل کیے جاتے ہیں اور اس طرح پر ایک عظیم تغیر واقع ہوتا ہے۔یہی ملوک کا خاصہ ہے اور ایسا ہی ہمیشہ ہوتا چلا آیا ہے۔ اسی طرح پر جب روحانی سلطنت بدلتی ہے تو پہلی سلطنت پر تباہی آتی ہے۔ شیطان کے غلاموں کو قابو کیا جاتا ہے۔ وہ جذبات اور شہوات جو انسان کی روحانی سلطنت میں مفسدہ پردازی کرتے ہیں۔ اُن کو کچل دیا جاتا ہے اور ذلیل کیا جاتا ہے اور روحانی طو رپر ایک نیاسکہ بیٹھ جاتا ہے اور بالکل امن و امان کی حالت پیدا ہوجاتی ہے۔یہی وہ حالت اور درجہ ہے جو نفس مطمئنّہ کہلاتا ہے۔ اس لیے کہ اس وقت کسی قسم کی کشمکش اور کوئی فساد پایا نہیں جاتا۔ بلکہ نفس ایک کامل سکون اور اطمینان کی حالت میں ہوتا ہے کیونکہ جنگ کا خاتمہ ہو کر نئی سلطنت قائم ہو جاتی ہے اور کوئی فساد اور مفسدہ باقی نہیں رہتا۔ بلکہ دل پر خدا تعالیٰ کی فتح کامل ہوتی ہے اور خدا تعالیٰ خود اس کے عرش دل پر نزول فرماتا ہے۔ اسی کو کمال درجہ کی حالت بیان فرمایا ہے جیسا کہ فرمایا اِنَّ اللّٰہَ یَاۡمُرُ بِالۡعَدۡلِ وَ الۡاِحۡسَانِ وَ اِیۡتَآیِٔ ذِی الۡقُرۡبٰی۔ (النحل:91) یعنی بیشک اللہ تعالیٰ عدل کا حکم دیتا ہے اور پھر اس سے ترقی کرو تو احسان کا حکم دیتا اور پھر اس سے بھی ترقی کرو تو ایتاء ذی القربیٰ کا حکم ہے۔

حالت عدل

عدل کی حالت یہ ہے جو متقی کی حالت نفس امّارہ ؔ کی صورت میں ہوتی ہے۔ اس حالت کی اصلاح کے لیے عدل کا حکم ہے۔ اس میں نفس کی مخالفت کرنی پڑتی ہے۔ مثلاً کسی کا قرضہ ادا کرنا ہے لیکن نفس اس میں یہی خواہش کرتا ہے کہ کسی طرح سے اس کو دبا لُوں اور اتفاق سے اس کی میعاد بھی گزرجاوے۔ اس صورت میں نفس اور بھی دلیر اور بیباک ہوگا کہ اب تو قانونی طو رپر بھی کوئی مؤاخذہ نہیں ہوسکتا۔ مگر یہ ٹھیک نہیں۔ عدل کا تقاضا یہی ہے کہ اس کا دَین واجب ادا کیا جاوے اور کسی حیلے اور عذر سے اس کو دبایا نہ جاوے۔

مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ بعض لوگ ان امور کی پروا نہیں کرتے اور ہماری جماعت میں بھی ایسے لوگ ہیں جو بہت کم توجہ کرتے ہیں اپنے قرضوں کے ادا کرنے میں ۔یہ عدل کے خلاف ہے۔ آنحضرت ﷺ تو ایسے لوگوں کی نماز نہ پڑھتے تھے۔ پس تم میں سے ہر ایک اس بات کو خوب یاد رکھے کہ قرضوں کے ادا کرنے میں سستی نہیں کرنی چاہیے اور ہر قسم کی خیانت اور بے ایمانی سے دور بھاگنا چاہیے۔ کیونکہ یہ امر الٰہی کے خلاف ہے جو اس نے اس آیت میں دیا ہے۔

حالت احسان

اس کے بعد احسان کا درجہ ہے۔ جو شخص عدل کی رعایت کرتا ہے اور اس کی حد بندی کو نہیں توڑتا۔ اللہ تعالیٰ اسے توفیق اور قوت دے دیتا ہے اور وہ نیکی میں اور ترقی کرتا ہے۔ یہانتک کہ عدل ہی نہیں کرتا بلکہ تھوڑی سی نیکی کے بدلے بہت بڑی نیکی کرتا ہے۔ لیکن احسان کی حالت میں بھی ایک کمزوری ابھی باقی ہوتی ہے اور وہ یہ ہے کہ کسی نہ کسی وقت اس نیکی کو جتا بھی دیتا ہے۔ مثلاً ایک شخص دس برس تک کسی کو روٹی کھلاتا ہے اور وہ کبھی ایک بات اس کی نہیں مانتا تو اسے کہہ دیتا ہے کہ دس برس کا ہمارے ٹکڑوں کا غلام ہے اور اس طرح پر اس نیکی کو بے اثر کر دیتا ہے۔ دراصل احسان والے کے اندر بھی ایک قسم کی مخفی ریا ہوتی ہے۔ لیکن تیسرا مرتبہ ہر قسم کی آلائش اور آلودگی سے پاک ہے اور وہ ایتاء ذی القربیٰ کا درجہ ہے۔

ایتاء ذی القربیٰ کی حالت

ایتاء ذی القربیٰ کا درجہ طبعی حالت کا درجہ ہے یعنی جس مقام پر انسان سے نیکیوں کا صدور ایسے طور پر ہو جیسے طبعی تقاضا ہوتا ہے۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے ماں اپنے بچے کو دودھ دیتی ہے اور اس کی پرورش کرتی ہے۔ کبھی اس کو خیال بھی نہیں آتا کہ بڑا ہو کر کمائی کرے گا اور اس کی خدمت کرے گا یہانتک کہ اگر کوئی بادشاہ اسے یہ حکم دے کہ تو اگر اپنے بچہ کو دودھ نہ دے گی اور اس سے وہ مر جاوے تو بھی تجھے مؤاخذہ نہ ہوگا۔ اس حکم پر بھی اس کو دودھ دینا وہ نہیں چھوڑ سکتی بلکہ ایسے بادشاہ کو دوچار گالیاں ہی سنا دے گی۔ اس لے کہ وہ پرورش اس کا ایک طبعی تقاضا ہے۔وہ کسی امید یا خوف پر مبنی نہیں۔ اسی طرح پر جب انسان نیکی میں ترقی کرتے کرتے اس مقام پر پہنچتا ہے کہ وہ نیکیاں اس سے ایسے طور پر صادر ہوتی ہیں گویا ایک طبعی تقاضا ہے تویہی وہ حالت ہے جو نفس مطمئنّہ کہلاتی ہے۔

غرض یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کے یہ معنے ہیں کہ جب تک نفس مطمئنّہ نہ ہو، اسی کشاکش میں لگا رہتا ہے۔ کبھی نفس غالب آجاتا ہے اور کبھی آپ غالب آجاتا ہے۔ صبح کو اٹھتا ہے اور دیکھتا ہے کہ ٹھنڈا پانی ہے اس کو نہانے کی حاجت ہے۔ پس اگر نفس کی بات مان لیتا ہے تو نماز کو کھو لیتا ہے اور اگر ہمت سے کام لیتا ہے تو اس پر فتح پا لیتا ہے۔

تحدیث بالنعمۃ

شکر کی بات ہے کہ ایک مرتبہ خود مجھے بھی ایسی حالت پیش آئی۔ سردی کا موسم تھا۔ مجھے غسل کی حاجت ہو گئی۔ پانی گرم کرنے کے لیے کوئی سامان اس جگہ نہ تھا۔ ایک پادری کی لکھی ہوئی کتاب میزان الحق میرے پاس تھی، اس وقت وہ کام آئی ۔میں نے اس کو جلا کر پانی گرم کر لیا اور خدا تعالیٰ کا شکر کیا۔ اس وقت میری سمجھ میں آیا کہ بعض وقت شیطان بھی کام آجاتا ہے۔

پھر میں اصل مطلب کی طرف رجوع کرتا ہوں کہ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ کے یہی معنے ہیں اور اس پر ترقی یہی ہے کہ ایسی حالت سے نجات پاکر مطمئنّہ کی حالت میں پہنچ جاوے۔

(ملفوظات ۔ جلد8 صفحہ311-314۔ ایڈیشن 1984ء)

بنی نوع کے ہم پر حقوق

دوسرے غرباء کے ساتھ معاملہ تب پڑتا ہے کہ وہ فاقہ مست ہوتے ہیں اور خشک روٹی پر گزارہ کر لیتے ہیں مگر یہ باوجود علم ہونے کے بھی پروا نہیں کرتے۔ وہ ان کو امتحان میں ڈالتے ہیں جب بصورت سائل آتے ہیں۔ خدا تعالیٰ تو ذرہ ذرہ کا خالق ہے کوئی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ یہ غریبوں کے ساتھ ہی معاملہ کرکے سمجھا جاتا ہے کہ کس قدر ناخدا ترسی (’’خدا نا ترسی‘‘ ہے۔ سہو کتابت سے ’’ناخدا ترسی‘‘ لکھا گیا ہے۔ مرتّب) یا خداترسی سے حصہ لیتا ہے یا لے گا۔

ایک حدیث میں آیا ہے کہ قیامت میں اللہ تعالیٰ بعض بندوں سے فرمائے گا کہ تم بڑے برگزیدہ ہو اور میں تم سے بہت خوش ہوں کیونکہ میں بہت بُھوکا تھا تم نے مجھے کھانا کھلایا۔ میں ننگا تھا تم نے کپڑا دیا۔ میں پیاسا تھا تم نے مجھے پانی پلایا۔ میں بیمار تھا تم نے میری عیادت کی۔ وہ کہیں گے کہ یا اللہ تُو تو ان باتوں سے پاک ہے تو کب ایسا تھا جو ہم نے تیرے ساتھ ایسا کیا؟ تب وہ فرمائے گا کہ میرے فلاں فلاں بندے ایسے تھے تم نے ان کی خبرگیری کی وہ ایسا معاملہ تھا کہ گویا تم نے میرے ساتھ ہی کیا۔ پھر ایک اَور گروہ پیش ہوگا۔ ان سے کہے گا کہ تم نے میرے ساتھ بُرا معاملہ کیا۔ میں بُھوکا تھا۔ تم نے مجھے کھانا نہ دیا۔ پیاسا تھا پانی نہ دیا۔ ننگا تھا مجھے کپڑا نہ دیا۔ میں بیمار تھا میری عیادت نہ کی۔ تب وہ کہیں گے کہ یاللہ تُو تو ایسی باتوں سے پاک ہے۔ تو کب ایسا تھا جو ہم نے تیرے ساتھ ایسا کیا۔ اس پر فرمائے گا کہ میرا فلاں بندہ اس حالت میں تھا اور تم نے ان کے ساتھ کوئی ہمدردی اور سلوک نہ کیا وہ گویا میرے ہی ساتھ کرنا تھا۔

غرض نوع انسان پر شفقت اور اس سے ہمدردی کرنا بہت بڑی عبادت ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے یہ ایک زبردست ذریعہ ہے۔ مگر میں دیکھتا ہوں کہ اس پہلو میں بڑی کمزوری ظاہر کی جاتی ہے۔ دوسروں کو حقیر سمجھا جاتا ہے۔ ان پر ٹھٹھے کئے جاتے ہیں۔ ان کی خبرگیری کرنا اور کسی مصیبت اور مشکل میں مدد دینا تو بڑی بات ہے۔ جو لوگ غرباء کے ساتھ اچھے سلوک سے پیش نہیں آتے بلکہ ان کو حقیر سمجھتے ہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ وہ خود اس مصیبت میں مبتلا نہ ہو جاویں۔ اللہ تعالیٰ نے جن پر فضل کیا ہے اس کی شکر گزاری یہی ہے کہ اس کی مخلوق کے ساتھ احسان اور سلوک کریں۔ اور اس خدا داد فضل پر تکبّر نہ کریں اور وحشیوں کی طرح غرباء کو کُچل نہ ڈالیں۔

خوب یاد رکھو کہ امیری کیا ہے؟ امیری ایک زہر کھانا ہے۔ اس کے اثر سے وہی بچ سکتا ہے جو شفقت علیٰ خلق اللہ کے تریاق کو استعمال کرے اور تکبّر نہ کرے لیکن اگر وہ اس کی شیخی اور گھمنڈ میں آتا ہے تو نتیجہ ہلاکت ہے۔ ایک پیاسا ہو اور ساتھ کنواں بھی ہو لیکن کمزور ہو اور غریب ہو اور پاس ایک متموّل انسان ہو تو وہ محض اس خیال سے کہ اس کو پانی پلانے سے میری عزّت جاتی رہے گی اس نیکی سے محروم رہ جائے گا۔ اس نخوت کا نتیجہ کیا ہوا؟ یہی کہ نیکی سے محروم رہا اور خدا تعالیٰ کے غضب کے نیچے آیا۔ پھر اس سے کیا فائدہ پہنچا۔ یہ زہر ہوا یا کیا؟ وہ نادان ہے سمجھتا نہیں کہ اس نے زہر کھائی ہے۔ لیکن تھوڑے دنوں کے بعد معلوم ہو جائے گا کہ اس نے اپنا اثر کر لیا ہے اور وہ ہلاک کر دے گی۔

یہ بالکل سچی بات ہے کہ بہت سی سعادت غرباء کے ہاتھ میں ہے۔ اس لئے انہیں امیروں کی امیری اور تموّل پر رشک نہیں کرنا چاہیئے اس لئے کہ انہیں وہ دولت ملی ہے جو ان کے پاس نہیں۔ ایک غریب آدمی بے جا ظلم، تکبّر، خودپسندی، دوسروں کو ایذا پہنچانے، اتلاف حقوق وغیرہ بہت سی بُرائیوں سے مُفت میں بچ جائے گا۔ کیونکہ وہ جھوٹی شیخی اور خود پسندی جو ان باتوں پر اسے مجبور کرتی ہے، اس میں نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی مامُور اور مرسل آتا ہے تو سب سے پہلے اس کی جماعت میں غرباء داخل ہوتے ہیں۔ اس لئے کہ ان میں تکبّر نہیں ہوتا۔ دولت مندوں کو یہی خیال اور فِکر رہتا ہے کہ اگر ہم اس کے خادم ہو گئے تو لوگ کہیں گے کہ اتنا بڑا آدمی ہو کر فُلاں شخص کا مُرید ہوگیا ہے اور اگر ہو بھی جاوے تب بھی وہ بہت سی سعادتوں سے محروم رہ جاتا ہے۔ الَّا ماشاء ﷲ۔ کیونکہ غریب تو اپنے مرشد اور آقا کی کسی خدمت سے عار نہیں کرے گا مگر یہ عار کرے گا۔ ہاں اگر خدا تعالیٰ اپنا فضل کرے اور دولت مند آدمی اپنے مال و دولت پر ناز نہ کرے اور اس کو بندگانِ خدا کی خدمت میں صرف کرنے اور ان کی ہمدردی میں لگانے کے لئے موقع پائے اور اپنا فرض سمجھے تو پھر وہ ایک خیر کثیر کا وارث ہے۔

اصل بات یہ ہے کہ سب سے مشکل اور نازک مرحلہ حقوق العباد ہی کا ہے کیونکہ ہر وقت اس کا معاملہ پڑتا ہے اور ہرآن یہ ابتلا سامنے رہتا ہے۔ پس اس مرحلہ پر بہت ہی ہوشیاری سے قدم اُٹھانا چاہیئے۔ میرا تو یہ مذہب ہے کہ دشمن کے ساتھ بھی حد سے زیادہ سختی نہ ہو۔ بعض لوگ چاہتے ہیں کہ جہانتک ہو سکے اس کی تخریب اور بربادی کیلئے سعی کی جاوے پھر وہ اس فکر میں پڑ کر جائز اور ناجائز امور کی بھی پروا نہیں کرتے۔ اس کو بدنام کرنے کے واسطے جھوٹی تہمت اس پر لگاتے، افترا کرتے اور اس کی غیبت کرتے اور دوسروں کو اس کے خلاف اُکساتے ہیں۔ اب بتاؤ کہ معمولی دشمنی سے کس قدر برائیوں اور بدیوں کا وارث بنا اور پھر یہ بدیاں جب اپنے بچّے دیں گی تو کہاں تک نوبت پہنچے گی۔

(ملفوظات۔ جلد8 صفحہ101-104۔ ایڈیشن 1984ء)

غرض یہ ہے کہ جس قسم کا انسان ہو اسے اپنی طاقت اور قدرت کے موافق قدم بڑھانا چاہیئے۔ ہر شخص اپنی معرفت کے لحاظ سے پوچھا جائے گا۔ جس قدر کسی کی معرفت بڑھی ہوئی ہو گی اسی قدر وہ زیادہ جواب دہ ہو گا۔ اس لئے ذو النون نے زکوٰۃ کا وہ نکتہ سنایا یہ خلاف شریعت نہیں ہے۔ اس کے نزدیک شریعت کا یہی اقتضاء تھا۔ وہ جانتا تھا کہ مال رکھنے کے لئے نہیں ہے بلکہ اُسے خدمتِ دین اور ہمدردی نوع انسان میں صرف کرنا چاہیئے۔

(ملفوظات۔ جلد8 صفحہ108۔ ایڈیشن 1984ء)

(ابو سعید)

(یہ تمام علمی اور روحانی مواد مکرم محمد اظہر منگلہ استاذ جامعہ احمدیہ غانا کمپوز کر رہے ہیں اور آپ کے ساتھ عزیزم عبدالمجیب آف نائیجیریا متعلم جامعہ احمدیہ غانا پروف ریڈنگ کے فرائض ادا کرتے ہیں۔فجزاھم اللہ تعالیٰ خیراً)

پچھلا پڑھیں

سینکڑوں عبداللطیف درکار ہیں

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 اگست 2021