دعا، ربوبیت اور عبودیت کا ایک کامل رشتہ ہے (مسیح موعود ؑ)
قسط 40
اگر کوئی تقدیر معلق ہو تو دعا اور
صدقات اس کو ٹلا دیتی ہیں
تقدیر دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک کانام معلق ہے اور دوسری کو مبرم کہتے ہیں۔ اگر کوئی تقدیر معلق ہو تو دعا اور صدقات اس کو ٹلا دیتی ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس تقدیر کو بدل دیتا ہے اور مبرم ہونے کی صورت میں وہ صدقات اور دعا اس تقدیر کے متعلق کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتی۔ ہاں وہ عبث اور فضول بھی نہیں رہتی۔ کیونکہ یہ اللہ تعالےٰ کی شان کے خلاف ہے۔ وہ اس دعا اور صدقات کا اثر اور نتیجہ کسی دوسرے پیرایہ میں اس کو پہنچا دیتا ہے۔ بعض صورتوں میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ خدا تعالیٰ کسی تقدیر میں ایک وقت تک توقف اور تاخیر ڈال دیتا ہے۔
قضاء معلق اور مبرم کا ماخذ اور پتہ قرآن کریم ہی سے ملتا ہے۔گو یہ الفاظ نہیں۔ مثلاً قرآن میں فرمایا ہے۔ ادعونی استجب لکم (المومن: 61) دعا مانگو میں قبول کروں گا۔ اب یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ دعا قبول ہوسکتی ہے اور دعاسے عذاب ٹل جاتا ہے اور ہزار ہا کیا کُل کام دعا سے نکلتے ہیں۔ یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ اللہ تعالےٰ کا کُل چیزوں پر قادرانہ تصرف ہے۔ وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ اس کے پوشیدہ تصرفات کی لوگوں کو خواہ خبر ہو یا نہ ہو مگر صدہا تجربہ کاروں کے وسیع تجربے اور ہزار ہا درد مندوں کی دعاؤں کے صریح نتیجے بتلارہے ہیں کہ اس کا ایک پوشیدہ اور مخفی تصرف ہے۔ وہ جو چاہتا ہے محو کرتا ہے اور جو چاہتا ہے اثبات کرتا ہے۔ ہمارے لئے یہ ضروری امر نہیں کہ اس کہ تہہ تک پہنچنے اور اس کی کُنہ اور کیفیت کو معلوم کرنے کی کوشش کریں جبکہ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ ایک شے ہونے والی ہے۔ اس لئے ہم کو جھگڑے اور بحث میں پڑنے کی کچھ حاجت نہیں۔ خدایتعالیٰ نے انسان کی قضاء و قدر کو مشروط بھی رکھا ہے جو توبہ خشوع و خضوع سے ٹل سکتی ہیں۔ جب کسی قسم کی تکلیف اور مصیبت انسان کو پہنچتی ہے تو وہ فطرتًا اور طبعًا اعمال حسنہ کی طرف رجوع کرتا ہے۔ اپنے اندر ایک قلق اور کرب محسوس کرتا ہے جو اسے بیدار کرتا اور نیکیوں کی طرف کھینچے لئے جاتا ہے اور گناہ سے ہٹاتا ہے۔ جس طرح پر ہم ادویات کے اثر کو تجربہ کے ذریعہ سے پالیتے ہیں اسی طرح پر ایک مضطرب الحال انسان جب خدائے تعالےٰ کے آستانہ پر نہایت تذلّل اور نیستی کے ساتھ گرتا ہے اور ربّی ربّی کہہ کر اس کو پکارتا اور دعائیں مانگتا ہےتو وہ رویا صالحہ یا الہام صحیحہ کے ذریعہ سے ایک بشارت اور تسلی پالیتا ہے۔ میں نے اپنے ساتھ بارہا اللہ تعالیٰ کا یہ معاملہ دیکھا ہے کہ جب میں نے کرب و قلق سے کوئی دعا مانگی۔ اللہ تعالےٰ نے مجھے رویا کے ذریعہ سے آگاہی بخشی۔ ہاں قلق اور اضطرار اپنے بس میں نہیں ہوتا۔ اس کا انشاء بھی فعلِ الٰہی ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ جب صبر اور صدق سے دعا انتہا کو پہنچے تو وہ قبول ہوجاتی ہے۔ دعا، صدقہ اور خیرات سے عذاب کا ٹلنا ایک ایسی ثابت شدہ صداقت ہے جس پر ایک لاکھ چوبیس ہزار نبی کا اتفاق ہے اور کروڑہا صلحاء اتقیاء اور اولیاء اللہ کے ذاتی تجربے اس امر پر گواہ ہیں۔
نماز کیا ہے؟ یہ ایک خاص دعا ہے۔ مگر افسوس ہےکہ لوگ اس کو بادشاہوں کا ٹیکس سمجھتے ہیں۔ نادان اتنا نہیں جانتے کہ بھلا خدائے تعالےٰ کو ان باتوں کی کیا حاجت ہے۔ اس کی غناء ذاتی کو اس بات کی کیا حاجت ہے کہ انسان دعا اور تسبیح اور تہلیل میں مصروف ہو۔ بلکہ اس میں انسان کا اپنا ہی فائدہ ہے کہ وہ اس طریق سے اپنے مطلب کو پہنچ جاتا ہے… میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ خدا تعالیٰ سے نہایت سوز اور ایک جوش کے ساتھ یہ دعا مانگنی چاہیئے کہ جس طرح اور پھلوں اور اشیاء کی طرح طرح کی لذتیں عطا کی ہیں نماز اور عبادت کا بھی ایک بار مزاچکھا دے۔ کھایا ہوا یاد رہتا ہے۔ دیکھو اگر کوئی شخص کسی خوبصورت کوایک سرور کے ساتھ دیکھتا ہے تووہ اسے خوب یاد رکھتا ہے اور پھر اگر کسی بدشکل اور مکروہ ہیئت کو دیکھتا ہے تو اس کی ساری حالت اس کے بالمقابل مجسم ہوکر سامنے آجاتی ہے۔ ہاں اگرکوئی تعلق نہ ہو تو کچھ یاد نہیں رہتا۔ اسی طرح بے نمازوں کے نزدیک نماز ایک تاوان ہے کہ ناحق صبح اٹھ کر سردی میں وضو کرکے خواب راحت کو چھوڑ کر اور کئی قسم کی آسائشوں کو چھوڑ کر پڑھنی پڑتی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اسے بیزاری ہے وہ اس کو سمجھ نہیں سکتا۔ اس لذت اور راحت سے جو نماز میں ہے اس کو اطلاع نہیں ہے۔ پھر نمازمیں لذت کیونکر حاصل ہو۔…یہ جو فرمایا ہے کہ اِنَّ الۡحَسَنٰتِ یُذۡہِبۡنَ السَّیِّاٰتِ یعنی نیکیاں یا نماز بدیوں کو دور کرتی ہے یا دوسرے مقام پر فرمایا ہے کہ نماز فواحش اور برائیوں سے بچاتی ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ باوجود نماز پڑھنے کے پھر بدیاں کرتے ہیں اس کا جواب یہ ہے کہ وہ نماز پڑھتے ہیں مگر نہ روح اور راستی کے ساتھ۔ وہ صرف رسم اور عادت کے طورپر ٹکریں مارتے ہیں۔ ان کی روح مردہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کا نام حسنات نہیں رکھا۔ اور یہاں جو حسنات کا لفظ رکھا اور الصلوٰۃ کا لفظ نہیں رکھا باوجودیکہ معنی وہی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تا نماز کی خوبی اور حسن و جمال کی طرف اشارہ کرے کہ وہ نماز بدیوں کو دور کرتی ہے جو اپنے اندر ایک سچائی کی روح رکھتی ہے اور فیض کی تاثیر اس میں موجود ہے وہ نماز یقیناً یقیناً برائیوں کو دور کردیتی ہے۔ نماز نشست و برخاست کا نام نہیں۔ نماز کا مغز اور روح وہ دعا ہے جو ایک لذت اور سرور اپنے اندر رکھتی ہے۔ ارکان نماز دراصل روحانی نشست و برخاست کے اظلال ہیں… یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ یہ نماز جو اپنے اصلی معنوں میں نماز ہے دعا سے حاصل ہوتی ہے۔ غیراللہ سے سوال کرنا مومنانہ غیرت کے صریح اور سخت مخالف ہے کیونکہ یہ مرتبہ دعا کا اللہ ہی کے لئے ہے۔ جب تک انسان پورے طور پر حنیف ہو کر اللہ تعالیٰ ہی سے سوال نہ کرے اور اسی سے نہ مانگے سچ سمجھو کہ حقیقی طورپر وہ سچا مومن اور سچا مسلمان کہلانے کا مستحق نہیں … میں اس امر کو پھر تاکید سے کہتا ہوں۔ افسوس ہے مجھے وہ لفظ نہیں ملتے جس میں مَیں غیر اللہ کی طرف رجوع کرنے کی برائیاں بیان کرسکوں۔ لوگوں کے پاس جا کر منت و خوشامد کرتے ہیں۔ یہ بات خدائے تعالےٰ کی غیرت کو جوش میں لاتی ہے (کیونکہ یہ تو لوگوں کی نماز ہے) پس وہ اس سے ہٹتا اور اسے دور پھینک دیتا ہے۔ میں موٹے الفاظ میں اس کو بیان کرتا ہوں گویہ امراس طرح پر نہیں ہے مگر فوراً سمجھ میں آسکتا ہے۔ کہ جیسے ایک مرد غیور کی غیرت تقاضا نہیں کرتی کہ وہ اپنی بیوی کو کسی غیر کے ساتھ تعلق پیدا کرتے ہوئے دیکھ سکے اور جس طرح پر وہ مرد ایسی حالت میں اس نابکار عورت کو واجب القتل سمجھتا بلکہ بسا اوقات ایسی وارداتیں ہوجاتی ہیں ایسا ہی جوش اور غیرت الوہیت کی ہے۔ جب عبودیت اور دعا خاص اسی ذات کے مد مقابل ہیں وہ پسند نہیں کرسکتا کہ کسی اور کو معبود قرار دیا جائے یا پکارا جائے۔
پس خوب یاد رکھو اور پھر یاد رکھو ! کہ غیر اللہ کی طرف جھکنا خدا سے کاٹنا ہے۔ نماز اور توحید کچھ ہی ہو (کیونکہ توحید کے عملی اقرار کا نام ہی نماز ہے) اسی وقت بے برکت اور بے سودہوتی ہے جب اس میں نیستی اور تذلل کی روح اور حنیف دل نہ ہو! سنو وہ دعا جس کے لئے۔ ادۡعُوۡنِیۡۤ اَسۡتَجِبۡ لَکُمۡ (المومن: 61) فرمایا ہے اس کے لئے یہی سچی روح مطلوب ہے اگر اس تضرع اور خشوع میں حقیقت کی روح نہیں تو وہ ٹیں ٹیں سے کم نہیں ۔
(ملفوظات جلد9 صفحہ1-12 ایڈیشن 1984ء)
(حسنیٰ مقبول احمد۔امریکہ)