• 3 مئی, 2024

قرض ہے واپس ملے گا تم کو یہ سارا اُدھار

قرض ہے واپس ملے گا تم کو یہ سارا اُدھار
’’یہ اسلام نہیں ہے، یہ بدبختیاں تمہاری شامت اعمال ہیں‘‘ (حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ)

مورخہ 12؍اگست 2022ء کو جماعت احمدیہ کے مرکز ربوہ کے بس اڈہ پر دل دہلا دینے والا ایسا وحشتناک واقعہ پیش آیا ہے کہ جس کسی محب وطن نے سنا اس کے رونگٹے کھڑے ہوگئے اور وہ یہ کہنے پر مجبور ہوگیاکہ کیا اسی بے امنی اور عدم تحفظ کو پھیلانے کے مقصد کے لیے پاکستان اتنی قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیاتھا؟

واقعہ یوں ہے کہ ایک مذہبی جنونی نے جو اپنا تعلق کالعدم تحریک لبیک پاکستان (TLP) سے بتاتا رہا۔ ربوہ کے لاری اڈہ پر 62سالہ ایک بزرگ اور معصوم شخص کو صرف اس وجہ سے چھریوں کے پے در پے وار کر کے قتل کر دیا کہ اس نے خادم رضوی اور لبیک یا رسول اللہ پر زندہ باد کا نعرہ بلند نہیں کیا۔ اور جب اس مذہبی جنونی اور دہشت گرد کو گرفتار کیا گیا تو وہ ایک کمزور اور بے تعلق حدیث ’’مَنْ سَبَّ نَبِیًّا فَاقْتُلُوْہُ‘‘ بلند آواز سے پڑھتا رہا اور غرور اور تکبر کی وجہ سے اس طرح بن رہا تھا جیسے ابھی افغانستان فتح کرلیا ہو۔

اور وہ بد بخت اللہ تعالیٰ کی یہ آیت بھول گیا، جس کی روشنی میں وہ جہنم کا وارث، اللہ کی ناراضگی اور عذاب کا مورد بن گیا۔ بلکہ اس کے کسی نام نہاد استاد تک کو بھی یہ معلوم نہیں ہوگی۔ اے کاش! یہ ملاں، اللہ تعالیٰ کے پاک کلام کو غور سے پڑھیں، اس پر عمل کریں اور کروائیں۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وَمَنۡ یَّقۡتُلۡ مُؤۡمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُہٗ جَہَنَّمُ خٰلِدًا فِیۡہَا وَغَضِبَ اللّٰہُ عَلَیۡہِ وَلَعَنَہٗ وَاَعَدَّ لَہٗ عَذَابًا عَظِیۡمًا ﴿۹۴﴾

(النساء: 94)

ترجمہ: اور جو (شخص) کسی مومن کو دانستہ قتل کردے تو اس کی سزا جہنم ہوگی۔ وہ اس میں دیر تک رہتا چلا جائے گا۔ اور اللہ اس سے ناراض ہوگا اور اسے (اپنی جناب سے) دور کردے گا اور اس کے لیے (بہت) بڑا عذاب تیار کرے گا۔

انہی دنوں ایک وڈیو وائرل ہوئی جس میں عارف والا ساہیوال کے قریب ایک گاؤں میں جرمنی سے آئے ہوئے ایک احمدی کو اس لیے زدو کوب کیا گیا کہ اس کے والد نے 1971ء کی پاک و ہند جنگ میں پاکستان کی طرف سے لڑتے ہوئے شہادت کا درجہ پایا تھا جس پر اس جرمن احمدی نے اپنے مکان کے باہر والد کے نام کے ساتھ لفظ ’’شہید‘‘ لکھ کر نیم پلیٹ لگائی تھی۔ جس پر ایک ہجوم نے نہ صرف اس احمدی کو گالم گلوچ کی اور اس کے مرحوم والد شہید کو گالیاں بکیں اور کہا کہ جو مسلمان نہیں وہ شہید کیسے ہوا۔

اس سے قبل پشاور میں کئی دہائیاں قبل مدفون احمدی کی ہڈیاں باہر نکال پھینکی گئیں کہ یہ مسلمانوں کا قبرستان ہے اس میں احمدی دفن نہیں ہو سکتا۔ احمدیوں کی قبروں کی بے حرمتی تو آئے دن پاکستان میں ہوتی ہی رہتی ہے۔ ایسے کتبے جن پر کلمہ لکھا ہو یا آیات قرآنیہ لکھی ہوں بے دردی سے مسمار کئے جا رہے ہیں۔ مساجد کے مینار اور محراب توڑنا بھی آئے روز کا کام ہے جس میں نام نہاد مولوی تو شامل تھے ہی اب تو انتظامیہ بھی شامل ہو رہی ہے۔ منصوبے کے تحت رات کو پورے گاؤں کی بجلی Off کر کے اندھیرے میں مساجد کے مینار گرانے کا کام حکومتی سطح پر دیکھنے کو ملتا ہے تا وڈیو اور فوٹو گرافی نہ ہوسکے۔ مساجد پر لکھے کلمے کو ہتھوڑوں سے توڑا جاتا ہے اور بعض جگہوں پر احمدی مساجد میں موجود قرآن کی بے حرمتی بھی ہوئی اور تو اور احمدیوں نے جب عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹایا تو چھوٹی عدالتوں سے لے کر بڑی عدالت تک انصاف صرف اس لیے نہیں ملا کہ جج مولویوں کی دھمکیوں کی وجہ سے ڈرتے دکھائی دیے۔

ساہیوال کے واقعہ پر جلوس یعنی Mob کے ایک غنڈے کو وڈیو میں یہ کہتے سنا جا سکتا ہے کہ یہ ملک اسلام کے نام پر لیا گیا ہے۔ اس کے لیے قربانیاں دی گئی ہیں اس لیے کسی غیر مسلم کو اسلامی نام یا اصطلاحیں استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

اس مشتعل شخص کے ان الفاظ پر دو سوال پیدا ہوتے ہیں۔

  1. آپ کے نام نہاد لیڈروں، آج کے ملاؤں نے تو پاکستان بننے کی سخت ترین مخالفت کی تھی اور کہا تھا کہ ہم پاکستان کی ’’پ‘‘ تک نہیں بننے دیں گے اور بعضوں نے اسے پلیدستان تک بھی کہہ دیا تھا۔
  2. دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اسلام کے نام پر یہ ملک لیا ہے تو اسلام کی پیاری تعلیم تو اس قسم کی ہنگامہ آرائی اور ظلم و بربریت کی اجازت نہیں دیتی۔ یہ تو امن و آشتی کی تعلیم ہے۔ ایک مسلمان معاشرہ میں دیگر مذاہب کے لوگ بھی اسی طرح آسانی سے زندگی بسر کر سکتے ہیں جس طرح غیر مسلم معاشرہ میں وہ بسر کرتے ہیں۔ اسلام کے معنی ہی سلامتی کے ہیں اور مسلمان کی تعریف آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمائی۔

اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِّسَانِهِ ويَدِهِ کہ مسلمان وہ ہے جس کے زبان و ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ یہاں یہ مولوی یا مشتعل ہجوم کہہ سکتا ہے کہ ہم تو آپ کو مسلمان ہی نہیں سمجھتے یہاں تو مسلمان کی حفاظت کا مسلمان کے ہاتھوں کرنے کا ذکر ہے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مسئلہ کو بھی حل فرما دیا۔ مومن جو مسلم سے اگلا درجہ ہے کی تعریف میں فرمایا المُؤمِنُ مَن یأمِنَه الناسُ کہ مومن وہ ہے جس سے معاشرہ کے دوسرے لوگ امن میں رہیں۔ مگر ان مسلمانوں سے ملک میں بسنے والے ہم احمدی تو کیا دیگر سرکاری مسلمان بھی محفوظ نہیں۔ قتل و غارت، چور بازاری، عزتوں سے کھیلنے کا بازار تو روزانہ ہی بلکہ ہر لمحہ جاری رہتا ہے۔

اب جہاں تک ربوہ اڈا پر ہونے والی بھیانک واردات کا تعلق ہے اس میں نامراد قاتل بلند آواز سے ایک کمزور اور ضعیف حدیث مَنْ سَبَّ نَبِیًّا فَاقْتُلُوْہُ کا مسلسل ورد کرتا جا رہا ہے۔ یہ حدیث مدرسہ کے طلبہ کو آج کل نہ صرف پڑھائی جا رہی ہے بلکہ حفظ کروا کر احمدیوں کے قتل پر اکسایا جاتا ہے۔ جہاں تک اس حدیث جس کا ترجمہ ہے کہ جس کسی نے نبی کو گالی دی اُسے قتل کر دو، کا تعلق ہے نبی کا لفظ کسی نبی کے لیے خاص نہیں ہے۔ نبی کی اس وسیع تعریف میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق آخری زمانہ میں آنے والا وہ نبی بھی ہے جس کو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے صحیح مسلم کی حدیث کے مطابق چار دفعہ نبی اللّٰہ، نبی اللّٰہ، نبی اللّٰہ، نبی اللّٰہ کے الفاظ سے پکارا ہے۔ یہاں یہ نام نہاد ملّاں اس نبی کے قتل کے بھی در پے ہو جاتے ہیں کجا یہ کہ اس کو گالی دینے والے۔ جب کہ اسلامی تعلیم یہ ہے کہ کسی گروہ کے مذہبی لیڈر کو برا بھلا نہ کہو۔ اگر وہ ہستی ہمارے لیے محترم اور مبارک ہے تو اس کو برا بھلا کہنے والوں کے ساتھ ہمیں بھی یہی سلوک کرنا چاہئے لیکن ہم ایسا نہیں کر سکتے کیونکہ ہماری تعلیم عین اسلامی تعلیم سے آشکار ہے جو ہمارے سید و مولیٰ حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے 15 سو سال قبل دی تھی۔

اس کمزور اور ضعیف حدیث کے مضمون کو دیکھیں تو یہ خلاف تعلیم قرآن اور خلاف احکام اسلام ہے۔ یہ احادیث میں بیان ہونے والی تعلیمات کے منافی ہے اور سنت رسول ؐ بھی اس پر صاد نہیں کرتی اگر تاریخ اسلام اور تاریخ حدیث کا مطالعہ کریں تو اسلام کی پہلی تین صدیوں میں اس حدیث کا کوئی وجود نہ تھا۔ یہ روایت و حدیث وضعی ہے، یعنی خود بنائی گئی ہے۔ جسے حضرت علیؓ کے اڑھائی سو سال کے بعد المعجم الصغیر طبرانی میں بیان کیا گیا۔ صحاح ستہ میں اس کا نام و نشان تک نہیں۔ بلکہ اس کے ساتھ اس حصہ کو بھی شامل کروایا گیا کہ جو میرے صحابی کو گالی دے اسے مارو۔ جبکہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بھی ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے کا سلسلہ جاری رہتا تھا مگر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو سزا دینے کا حکم صادر نہیں فرمایا۔ نہ کسی کو کوڑے مارے۔ کسی صحابی کو برا بھلا کہنے پر صرف یہ فرمایا کہ ’’میرے صحابی کو گالی نہ دو کیونکہ اگر کوئی اُحد کے پہاڑ کے برابر سونا بھی خرچ کر لے تو کوئی ان میں سے کسی ایک کے ایک مدّ کے برابر تو کجا اس کے آدھے کے برابر بھی نہ پہنچے گا۔‘‘ (مدّ، غلہ ناپنے کا ایک پیمانہ ہوا کرتا تھا)

اس حدیث کو اگر ہم مستند مان کر عمل جائز قرار دے رہے ہیں تو پھر سب سے پہلے تو شیعہ زد میں آتے ہیں اوریہ ایک ایسا دروازہ کھولنے کے مترادف ہو گا جس سےسوائے تباہی اور ندامت کے کچھ حصہ میں نہ آئے گا۔ 1973ء کی قومی اسمبلی پاکستان نے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا۔ اس وقت آوازیں اٹھیں تھیں کہ ایسا نہ کریں ورنہ ایک غیر محدود کفر کی فیکٹریوں کا دروازہ کھل جائے گا مگر ان حقیقت پسند لوگوں کی آوازوں پر کان نہ دھرے گئے اور 90سالہ مسئلہ حل کرنے کا سہرا اپنے سر لینے کا بھوت سروں پر سوار تھا اس لیے قومی اسمبلی سے بِل پاس کروا لیا گیا اور آج 50سالہ اس کالے دور میں بات یہاں تک آن پہنچی ہے کہ کسی فرقہ کے نزدیک دوسرا فرقہ، مسلمان نہیں ہے۔ یہ لڑائی شہر شہر، گاؤں گاؤں بلکہ گلی گلی اور گھر گھر پہنچ چکی ہے۔ اگر ایک ہی گھر میں سُنّی بھی ہے، شیعہ بھی ہے تو دلی نفرتوں کے ساتھ وہ گھروں میں زندگی بسر کر رہے ہیں۔

مجھے یاد ہےخاکسار نے 90ء کی دہائی میں لاہو ر قیام کے دوران ایک مضمون لکھا تھا جو نیشنل اخبارات میں شائع بھی ہوا تھا۔ کہ اگر کفر یا توہین کے مسئلہ کو نہ روکا گیا تو ایک وقت آئے گا کہ توہین مولوی کا قانون بنانا پڑے گا۔ ان تیس سالوں میں قانون تونہیں بن سکا تاہم یہ آوازیں بلند ہونی شروع ہو گئی ہیں کہ مولویوں کے خلاف آواز بلند نہ کریں۔ وہ خواہ جھوٹ بولیں، وہ خواہ معاشرہ میں نفرتیں پھیلائیں، وہ خواہ معاشرہ کے امن کو تار تار کریں، قتل و غارت گری کروائیں مگر ان کے خلاف آواز بلند کرنا توہین کے مترادف ہو گا۔

اس مضمون کو اگر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ان الفاظ کی روشنی میں دیکھیں پھر تو کوئی بھی مَنْ سَبَّ نَبِیًّافَاقْتُلُوْہُ کے تحت نہیں بچتا، سب اس کے شکنجے میں آ جاتے ہیں۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:

مَنْ سَبَّ اَصْحَابِی فَقَدْ سَبَّنِی، وَمَنْ سَبَّنِی فَقَدْ سَبَّ اللّٰہ

(الصارم المسلول جلد2 صفحہ1082)

کہ جس نے میرے صحابی کو گالی دی اس نے مجھے گالی دی اور جس نے مجھے گالی دی اس نے گویا اللہ تعالیٰ کو گالی دی۔

اب اس ’’سبّ‘‘ سے تو بڑے بڑے صحابہ کو بھی حصہ ملا۔ یوں معاشرہ کے ایک بڑے حصے کے اس کی لپیٹ میں آنے کے امکانات ہیں اور کثرت کے ساتھ قتل و غارت گری معاشرہ میں دیکھنے کو ملے گی۔

پس مجرم کے اس غیر اسلامی فعل سے جہاں اسلام بدنام ہوا ہے وہاں انسانیت بھی مجروح ہوئی ہے۔ مجروح ہونے کا لفظ تو چھوٹا ہے۔ یہ کہنا درست ہو گا کہ انسانیت کا قتل ہوا ہے کیونکہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے ایک شخص کو قتل کیا اس نے گویا انسانیت کا قتل کیا۔

تم بزعم خود ایک احمدی کو قتل کر کے سمجھتے ہو کہ ہم نے احمدیت کو ختم کر دیا اور قاتل اس فعل سے جنت کا وارث ٹھہرا۔ میں تمہیں متنبہ کرتا ہوں کہ جنت تو دُور کی بات، تم جنت کی راہ کو بھی نہ چھوؤ گے۔ تمہارے اس دنیا کے تمام غیر اسلامی اعمال گلے کا طوق بن کر تمہیں جہنم کی راہ دکھلا رہے ہوں گے، بلکہ اس کی بھڑکتی ہوئی آگ میں پھینکیں گے۔

ہم تو یہ جانتے ہیں کہ حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دینے والے، وفا کرنے والے صحابہؓ 15 سو سال گزر جانے کے بعد آج بھی زندہ ہیں۔ ان کے ناموں کے ساتھ رضی اللہ عنہ لگتا ہے اور حضرت لگا کر ان کے مقام کو بلند کیا جاتا ہے۔ بچوں کو ان کے نام دینا فخر سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ ان صحابہ کی مخالفت کرنے والوں، ان میں سے بعضوں کو شہید کرنے والوں جیسے ابو جہل کا کوئی نام لیوا نہیں اور نہ ہی اس کا نام بچوں کو دینا پسند کیا جاتا ہے۔

سن لو اے دشمن بد نوا! یہ قرض ہے جو آخری روز بطور ادھار تم کو واپس ملے گا۔ یاد رکھو! احمدیت قائم ہے اور نہ صرف قائم رہے گی بلکہ بڑھے گی، پھلے پھولے گی۔ اسلام اور حضرت محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلم کا حقیقی نام اور تعلیم کو قیامت تک دنیا میں پھیلانے کی توفیق پاتی رہے گی۔ اور تم اسلام، محمد ؐ، قرآن کا نام اور اس کی محبت احمدیوں کے دلوں سے نہ نکال سکتے ہو اور نہ ہی کم کر سکتے ہو۔

14اپریل 1989ء کو حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھا:
’’ہمارا تو Birth Mark آنحضرتؐ اور خدا کی محبت ہے اسے کس طرح مٹاؤ گے۔ ہمارے گھروں کو جلا دو،ہمارے جسموں کو جلا دو،ہمارے اموال لوٹ لو، ہماری عورتوں،بچوں اور مردوں کو فنا کردومگر خداکی قسم!محمد مصطفیؐ کے خدا کی قسم!! اور کائنات کے خدا کی قسم!!! کہ احمدیت کے دل میں محمد مصطفیؐ اور اللہ کی محبت کا جو Birth Mark ہے اس کو تم نہیں مٹا سکتے۔ تمہیں طاقت کیا،استطاعت کیا ہے کہ ان دلوں تک پہنچ سکو؟ تمہاری آگیں جسموں تک جا کر ختم ہو جائیں گی۔ ہاں دلوں تک پہنچنے والی ایک آگ ہے جو خدا جلاتاہے اور جب وہ فیصلہ کرے گا تمہارے دل پر بھڑکائی جائے گی تو دنیا کی کوئی طاقت تمہیں اس آگ کے اثرات سے بچا نہیں سکتی۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 14؍اپریل 1989ء)

27ستمبر 1991ء کو حضور رحمہ اللہ نے فرمایا:
’’اس زمانہ میں عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ پاکستان اور بعض دوسرے ملکوں میں اتنی سوچ بھی باقی نہیں رہی کہ وہ باتوں کے آپس میں رشتے تو ملا کر دیکھیں کب سے پاکستان مصیبت میں مبتلا ہواہے؟ جب سے احمدیوں کو اسلام سے باہر نکالاہے۔ اسلام کے اندر اسلام کی برکت کی یہی ایک ضمانت تھی، یہی ایک تعویذ تھا جس کے نام پر اسلام کا تقدّس جاری تھا اور اس تعویذ کو توآپ نے نکا ل کر باہر پھینک دیا، پیچھے پھر اسلام کی برکتیں کیا، سب کچھ ہاتھ سے جاتا رہا ہے اور مسلسل اس کے بعد سے سیاست گندی سے گندی ہو تی چلی جا رہی ہے،بکتی جارہی ہے۔ Horse Trading کا محاورہ ایسے کھلے کھلے استعمال ہوتاہے جیسے روز مرّہ کی کوئی بات ہے۔ کوئی شرم وحیا کی بات ہی نہیں رہی۔ کرپشن سر سے پاؤں تک،ناخنوں تک پہنچ گئی ہے۔ کوئی زندگی کا ایسا شعبہ نہیں جہاں بددیانتی کے بغیر کام چل سکے اور بے حیائی ایسی کہ دیکھیں سب کہتے ہیں الحمدللّٰہ اسلام آرہاہے، اللہ کا بڑا ا حسان ہے کہ ہم اسلام کے قریب تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ کہاں اسلام کے قریب ہو رہے ہیں؟ کسی نے کبھی نہیں سوچا۔ اگر یہ ساری بدبختیاں اسلام ہیں تو نَعُوذُبِاللّٰہِ مِن ذٰلِک اس اسلام سے تو دُوری بہتر ہے۔ لیکن خدا گواہ ہے کہ یہ اسلام نہیں ہے۔ یہ بدبختیاں تمہاری شامت اعمال ہیں۔ تم نے احمدیوں پر مظالم کرکے اسلام سے جو دُوری اختیار کی ہے یہ اس کی سزا ہے ورنہ اسلام سے قرب کی تو خدا سزا نہیں دیا کرتا۔ اسلام سے قرب کی تو جزا ہوتی ہے۔ پس یہ ساری مصیبتیں جو تم پر ناز ل ہو رہی ہیں تمہیں کون سمجھائے اور کیسے سمجھائے کہ اسلام سے قرب کے نتیجہ میں نہیں بلکہ اسلام سے دُوری کے نتیجہ میں ہیں۔ اسلام کے بنیادی حسین منصفانہ قوانین کو تم نے بالائے طاق رکھ دیا بلکہ بھاڑ میں جھونک دیا اور کبھی تم نے ضمیر کی ادنیٰ سی کسک بھی اپنے دل میں محسوس نہیں کی کہ ہم کیا کررہے ہیں؟ مقدّس اسلام کو کیسے استعمال کر رہے ہیں؟ اور مَکرٌ فِی آیَاتِنَا ہے کہ وہ جاری ہے اور مسلسل چلتا چلا جا رہاہے۔‘‘

(خطبہ جمعہ فرمودہ 27ستمبر 1991ء)

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 ستمبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ