اپنے ہاتھوں خود کی جان لینے کا سنگین عمل خود کشی کہلاتا ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا میں اوسط چالیس سیکنڈ میں ایک انسان خود کشی کر لیتا ہے۔خود کشی تشدد کی ایک انتہائی شکل ہے جس کی اسلام، یہودیت، عیسائیت اور ہندومت سمیت تمام بڑے مذاہب نے سختی سے حوصلہ شکنی کی ہے۔ہر سال 10 ستمبر کو عالمی یوم برائے انسداد خود کشی کے طور پر منایا جاتا ہے۔
خود کشی کے متعدد اسباب ہیں جن میں احساس محرومی،نفسیاتی عوارض، غربت اور بے روزگاری،نشے کی لت اور محبت میں ناکامی جیسی وجوہات سر فہرست ہیں۔ ظاہر ہے ان میں سے کوئی بھی قابل ذکر وجہ جانوروں میں خود کشی کا سبب بحر حال نہیں بن سکتی۔ لیکن اپنی ذات میں یہ ایک دلچسپ سوال ہے کہ کیا جانور بھی خود کشی کرتے ہیں؟ اس سوال کا حتمی جواب ہم نہیں جانتے۔ کیونکہ جانوروں کے بارے میں ہم جانتے ہیں کہ ان کا شعور بحر حال اس نہج پر نہیں پہنچا جہاں انہیں خود کشی جیسے عمل کے نتائج معلوم ہوں۔ یا جانور کسی بھی سبب سے خود کو جان سے مار لینے کا شعور رکھتے ہوں۔ البتہ مختلف جانوروں کے ایسی کئی واقعات کثرت سے ملتے ہیں جن سےیہ گمان ہوتا ہے کہ جانوروں نے عمداً خود کشی کی۔ایسے واقعات جانوروں میں انفرادی اور اجتماعی دونوں صورتوں میں ملتے ہیں۔ مثلاً 2005ء میں ترکی کے مشرقی علاقے میں واقع صوبہ ’’وان‘‘ کے پہاڑی علاقے ’’گیواز‘‘ میں 1500 بھیڑیں ایک ایک کر کے اونچی پہاڑی سے کود گئیں۔ان میں سے 450 بھیڑوں کی فوری موت ہو گئی اور چونکہ ساری بھیڑیں ایک ہی جگہ سے کودی تھیں اور پہلے سے گرنے والی بھیڑوں کے اوپر گری تھیں اس لیے اکثر بھیڑوں کی جان بچ گئی۔چرواہوں کے مطابق علی الصبح جب وہ وادی میں بھیڑیں چرانے گئے اور بھیڑوں کو چرتا ہوا چھوڑ کر ناشتہ کرنے کے بعد وہ سب سستا رہے تھے کہ اس دوران یہ واقع پیش آیا۔ایک بھیڑ پہاڑ کی چوٹی سے ایک جگہ سے کودی جس کی دیکھا دیکھی 1500 بھیڑیں چوٹی سے کود گئی گئیں اور جب وہ حادثہ کے مقام تک پہنچے تو چوٹی سے نیچے انہوں نے بے شمار بھیڑوں کو مردہ اور شدید زخمی حالت میں پایا۔یہ ان کے لیے ایک غیر معمولی اور چونکا دینے والا واقعہ تھا اور ان کے مطابق پہلے ایسا کبھی نہیں ہوا۔بھیڑوں کے اس طرح ایک ساتھ کودنے کی وجہ آج تک معلوم نہیں ہو سکی۔ گاؤں والوں نے بھیڑوں کی اس اجتماعی خود کشی کے عمل کو بھوت پریت سے منسوب کیا اور گاؤں چھوڑنے پر سوچ بچار کرنے لگے۔
جنوب وسطی یورپ میں واقع مشہور پہاڑی سلسلے ’’الپس‘‘ کی اونچی نیچی پہاڑیوں کے درمیان کئی قبیلے آباد ہیں، جن میں سے بیشتر گلہ بان ہیں۔ اگست دوہزار نو میں سوئزرلینڈ کی حدود میں واقع گائون ’’لائوٹر برنن‘‘ کی پہاڑیوں کے درمیان ایک عجیب واقعہ پیش آیا، جب تین دن کے عرصے میں اٹھائیس گائیں، جن میں بچھڑے بھی شامل تھے، پہاڑی سے نیچے پتھریلی زمین پر کودتی دیکھی گئیں اور کودتے ہی مرگئیں۔مقامی افراد کے مطابق اس سے قبل ایسا واقعہ کبھی بھی پیش نہیں آیا تھا۔ مقامی گلہ بانوں کا کہنا ہے کہ اس واقعے سے قبل علاقے میں زبردست بادوباراں کا طوفان آیا تھا۔ ممکن ہے گایوں اور بچھڑوں نے زندگی ختم کرنے کا یہ عمل اس طوفان کے خوف میں مبتلا ہوکر انجام دیا ہو۔
(بحوالہ ایکسپریس نیوز 21 جون 2015ء)
اسی طرح 1905ء کے عشرے میں اورٹن برج اس وقت دنیا کی توجہ کا مرکز بنا جب کتوں کے برج سے ندی میں کودنے کے پے در پے کئی واقعات ہوئے اور چند سالوں کے دوران 50 فٹ اونچے پل سے ندی میں کتوں کے کودنے کے 600 واقعات ہوئے جن میں سے 50 کتے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔اس بارے میں کئی طرح کی قیاس آرائیاں کی جاتی رہی ہیں لیکن پل سے اس طرح کودنے کی کوئی حتمی وجہ سامنے نہیں آ سکی۔
کتے اپنی وفادارنہ جبلت کی بناء پر اپنے مالک سے نہایت جذباتی تعلق رکھتے ہیں جس کا مشاہد ہ آئے روز ہوتا رہتا ہے۔ کئی ایسے واقعات ملتے ہیں جن میں مالک کی وفات پر پالتو کتوں نے کھانا پینا ترک کر دیا یہاں تک کہ بھوک سے ان کی موت واقع ہو گئی۔یا کسی جانور کا جیون ساتھی مر گیا تو دوسرے نے سوگ میں کھانا پینا چھوڑ دیا اور مر گیا۔کئی جنگلی جانور جب چڑیا گھر میں لائے گئے تو وہ وہاں کے ماحول سے مانوس نا ہو پائے اور کھانا پینا چھوڑ دیا یہاں تک کہ وہ مر گئے۔
ٹارسیئر جو کہ بندروں کی نسل کا ایک چھوٹا سا جنگلی جانور ہے کے بارے میں بھی خیال کیا جاتا ہے کہ وہ گھبرا کر خود کشی کر لیتے ہیں۔فلپائن کے جنگلات میں پایا جانے والا یہ چھوٹا سا بندر ہے جس کی جسامت فقط 45 ملی میٹر تک ہوتی ہے۔یہ نہایت حساس جانور ہے جو انسانوں کو اپنے ارد گرد دیکھ کر گھبرا جاتا ہے اور اپنے نزدیک موجود کسی بھی سخت چیز سے اپنے سر کو بار بار ٹکراتا ہے۔اس کے سر کی ہڈی بہت پتلی ہوتی ہے، چنانچہ سر ٹکرانے سےاس کی موت واقع ہو جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس کا شمار ان جانوروں میں ہوتا ہے جنہیں قید کرکے یا چڑیا گھر میں رکھنا ممکن نہیں۔ ٹارسیئر کی رہائش والے علاقوں میں سیاحوں کو خصوصی ہدایات دی جاتی ہیں کہ وہ کسی قسم کا شور نا کریں اور نا ہی اپنے کیمرے کے فلیش آن کرکے تصاویر لیں اور نا انہیں پکڑنے کی کوشش کریں۔
انسانوں اور جانوروں کا باہمی رشتہ ہزاروں صدیوں پر محیط ہے اور انسانی بقاء میں جانوروں کا کلیدی کردار رہا ہے۔لیکن کئی باتیں ایسی ہیں جو آج بھی دنیا کے سربستہ رازوں میں سے ہیں جن میں سے ایک جانوروں کی خود کشی بھی ہے۔گوکہ ہمارے سامنے جانوروں کی جان دینے کی ہزاروں مثالیں موجود ہیں لیکن ہم وثوق سے نہیں کہ سکتے کہ یہ عمل فی الواقع خود کشی کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں۔جانوروں کے تحفظ کے لیے قائم عالمی اداروں میں جانوروں کی خود کشی جیسے معاملات پر بھی تحقیق ہو رہی ہے۔ مستقبل میں شاید ہم اس سوال کا تسلی بخش جواب معلوم کر پائیں کہ ’’کیا جانور بھی خود کشی کرتے ہیں‘‘؟
(مدثر ظفر)