• 18 مئی, 2024

’’اپنے جائزے لیں‘‘ (قسط 5)

’’اپنے جائزے لیں‘‘
از ارشادات خطبات مسرور جلد6
قسط 5

جائزہ لینے پر معلوم ہوتا ہے کہ مسیح موعودؑ کی جماعت
کے افراد چندوں کا احسان نہیں جتاتے

کتنے خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی رضا چاہنے کے لئے اپنامال خرچ کرتے ہیں اور خرچ کر کے پھر بھول جاتے ہیں کہ انہوں نے کبھی اللہ کی راہ میں کچھ خرچ بھی کیا ہے کہ نہیں۔ کبھی یہ احسان نہیں جتاتے کہ ہم نے فلاں وقت اتنا چندہ دیا اور فلاں وقت اتنا چندہ دیا۔ آج ہم جائزہ لیں، نظریں دوڑائیں تو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں ہی ایسے لوگ نظر آتے ہیں جو ایک کے بعد دوسری قربانی دیتے چلے جاتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتے چلے جاتے ہیں لیکن کبھی یہ نہیں کہتے کہ ہم نے جماعت پر احسان کیا ہے۔ اگر کوئی اِکّا دُکّا ایسا ہوتا بھی ہے تو وہ بیمار پرندے کی طرح پھڑ پھڑاتا ہوا ڈار سے الگ ہو جاتا ہے اور کہیں جنگل میں گم ہو جاتا ہے اور پھر درندوں اور بھیڑیوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ نہ دین کا رہتا ہے نہ دنیا کا۔ یہی ہم نے اب تک دیکھا ہے۔ جب بھی کوئی عافیت کے حصار سے باہر نکلے تو یہی انجام ہوتا ہے۔ بہرحال ضمناً مَیں یہ ذکر کر رہا تھا۔ جو بات مَیں کہہ رہا ہوں وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر کتنا بڑا احسان ہے کہ ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت میں شامل کر کے ان لوگوں میں شامل فرما دیا جن کو نہ کوئی خوف ہے نہ کوئی غم ہے اور جو بھی قربانی کریں، جو بھی مال لبیک کہتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی راہ میں دیں، اللہ تعالیٰ بے شمار اجر دیتا ہے۔ ایک جگہ فرمایا فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَاَنْفَقُوْا لَھُمْ اَجْرٌ کَبِیْرٌ (الحدید: 7) پس تم میں سے وہ لوگ جو ایمان لائے اور اللہ کی راہ میں خرچ کیا ان کے لئے بہت بڑا اجر ہے۔ اللہ کی طرف سے تو جو بھی اجر ہے اتنا بڑا ہے کہ انسان کی جو سوچ ہے وہ وہاں تک نہیں پہنچ سکتی۔ لیکن فرمایا صرف اجر ہی نہیں ایسے مومنوں کے لئے اجر کبیر ہے۔ پس کتنے خوش قسمت ہیں وہ جنہیں اللہ تعالیٰ ایسے اجروں سے نوازے اور کتنے خوش قسمت ہیں احمدی جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت میں آئے اور آپ نے یہ روح ہمارے اندر پیدا کی۔ صحیح اسلامی تعلیم کے حسن و خوبی سے ہمیں آگاہ کیا روشناس کروایا۔ اللہ تعالیٰ سے زندہ تعلق پیدا کرنے کے راستے ہمیں دکھائے۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات کے حسن کو کھول کھول کر ہم پر ظاہر فرمایا، جس سے احمدی کے دل میں مرضات اللہ کی تلاش کی چنگاری بھڑکی۔

(خطبات مسرور جلد6 صفحہ130-131)

پانچ اوقات روحانی حالت کا جائزہ
ایک مومن کے سامنے رکھتے ہیں

نماز کے پانچ اوقات روحانی حالت کا جائزہ ایک مومن کے سامنے رکھتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے جو یہ فرمایا کہ اِنَّ مَعَ الْعُسْرِ یُسْرًا کی حالت کا وقت آ گیا تو اس سے مراد یہ ہے کہ ایک مومن کو فجر کی نماز میں سست نہیں ہونا چاہئے۔ یہ یُسر اور آسانی پیدا کرنے کا وقت ہے۔ پس اس سے فائدہ اٹھائو اور اپنے بستروں کو اپنی آرام کی جگہ نہ سمجھو۔ اب اگر آرام دیکھنا ہے، اپنی روحانی حالت سنوارنی ہے، اللہ تعالیٰ کے پیار کو جذب کرناہے تو فجر کی نماز کی بھی حفاظت کرو اور جب ہر دن کا سفر اسی سوچ کے ساتھ شروع ہوگا اور اسی سوچ پہ ختم ہو گا تو پھر وہ حالت ہو گی جب ہر صبح یہ گواہی دے گی کہ تقویٰ سے رات بسر کی اور ہر شام یہ گواہی دے گی کہ ڈرتے ڈرتے دن بسر کیا۔ اور یہی حالت ہے جو ایک مومن میں انقلاب لانے کا باعث بنتی ہے۔

پس اس بات کو ہمیں کبھی نہیں بھولنا چاہئے کہ نمازیں روحانی حالت کے سنوارنے کے لئے ایک بنیادی چیز ہیں جس کے بغیر انسان کا مقصد پیدائش پورا نہیں ہوتا۔ پس ہر احمدی کوکوشش کرنی چاہئے کہ اپنی نمازوں کو وقت پر ادا کرے اور اس کے لئے بھرپور کوشش کرے کیونکہ ایک مومن پر ان کا وقت پر ادا کرنا بھی فرض ہے جو اللہ تعالیٰ نے قرار دیا ہے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّ الصَّلوٰۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتَاباً مَوْقُوْتًا (النساء: 104) کہ یقینا نماز مومنوں پرایک وقت مقررہ کی پابندی کے ساتھ فرض ہے۔

(خطبات مسرور جلد 6 صفحہ73)

روز قیامت سب سے پہلا جائزہ نماز کا ہوگا

جب مرنے کے بعد سب سے پہلا امتحان جس میں سے ایک انسان کوگزرنا ہے وہ نمازہے، تو کس قدر اس کی تیاری ہونی چاہئے۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے بندے پر مہربان بھی ہے۔ فرمایا کہ بندے کے نفل دیکھو اگر اس کے نفل ہیں تو اس کے فرضوں کے پلڑے میں ڈال دو تاکہ فرضوں کی کمی پوری ہو جائے۔ پس صرف نمازوں کی ادائیگی نہیں بلکہ انسان جو کہ کمزور واقع ہوا ہے اسے یہ دیکھنا اور سوچنا چاہئے کہ کسی وقت ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ میرے فرض صحیح حق کے ساتھ ادا نہ ہوئے ہوں تو کوشش کرکے نفل بھی ادا کرنے کی کوشش کرے۔ یہ ایک مومن کا اعلیٰ معیار ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کے پیار کو جذب کرنے والا بنے۔ اپنے پیارے خدا کا جس کے بے شمار احسانات اور انعامات ہیں شکر ادا کرے۔ ہم احمدی مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ کا کس قدر احسان ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مان کر ہم ایک جماعت ہیں۔ ایک لڑی میں پروئے ہوئے ہیں۔ ہم ایک ہاتھ پر اٹھنے بیٹھنے کے نظارے دیکھتے ہیں۔ جب ہماری یہ صورت حال ہے تو جو سب سے زیادہ تنظیم پیدا کرنے والی چیز ہے اس کا ہمیں کس قدر خیال کرنا چاہئے۔ اورپھر صرف اس دنیا میں ہی نہیں بلکہ آخرت میں بھی ہم اس سے فائدہ اٹھا رہے ہوں گے۔ سب سے پہلے جو جائزہ ہو گا وہ نماز کے بارے میں ہو گا جیسا کہ حدیث میں آیا ہے۔ پس ایک احمدی مسلمان صرف اپنی فرض نمازوں کی حفاظت نہیں کرتا بلکہ نوافل بھی ادا کرتا ہے تاکہ کمزوریوں کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی رحمت کے نظارے نظر آتے رہیں۔ اس کی رحمت کی نظر پڑتی رہے اور یہی غیب میں ڈرنا ہے۔ نوافل ادا کرتے ہوئے تو ایک انسان بالکل علیحدگی میں اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوتا ہے۔ یہ صورتحال ایک احمدی مسلمان کی ہونی چاہئے۔

(خطبات مسرور جلد 6 صفحہ79)

جائزہ لیں کہ ہمارے کسی عمل کی وجہ سے
ہمارا مؤاخذہ نہ ہو

میں احمدیوں کو بھی ایک بات کہنا چاہتا ہوں کہ بعض جلد باز سمجھتے نہیں اور فکر میں رہتے ہیں کہ حالات بدلتے نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جیسا کہ فرمایاہر کام کے لئے ایک اجل مسمّیٰ ہے اور عذاب کے لئے تو خاص طور پر اس نے اجل مسمّیٰ کا ذکر کیاہے۔ جب وہ آئے گی تو نہ (کوئی) اس سے ایک قدم آگے جائے گا نہ پیچھے۔ اللہ تعالیٰ تو اپنی تمام صفات کا اظہار کرتا ہے اور بوقتِ ضرورت کرتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بھی وعدہ ہے کہ آپ کی جماعت کا غلبہ ہو گا اور ان شاء اللہ ضرور ہو گا۔ بعض احمدی بعض الہامات پر خوش فہمی میں وقت کا تعین شروع کر دیتے ہیں۔ جبکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے تو فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے کہا ہے کہ وہ وقت نہیں بتائوں گا۔ پس اگر حضرت مسیح موعودؑ کو وقت نہیں بتایا گیا تو مَیں آپ کون ہیں جن کو وقت کا پتہ لگ جائے؟ اگر وقت کا پتہ لگ جائے تو بغتۃً کیا ہوا؟ تو ہمارا کام دعائیں کئے جانا ہے اور وقت کا انتظار کرنا ہے۔ قوموں کی زندگی میں چند سال کوئی لمبا عرصہ نہیں ہوا کرتا۔ تمام مخالفتوں کے باوجود حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت کی جو ترقی ہے وہ اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ خدا ہمارے ساتھ ہے۔ چاہے کسی کی ظاہری دشمنی کی کوششیں ہوں یا چھپی ہوئی دشمنی کی کوششیں ہوں اللہ تعالیٰ کے فضل سے جماعت کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتیں اور نہ کبھی بگاڑ سکیں اور جماعت اللہ تعالیٰ کے فضل سے آگے سے آگے ہی بڑھ رہی ہے اور ان شاءاللہ بڑھتی ہی چلی جائے گی۔ ہمارا کام یہ ہے کہ اپنے اعمال کی طرف توجہ دیں۔ اور یہ بڑی اہم بات ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں کو پاک صاف رکھے اور ہمارے سے وہ اعمال کروائے جو اس کی رضا کے حصول کے اعمال ہوں۔ اگر ہم نے اپنے عملوں کو، اپنے دلوں کو غلط کاموں سے پاک صاف رکھا تو بعید نہیں کہ جلد وہ غلبہ عطا ہو اور وہ نظارے ہمیں نظر آئیں جس کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے۔

پس ہمیں اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہئے۔ کوئی ایسی بات نہ ہو جائے جوباوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ غفور بھی ہے اور حلیم بھی ہے ہمارے کسی عمل کی وجہ سے ہمارا مؤاخذہ ہو جائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یُؤَاخِذُکُمْ بِمَا کَسَبَتْ قُلُوْبُکُمْ (البقرہ: 226) یعنی تمہارا مؤاخذہ کرے گا جو تمہارے دل کماتے ہیں اور پھر آگے فرمایا کہ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ۔ اللہ بہت بخشنے والا اور برد بار ہے۔ اس بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ:
‘‘انسان کے دل کے تخیلات جو بے اختیار اٹھتے رہتے ہیں اس کو گنہگار نہیں کرتے بلکہ عنداللہ مجرم ٹھہر جانے کی تین ہی قسم ہیں۔ (1) اول یہ کہ زبان پر ناپاک کلمے جو دین اور راستی اور انصاف کے برخلاف ہوں جاری ہوں۔ (2) دوسرے یہ کہ جوارح یعنی ظاہری اعضاء سے نافرمانی کی حرکات صادر ہوں۔ (3) تیسرے یہ کہ دل جونافرمانی پر عزیمت کرے یعنی پختہ ارادہ کرے کہ فلاں فعل بد ضرور کروں گا۔ اسی کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلٰکِنْ یُؤَاخِذُکُمْ بِمَا کَسَبَتْ قُلُوْبُکُمْ (البقرہ: 226) یعنی جن گناہوں کو دل اپنی عزیمت سے حاصل کرے ان گناہوں کا مؤاخذہ ہو گامگر مجرد خطرات پر مواخذہ نہیں ہو گاکہ وہ انسانی فطرت کے قبضہ میں نہیں ہیں۔ خدائے رحیم ہمیں اُن خیالات پر نہیں پکڑتا جو ہمارے اختیار سے باہر ہیں۔ ہاں اس وقت پکڑتا ہے کہ جب ہم ان خیالات کی زبان سے، یا ہاتھ سے یا دل کی عزیمت سے پیروی کریں بلکہ بعض وقت ہم ان خیالات سے ثواب حاصل کرتے ہیں اور خداتعالیٰ نے صرف قرآن کریم میں ہاتھ پیر کے گناہوں کا ذکر نہیں کیا بلکہ کان اور آنکھ اور دل کے گناہوں کا بھی ذکر کیا ہے۔ جیسا کہ وہ اپنے پاک کلام میں فرماتا ہے اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ اُوْلٰٓئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْئُوْلًا (بنی اسرائیل: 37) یعنی کان اور آنکھ اور دل جو ہیں ان سب سے باز پرس کی جائے گی۔ اب دیکھو جیسا کہ خداتعالیٰ نے کان اور آنکھ کے گناہ کا ذکر کیا ایسا ہی دل کے گناہ کا بھی ذکر کیا مگر دل کا گناہ خطرات اور خیالات نہیں ہیں کیونکہ وہ تو دل کے بس میں نہیں ہیں بلکہ دل کا گناہ پختہ ارادہ کر لینا ہے۔ صرف ایسے خیالات جو انسان کے اپنے اختیار میں نہیں گناہ میں داخل نہیں۔ ہاں اس و قت داخل ہو جائیں گے جب ان پر عزیمت کرے اور ان کے ارتکاب کا ارادہ کر لیوے۔ ایسا ہی اللہ جلّ شانہٗ اندرونی گناہوں کے بارے میں ایک اور جگہ فرماتا ہے قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَمَا بَطَنَ (الاعراف: 34) یعنی خدا نے ظاہری اور اندرونی گناہ دونوں حرام کر دئیے ہیں’’

(نورالقرآن نمبر2، روحانی خزائن جلد9 صفحہ427-428) (خطبات مسرور جلد 6 صفحہ115)

مَیں نے جائزہ لیاہے کہ تکبّر اور حِلم اور رِفق کی کمی ہی ہے جو بہت سے جھگڑوں کی بنیاد بنتی ہے

ہمیں اپنی حالتوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے۔ ایک جگہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’صلاح، تقویٰ، نیک بختی اور اخلاقی حالت کو درست کرنا چاہئے۔ مجھے اپنی جماعت کا یہ بڑا غم ہے کہ ابھی تک یہ لوگ آپس میں ذرا سی بات سے چڑ جاتے ہیں۔ عام مجلسوں میں کسی کو احمق کہہ دینا بھی بڑی غلطی ہے۔ اگر اپنے کسی بھائی کی غلطی دیکھو تو اس کے لئے دعا کرو کہ خدا اسے بچا لیوے۔ یہ نہیں کہ منادی کرو۔ جب کسی کا بیٹا بدچلن ہو تو اس کو سردست کوئی ضائع نہیں کرتا بلکہ اندر ایک گوشہ میں سمجھاتا ہے‘‘۔ ایک طرف لے جا کر سمجھاتا ہے ’’کہ یہ برا کام ہے۔ اس سے باز آ جا۔ پس جیسے رفق، حِلم اور ملائمت سے اپنی اولاد سے معاملہ کرتے ہو ویسے ہی آپس میں بھائیوں سے کرو۔ جس کے اخلاق اچھے نہیں ہیں مجھے اس کے ایمان کا خطرہ ہے کیونکہ اس میں تکبر کی ایک جڑ ہے۔ اگرخدا راضی نہ ہو تو گویا یہ برباد ہو گیا۔ پس جب اس کی اپنی اخلاقی حالت کا یہ حال ہے تو اسے دوسروں کو کہنے کا کیا حق ہے‘‘۔ (ملفوظات جلد سوم صفحہ 590) یہ نصیحت ہے جو انتہائی اہم ہے۔ مجھے بھی روزانہ چند ایک ایسے خطوط آتے ہیں جن سے انداز ہ ہوتا ہے کہ نرمی اور صبر کی جو کمی ہے یہ آپس کے جھگڑوں کی بہت بڑی وجہ ہے۔ پس جس حِلم اور رِفق کی کمی پر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فکر کا اظہار فرمایا ہے اس زمانے میں تو شاید چند ایک ایسے ہوں جن سے آپؑ کو فکر پیدا ہوئی لیکن جماعت کی تعداد بڑھنے کے ساتھ بعض برائیاں بھی بعض دفعہ بڑھتی ہیں تو اس طرف ہمیں توجہ دینی چاہئے۔

جماعتی نظام ایک حد تک اصلاح کر سکتا ہے۔ اصل اصلاح تو انسان خود اپنی کرتا ہے اور اگر ہر احمدی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس انذار کو پیش نظر رکھے جیسا کہ آپؑ نے اس اقتباس میں فرمایا ہے کہ ’’جس کے اخلاق اچھے نہیں مجھے اس کے ایمان کا خطرہ ہے‘‘۔ تو ایک احمدی کا دل لرز جاتا ہے اور لرز جانا چاہئے۔ مَیں نے جائزہ لیاہے کہ تکبّر ہی ہے اور حِلم اور رِفق کی کمی ہی ہے جو بہت سے جھگڑوں کی بنیاد بنتی ہے۔ ایک طرف اگر کوئی بات ہوتی ہے تو دوسرا فریق بجائے نرمی دکھانے کے کہ اس سے جھگڑا ختم ہو جائے اس سے بھی زیادہ بڑھ کر جواب دیتا ہے اور نتیجتاً جھگڑے جو ہیں وہ طول پکڑتے جاتے ہیں۔ اصلاحی کمیٹیوں سے حل نہیں ہوتے۔ پھر قضاء میں جاتے ہیں۔ پھر اگر کوئی فریق فیصلہ نہ مانے تو نہ چاہتے ہوئے بھی اس کو جو فیصلہ نہیں مانتا جماعتی نظام سے نکالنا پڑتا ہے۔ یوں ایک اچھا بھلا خاندان روشنیاں دیکھنے کے بعد پھر اس سے محروم ہو جاتا ہے۔ بعض پھر اس ضد میں اتنا پیچھے چلے جاتے ہیں کہ جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایاکہ ان کے ایمان کا خطرہ ہے۔ حقیقت میں وہ ایمان گنوا بیٹھتے ہیں۔ صرف خطرہ ہی نہیں رہتا۔ والدین کی سزا کی وجہ سے بعض بچے جو نیک فطرت ہوتے ہیں اُن پر بھی اپنے ماں باپ کی حرکتوں کا منفی اثر ہوتا ہے۔ اپنے ماحول میں ان کو شرمندگی اٹھانی پڑتی ہے۔ پھر ایسے والدین جو جھگڑالو ہیں جن کے واقف نو بچے ہیں ان کے واقف نو بچوں کے معاملات کو بھی زیر غور لایا جاتا ہے کہ ان بچوں کا وقف قائم بھی رکھا جائے کہ نہیں۔ کیونکہ اگر ماں باپ کا یہ حال ہے کہ معاشرے کے حقوق ادا نہیں کر رہے اور نظام جماعت کا خیال نہیں تو بچوں کی تربیت کس طرح ہو گی۔ غرض کہ اس خلق حلم اور رفق کی کمی کے باعث ایک خاندان اپنے ایمان کو اور اپنی نسلوں کے ایمان کو داؤ پر لگا دیتا ہے اور پھر جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ ایسے آدمی پھر دوسروں کو کہنے کا بھی حق نہیں رکھتے کہ ہمارے پاس سچائی ہے اور یوں کسی سعید فطرت کو احمدیت سے بھی دُور لے جانے کا باعث بنتے ہیں۔ یعنی ایک غلطی، دوسری غلطی کو جنم دیتی ہے اور پھر بڑھتی چلی جاتی ہیں۔

پس یہ ایک احمدی کے لئے جو مغضوب الغضبی میں نتائج سے لاپرواہ ہو جاتا ہے بڑا فکر کا مقام ہے اور ہونا چاہئے۔ اکثریت ایسے احمدیوں کی ہے جو سزا ملنے کے بعد کچھ پریشان ہوتے ہیں۔ معافی کے خط لکھتے ہیں۔

غیر مشروط طور پر ہر فیصلے پر عمل کرنے کا کہتے ہیں۔ اگرپہلے ہی اس کے جو عواقب ہیںوہ سوچ لیں تو کم از کم ان کے بچے اور خاندان شرمندگی سے بچ جائیں۔

(خطبات مسرور جلد 6 صفحہ149)

ہر احمدی تعمیر مساجد کے اغراض کا
حضرت مسیح موعودؑ کے ارشادات کی روشنی میں جائزہ لے گا تو فیض پانے والابن جائے گا

کیونکہ رمضان بھی اس سال جلدی آ رہا ہے اس لئے جلسہ کے بعد جو مساجد کے افتتاح کے پروگرام عموماً ہوا کرتے ہیں، ان کو پہلے کرنا پڑ رہا ہے۔ ظاہر ہے جلسہ کے بعد پھر رکنے کا سوال نہیں تھا۔ تو بہرحال آج مساجد کے موضوع پر ہی میں بات کروں گا۔ مساجد جیسا کہ ہم جانتے ہیں، اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے بنائی جاتی ہیں اور اس لحاظ سے یہ مساجد ایک احمدی مسلمان کی زندگی کا بہت اہم حصہ ہیں اور ہونی چاہئیں۔ ان کی اہمیت کے پیش نظر مَیں کوشش کرتا ہوں کہ جہاں جہاں بھی ہو سکے خود جا کر ان مساجد کا افتتاح کروں۔ گزشتہ پانچ سال میں جرمنی میں بھی اور دنیا کے دوسرے ممالک میں بھی جماعت کی توجہ مساجد کی تعمیر کی طرف بہت زیادہ ہوئی ہے اور مَیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشاد کی روشنی میں جماعت کو اس طرف توجہ بھی دلاتا رہتا ہوں جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ جہاں بھی جماعت کو متعارف کرانا ہے، اسلام کی تبلیغ کرنی ہے اور اسلام کی حسن و خوبی سے مزین تعلیم کو لوگوں تک پہنچانا ہے، وہاں مسجد کی تعمیر کر دو۔ جس سے اپنی تربیت کے بھی مواقع ملیں گے اور تبلیغ کے بھی مواقع ملیںگے۔ اللہ کرے کہ جب بھی ہم کسی مسجد کی تعمیر کا سوچیں اور اس کی تعمیر کریں یہ اہم مقاصد ہمیشہ ہمارے سامنے رہیں۔ پس اس حوالے سے اگر ہر احمدی مرد، عورت، جوان، بوڑھا اپنا جائزہ لیتا رہے گا تو مساجد کی تعمیر سے فیض پانے والا ہو گا۔

(خطبات مسرور جلد 6 صفحہ327)

باغیانہ رویہ نفس کے جائزے لینے سے دور ہوگا

تیسری برائی جو یہاں بیان فرمائی، فرمایا وہ بَغْی یعنی بغاوت ہے، دوسروں کا حق مارنا ہے، معاشرے میں فساد پیدا کرنا ہے۔ اور جب انسان دوسرے کا حق مارنا شروع کر دے اور معاشرے میں فساد پھیلانے کا باعث بن جائے تو وہ انصاف کے تقاضے پورے نہیں کر سکتا۔ اس کی نمازوں سے وہ مقصد حاصل نہیں ہو سکتا جس کے لئے وہ مسجد میں آنے کی کوشش کرتا ہے یا آتا ہے۔ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ ایک طرف تو اعلان ہو کہ مَیں نے یہ مسجد اس لئے بنائی ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے ہوئے عدل اور انصاف قائم کروں اور دوسری طرف باغیانہ رویہ ہو۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس رویّہ سے بچنے کے جو طریق بتائے ہیں ان پر چلنا انتہائی ضروری ہے اور اس کے لئے سب سے بنیادی چیز جیسا کہ مَیں نے بتایا یہی ہے کہ اپنے اندر جھانک کر اپنا جائزہ لیتے ہوئے، اپنے نفس کو پاک کرے۔ پھر ہی معاشرے کو تکلیف دینے والی معمولی برائیاں بھی دُور ہوں گی اور تبھی بغاوت کی بدی سے بھی انسان بچے گا۔ کیونکہ اگر یہ چیزیں قائم رہیں تو پھر یہ نظام جماعت سے بھی دور لے جانے والی ہوتی ہیں اور پھر خلافت کی اطاعت کا بھی انکار کر وا دیتی ہیں۔ اور پھر ہم نے دیکھا ہے کہ ایسے لوگ پھراللہ تعالیٰ کی خالص ہو کر عبادت کرنے سے بھی محروم ہو جاتے ہیں بلکہ ظاہری عبادت سے بھی محروم ہو جاتے ہیں پھر ان کی عبادت خالص تو رہتی نہیں۔ کیونکہ ظاہر ہے جو باغی ہو گا وہ انصاف کے تقاضے بھی پورے نہیں کرے گا اور اللہ تعالیٰ کی عبادت بھی خالص ہو کرکر ہی نہیں سکتا۔ کسی بھی باغی کو آپ دیکھ لیں وہ اپنی اَنانیت کے جال میں پھنسا ہوتا ہے اور جو انانیت کے جال میں پھنس جائے وہ کبھی عاجزی نہیں دکھا سکتا اور جو عاجزی نہ دکھائے وہ خالص ہو کر اللہ تعالیٰ کا عبادت گزار بھی نہیں بن سکتا اور نہ ہی انصاف کے تقاضے پورے کر سکتا ہے۔

(خطبات مسرور جلد 6 صفحہ334)

جائزہ لیں کہ ایمان میں ترقی ہو

ایک جگہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ (النساء: 137) اے لوگو! جو ایمان لائے ہو! اللہ اور رسول پر ایمان لائو۔ پس صرف منہ سے ایمان لانا، یہ کہہ دینا کہ ہم ایمان لائے کافی نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تمہارا اللہ اور رسول پرایمان بڑھتا چلا جائے۔ ہر روز ترقی کی طرف قدم اٹھتا چلا جائے۔ اور جب یہ صورت ہو گی تب ہی کامل ایمان کی طرف بڑھنے والا ایک مومن کہلا سکتا ہے اور اس کے لئے مسلسل مجاہدے کی ضرورت ہے اور اسی لئے خداتعالیٰ نے عبادتوں کا بھی حکم دیا ہے تاکہ یہ مجاہدہ جاری رہے اور تقویٰ میں ترقی ہوتی رہے۔ اور ہر سال روزہ بھی، رمضان کا مہینہ بھی اس مجاہدے اور ایمان میں ترقی کی ایک کڑی ہے۔

پس ان دنوں میں ہر مومن کو اس سے بھرپور فیض اٹھانے کی کوشش کرنی چاہئے اور اس بات کا جائزہ لینے کے لئے کہ ایمان میں ترقی ہے اور ایمان میں ترقی کا معیار دیکھنے کے لئے خداتعالیٰ نے یہ نشانی بتائی کہ اگر خالص ہو کر میرے حضور آؤگے، روز ے بھی میری خاطر ہو ں گے، کوئی دنیا کی ملونی اس عبادت میں نہیں ہو گی، خالص میری رضا کا حصول ہو گاتو فرمایا اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ مَیں دعا کرنے والے کی دعا کا جواب دیتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے اور یہ پکار اسی وقت سنی جائے گی جب ایمان میں ترقی کی طرف کوشش ہو گی۔ ترقی کی طرف قدم بڑھیں گے گویا دعائوں کی قبولیت اس وقت ہو گی جب ایمان میں ترقی کی طرف قدم بڑھ رہے ہوں گے اور ایمان میں ترقی اس وقت ہو گی جب خالص ہو کر خداتعالیٰ کے احکامات کی پیروی اور اس کی عبادت کرنے کی کوشش ہو رہی ہو گی۔

(خطبات مسرور جلد 6 صفحہ363)

ہر ملک اگر جائزہ لے تو معلوم ہوگا کہ سود
امیر غریب کی خلیج کو وسیع کر رہاہے

اللہ تعالیٰ سود لینے کی مناہی کے بارے میں ایک جگہ فرماتا ہے کہ فَاِنۡ لَّمۡ تَفۡعَلُوۡا فَاۡذَنُوۡا بِحَرۡبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوۡلِہٖ ۚ وَاِنۡ تُبۡتُمۡ فَلَکُمۡ رُءُوۡسُ اَمۡوَالِکُمۡ ۚ لَا تَظۡلِمُوۡنَ وَلَا تُظۡلَمُوۡنَ (البقرہ: 280) اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اعلان جنگ سن لو اور اگر تم توبہ کرو تو اصل زر تمہارے ہی رہیں گے۔ نہ تم ظلم کرو گے نہ تم پہ ظلم کیا جائے گا۔ مومنوں کو خاص طور پر تنبیہ کی گئی ہے۔ پھر ہم دیکھتے ہیں کہ اسی نظام یعنی سودی نظام کے اثرات ہر مذہب والے پر پڑرہے ہیں چاہے وہ مسلمان ہے یا غیرمسلم ہے۔ پہلے تو یہ بتایا تھا کہ شیطان اس وجہ سے تمہارے حواس کھو دے گا اور اس حواس کھو نے کا نتیجہ یہ نکلا کہ سُود میں ڈوبتے چلے گئے۔ پتہ ہی نہیں لگ رہا کہ کس طرح خرچ کرنا ہے۔ وہ سوچیں ہی ختم ہو گئیں جس سے اچھے بھلے کی تمیز کی جا سکتی ہو۔ اور اب فرمایا اللہ اور رسول کی طرف سے اعلان جنگ ہے اور جب اللہ اور رسول کی طرف سے اعلان جنگ ہو تو نہ دین باقی رہتا ہے اور نہ دنیا۔ دین تو گیا ہی، اس کے ساتھ دنیا بھی گئی۔

مسلمان ممالک اگر خاص طور پر یہ جائزہ لیں۔ ہر ملک کویہ جائزہ لینا چاہئے لیکن ان ملکوں کو تو خاص طور پر (جائزہ لینا چاہئے) تو انہیں نظر آئے گا کہ سُود کی وجہ سے امیر غریب کی خلیج وسیع ہوتی جا رہی ہے، ملکوں کے اندر بھی اور ایک دوسرے ممالک میں بھی،جو غریب مسلمان ممالک ہیں وہ غریب تر ہو رہے ہیں۔ جو امیر ہیں، تیل والے ہیں وہ سمجھ رہے ہیں ہمارے پاس دولت ہے اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور اس کے نتیجہ میں پھر بے چینیاں پیدا ہوتی ہیں۔ پھر بغاوتیں ہوتی ہیں مسلمان ملکوں کے اندر بھی اور دوسرے ملکوں میں بھی۔ جیسا کہ مَیں نے پاکستان کی مثال دی تھی۔ وہاں بھی امیر غریب کا فرق بہت وسیع ہوتا چلا جا رہاہے اور ملک میں بے چینی کی وہاں ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے۔ دولت کے لالچ میں امیر غریب کے حقوق ادا نہیں کرتے اور اسی وجہ سے پھر مولوی کو اس ملک میں کھیل کا موقع مل رہا ہے۔ اگر غریب کا حق صحیح طرح ادا ہوتا تو وہ خود کش بموں کے حملے جو غریبوں کے بچوں کو استعمال کر کے کروائے جاتے ہیں اس میں ان لوگوں کو آج اس طرح کامیابی نہ ہوتی۔ گو اس کی اور بھی وجوہات ہیں لیکن ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے۔ پس یہ جو ہنگامی حالتیں ہیں، غریب ملکوں میں بھی اور امیر ملکوں میں بھی جو اور زیادہ ابھر کر سامنے آ رہی ہیں یہ اب اللہ تعالیٰ کے اعلان کا نتیجہ نکل رہا ہے۔ پھر ماضی میں بھی ہم نے دیکھا اور آج کل بھی دیکھتے ہیں کہ سُود کے لئے دیا گیا جو روپیہ ہے یہ جرموں کی وجہ بن رہا ہے۔ یہ روپیہ اس بات پر آمادہ کرتا ہے کہ اس کو استعمال کرکے دوسروں کے وسائل پر قبضہ کرو تاکہ یہ واپسی قرض بھی محفوظ ہو جائے اور آمد کا ذریعہ بھی مستقلاً بن جائے۔

(خطبات مسرور جلد6 صفحہ455)

جائزہ لینے پر معلوم ہوتاہے کہ تیسرے ممالک کےلاکھوں غریب غربت کی وجہ سے علاج نہیں کراپاتے
دنیا میں ہزاروں کروڑوں انسان ایسے ہیں جوروزانہ مختلف بیماریوں اور وبائوں کا شکار ہوتے ہیں۔ کسی بڑے ہسپتال میں انسان چلاجائے تو لگتاہے کہ دنیا میں سوائے مریضوں کے کوئی ہے ہی نہیں۔ مغربی اورترقیاتی ممالک میں تو علاج کی بہت سہولتیں ہیں جن سے عام آدمی فائدہ اٹھاتاہے لیکن تیسری دنیا کے اور غریب ممالک میں اگر جائزہ لیں تو پتہ چلتاہے کہ لاکھوں مریض ایسے ہیں جواپنی غربت یا وسائل نہ ہونے کی وجہ سے علاج کروا ہی نہیں سکتے۔ اوربیماری کی حالت میں انتہائی بے چارگی میں پڑے ہوتے ہیں۔ بڑی کسمپرسی کی حالت ہوتی ہے۔ پھر ان ملکوں کے ہسپتالوں کی حالت بھی ایسی ہے کہ اگر کوئی ہسپتال میں چلا بھی جائے تو پوری سہولتیں میسر نہیں۔ اگر کچھ سہولتیں ہیں تو ڈاکٹر میسر نہیں ہے اور پھر اس وجہ سے علاج نہیں ہو سکتا۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ دنیا میں لاکھوں لوگ بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں اور جیساکہ مَیں نے کہا جس کوعلاج کی سہولتیں مل جاتی ہیں ان کے لئے شفا اور صحت مقدر ہوتی ہے وہ شفایاب بھی ہو جاتے ہیں۔ اوربہت سی تعداد ایسی بھی ہے جو اپنی اجل مسمّٰی کو پہنچ چکے ہوتے ہیں اور کوئی علاج بھی ان پر کارگر نہیں ہوتا۔ بہت سے ایسے ہیں جو اپنی غلطیوں کی وجہ سے بعض بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں اور بظاہر ان کی عمریں بھی چھوٹی ہوتی ہیں اور صحت بھی صحیح اور ٹھیک نظر آ رہی ہوتی ہے لیکن ذرا سی بیماری سے وہ باوجود علاج کے شفا نہیں پاتے یا کوئی ایسی بیماری ان کو لگ جاتی ہے جو ایک دم خطرناک ہو جاتی ہے۔ ہر ممکن طریقہ اپنی زندگی کو بچانے کا کرتے ہیں لیکن ان کی اجل مسمّٰی سے پہلے ہی ان کی زندگی کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔

(خطبات مسرور جلد6 صفحہ511)

(باقی آئندہ بروز ہفتہ ان شاء اللہ)

(نیازا حمد نائک۔ استاد جامعہ احمدیہ قادیان)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 ستمبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ