یہ نکتہ کیا نہیں ہے آدمی کے غور کے قابل
کہ پتہ شاخ سے گرتا ہے جب مرجھا ہی جاتا ہے
رواں ہے بلبلے کی ناؤ بھی دریا کی موجوں پر
ذرا ابھرے تو ہئیت میں تغیر آ ہی جاتا ہے
سبق دیتی ہے تاریخ خلافت نوع انساں کو
کہ اہل حق کے قدموں میں زمانہ آ ہی جاتا ہے
ہزاروں ہوں گھنے تاریک بادل مٹ ہی جاتے ہیں
کہ جب سورج نکلتا ہے تو آخر چھا ہی جاتا ہے
اخوت ایک نعمت ہے وگرنہ سلسلہ غم کا
اگر ہو مستقل تو آدمی گھبرا ہی جاتا ہے
عجب شے ہے جہاں میں جذبۂ شوق محبت بھی
جو اس کو ڈھونڈنے آتا ہے آخر پا ہی جاتا
(عبدالسلام اختر صاحب)