تلخیص صحیح بخاری سوالاً و جواباً
كتاب الوحی
قسط 1
(ایک نئے سلسلہ کا آغاز)
آج کل بفضل اللہ تعالیٰ ہمارے آقا و مولیٰ حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقوالِ مبارکہ جو صحیح بخاری کی صورت میں دنیا میں موجود ومشہور ہیں اور اَصَحُّ الْکُتُبِ بَعْدَ کِتَابُ اللّٰہِ معروف ہے کے مطالعہ کی توفیق مل رہی ہے۔ تو اس دوران یہ خیال آیا کہ ساتھ ساتھ نوٹس بھی لوں۔ تو یہ نوٹس صحیح بخاری کی کتب کی ترتیب سے ہیں اور احادیث اور واقعات کو خلاصۃً مفہوماً تحریر کیا ہے نہ کہ من و عن ترجمہ اور عام قاری کے سمجھنے میں آسانی کے پیشِ نظر روایات سے سوال اخذ کرکے حدیث کا خلاصہ جواب میں تحریر کیا ہے تا بات کو عام فہم بیان کیا جائے۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ دیگر اہل علم کسی روایت سے وہی بات اخذ کریں جو میری سمجھ اور دانست میں آئی ہے۔ لکلٍّ حکمْ۔ دانائی اور حکمت سے اللہ تعالیٰ نے ہر کسی کو حصہ عطا کر رکھا ہے۔
قارئین کی خدمت میں گذارش ہے کہ مفید مشورہ سے نوازیں تا عوام النّاس بذوق و شوق مستفید ہو سکیں۔
سوال:۔ اعمال کا دارو مدار کس بات پر ہے؟
جواب: حضورؐ نے فرمایا کہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر عمل کا نتیجہ ہر انسان کو اس کی نیت کے مطابق ہی ملے گا۔
سوال:۔ حضورؐ پر نزولِ وحی کس طرز پر ہوئی؟
جواب: حضورؐ پر سابقہ انبیاء کی طرح ہی وحی نازل ہوئی۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ہے: اِنَّاۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ کَمَاۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰی نُوۡحٍ وَّالنَّبِیّٖنَ مِنۡۢ بَعۡدِہٖ
(النساء: 164)
ہم نے ىقىناً تىرى طرف وىسے ہى وحى کى جىسا نوح کى طرف وحى کى تھى اور اس کے بعد آنے والے نبىوں کى طرف۔
سوال: آپؐ پر وحی کی کیفیت کیسی ہوا کرتی تھی؟
جواب: آپ ؐ پر وحی کبھی گھنٹی کی آواز کی طرح ہوتی تھی۔ اور کبھی انسانی شکل میں فرشتہ کے ذریعہ ہوتی تھی۔ بعض اوقات وحی کا بوجھ اتنا زیادہ ہوتا کہ سخت سردی میں بھی آپؐ کو پسینہ آجاتا تھا۔
سوال:۔ کیا حضورؐ کو نزولِ وحی سے قبل خواب وغیرہ بھی آیا کرتے تھے؟
جواب:۔ جی ہاں نبی کریم ؐ پر وحی کی ابتدأ اچھے سچے پاکیزہ خوابوں سے ہوئی۔ آپ ؐ کے خواب صبح کی روشنی کی طرح صحیح اور سچے ثابت ہوا کرتےتھے۔
سوال:۔ کیا حضورؐ نے خلوت میں، جسے عرف عام میں چلّہ کہتے ہیں عبادات کیں؟
جواب: جی ہاں حضورؐ نے کافی عرصہ گوشہ نشینی میں عبادات کیں۔ رؤیا صالحہ کی کثرت کی بنا پہ آپؐ تنہائی پسند ہو گئے، اکثر اپنا کھانا پینا وغیرہ ہمراہ لے کر غار حرا میں کئی کئی دن راتیں وہاں قیام کرتے، آپ ؐ کا یہ سلسلہ وحی کے نزول تک جاری رہا۔
سوال: پہلی وحی کے نزول پر حضورؐ کی کیا کیفیت تھی؟
جواب:۔ پہلی کے وقت آپ ؐ غار حرا ہی میں قیام پذیر تھے کہ اچانک جبرائیل ؑ آئے اور کہاکہ: اے محمد! پڑھو، آپ ؐ نے جواب دیا میں پڑھنا نہیں جانتا۔ پھر آپ ؐ کو فرشتے نے پکڑ کر اتنے زور سے دبایا کہ آپؐ کی طاقت جواب دے گئی۔پھر فرشتے نےچھوڑ کر کہا کہ:
اِقۡرَاۡ بِاسۡمِ رَبِّکَ الَّذِیۡ خَلَقَ ۚ﴿۲﴾ خَلَقَ الۡاِنۡسَانَ مِنۡ عَلَقٍ ۚ﴿۳﴾ اِقۡرَاۡ وَرَبُّکَ الۡاَکۡرَمُ ۙ﴿۴﴾ الَّذِیۡ عَلَّمَ بِالۡقَلَمِ ۙ﴿۵﴾ عَلَّمَ الۡاِنۡسَانَ مَا لَمۡ یَعۡلَمۡ ؕ﴿۶﴾
(العلق: 2-6)
پڑھ اپنے ربّ کے نام کے ساتھ جس نے پىدا کىا۔ اُس نے انسان کو اىک چمٹ جانے والے لوتھڑے سے پىدا کىا۔ پڑھ، اور تىرا ربّ سب سے زىادہ معزز ہے۔ جس نے قلم کے ذرىعہ سکھاىا۔
یہ آیات آپ ؐ جبرائیل ؑ سے سن کر اس حال میں غار حرا سے واپس ہوئے کہ آپ ؐ کا دل کانپ رہا تھا۔
سوال: پہلی وحی کے واقعہ سے آپؐ کو کیا پریشانی ہوگئی تھی؟
جواب: پہلی وحی کے وقت حضورؐ پر الہٰی رعب کا اتنا غلبہ ہو کہ آپ ؐ کواپنی جان کے جانے کا خوف لاحق ہوگیا تھا۔ آپؐ گھبراہٹ کے عالم میں اپنی زوجہ خدیجہؓ کے ہاں تشریف لائے۔ اور فرمایا کہ مجھے کمبل اوڑھا دو، مجھے کمبل اوڑھا دو۔
چنانچہ آپ ؐکو کمبل اوڑھا دیا گیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خوف جاتا رہا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زوجہ محترمہ خدیجہؓ کو تفصیل کے ساتھ غارِحرا میں وحی کے نزول کا واقعہ سنایا۔
سوال: حضرت خدیجہؓ نے آپؐ کوکس طرح تسلّی دی اور کن الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا؟
جواب: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ محترمہ خدیجہؓ نے آپ ؐ کی ڈھارس بندھائی اور کہا کہ آپؐ کا جان ضائع ہونے کا خیال صحیح نہیں ہے۔ اور آپؐ کےاوصاف حمیدہ کی گواہی دیتے ہوئے یہ خراج تحسین پیش کیا: اللہ کی قسم! آپ کو اللہ کبھی رسوا نہیں کرے گا، آپ تو بے حد صلہ رحمی کرتے ہیں، بے کسوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، جن نیکیوں کو معاشرہ چھوڑ چکا ہے آپؐ ان کو زندہ کررہے ہیں، مہمان نوازی میں آپ بےمثال ہیں اور مصیبت زدوں کا ساتھ دیتے ہیں۔ اس لئے آپؐ کی جان ہرگز یونہی بے مقصد ضائع نہیں ہوسکتی۔
سوال: حضرت خدیجہؓ آپؐ کو کس کے پاس لے کر گئیں؟
جواب: حضرت خدیجہؓ آپ ؐ کو ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں۔ اس نے حضورؐ سے سارا واقعہ سنا اور بتایا کہ آپ کے پاس وہی فرشتہ آیا ہے،جو موسیٰؑ کے پاس آیا تھا۔
سوال: ورقہ بن نوفل کون تھے؟
جواب: ورقہ بن نوفل حضرت خدیجہؓ کے چچازاد بھائی تھے اور زمانہ جاہلیت میں نصرانی مذہب اختیار کر چکے تھے اور عبرانی زبان کے مترجم تھے، انجیل کو عبرانی زبان میں لکھا کرتے تھے۔ وہ بہت بوڑھے ہو گئے تھے یہاں تک کہ ان کی بینائی بھی جا چکی تھی۔
سوال: ورقہ بن نوفل نے آپؐ سے کس خواہش اظہار کیا؟
ورقہ بن نوفل نے آپؐ کو کہا:کہ کاش، میں آپ کی نبوت کے شروع ہونے پر جوان عمر ہوتا۔ کاش میں اس وقت تک زندہ رہتا کہ جب آپ کی قوم آپ کو اس شہر سے نکال دے گی۔
رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے یہ سن کر تعجب سے پوچھا کہ کیا وہ لوگ مجھ کو نکال دیں گے؟ ورقہ بولا ہاں، جو شخص بھی آپ کی طرح امر حق لے کر آیا لوگ اس کے دشمن ہی ہو ئے۔ اگر مجھے آپ کی نبوت کا زمانہ ملا تو میں آپ کی پوری پوری مدد کروں گا۔
مگر ورقہ بن نوفل کچھ دنوں کے بعد ہی انتقال کر گئے۔
اس واقعہ سے پتہ چلتا ہے کہ انبیاء علیہم السلام اپنے وقت کے اہل علم سے استفادہ کیا کرتے تھے۔
سوال: آپؐ کی پہلی وحی کے نزول بعد دوسری وحی کب نازل ہوئی۔
جواب: پہلی وحی کے واقعہ کے بعد کچھ عرصہ تک وحی کی آمد موقوف رہی۔ آپ ؐ نے وحی کے رک جانے کے زمانے کے حالات بیان فرماتے ہوئے کہا کہ، ایک روز میں چلا جا رہا تھا کہ اچانک میں نے آسمان کی طرف ایک آواز سنی اور میں نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا، کیا دیکھتا ہوں کہ وہی فرشتہ جو میرے پاس غار حرا میں آیا تھا وہ آسمان و زمین کے بیچ میں ایک کرسی پر بیٹھا ہوا ہے۔ میں اس سے خوف زدہ ہوا اور گھر آنے پر میں نے پھر کمبل اوڑھانے کاکہا۔اور یہ آیات نازل ہوئیں:
یٰۤاَیُّہَا الۡمُدَّثِّرُ ۙ﴿۲﴾ قُمۡ فَاَنۡذِرۡ ۪ۙ﴿۳﴾ وَرَبَّکَ فَکَبِّرۡ ۪﴿ۙ۴﴾ وَثِیَابَکَ فَطَہِّرۡ ۪﴿ۙ۵﴾ وَالرُّجۡزَ فَاہۡجُرۡ ۪﴿ۙ۶﴾
(المدثر: 2-6)
اے کپڑا اوڑھنے والے! اُٹھ کھڑا ہو اور انتباہ کر۔ اور اپنے ربّ ہى کى بڑائى بىان کر۔ اور جہاں تک تىرے کپڑوں (ىعنى قرىبى ساتھىوں) کا تعلق ہے تُو (انہىں) بہت پاک کر۔ اور جہاں تک ناپاکى کا تعلق ہے تو اس سے کلیّۃً الگ رہ۔
اس کے بعد وحی تیزی کے ساتھ پے در پے آنے لگی۔
سوال: اللہ تعالیٰ نے حضورؐ کو وحی کو یاد کرنے کے بارہ میں کیا ہدایات فرمائیں؟
جواب: حضورؐ وحی الہی یاد کرنے کے لئے جبرائیلؑ کی پیروی میں جلدی جلدی الفاظ دہرانے کی کوشش کرتے تھے مگر اللہ تعالیٰ نے اس عمل سے روک دیا اور یہ آیات نازل کیں: لَا تُحَرِّکۡ بِہٖ لِسَانَکَ لِتَعۡجَلَ بِہٖ ﴿ؕ۱۷﴾ اِنَّ عَلَیۡنَا جَمۡعَہٗ وَقُرۡاٰنَہٗ ﴿ۚۖ۱۸﴾ فَاِذَا قَرَاۡنٰہُ فَاتَّبِعۡ قُرۡاٰنَہٗ ﴿ۚ۱۹﴾ ثُمَّ اِنَّ عَلَیۡنَا بَیَانَہٗ ﴿ؕ۲۰﴾
(القيامہ: 17-20)
تُو اس کى قراءت کے وقت اپنى زبان کو اس لئے تىز حرکت نہ دے کہ تُو اسے جلد جلد ىاد کرے۔ ىقىناً اس کا جمع کرنا اور اس کى تلاوت ہمارى ذمہ دارى ہے۔ پس جب ہم اُسے پڑھ چکىں تو تُو اس کى قراءت کى پىروى کر۔ پھر ىقىناً اُس کا بىان کرنا ہمارے ہى ذمہ ہے۔
سوال: حضورؐ رمضان المبارک میں قرآن کس حد تک پڑھتے اور دیگر امور میں کیا معمول تھا؟
جواب: حضورؐ رمضان میں قرآن کیم ایک دور اس طرح کرتے کہ جبرائیل علیہ السلام آپ ؐ سےرمضان کی ہر رات میں ملاقات کرتے اور آپ ؐ کے ساتھ قرآن پڑھا کرتے تھے۔ اور دیگر امور میں نبی کریم ؐ لوگوں کو بھلائی پہنچانے میں بارش لانے والی ہوا سے بھی زیادہ جود و کرم فرمایا کرتے تھے۔ غرض رسول اللہ ؐ رمضان میں سب لوگوں سے زیادہ سخی ہوا کرتے تھے۔
سوال: حضورؐ نے ہرقل کوخط کس کے ذریعہ اور کہاں بھجوایا؟
جواب: حضورؐ نے اپنے صحابی حضرت دحیہ کلبیؓ کے ہاتھ حاکم بُصری کو بھیجا۔اور اس نے وہ خط ہرقل کو بھیجا۔
سوال: ہرقل نے حضورؐ کے خط کے ساتھ کیا سلوک کیا؟
جواب: ہرقل نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خط مکمل غور اور عقیدت سے سنا۔
سوال: حضورؐ نے ہرقل کو کیا لکھا تھا؟
جواب: حضورؐ نے تحریر فرمایا:میں آپ کے سامنے دعوت اسلام پیش کرتا ہوں۔ اگر آپ اسلام لے آئیں گے تو آپ کو دین و دنیا میں سلامتی نصیب ہو گی۔ اللہ آپ کو دوہرا ثواب دے گا اور اگر آپ روگردانی کریں گے تو آپ کی رعایا کا گناہ بھی تجھ پہ ہو گا۔
اور یہ آیت لکھی ہے۔ قُلۡ یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ تَعَالَوۡا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآءٍۢ بَیۡنَنَا وَبَیۡنَکُمۡ اَلَّا نَعۡبُدَ اِلَّا اللّٰہَ وَلَا نُشۡرِکَ بِہٖ شَیۡئًا وَّلَا یَتَّخِذَ بَعۡضُنَا بَعۡضًا اَرۡبَابًا مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ ؕ فَاِنۡ تَوَلَّوۡا فَقُوۡلُوا اشۡہَدُوۡا بِاَنَّا مُسۡلِمُوۡنَ ﴿۶۵﴾
(آل عمران: 65)
تُو کہہ دے اے اہل کتاب! اس کلمہ کى طرف آ جاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمىان مشترک ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسى کى عبادت نہىں کرىں گے اور نہ ہى کسى چىز کو اُس کا شرىک ٹھہرائىں گے اور ہم مىں سے کوئى کسى دوسرے کو اللہ کے سوا ربّ نہىں بنائے گا پس اگر وہ پھر جائىں تو تم کہہ دو کہ گواہ رہنا کہ ىقىنا ہم مسلمان ہىں۔
(مختار احمد)