عائلی زندگی میں میاں بیوی کو صبر
اور برداشت کی عادت ڈالنے کی ضرورت ہے
تقریر جلسہ سالانہ برطانیہ 2022ء
وَمِنۡ اٰیٰتِہٖۤ اَنۡ خَلَقَ لَکُمۡ مِّنۡ اَنۡفُسِکُمۡ اَزۡوَاجًا لِّتَسۡکُنُوۡۤا اِلَیۡہَا وَجَعَلَ بَیۡنَکُمۡ مَّوَدَّۃً وَّرَحۡمَۃً ؕ اِنَّ فِیۡ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوۡمٍ یَّتَفَکَّرُوۡنَ ﴿۲۲﴾
(الروم: 22)
اللہ تعالیٰ فرماتاہے۔
اس کے نشانات میں سے (یہ بھی) ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہاری جنس میں سے جوڑے بنائے تاکہ تم اُن کی طرف تسکین (حاصل کرنے) کے لئے جاؤ اور اس نے تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیداکردی۔ یقینا اس میں ایسی قوم کے لئے جوغوروفکر کرتے ہیں بہت سے نشانات ہیں۔
اس آیت میں میاں بیوی میں محبت اورپیار اوروفاداری کے تعلقات کو اللہ تعالیٰ نے عظیم الشان نشانوں میں سے ایک نشان قراردیاہے۔ اس محبت اور مودت میں اللہ تعالیٰ نے ایسی کشش اورطاقت اورقوت رکھ دی ہے کہ ایسے تعلقات میں نیک نیتی اور اخلاص پایاجائے تو میاں بیوی ایک دوسرے کی چھوٹی موٹی کمزوریوں کا تو کیا ذکر ایک دوسرے کے لئے سب کچھ قربان کرنے کو تیار ہوجاتے ہیں۔ محبت کے اس تعلق کی خاطر نہ تو ایک کی دوسرے کی غربت کاخیال رہتاہے نہ دنیاکی ظاہری زیب وزینت میں کمی بیشی کا شکوہ ہوتاہے۔ اوراللہ تعالیٰ کے فضل سے ہماری جماعت میں ایسی بے شمارمثالیں موجودہیں جہاں شادی کے پاکیزہ معاہدہ کی حفاظت کے لئے ماؤں نے بھی صبرو تحمل کے ساتھ بہت قربانیاں دیں اورباپوں نے بھی اورپھر ان کی اولادوں نے اپنے والدین کی ان قربانیوں کوہمیشہ یادرکھا۔
لیکن چندمثالیں ایسی بھی ہیں جہاں شادی کے پاکیزہ معاہدہ کو جلدبازی ساتھ اوربے صبری کے ساتھ توڑدیاگیا اور ایسے جوڑوں سے ایسی جہنم کی بنیا دپڑتی ہے جس میں فریقین نہ صرف خود نہایت تکلیف دہ زندگی بسرکرتے ہیں بلکہ ان کی آئندہ نسلیں بھی اس جہنم میں سسک سسک کرزندگی بسرکرتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کایہ حکم دونوں میاں بیوی کے لئے ہے۔ کہ
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا قُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ وَاَہۡلِیۡکُمۡ نَارًا
(التحریم: 7)
ترجمہ: اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آگ سے بچاؤ۔
دونوں میاں بیوی کایہ فرض ہے کہ اپنے گھرمیں اپنے لئے اوراپنے اہل وعیال کے لئے جہنم سے نجات کاسامان پیدا کریں۔
اور ایسے گھر جہاں میاں بیوی کے تعلقات خراب ہوں وہاں پلنے والے بچے دن بدن ذہنی اذیت میں مبتلاہوکر مجرمانہ کاموں میں ملوث ہو نے لگتے ہیں اور بعض ان میں سے خطرناک نشہ آور چیزوں کے استعمال سے مصنوعی تسکین حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایسے خاندان جہاں شادی کے بعدبعض نوجوان یا ان کے خاندان کے افراد ایک دوسرے کی چھوٹی چھوٹی لغزشوں پربے صبری کا مظاہر کرتے ہیں۔ ان کاذکرکرتے ہوئے ایک موقعہ پر حضورِا نور ایّدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ ’’میرے ایک جائزے سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ جن گھروں میں ماں باپ کا آپس کا محبت اور پیار کا سلوک نہیں ہے اُن کے بچے زیادہ باہر جاکر سکون تلاش کرتے ہیں۔ اس لئے میں ماں باپ سے بھی کہوں گا کہ اپنی ذاتی اناؤں کی وجہ سے اور اپنی ادنیٰ خواہشات کی وجہ سے گھروں کا سکون برباد کرکے اپنی نسلوں کو برباد نہ کریں۔‘‘
(جلسہ سالانہ جرمنی خطاب مستورات فرمودہ 15اگست 2009ء)
پھر ایک موقع پر فرمایا کہ مجھے جب ایسے جھگڑوں کا پتہ لگتا ہے اور چھوٹی چھوٹی رنجشوں کے اظہار کرکے گھروں کے ٹوٹنے کی باتیں ہو رہی ہوتی ہیں۔ تو ہمیشہ ایک بچی کا واقعہ یاد آ جاتا ہےجس نے ایک جوڑے کو بڑا اچھا سبق دیا تھا۔ اُس کے سامنے ایک جوڑا لڑائی کرنے لگا یا بحث کرنے لگے یا غصّہ میں اونچی بولنے لگے تو وہ بچی حیرت سے ان کو دیکھتی چلی جا رہی تھی۔ خیر اُن کو احساس ہوا، انہوں نے اس سے پوچھا کہ تمہارے اماں ابا کبھی نہیں لڑے؟ ان کو غصہ کبھی نہیں آتا؟ اس نے کہا ہاں ان کو غصّہ تو آتا ہے لیکن جب امی کو غصّہ آتا ہے تو اباخاموش ہو جاتے ہیں اور جب میرے باپ کو غصّہ آتا ہے تو میری ماں خاموش ہو جاتی ہے۔ تو یہ برداشت جو ہے اسے پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ بعض دفعہ تو ان چھوٹی چھوٹی باتوں سے ابتداء میں ہی گھر ٹوٹنے شروع ہو جاتے ہیں۔ چند دن شادی کو ہوئے ہوتے ہیں اور فیصلہ یہ ہوتا ہے کہ ہمارے دل نہیں مل سکتے۔ حالانکہ رشتے کئی کئی سال سےقائم ہوتے ہیں اس کے بعد شادی ہوئی ہوتی ہےاور پھر اصل بات یہ ہے کہ یہ جب ایک دوسرے کے راز نہیں رکھتے، باتیں جب باہر نکالی جاتی ہیں تو باہر کے لوگ بھی جو ہیں مشورہ دینے والے بھی جو ہیں وہ اپنے مزے لینے کے لئے یا ان کو عادتاً غلط مشورے دینے کی عادت ہوتی ہے وہ پھر ایسے مشورے دیتے ہیں کہ جن سے گھر ٹوٹ رہے ہوتے ہیں۔ اس لئے مشورہ بھی ایک امانت ہے۔ جب ایسے لوگ، ایسے جوڑے، مرد ہوں یا عورت، لڑکا ہو یا لڑکی، کسی کے پاس آئیں تو ایک احمدی کا فرض ہے کہ ان کو ایسے مشورے دیں جن سے ان کے گھر جڑیں، نہ کہ ٹوٹیں‘‘
(3؍اپریل 2009 خطبہ جمعہ مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل 24 اپریل 2009ء)
اس حوالہ سے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر یلوزندگی کایہ واقعہ بہت ہی سبق آموز ہے۔
ایک دن حضرت عائشہؓ کے گھر میں آنحضرت ﷺ سے کچھ تیز تیز بول رہی تھیں کہ اوپر سے ان کے ابا حضرت ابوبکرؓ تشریف لائے۔ یہ حالت دیکھ کر ان سے رہا نہ گیا اور اپنی بیٹی کو مارنے کے لئے آگے بڑھے کہ خدا کے رسول کے آگے اس طرح بولتی ہے۔ آپؐ یہ دیکھتے ہی باپ اور بیٹی کے درمیان حائل ہو گئے اور حضرت ابوبکر کی متوقع سزا سے حضرت عائشہؓ کو بچالیا۔ اور جب حضرت ابوبکرؓ چلے گئے تو بعد میں ہنستے ہوئے رسول کریمؐ نے حضرت عائشہؓ سے ازراہ تفنن فرمایا۔ دیکھا آج ہم نے تمہیں تمہارے ابا سے کیسے بچایا؟۔ کچھ دنوں بعد ابوبکرؓ آئے۔ رسول اللہؐ اور حضرت عائشہؓ ہنستے ہوئے باتیں کررہے تھے تو ابوبکرؓ نے عرض کیا۔ لڑائی میں تو شریک کیا اب خوشی میں بھی شریک کرو۔
(ابوداؤد کتاب الادب باب ماجاء فی المزاح)
حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاعورت کے بارے میں یہ ارشاد کہ جنت ماں کے قدموں تلے ہے اور مرد کے بارے یہ ارشادکہ باپ جنت کا دروازہ ہے۔ حقیقت میں شادی کی حقیقی خوشیوں سے مالامال ہونے کی راہ بتلادی۔ جنت ایک نہایت سرسبزوشاداب پھلوں اور پھولوں سے لدھے باغ کو کہا جاتا ہے جہاں انسان سکون پاتاہے اس کی خوشبوؤں سے معطر ہوتا اور اس کے پھلوں سے حذاُٹھاتا اور اس کو دیکھ کراس کی آنکھیں لذت پاتی ہیں۔
خیال کیاجاسکتاہے کہ ایک جنت نظیرگھر کی تخلیق کےلئے جہاں میاں بیوی نہ صرف ایک دوسرے کے لئے تسکین کاباعث بنیں بلکہ وہ اور ان کے بچے دنیا کی کشاکش سے فارغ ہوکر سکون کی تلاش میں اورآرام پانے کے لئے فوراً گھر بھاگے چلے آئیں۔ ایسے جنت نظیر گھر کے لئے کس قدر محنت اور صبر کی ضرورت ہوگی۔ ایک معمولی درخت کے شیریں پھل کے حصول کےلئے محنت اورمشقت کے ساتھ ساتھ بے پناہ صبر کرناپڑتاہے۔ یہ نہیں ہوتاکہ مرضی کے موافق چنددنوں میں پھل نہ لگاتو اس باغ کودرختوں کوہی کاٹ دے۔ ہربڑی کامیابی کے حصول کے لئے انسان کو بے پناہ قربانیاں دینی پڑتی ہیں اور کئی طرح کے صبرآزما حالات سے گزرنا پڑتا ہے۔ سکول کالج اوریونیورسٹی کی معمولی ڈگریوں کے حصول کے لئے بعض اوقات طالب علم ایسی صبرآزما محنت کرتے ہیں کہ دیکھنے والوں کوان پررحم آتاہے۔
قرآن کریم کے ابتداء میں ہی انسان کے لئے ایک باغ کاذکر ہے جیساکہ فرمایا یٰۤاٰدَمُ اسۡکُنۡ اَنۡتَ وَزَوۡجُکَ الۡجَنَّۃَ یعنی اے آدم! تو اور تیری بیوی جنت میں سکون پاؤاوراس کے پھلوں سے بافراغت لطف اُٹھاؤ۔ لیکن انہیں آیات میں ہمیشہ شیطانی حملوں سے ہوشیاررہنے کی تلقین بھی کردی۔ اور جہاں غلطی سرزدہوئی وہاں دونوں میاں بیوی کوحکم ہواکہ رَبَّنَا ظَلَمۡنَاۤ اَنۡفُسَنَا ٜ وَاِنۡ لَّمۡ تَغۡفِرۡ لَنَا وَتَرۡحَمۡنَا لَنَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡخٰسِرِیۡنَ کہتے ہوئے خداکے حضور جھکنے کا حکم دیا۔ یعنی گھرمیں کسی سے بھی غلطی ہوسکتی ہے کمزوری ہوسکتی ہے۔ مگربجائے ایک دوسرے کوملزم کرنے کے دونوں کوحکم ہواکہ یہ کہتے ہوئے خداکے حضورجھک جاؤ کہ اے ہمارے رب ہم نے اپنی جانوں پرظلم کیا اور اگر تونے ہماری پردہ پوشی نہ کی اور رحم نہ کیاتوہم یقینا گھاٹا پانے والوں میں سے ہوجائیں ہوگے۔
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے بہت دفعہ حسن معاشرت پربڑی تفصیل سے گفتگوفرمائی اورفرمایاکہ ایک دفعہ فرمایاکہ میرا یہ حال ہے کہ ایک دفعہ میں نے اپنی بیوی پر آوازہ کسا تھا اور میں محسوس کرتا تھا کہ وہ بانگ بلند دل کے رنج سے ملی ہوئی ہے اور بایں ہمہ کوئی دل آزار اور درشت کلمہ منہ سے نہیں نکا لاتھا۔ اس کے بعد میں بہت دیرتک استغفار کرتا رہا اور بڑے خشوع وخضوع سے نفلیں پڑھیں اور کچھ صدقہ بھی دیا کہ یہ درشتی زوجہ پر کسی پنہانی معصیتِ الٰہی کا نتیجہ ہے‘‘
(ملفوظات جلد اول صفحہ307)
قرآن کریم نے گھروں کوجنت بنانے کے راہیں بھی بتلائیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ ایسے گھرجہاں اللہ تعالیٰ کانور رحمتوں اوربرکتوں کے ساتھ نازل ہوتاہے کاذکرکرتے ہوئے فرماتاہے کہ
فِیۡ بُیُوۡتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنۡ تُرۡفَعَ وَیُذۡکَرَ فِیۡہَا اسۡمُہٗ ۙ یُسَبِّحُ لَہٗ فِیۡہَا بِالۡغُدُوِّ وَالۡاٰصَالِ رِجَالٌ ۙ لَّا تُلۡہِیۡہِمۡ تِجَارَۃٌ وَّلَا بَیۡعٌ عَنۡ ذِکۡرِ اللّٰہِ وَاِقَامِ الصَّلٰوۃِ وَاِیۡتَآءِ الزَّکٰوۃِ ۪ۙ یَخَافُوۡنَ یَوۡمًا تَتَقَلَّبُ فِیۡہِ الۡقُلُوۡبُ وَالۡاَبۡصَارُ
(النور: 38)
خداتعالیٰ کا نور ایسے گھروں میں اترتاہے جن کے متعلق اللہ نے حکم دیا ہے کہ انہیں بلند کیا جائے اور ان گھرمیں اس کے نام کا ذکر کیا جائے۔ ان میں صبح وشام اس کی تسبیح کرتے ہیں۔ ایسے عظیم مرد جنہیں نہ کوئی تجارت اور نہ کوئی خرید وفروخت اللہ کے ذکر سے یا نماز کے قیام سے یا زکوٰۃ کی ادائیگی سے غافل کرتی ہے۔ وہ اس دن سے ڈرتے ہیں جس میں دل (خوف سے) الٹ پلٹ ہو رہے ہوں گے اور آنکھیں بھی۔
اسی طرح ایک جگہ ہمارے آقا حضرت اقدس محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میاں بیوی کے ایک قابل تقلیدنمونہ کاذکرکرتے ہوئے اوران کودعادیتے ہوئے فرماتے ہیں۔ کہ
رَحِمَ اللّٰهُ رَجُلًا قَامَ مِنَ اللَّيْلِ فَصَلَّى وَأَيْقَظَ امْرَأَتَهُ، فَإِنْ أَبَتْ نَضَحَ فِي وَجْهِهَا الْمَاءَ، رَحِمَ اللَّهُ امْرَأَةً قَامَتْ مِنَ اللَّيْلِ فَصَلَّتْ وَأَيْقَظَتْ زَوْجَهَا، فَإِنْ أَبَى نَضَحَتْ فِي وَجْهِهِ الْمَاءَ
اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم فرمائے جو رات کو اٹھے اور نماز پڑھے اور اپنی بیوی کو بھی بیدار کرے، اگر وہ نہ اٹھے تو اس کے چہرے پر پانی کاہلکا سا چھینٹا دے، اللہ تعالیٰ اس عورت پر رحم فرمائے جو رات کو اٹھ کر نماز پڑھے اور اپنے شوہر کو بھی جگائے، اگر وہ نہ اٹھے تو اس کے چہرے پر پانی کا چھینٹادے۔
(سنن ابی داؤد 1308)
یقینادعاؤں اور عبادت کی انہیں راہوں پرچل کر گھر جنت نظیر بنتے ہیں۔جہاں فرشتے اللہ تعالیٰ کی رحمتیں لے کرنازل ہوتے ہیں۔
یہ نمونے ایسے گھروں میں دیکھے جاسکتے ہیں جہاں مردوعورت کے شادی کے تعلقات کی بنیاد تقویٰ اور دین ہو۔ جیساکہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ
عورت سے نکاح چار چیزوں کی بنیاد پر کیا جاتا ہے اس کے مال کی وجہ سے اور اس کے خاندانی شرف کی وجہ سے اور اس کی خوبصورتی کی وجہ سے اور اس کے دین کی وجہ سے اور تو دیندار عورت سے نکاح کر کے کامیابی حاصل کر، اگر ایسا نہ کرے تو تیرے ہاتھوں کو مٹی لگے گی) غالبا اس سے یہ مراد ہے کہ اگردین کومقدم نہیں کروگے توساری عمر زمینی اورنفسانی خواہشات کی تکمیل میں محنت مزدوری کرتے رہوگے لیکن تب بھی کبھی گھرمیں سکون نہ آئے گا۔ اور بالآخر ندامت ہو گی۔
(صحیح بخاری کتاب النکاح 5090)
اسی طرح ایک پرسکون گھرکے لئے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نہایت قیمتی نصیحت یہ فرمائی کہ
أَمْسِكْ عَلَيْكَ لِسَانَكَ وَلْيَسَعْكَ بَيْتُكَ وَابْكِ عَلَى خَطِيئَتِكَ
(سنن ترمذي كتاب الزهد عن رسول اللّٰهؐ . باب مَا جَاءَ فِي حِفْظِ اللِّسَانِ)
یعنی ’’اپنی زبان کو قابو میں رکھو، تیراگھر تیرے لئے کافی ہو یعنی سکون کی تلاش میں اپنی خواہشات کومحدودکرو اور اپنی چادرسے زائد پا ؤں پھیلانے کی کوشش نہ کرو۔ اور اپنی خطاؤں پر روتے رہو‘‘
قرآن کریم میں ایک جگہ اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کاذکرکرتاہے کہ جن کو اہل وعیال سمیت جنت میں داخل کیاجائے گا۔ جہاں ان کے لئے اوران کے بچوں کے لئے طرح طرح کے پھل اور لذیذکھانے اورہرطرح کے تسکین کے سامان ہوں گے۔ وہ ایک دوسرے سے سوال کر یں گےکہ یہ نعمتیں کیسے میسرآئیں تووہ جواب دیں گے کہ اِنَّا کُنَّا قَبۡلُ فِیۡۤ اَہۡلِنَا مُشۡفِقِیۡنَ وہ کہیں گے یقیناً ہم تو اس سے پہلے اپنے اہل و عیال میں بہت ڈرے ڈرے رہتے تھے۔
فَمَنَّ اللّٰہُ عَلَیۡنَا وَوَقٰٮنَا عَذَابَ السَّمُوۡمِ
پس اللہ نے ہم پر احسان کیا اور ہمیں جُھلسا دینے والی لَپٹوں کے عذاب سے بچایا۔
اِنَّا کُنَّا مِنۡ قَبۡلُ نَدۡعُوۡہُ ؕ اِنَّہٗ ہُوَ الۡبَرُّ الرَّحِیۡمُ
یقیناً ہم پہلے بھی اسی کو پکارا کرتے تھے۔ بے شک وہی بہت نیک سلوک کرنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔
(طور: 27-29)
جس کی یاد دہانی ہر نکاح کے موقع پر باربارہوتی ہے۔
ہمارے پیارے آقا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ نےآنحضورﷺ کی احادیث کی روشنی میں احباب جماعت کو عائلی تعلقات کے حوالہ سے حسن سلوک کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
گھریلو تعلقات کے بارہ میں آپؐ کی نصیحت احادیث میں آتی ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مومن کو اپنی مومنہ بیوی سے نفرت اور بغض نہیں رکھنا چاہئے۔ اگر اس کی ایک بات اسے ناپسند ہے تو دوسری بات پسندیدہ ہو سکتی ہے۔
(صحیح مسلم کتاب الرضاع باب الوصیۃ بالنساء حدیث 3648)
یعنی اگر اس کی کچھ باتیں ناپسندیدہ ہیں تو کچھ اچھی بھی ہوں گی۔ ہمیشہ اچھی باتوں پر تمہاری نظر رہے۔
(صحیح بخاری کتاب النکاح باب المرأۃ راعیۃ فی بیت زوجھا حدیث 5200)
فرمایا :دونوں طرف سے یہ سلوک ہو گاتو تبھی گھر کا امن اور سکون قائم رہ سکتاہے۔
عائلی زندگی کی حفاظت کی طرف توجہ دلانے کی خاطر قرآن میں ایک راہ یہ بتلائی ہُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمۡ وَ اَنۡتُمۡ لِبَاسٌ لَّہُنَّ (البقرہ: 188) یعنی وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس ہو۔ یعنی آپس کےتعلقات کی پردہ پوشی جو ہےوہ دونوں کی ذمہ داری ہے۔
ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس پرحکمت طریق کی وضاحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
قرآن کریم میں ہی خداتعالیٰ نے جو لباس کے مقاصد بیان فرمائے ہیں وہ یہ ہیں کہ لباس ننگ کو ڈھانکتا ہے، دوسرے یہ کہ لباس زینت کا باعث بنتا ہے، خوبصورتی کا باعث بنتا ہے، تیسرے یہ کہ سردی گرمی سے انسان کو محفوظ رکھتا ہے۔ پس اس طرح جب ایک دفعہ ایک معاہدے کے تحت آپس میں ایک ہونے کا فیصلہ جب ایک مرد اور عورت کر لیتے ہیں تو حتی المقدو ر یہ کوشش کرنی چاہئے کہ ایک دوسرے کو برداشت بھی کرنا ہے اور ایک دوسرے کے عیب بھی چھپانے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر نہ مردوں کو بھڑکنا چاہئے اور نہ ہی عورتوں کو۔ بلکہ ایسے تعلقات ایک احمدی جوڑے میں ہونے چاہئیں جو اس جوڑے کی خوبصورتی کو دو چند کرنے والے ہوں۔ ایسی زینت ہر احمدی جوڑے میں نظر آئے کہ دوسروں کے لئے ایک نمونہ بن جائیں‘‘
فرمایاکہ جہاں تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا خانگی معاملات میں برداشت کا تعلق ہے وہ بھی آپ کی زندگی کا ایک نمایاں پہلو ہے۔ آج لوگ ذرا ذرا سی بات پر اپنی بیویوں سے جھگڑپڑتے ہیں۔ سالن میں معمولی نمک زیادہ ہو جائے یا بروقت کھانا نہ ملے تو آگ بگولہ ہو جاتے ہیں۔ گالی گلوچ پر اُتر آتے ہیں۔ لیکن حضرت مسیح موعودؑ نے معاشرت کا ایک مثالی نمونہ ہمارے لئے چھوڑا۔روایت ہے کہ
شادی کے بعد حضرت اماں جان جب پہلے پہل دلی سے قادیان تشریف لائیں تو آپ کو بتایا گیا کہ حضرت صاحب گڑ کے میٹھے چاول پسند فرماتے ہیں آپ نے بہت شوق اور اہتمام سے میٹھے چاول پکانے کا انتظام کیا۔ تھوڑے سے چاول منگوائے اور اس میں چار گنا گڑ ڈال دیااور بالکل راب سی بن گئی۔ جب پتیلی چولہے سے اتاری اور چاول برتن میں نکالے تو دیکھ کر سخت رنج اور صدمہ ہوا کہ یہ تو خراب ہو گئے ادھر کھانے کا وقت قریب ہو گیا۔ آپ حیران تھیں کہ اب کیا کروں۔ اتنے میں آپ آگئے۔ آپ کا چہرہ دیکھا جو رنج اور صدمہ سے رونے والیوں کا سا بنا ہوا تھا آپ دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا۔ کیا چاول اچھے نہ پکنے کا افسوس ہے؟
پھر فرمایا۔ نہیں یہ تو بہت اچھے ہیں۔ میرے مذاق کے مطابق پکے ہیں۔ ایسے زیادہ گڑوالے ہی تو مجھے پسندیدہ ہیں یہ بہت ہی اچھے ہیں اور پھر بہت خوش ہو کر کھائے آپ فرماتی تھیں کہ ’’حضرت صاحب نے مجھے خوش کرنے کی اتنی باتیں کیں کہ میرا دل بھی خوش ہو گیا‘‘
میاں بیوی کے درمیان دلجوئی اور محبت کایہ سلوک یکطرفہ نہ تھاکہ بلکہ دہلی جیسے متمدن شہرسے قادیان کے گاؤں میں آئی لاڈ اور پیار میں پلی دلہن جس نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ساتھ اپنی زندگی نہایت تقوی اور طہارت اور دعاؤں سے گزاری بلکہ بعض غیراحمدی متعصب رشتہ داروں کی وجہ سے مشکل ترین حالات میں صبرسے اس طرح بسر کی کہ کبھی کوئی دنیا کی لالچ اور زیب و زینت اس محبت کے تعلق میں خلل نہ ڈال سکا۔ اور دیکھنے والے بتاتے ہیں کہ دونوں میاں بیوی کاتعلق گہرے دوستوں جیساتھا۔ دونوں میاں بیوی کا 22۔ 23سالہ رفاقت کاتعلق صبرواستقامت اور وفاکانہایت قابل تقلید نمونہ ہے۔ حضرت مسیح موعوعلیہ السلام کی وفات کے حضرت اماں جان رضی اللہ عنہا کااپنے خاوند سے وفاکاایک یہ انداز ملاحظہ کریں کہ حضرت اماں رضی اللہ عنہا نے پانچوں بچوں کااکٹھاکیااور فرمایا۔
بچو! گھر خالی دیکھ کر مایوس نہ ہونا اور اپنے خدارسیدہ باپ کے بارے تمہارے دل میں کوئی میل نہ آئے کیوں کہ تمہارا باپ تمہارے لئے آسمان پر دعاؤں کے بے پناہ خزائن چھوڑ گیا ہے جو وقت پر تم کو ملتے رہے گے۔ یہ محض طفل تسلی نہ تھی بلکہ جماعت احمدیہ کی تاریخ سے واقف لوگ اس کے زندہ گواہ ہیں اور ان شاءاللّٰہ قیامت تک اس کے دل کش نظارے دیکھتے رہیں گے ان شاءاللّٰہ
مشترکہ خاندانی نظام میں پیداہونے والے بعض مسائل کاذکرکرتے ہوئے ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی بنصرہ العزیز فرماتے ہیں کہ
’’پھر ایک بیماری جس کی وجہ سے گھر برباد ہوتے ہیں، گھر وں میں ہر وقت لڑائیا ں اور بے سکونی کی کیفیت رہتی ہے وہ شادی کے بعد بھی لڑکوں کا توفیق ہوتے ہوئے اور کسی جائز وجہ کے بغیر بھی ماں باپ، بہن بھائیوں کے ساتھ اسی گھر میں رہنا ہے۔ اگر ماں باپ بوڑھے ہیں، کوئی خدمت کرنے والا نہیں ہے، خود چل پھر کر کام نہیں کر سکتے اور کوئی مددگار نہیں تو پھر اس بچے کے لئے ضروری ہے اور فرض بھی ہے کہ انہیں اپنے ساتھ رکھے اور ان کی خدمت کرے۔ لیکن اگر بہن بھائی بھی ہیں جو ساتھ رہ رہے ہیں تو پھر گھر علیحدہ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ آجکل اس کی وجہ سے بہت سی قباحتیں پیدا ہوتی ہیں۔ اکٹھے رہ کر اگر مزید گناہوں میں پڑنا ہے تو یہ کوئی خدمت یا نیکی نہیں ہے…
…تو یہ چیز کہ ہم پیار محبت کی وجہ سے اکٹھے رہ رہے ہیں، اس پیار محبت سے اگر نفرتیں بڑھ رہی ہیں تو یہ کوئی حکم نہیں ہے، اس سے بہتر ہے کہ علیحدہ رہا جائے۔ تو ہر معاملہ میں جذباتی فیصلوں کی بجائے ہمیشہ عقل سے فیصلے کرنے چاہئیں۔
پھرحضورانورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ایک موقعہ پر قرٓان کریم کی درج ذیل آیت کے حوالے سے فرمایاکہ اس آیت کی تشریح میں :
لَیۡسَ عَلَی الۡاَعۡمٰی حَرَجٌ وَّلَا عَلَی الۡاَعۡرَجِ حَرَجٌ وَّلَا عَلَی الۡمَرِیۡضِ حَرَجٌ وَّلَا عَلٰۤی اَنۡفُسِکُمۡ اَنۡ تَاۡکُلُوۡا مِنۡۢ بُیُوۡتِکُمۡ اَوۡ بُیُوۡتِ اٰبَآئِکُمۡ اَوۡ بُیُوۡتِ اُمَّہٰتِکُمۡ اَوۡ بُیُوۡتِ اِخۡوَانِکُمۡ اَوۡ بُیُوۡتِ اَخَوٰتِکُمۡ
(النور: 62)
کہ اندھے پر کوئی حرج نہیں، لولے لنگڑے پر کوئی حرج نہیں، مریض پر کوئی حرج نہیں اور نہ تم لوگوں پر کہ تم اپنے گھروں سے یا اپنے باپ دادا کے گھروں سے یا اپنی ماؤں کے گھروں سے یا اپنے بھائیوں کے گھروں سے یا اپنی بہنوں کے گھروں سے کھانا کھاؤ، حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ فرماتے ہیں کہ ’’ہندوستان میں لوگ اکثر اپنے گھروں میں خصوصاً ساس بہو کی لڑائی کی شکایت کرتے رہتے ہیں۔ اگر قرآن مجید پر عمل کریں تو ایسا نہ ہو۔ فرماتے ہیں دیکھو (یہ جو کھانا کھانے والی آیت ہے) اس میں ارشاد ہے کہ گھر الگ الگ ہوں، ماں کا گھر الگ اور شادی شدہ لڑکے کا گھرالگ، تبھی تو ایک دوسرے کے گھروں میں جاؤ گے اور کھانا کھاؤ گے‘‘
تو دیکھیں! یہ جو لوگوں کا خیال ہے کہ اگر ہم ماں باپ سے علیحدہ ہو گئے تو پتہ نہیں کتنے بڑے گناہوں کے مرتکب ہو جائیں گے اور بعض ماں باپ بھی اپنے بچوں کو اس طرح خوف دلاتے رہتے ہیں بلکہ بلیک میل کر رہے ہوتے ہیں کہ جیسے گھر علیحدہ کرتے ہی ان پر جہنم واجب ہو جائے گی۔ تو یہ انتہائی غلط رویہ ہے۔
(خطبہ جمعہ 10نومبر 2006ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل یکم دسمبر 2006ء)
ہمارے آقاومولیٰ حضرت اقدس محمدصلی اللہ علیہ وسلم جن کوہرلحاظ سے ہمارے لئے کامل اسوہ قراردیاگیاہے کاگھر اس کی نہایت عمدہ مثال ہے۔ آپ کی عائلی زندگی نیکی تقویٰ اورسادہ زندگی کا عظیم الشان روشن نشان ہے۔ اس میں کیاشک ہے کہ آپ کے گھرکی عورتیں نسوانی نزاکت کے طبعی تقاضوں کے پیش نظر بعض اوقات آپ سے گھرمیں فراخی رزق کا تقاضابھی کرلیتیں لیکن جب ایک موقع پراللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پریہ آیت نازل کی کہ
یٰۤاَیُّہَا النَّبِیُّ قُلۡ لِّاَزۡوَاجِکَ اِنۡ کُنۡـتُنَّ تُرِدۡنَ الۡحَیٰوۃَ الدُّنۡیَا وَزِیۡنَتَہَا فَتَعَالَیۡنَ اُمَتِّعۡکُنَّ وَاُسَرِّحۡکُنَّ سَرَاحًا جَمِیۡلًا ﴿۲۹﴾ وَاِنۡ کُنۡـتُنَّ تُرِدۡنَ اللّٰہَ وَرَسُوۡلَہٗ وَالدَّارَ الۡاٰخِرَۃَ فَاِنَّ اللّٰہَ اَعَدَّ لِلۡمُحۡسِنٰتِ مِنۡکُنَّ اَجۡرًا عَظِیۡمًا ﴿۳۰﴾
(الاحزاب: 28-29)
اے نبی! تواپنی بیویوں سے کہہ دے کہ اگرتم دنیوی زندگی اوراس کی زینت کاسامان چاہتی ہو تو آؤ! میں تم کواس سے مالامال کردیتاہوں اورتم کو دنیوی مال ودولت دے کر نہایت اچھے طریق سے رخصت کر دیتا ہوں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذکرالٰہی اوردعاؤں میں بسرہونےو الی فعال زندگی میں ایک ایسی کشش تھی ایسا نورتھا آپ کے گھر میں ایسی تسکین تھی کہ آپ کی سب بیویوں کاردعمل یہ تھاکہ گویاہم ہرقربانی کے لئے تیارہیں لیکن آپ جیسے خدارسیدہ وجود سے علیحدگی کاتصوربھی نہیں کیاجاسکتا۔
حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں سے حُسنِ سلوک کے بارہ میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک حوالہ سناتے ہوئے فرمایا:
ایک صحابی کے اپنی بیوی کے ساتھ سختی سے پیش آنے اور ان سے حسن سلوک نہ کرنے پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے الہاماً بیویوں سے حسن سلوک کرنے کا حکم فرمایا کہ: یہ طریق اچھا نہیں اس سے روک دیا جائے مسلمانوں کے لیڈر عبدالکریم کو۔
(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد 17صفحہ 75)
آپ علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ’’اس الہام میں تمام جماعت کے لئے تعلیم ہے کہ اپنی بیویوں سے رفق اور نرمی کے ساتھ پیش آویں۔ وہ ان کی کنیزیں نہیں ہیں۔ درحقیقت نکاح مرد اور عورت کا باہم ایک معاہدہ ہے۔ پس کوشش کرو کہ اپنے معاہدہ میں دغا باز نہ ٹھہرو۔ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے: عَاشِرُوْ ھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ (النساء: 20) یعنی اپنی بیو یوں کے ساتھ نیک سلوک کے ساتھ زندگی بسرکرو۔ اور حدیث میں ہے: خَیْرُکُمْ خَیْرُکُمْ لِاَھْلِہٖٖ یعنی تم میں سے اچھا وہی ہے جو اپنی بیوی سے اچھا ہے۔ سو روحانی اور جسمانی طور پر اپنی بیویوں سے نیکی کرو۔ ان کے لئے دعا کرتے رہو اور طلاق سے پرہیز کرو۔ کیونکہ نہایت بد، خدا کے نزدیک وہ شخص ہے جو طلاق دینے میں جلدی کرتا ہے۔ جس کو خدا نے جوڑا ہے اس کو ایک گندے برتن کی طرح جلد مت توڑو‘‘
(ضمیمہ تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد 17صفحہ 75حاشیہ)
حضور انور ایّدہ اللہ تعالیٰ نےاپنے ایک خطبہ جمعہ میں عائلی مسائل کے ضمن میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات اور آپ ؑ کے اصحاب کے نمونہ کا ذکر کرتے ہوئےفرمایا۔
’’حضرت چوہدری محمد اکبر صاحب روایت کرتے ہیں کہ : چوہدری نذر محمود صاحب رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مبارک زمانے میں ہدایت بخشی اور شناخت حق کی توفیق دی جس کے بعد ان کو حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت کا شوق ہوا چنانچہ وہ قادیان دارالامان گئے مگر وہاں جانے پر معلوم ہوا کہ حضور کسی مقدمے کی وجہ سے گورداسپور تشریف لائے ہوئے ہیں۔ چنانچہ وہ گورداسپورگئے اور ایسے وقت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی زیارت اور ملاقات کا موقع ملا جب حضور بالکل اکیلے تھے اور چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے۔ چنانچہ انہوں نے حضور کو دبانا شروع کردیا اور دعا کی درخواست کی۔ اتنے میں کوئی اور دوست حضور کی ملاقات کے لئے آیاجنہوں نے حضورکے سامنے ذکر کیا کہ اس کے سسرال نے اپنی لڑکی بڑی مشکلوں سے اسے دی ہے(یعنی واپس بھجوائی ہے)، اب اس نے بھی ارادہ کیا ہے کہ وہ اُن کی لڑکی کو ان کے پاس نہ بھیجے گا۔ (شاید آپس میں شادیاں ہوئی ہوں گی۔ )جو نہی حضورؑ نے اس کے ایسے کلمات سنے حضورؑ کا چہرہ سرخ ہو گیا اور حضورؑ نے غصے سے اس کو فرمایا کہ فی الفور یہاں سے دور ہو جاؤ، ایسا نہ ہو کہ تمہاری وجہ سے ہم پر بھی عذاب آ جاوے۔ چنانچہ وہ اٹھ کر چلا گیا اور تھوڑی دیر کے بعد واپس آیا اور عرض کی کہ وہ توبہ کرتا ہے، اسے معاف فرمایا جائے۔ جس پر حضورؑ نے اسے بیٹھنے کی اجازت دی۔
چوہدری نذر محمد صاحب مرحوم کہتے تھے کہ جب یہ واقعہ انہوں نے دیکھا تو وہ دل میں سخت نادم ہوئے کہ اتنی سی بات پر حضور ؑ نے اتنا غصہ منایا ہے۔ حالانکہ اُن کی اپنی حالت یہ ہے کہ وہ اپنی بیوی کو پوچھتے تک نہیں اور اپنے سسرال کی پرواہ نہیں کرتے۔ یہ کتنا بڑا گناہ ہے۔ وہ کہتے تھے کہ انہوں نے وہیں بیٹھے بیٹھے توبہ کی اور دل میں عہد کیا کہ اب جا کر اپنی بیوی سے معافی مانگوں گا اور آئندہ بھی اس سے بدسلوکی نہ کروں گا۔ چنانچہ وہ فرماتے تھے کہ جب وہ وہاں سے واپس آئے تو انہوں نے اپنی بیوی کے لئے بہت سے تحائف خریدے اور گھر پہنچ کر اپنی بیوی کے پاس گئے اور اس کے آگے تحائف رکھ کر پچھلی بدسلوکی کی ان سے منت کرکے معافی مانگی۔ وہ حیران ہو گئی کہ ایسی تبدیلی ان میں کس طرح پیدا ہو گئی۔ جب اس کو معلوم ہوا یہ سب کچھ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ السلام کے طفیل ہے تو وہ حضور ؑ کو بے شمار دعائیں دینے لگی کہ حضور نے اس کی تلخ زندگی کو راحت بھری زندگی سے مبدل کر دیا ہے‘‘
(رجسٹر روایات صحابہ نمبر 1 صفحہ 6-7)
(خطبہ جمعہ 13؍جنوری 2006ء )
عائلی جھگڑوں کی ایک وجہ قوّت برداشت میں کمی ہے اور اس حوالہ سے افراد جماعت کو ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا۔
’’آج کل یہاں بھی اور دنیا میں ہر جگہ میاں بیوی کے جھگڑوں کے معاملات میرے سامنے آتے رہتے ہیں۔ جن میں مرد کا قصوربھی ہوتا ہے عورت کا قصور بھی ہوتا ہے۔ نہ مرد میں برداشت کا وہ مادہ رہا ہے جو ایک مومن میں ہونا چاہئے نہ عورت برداشت کرتی ہے۔ جیسا کہ میں پہلے بھی کئی مرتبہ اس طرف توجہ دلاتے ہوئے کہہ چکا ہوں کہ گوزیادہ تر قصور عموماً مردوں کا ہوتا ہے لیکن بعض ایسے معاملات ہوتے ہیں جن میں عورت یا لڑکی سراسر قصور وار ہوتی ہے۔ قصور دونوں طرف سے ہوتا ہے جس کی وجہ سے رنجشیں پیدا ہوتی ہیں، گھر اجڑتے ہیں۔ پس دونوں طرف کے لوگ اگر اپنے جذبات پر کنٹرول رکھیں اور تقویٰ دل میں قائم کرنے والے ہوں تو یہ مسائل کبھی پیدا نہ ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایسے لوگوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اگر تم دونوں کو ایک دوسرے کے عیب نظر آتے ہیں تو کئی باتیں ایسی بھی ہوں گی جو اچھی لگتی ہوں گی۔ یہ نہیں کہ صرف ایک دوسرے میں عیب ہی عیب ہیں ؟ اگر ان اچھی باتوں کو سامنے رکھو اور قربانی کا پہلو اختیار کرو تو آپس میں پیار محبت اور صلح کی فضا پیدا ہو سکتی ہے۔ آپؐ کی بیویوں کی گواہی ہے کہ آپؐ جیسے اعلیٰ اخلاق کےساتھ بیویوں سے حسن سلوک کرنے والا کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو نصیحت فرماتے ہیں تو صرف نصیحت نہیں فرماتے بلکہ آپؐ نے اپنے اُسوہ سے بھی یہ ثابت کیا ہے‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 22؍اگست 2008ء)
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی اپنی اولاد کے لئے دعائیں ہمارے لئے بھی کئی طرح کی روشنی کاسامان رکھتی ہیں۔ آپ ایک جگہ فرماتے ہیں کہ
’’میں التزاماً چند دعائیں ہر روزمانگا کرتاہوں۔
اول: اپنے نفس کے لئے دعا مانگتاہوں کہ خداوند کریم مجھ سے وہ کام لے جس سے اس کی عزت وجلال ظاہر ہو اور اپنی رضا کی پوری توفیق عطا کرے۔
دوم: پھر اپنے گھرکے لوگوں کے لئے دعا مانگتاہوں کہ ان سے قرۃعین عطاہو اور اللہ تعالیٰ کی مرضیات کی راہ پرچلیں۔
سوم: پھراپنے بچوں کے لئے دعا مانگتاہوں کہ یہ سب دین کے خدام بنیں۔
چہارم: پھر اپنے مخلص دوستوں کے لئے نام بنام۔
پنجم: اور پھران سب کے لئے جو اس سلسلہ سے وابستہ ہیں خواہ ہم انہیں جانتے ہیں یا نہیں جانتے۔‘‘
(ملفوظات جلد1 صفحہ309)
پیارے دوستو ! ایک نہایت اہم بات کاذکرکئے بغیر یہ مضمون بالکل ادھورارہ جائے گا۔ یعنی یہ کہ گھروں کے سکون اور امن کے متلاشی کچھ اپنی دنیاوی مصروفیات کم کریں تھوڑے پرگزاراکرلیں لیکن ہرروز وقت نکال کر ایم ٹی اے پرنشرہونے والے پیارے آقا حضرت خلیفۃ المسیح ایدہ اللہ تعالیٰ کے خطابات اس طرح سارے خاندان کے ساتھ مل کر سنیں جیسے ایک سخت پیاسا ٹھنڈے شیریں چشمے پر آبیٹھے ہوں یاجیسے ایک سخت بیمار اپنے آپ کو طبیب کے آگے رکھ دیتاہے اور اس آسمانی فیض سے یوں استفادہ کریں جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ نہایت توجہ اور محبت سے دنیاسے بے تعلق ہوکر آپ کی صحبت میں آبیٹھتے تھے۔ پھردیکھیں آپ کی ذات میں آپ کے گھر میں آپ کے خاندان میں کیسی ہرروز عظیم الشان پاکیزہ تبدیلیاں پیداہوں گی۔ پھرآپ دیکھیں کہ ہردن اندھیروں سے روشنی کی طرف نکالنے والاہوگا۔ ہرنیادن آپ کے لئے تسکین کے سامان پیداکروالاہوگا۔ اللہ تعالیٰ ہم کواورہمارے بیوی بچوں کواس نعمت سے خوب خوب فائدہ اٹھانے کی توفیق دے آمین
(فضل الرحمٰن ناصر۔ استاد جامعہ احمدیہ یوکے)