• 18 مئی, 2024

جماعت احمدیہ کا نظام خلافت (قسط 3)

جماعت احمدیہ کا نظام خلافت
قسط 3

خلفاء سلسلہ کے ارشادات

اب ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلفاء کے ارشادات پر نگاہ ڈالتے ہیں کہ وہ اس مسئلہ کے بارے میں ہماری کیا راہنمائی فرماتے ہیں۔ سب سے پہلے حضرت سیدنا و مولانا نور الدینؓ خلیفہ اوّل کے رشدوہدایت سے بھرپور اور حق وصداقت سے معمور کلمات کولیتے ہیں۔ آپؓ فرماتے ہیں اور کس فیصلہ کن انداز میں فرماتے ہیں:
1۔ ’’میں نے تمہیں بارہا کہا ہے اور قرآن مجید سے دکھایا ہے کہ خلیفہ بنانا انسان کا کام نہیں ہے بلکہ خداتعالیٰ کا کام ہے۔ آدمؑ کو خلیفہ بنایا، کس نے؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اِنِّی جَاعِلٌ فَی الْارْضِ خَلِیفَۃً‘‘

(بدر 4؍ جولائی 1912ء)

2۔ ’’خلافت کیسری کی دکان کاسوڈا واٹر نہیں۔ تم اس بکھیڑے میں کچھ فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ نہ تم کو کسی نے خلیفہ بنانا ہے اور نہ میری زندگی میں کوئی اور بن سکتا ہے۔ پس جب میں مر جاؤں گاجس کو خدا چاہے گا خدا اس کو آپ کھڑا کردےگا۔‘‘

’’تم نے میرے ہاتھوں پر اقرار کئے ہیں۔ تم خلافت کانام نہ لو۔ مجھے خدا نے خلیفہ بنادیا ہے اور اب نہ تمہارے کہنے سے معزول ہوسکتا ہوں اور نہ کسی میں طاقت ہے کہ وہ معزول کرے۔ اگر تم زیادہ زور دوگے تو یاد رکھو میرے پاس ایسے خالد بن ولید ہیں جو تمہیں مرتدوں کی طرح سزا دیں گے۔‘‘

(تقریر احمدیہ بلڈنگ لاہور 16-17 جون بدر 4؍جولائی 1912ء)

3۔ پھر حضرت خلیفہ اول مولانا نورالدین رضی اللہ عنہ نے ایک موقع پر فرمایا:
’’میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھے بھی خدا نے خلیفہ بنایا ہے جس طرح پر آدمؑ اور ابوبکرؓ و عمرؓ کو خداتعالیٰ نے خلیفہ بنایا اس طرح اللہ تعالیٰ نے مجھے خلیفہ بنایا۔‘‘

(بدر4؍ جولائی 1912ء)

4۔ اسی پر بس نہیں بلکہ حضرت خلیفہ اولؓ توان لوگوں کوجو یہ کہتے ہیں کہ خلیفہ ہم نے بنایاجھوٹا قرار دیتے ہیں۔ فرماتے ہیں:
’’مجھے اگر خلیفہ بنایا ہے توخدا نے بنایا ہے اور اپنے مصالح سے بنایا ہے۔ خدا کے بنائے ہوئے خلیفہ کو کوئی طاقت معزول نہیں کرسکتی۔۔ ۔ ۔ ۔ خداتعالیٰ نے مجھے معزول کرناہوگاتووہ مجھے موت دے دیگا۔ تم اس معاملہ کو خدا کے حوالے کردو۔ تم معزولی کی طاقت نہیں رکھتے۔۔ ۔ ۔ ۔ جھوٹا ہے وہ شخص جوکہتاہے کہ ہم نے خلیفہ بنایا۔‘‘

(الحکم21؍جنوری 1914ء)

5۔ پھر فرمایا:
’’خلیفہ اللہ ہی بناتا ہے۔ میرے بعد بھی اللہ ہی بنائے گا۔‘‘

(پیغام صلح24؍فروری 1914ء)

6۔ اسی طرح آپؓ فرماتے ہیں:
’’۔۔ ۔ خلیفہ بنانے کے کام کو اللہ تعالیٰ نے اپنے ہاتھ میں رکھا ہے۔ جیساکہ اس نے حضرت آدم علیہ السلام اور داؤد علیہ السلام کی خلافت اپنی طرف منسوب کی ہےاسی طرح آنحضرتﷺکے خلفاء کے تقرر کو اپنی طرف منسوب کیا ہے۔ پس کیسے ظالم ہیں وہ لوگ جوکہتے ہیں کہ لوگ خلیفہ بناتے ہیں۔ ان کو شرم آنی چاہئے اور اللہ تعالیٰ کے کلام کی تکذیب نہیں کرنی چاہئے۔ انسان بیچارہ ضعیف البنیان کیا طاقت اور کیا سکت رکھتا ہے کہ وہ دوسروں کو بڑا بناسکے۔ اِنَّ الْفَضْلَ بِیَدِاللّٰہِ کسی کو بڑا بنانا خدا کے ہاتھ میں ہے،کسی کے اختیار میں نہیں ہے۔ انسان کا علم کمزور،اس کی طاقت اور قدرت محدوداور ضعیف۔ طاقتور مقتدر ہستی کاکام ہے کہ کسی کو طاقت اقتدار عطاکرےاور عجیب بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تقرر خلافت کسی انسان کے سپرد نہیں کیا۔‘‘

(ماخوذازالفضل قادیان دارالامان 10 دسمبر 1913ء)

تمام مذکورہ مسلمات کی رو سے یہ بات بالکل واضح ہے اور اس میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں کہ خلافت کے عظیم منصب پر جس کو فائز کیا جاتا ہے وہ خداتعالیٰ کی خاص تقدیر کے ماتحت قدرت ثانیہ کا مظہر ہوتا ہےاورخداتعالیٰ خود اس منصب پر فائز فرماتا ہے۔ قرآن کریم، اسلام اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے جملہ خلفاء کا متفقہ مذہب یہی ہے کہ خلیفہ خدا تعالیٰ بناتا ہےاور باوجود ظاہر انتخاب کے ہرسچے خلیفہ کے انتخاب میں دراصل خداتعالیٰ کا مخفی ہاتھ کام کرتا ہےاور صرف وہی شخص خلیفہ بنتا ہے اور بن سکتا ہے جسے خداتعالیٰ کی ازلی تقدیر اس کام کے لئے پسند کرتی ہےاور اس کے سواکسی کی مجال نہیں کہ مسند خلافت پر قدم رکھنے کی جرأت کرسکے۔ اس حقیقت مسلمہ اور واضح کی طرف جماعت کوحضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا:
’’خوب یاد رکھو کہ خلیفہ خدابناتا ہے اور جھوٹا ہے وہ انسان جو کہتا ہے کہ خلیفہ انسانوں کا مقرر کردہ ہوتاہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ (اپنی) خلافت کے زمانہ میں متواتر اس مسئلہ پرزور دیتے رہے کہ خلیفہ خدا مقرر کرتا ہےنہ انسان اوردرحقیقت قرآن شریف کو غور سے مطالعہ کرنے پرمعلوم ہوتا ہے کہ ایک جگہ بھی خلافت کی نسبت انسانوں کی طرف نہیں کی گئی بلکہ ہرقسم کے خلفاء کی نسبت اللہ تعالیٰ نے یہی فرمایا کہ انہیں ہم بناتے ہیں۔‘‘

(کون ہے جو خدا کے کام کو روک سکے، انوارالعلوم)

سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ اس تعلق میں فرماتے ہیں:
’’ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ خلیفہ اللہ تعالیٰ ہی بناتا ہے۔ اگر بندوں پر اس کو چھوڑا جاتا تو جو بھی بندوں کی نگاہ میں افضل ہوتا اسے ہی وہ اپنا خلیفہ بنالیتے۔ لیکن خلیفہ خود اللہ تعالیٰ بناتا ہے اور اس کے انتخاب میں کوئی نقص نہیں۔ وہ اپنے ایک بندے کو چنتا ہے جسے وہ بہت حقیر سمجھتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ ان کو چن کر اس پر اپنی عظمت اور جلال کا ایک جلوہ کرتا ہے اور جو کچھ وہ تھا اور جو کچھ اس کا تھا اس میں سے وہ کچھ بھی باقی نہیں رہنے دیتا اور خداتعالیٰ کی عظمت اور جلال کے سامنے کلی طورپر فنا اور بے نفسی کا لبادہ پہن لیتا ہے۔‘‘

(الفضل 18مارچ 1927ء)

خلیفہ کے انتخاب میں حکمت

قرآن کریم، احادیث نبویہ، اقوال بزرگان سلف و خلف نیز خداتعالیٰ کی فعلی شہادت سے یہ حقیقت روز روشن کی طرح ظاہر و باہروعیاں ہے کہ ’’خلیفہ خدا بناتا ہے‘‘۔ اور خلافت اللہ تعالیٰ کا وھبی عطیہ ہے۔ خلیفہ کا انتخاب تو محض اللہ تعالیٰ کے فیصلہ کا ایک عملی اظہار ہے۔ اور اس صورتحال کو قرآن کریم کی ان آیات کی روشنی میں بآسانی سمجھا جاسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے:

یَہَبُ لِمَنۡ یَّشَآءُ اِنَاثًا وَّیَہَبُ لِمَنۡ یَّشَآءُ الذُّکُوۡرَ

(شوریٰ: 50)

یعنی اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے بیٹیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے بیٹے عطا کرتا ہے۔

اب اس آیت کریمہ سے صاف ظاہر ہے کہ بیٹے، بیٹیاں پیدا کرنا تو اللہ تعالیٰ کے اختیارم یں ہے۔ مگر بیٹوں یا بیٹیوں کے حصول کے لئے شادی کرنا اور ازدواجی تعلقات کا قائم ہونا شرط ہے۔

قرآن مجید سے یہ بات ثابت ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کسی کے واسطہ سے کام کرواتا ہے اور پھر سے اپنی طرف منسوب کرتا ہے تو اس شخص میں خدائی قوتیں بھی داخل کردی جاتی ہیں تا دنیا کو یہ بات سمجھ آجائے کہ اگرچہ ظاہر میں تو کچھ اور نظر آرہا ہے لیکن بباطن اس میں خدائی تصرف اور خدائی قوتیں کام کر رہی ہیں۔ حضرت رسول مقبولﷺ نے جنگ بدر کے موقع پر مٹھی میں کنکر لئے اور ان کنکروں کو دشمن کی طرف آپﷺ نے پھینکا تو اگرچہ بظاہر وہ ایک انسان کی مٹھی تھی اور کنکر بھی ایک مٹھی میں جتنے آسکتے ہیں اتنے ہی تھے مگر جب حضرت رسول اکرمﷺ نے اس مٹھی سے کنکر پھینکے تو خداتعالیٰ نے فرمایا:

وَمَا رَمَیۡتَ اِذۡ رَمَیۡتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ رَمٰی

(الانفال: 18)

کہ کنکروں کی یہ مٹھی تونے نہیں پھینکی بلکہ اللہ تعالیٰ نے پھینکی ہے۔ نتیجہ بتاتاہے کہ وہ انسان کی مٹھی کے پھینکے ہوئے کنکر نہ تھے۔ جن سے عظیم الشان انقلاب پیدا ہوا اور اس کے نتیجہ میں وہ مسلمان جو دشمن کے مقابلہ میں بظاہر کمزور تھے اپنے سے تین گنا مسلح اورجرار لشکر پر غالب آگئے۔ پس بالکل اسی طرح خلیفہ کا انتخاب گو بظاہر مومنوں کی جماعت کرتی ہے لیکن درپردہ اس انتخاب میں خداتعالیٰ کی قدرت کام کررہی ہوتی ہے۔ خداتعالیٰ بطور نشان ان مومنوں کو اپنا آلہ بنالیتا ہےاور ان سے انتخاب کرواکر اپنی تقدیر پوری کرواتاہے اور اس کے متعلق یہ قرار دیتا ہے کہ اس شخص کو مقام خلافت پر میں نے فائز کیا ہے اور اسے خلافت کا جامہ میں نے پہنایا ہے۔ اس کے ساتھ نصرت خداوندی اور تائیدات الہٰی سے ظاہر ہونے والے نتائج یہ ثابت کررہے ہوتے ہیں کہ یہ انسان کا کام نہیں۔ انسان کو مجال نہیں کہ وہ اتنے بڑے بوجھ کو اٹھا سکے اور اتنے بڑے کام کو انجام دے سکے جب تک خدائی طاقتیں اور اعلیٰ قوتیں اس کے ساتھ نہ ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر خلیفہ راشد غیر معمولی حالات و مشکلات کے باوجود کامیاب و کامران ہوتا ہے۔ کیونکہ دراصل وہ انسانوں کا بنایا ہوا خلیفہ نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کا بنایا ہوا خلیفہ ہوتا ہے۔

اس صورتحال کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم اے اپنی کتاب سلسلہ احمدیہ صفحہ304 میں تحریر فرماتے ہیں:
’’خلفاء کے تقرر اور ان کے مقام کے متعلق اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ خلافت کا منصب کسی صورت میں بھی ورثہ میں نہیں آسکتا۔ بلکہ یہ ایک مقدس امانت ہے جو مومنوں کے انتخاب کے ذریعہ جماعت کے قابل ترین شخص کے سپرد کی جاتی ہے اورچونکہ نبی کی جانشینی کا مقام ایک نہایت نازک اور اہم روحانی مقام ہے اس لئے اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ گو بظاہر خلیفہ کا انتخاب لوگوں کی رائے سے ہوتا ہے مگر اس معاملہ میں خداتعالیٰ خود آسمان سے نگرانی فرماتا ہے اور اپنے تصرف خاص سے لوگوں کی رائے کو ایسے رستہ پر ڈال دیتا ہےجو اس کے منشاء کے مطابق ہو۔ اس طرح گو بظاہر خلیفہ کا تقرر انتخاب کے ذریعہ عمل میں آتا ہے مگر دراصل اس انتخاب میں خداکی مخفی تقدیر کام کرتی ہے اور اسی لئے خدا نے خلفاء کے تقرر کو خود اپنی طرف منسوب کیا ہےاور فرمایا ہے کہ خلیفہ ہم خود بناتے ہیں۔ یہ ایک نہایت لطیف روحانی انتظام ہے جسے شاید دنیا کے لوگوں کے لئے سمجھنا مشکل ہومگر حقیقت یہی ہے کہ خلیفہ کاتقرر ایک طرف تو مومنوں کے انتخاب سے اور دوسری طرف خداکی مرضی کے مطابق ظہور پذیر ہوتاہے اور خدائی تقدیر کی مخفی تاریں لوگوں کے دلوں کو پکڑ پکڑ کر منظور ایزدی کی طرف مائل کردیتی ہے۔ پھر جب ایک شخص خدائی تقدیر کے ماتحت خلیفہ منتخب ہوجاتاہے تواس کے متعلق اسلام کا حکم یہ ہے کہ تمام مومن اس کی پوری پوری اطاعت کریں۔ اور خود اس کے لئے یہ حکم ہےکہ وہ تمام اہم ضروری امور میں مومنوں کے مشورہ سے کام کرے اور گو وہ مشورہ پر عمل کرنے کا پابند نہیں بلکہ اگر مناسب خیال کرے تو مشورہ کو رد کرکے اپنی رائے سے جس طرح چاہے فیصلہ کرسکتا ہے۔ مگر بہرحال اسے مشورہ لینے اور لوگوں کی رائے کا علم حاصل کرنے کا ضروری حکم ہے۔‘‘

(سلسلہ احمدیہ صفحہ307-308)

مولانا عبدالکلام آزاد اپنی کتاب ’’مسئلہ خلافت‘‘ میں خلیفہ کے انتخاب کے بارہ میں تحریر فرماتے ہیں:
’’تمام نصوص و دلائل کتاب وسنت اور اجماع امت پر غورکرنے سے معلوم ہوتاہے کہ شریعت نے شرائط امامت وخلافت کے بارے میں دوصورتیں اختیار کی ہیں اور قدرتی طورپر یہی دو صورتیں اس مسئلہ کی ہوسکتی ہیں۔

اسلام نے اس بارے میں نظام عمل یہ مقرر کیا تھا کہ امام کے انتخاب کا حق امت کو ہے اور طریق انتخاب جمہوری تھا نہ شخصی ونسلی۔ یعنی قوم اور قوم کی صائب الرائے جماعت (اہل حل و عقد) کو شرائط و مقاصد خلافت کے مطابق اپنا خلیفہ منتخب کرنا چاہئے۔ بحکم ’’وَاَمْرُھُمْ شُوْرَیٰ بَیْنَھُم‘‘ بنیاد تمام امور کی شرعاً شوریٰ یعنی باہمی مشورہ ہے نہ کہ نسل وخاندان۔ خلافت راشدہ کا عمل اسی نظام پر تھا۔ خلیفہ اوّل کا انتخاب عام جماعت میں ہواہے۔ خلیفہ دوم کو خلیفہ اوّل نے نامزد کیا اور اہل حل و عقد نے منظور کرلیا۔ خلیفہ سوم کا انتخاب جماعت شورٰی نے کیا۔ خلیفہ چہارم کے ہاتھ پر خود تمام جماعت نے بیعت کی۔ نسل، خاندان، ولی عہدی کو اس میں کوئی دخل نہ تھا۔ اگر دخل ہوتا تو ظاہر ہے کہ خلافت خلیفہ اوّل کے خاندان میں آجاتی، یا دوم و سوم کے خاندان میں، مگر ایسا نہیں ہوا۔ خلیفہ دوم نے تو قوم کو بھی اس کاموقع نہ دیا کہ ان کے لڑکے کو خلیفہ منتخب کرے۔ وصیت کردی کہ وہ کسی طرح منتخب نہیں ہوسکتا۔‘‘

(مسئلہ خلافت صفحہ57 از مولانا ابوالکلام آزاد مطبع اصغر پریس لاہور2004ء)

حضرت شاہ ولی اللہ اس تعلق میں لکھتے ہیں کہ:
’’آیت لَیَسْتَخْلِفَنَّهُمْ کے معنی یہ ہیں اللہ تعالیٰ خلفاء کو مقرر فرماتا ہے جب اصلاح عالم کے لئے کسی خلیفہ کی ضرورت محسوس کرتی ہے تو لوگوں کے دلوں میں الہاماً ڈال دیتا ہےکہ وہ ایسے شخص کو خلیفہ مقرر کریں جسے اللہ تعالیٰ خود خلیفہ بنانا چاہتا ہے۔‘‘

(ازالۃ الخفاء عن الخلفاء از شاہ ولی اللہ محدث دہلوی قدیمی کتب خانہ آرام باغ کراچی)

نظام خلافت کے متعلق بعض سوالات کے جوابات

سوال نمبر 1:۔ اس آیت میں امت مسلمہ سے وعدہ ہے نہ کہ بعض افراد سے؟

جواب:۔ بےشک وعدہ قوم سے ہے مگر قوم سے وعدہ کے یہ معنی نہیں کہ افراد کے ذریعہ سے وہ وعدہ پورا نہ ہو۔ بعض وعدے قوم سے ہوتے ہیں لیکن افراد کے ذریعہ سے پورے کئے جاتے ہیں اور کہا یہی جاتا ہے کہ قوم سے جو وعدہ کیاگیا تھاوہ پورا ہو گیا۔ اس کی مثالیں دنیا کی ہرزبان میں ملتی ہیں۔ مثلاً ہماری زبان میں کہا جاتا ہے کہ انگریز بادشاہ ہیں۔ اب کیا اس کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ ہر انگریز بادشاہ ہے۔ ہر انگریز نہ تو بادشاہ ہے اور نہ بادشاہ بن سکتا ہے مگر کہا یہی جاتا ہے کہ انگریز بادشاہ ہیں۔ اسی طرح کہا جاتا ہے کہ فلاں قوم حاکم ہےحالانکہ ساری قوم کہاں حاکم ہوتی ہےچند افراد کے سپرد حکومت کا نظم ونسق ہوتا ہے اور باقی سب اس کے تابع ہوتے ہیں۔ اسی طرح کہا جاتا ہےفلاں قوم بڑی دولت مند ہے مگر اس کے یہ معنی تو نہیں ہوتے کہ اس قوم کا ہر فرد دولتمند ہے۔

غرض قوم سے وعدہ کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ افراد کے ذریعہ وہ وعدہ پورا نہ ہو۔ کئی وعدے قوم سے ہی ہوتے ہیں لیکن پورے وہ افراد کے ذریعے ہی کئے جاتے ہیں۔ اس کی مثال ہمیں قرآن کریم سے بھی ملتی ہے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَاِذۡ قَالَ مُوۡسٰى لِقَوۡمِهٖ يٰقَوۡمِ اذۡكُرُوۡا نِعۡمَةَ اللّٰهِ عَلَيۡكُمۡ اِذۡ جَعَلَ فِيۡكُمۡ اَنۡۢـبِيَآءَ وَجَعَلَـكُمۡ مُّلُوۡكًا یعنی موسیٰؑ نے اپنی قوم سے کہا کہ اے میری قوم! اللہ تعالیٰ کی اس نعمت کو یاد کروکہ اس نے تم میں اپنے انبیاء مبعوث کئے۔ وَجَعَلَـكُمۡ مُّلُوۡكًا اور اس نے تم کو بادشاہ بنایا۔ اب کیا کوئی ثا بت کر سکتا ہے کہ سب بنی اسرائیل بادشاہ بن گئے تھے۔ یقیناً بنی اسرائیل میں بڑے بڑے غریب بھی ہوں گے مگر موسیٰؑ ان سے یہی فرماتے تھے کہ وَجَعَلَـكُمۡ مُّلُوۡكًا اس نے تم سب کو بادشاہ بنایا۔ مرا د یہی ہے کہ جب کسی قوم میں سے بادشاہ ہو تو چونکہ وہ قوم ان انعامات اور فوائد سے حصہ پاتی ہے جو بادشاہت سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے بالفاظ دیگر ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ وہ بادشاہ ہو گئی۔

سوال نمبر2:۔ دوسرا سوال اس آیت پر یہ کیا جاتا ہے کہ پہلوں میں خلافت نبوت کے ذریعے ہوئی یا ملوک کے ذریعہ سے۔ مگر خلفاء اربعہ نہ نبی مانے جاتے ہیں نہ ملوک پھر یہ وعدہ کس طرح پورا ہوا اور خلفاء اربعہ اس آیت کے کس طرح مصداق ہوئے؟

جواب:۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں پہلوں کو خلافت یا تو نبوت کی شکل میں ملی یا ملوکیت کی صورت میں۔ مگر مشابہت کے یہ معنی نہیں ہوتے کہ ہررنگ میں مشابہت ہوبلکہ صرف اصولی رنگ میں مشابہت دیکھی جاتی ہے۔ مثلاً کسی لمبے آدمی کا ہم ذکرکریں اور پھرکسی دوسرے کے متعلق کہیں کہ وہ بھی ویسا ہی لمبا ہےتو اب کوئی شخص ایسا نہیں ہوگاجو یہ کہے کہ تم نےدونوں کولمبا قرار دیا ہے تویہ مشابہت کس طرح درست ہوئی جبکہ ان میں سے ایک چور ہےاوردوسرا نمازی یا ایک عالم ہے اوردوسرا جاہل بلکہ صرف لمبائی میں مشابہت دیکھی جائےگی۔ ہربات اورہر حالت میں مشابہت نہیں دیکھی جائےگی۔ اس کی مثال قرآن کریم سے بھی ملتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلَيۡكُمۡ رَسُوْلاً شَاھِدًا عَلَیْکُمْ کَمَآاَرْسَلْنَآ اِلٰی فِرْعَوْنَ رَسُوْلاً کہ ہم نے تمہاری طرف اپنا ایک رسول بھیجا ہے جوتم پر نگران ہے۔ اور وہ ایسا ہی رسول ہے جیسے ہم نے فرعون کی طرف رسول بھیجا تھا۔ اب دیکھو اللہ تعالیٰ نے یہاں رسول کریمﷺ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی آپس میں مشابہت بیان کی ہے۔ حالانکہ حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون کی طرف بھیجے گئے تھےمگر رسول کریم ﷺ کسی ایک بادشاہ کی طرف مبعوث نہیں ہوئے تھے۔ اسی طرح موسیٰ بنی اسرائیل کی ہدایت کے لئے مبعوث ہوئے مگر رسول کریم ﷺ ساری دنیا کی ہدایت کے لئے بھیجے گئے۔ پھر موسیٰ علیہ السلام کی رسالت کا زمانہ صرف چند سوسال تک ممتد تھا اور آخر وہ ختم ہوگیا مگر رسول کریمﷺ کی رسالت کا زمانہ قیامت تک کے لئے ہے۔ یہ حضرت موسیٰ ؑ اور آنحضرتﷺ کے حالات میں اہم فرق ہیں مگر باوجود ان اختلافات کے مسلمان یہی کہتے ہیں بلکہ قرآن کہتا ہے کہ رسول کریمﷺ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مثیل ہیں حالانکہ نہ تو رسول کریمﷺ فرعون کی طرح کے کسی ایک بادشاہ کی طرف مبعوث ہوئے، نہ آپ کسی ایک قوم کی طرف تھے بلکہ سب دنیا کی طرف تھے اور نہ آپ کی رسالت کسی زمانہ میں موسیٰؑ کی رسالت کی طرح ختم ہونے والی تھی۔ پس باوجود ان اہم اختلافات کےاگر آپ کی مشابہت میں فرق نہیں آتا تواگرپہلوں کی خلافت سے جزوی امور میں خلفائے اسلام مختلف ہوں تواس میں کیا حرج ہے۔

اصل بات یہ ہے کہ رسول کریمﷺ سے پہلے کے انبیاء چونکہ کامل شریعت لے کر نہیں آئے تھے اس لئے ان کے بعد یا نبی مبعوث ہوئے یا ملوک پیدا ہوئے۔ چنانچہ جب اصلا ح خلق کے لئے الہام کی ضرورت ہوتی تو نبی کھڑا کردیا جاتامگر اسے نبوت کا مقام براہ راست حاصل ہوتااور جب نظام میں خلل واقع ہوتا تو کسی کو بادشاہ بنا دیا جاتا اور چونکہ لوگوں کو ابھی اس قدر ذہنی ارتقاء حاصل نہیں ہوا تھا کہ وہ اپنی اصلاح کے لئے آپ جدوجہد کرسکت اس لئے نہ صرف انبیاء کو اللہ تعالیٰ براہ راست مقام نبوت عطا فرماتا بلکہ ملوک بھی خدا کی طرف سے ہی مقرر کئے جاتےتھے۔ جیسے قرآن کریم میں آتا ہے کہ اِنَّ اللّٰہ قَدْبَعَثَ لَکُمْ طَالُوْتَ مَلِکًا طالوت کو تمہارے لئے خدا نے بادشاہ بنا کر بھیجا ہے۔ گویا ابھی لوگ اس قابل نہیں ہوئے تھے کہ خود اپنے بادشاہ کا بھی انتخاب کرسکیں اور نہ شریعت اتنی کامل تھی کہ اس کے فیضان کی وجہ سے کسی کو مقام نبوت حاصل ہوسکتا مگر رسول کریمﷺچونکہ ایک کامل تعلیم لے کر آئے تھے اس لئے دونو ں قسم کے خلفاء میں فرق ہوگیا۔ پہلے انبیاء کے خلیفے تو نبی ہی ہوتے تھےگو انہیں نبوت مستقل یا براہ راست حاصل ہوتی تھی اور اگر انتظامی امور چلانے کےلئے ملوک مقرر ہوتے تو وہ انتخابی نہ ہوتےبلکہ یا تو ورثہ کےطور پر ملوکیت کو حاصل کرتے یا نبی انہیں اللہ تعالیٰ کے حکم کے ماتحت بطور بادشاہ مقرر کردیتے۔ مگررسول کریمﷺ کی قوم کیونکہ اعلیٰ درجہ کی تھی اس لئے آپ کے بعد خلفاء انبیاء کی ضرورت نہ رہی اس کے ساتھ ہی ملوکیت کی ادنیٰ صورت کو اڑا دیا گیا اور اس کی ایک کامل صورت آپ کو دی گئی اور یہ ظاہر ہےکہ اسلامی خلافت کے ذریعہ سے جس طرح قوم کے ساتھ وعدہ پورا ہوتا ہے کہ اس میں انتخاب کا عنصر رکھا گیا ہے اور قومی حقوق کو محفوظ کیا گیا ہے وہ پہلے بادشاہوں کی صورت میں نہ تھا اور زیادہ کامل صورت کا پید اہو جانا وعدہ کے خلاف نہیں ہوتا۔ جیسے اگر کسی کے ساتھ پانچ روپے کا وعدہ کیا جائے اور اسے دس روپے دے دئیے جائیں تو یہ نہیں کہا جائے گا کہ وعدہ کی خلاف ورزی ہوئی۔ پس اس کے صرف یہ معنی ہیں کہ جس طرح رسول کریمﷺپہلوں سے افضل تھےآپ ؐکی خلافت بھی پہلے انبیاء کی خلافت سے افضل تھی۔

دوسرا جواب یہ ہے کہ رسول کریمﷺفرماتے ہیں عُلَمَاءُ اُمَّتِی کَاَنْبِیَاءِ بَنِی اِسْرَائِیْلَ یعنی میری امت کے علماء انبیاء بنی اسرائیل کی طرح ہیں۔ اس کے یہ معنی نہیں کہ امت محمدیہ کا جو بھی عالم ہے وہ انبیاء بنی اسرائیل کی طرح ہے کیونکہ علماء کہلانے والے ایسے ایسے لوگ بھی ہیں جن کی دینی اور اخلاقی حالت دیکھ کر رونا آتا ہے۔۔ ۔ حقیقت یہ ہے کہ ان علماء سے مراد دراصل خلفاء ہیں جوعلماء روحانی ہوتے ہیں اور اس ارشاد نبوی سے اس طرح ارشاد کیا گیا ہے کہ پہلے نبیوں کے بعد جو کام بعض دوسرے انبیاء سے لیاگیا تھا وہی کام میری امت میں اللہ تعالیٰ بعض علماء ربانی یعنی خلفائے راشدین سے لےگا۔ چنانچہ موسیٰ کے بعد جو کام یوشع سے لیا گیا وہ اللہ تعالیٰ ابوبکرؓ سے لے گااور جو کام داؤد ؑسے لیا گیا وہ اللہ تعالیٰ عمرؓ سے لے گا اور جوکام بعض اور انبیاء مثلاً سلیمانؑ وغیرہ سے لیا گیا وہ اللہ تعالیٰ عثمانؓ اور علیؓ سے لے گا۔ غرض رسول کریمﷺ نے اس حدیث میں اس امر کی طرف اشارہ فرمایا ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے وہ مقام بخشا ہے کہ میری امت کے خلفاء وہی کام کریں گےجو انبیاء سابقین نے کیا۔ پس اس جگہ علماء سے مراد رشوتیں کھانے والے علماء نہیں بلکہ ابوبکرؓ عالم، عمرؓ عالم، عثمانؓ عالم اور علیؓ عالم مراد ہیں۔ چنانچہ جب ادنیٰ ضرورت تھی اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کوپیدا کر دیا اور پھر زیادہ روشن صورت میں جب زمانہ کو ایک نبی کی ضرورت تھی اللہ تعالیٰ نے اس وعدہ کو حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ سے پورا کردیا۔ گوفرق یہ ہے کہ پہلے انبیاء براہ راست مقام نبوت حاصل کرتے تھے مگر آپ ؑ کو نبوت رسول کریمﷺ کی غلامی کی وجہ سے ملی۔

(خلافت راشدہ، انوارالعلوم جلد15صفحہ560-564)

سوال نمبر3:۔ تیسرا سوال یہ کیا جاتاہے کہ اس آیت میں کَمَااسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ آیا ہے۔ چلو ہم مان لیتے ہیں کہ پہلے خلفاء اس آیت کے ماتحت تھے کیونکہ ان کے پاس نظام ملکی تھا لیکن اس آیت سے وہ خلافت جو احمدیہ جماعت میں ہے کیونکر ثابت ہوگئی کیونکہ ان کے پاس تو کوئی نظام ملکی نہیں؟

جواب:۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اٰمَنُوْا اور وَعَمِلُوْاالصّٰلِحٰتِ کی مصداق جماعت کو خلیفہ بنائے گا اور خلیفہ کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ وہ اپنے سے پہلے کا نائب ہوتا ہے۔ پس وعدہ کی ادنیٰ حد یہ ہے کہ ہر نبی کے بعد اس کے نائب ہوں اور یہ ظاہر ہے کہ جس رنگ کا نبی ہواگراسی رنگ میں اس کا نائب بھی ہو جائے تو وعدہ کی ادنیٰ حد پوری ہو جاتی ہے اور چونکہ حضرت مسیح موعودؑ کے سپرد ملکی نظام نہ تھا اس لئے آپؑ کی امرنبوت میں جو شخص نیابت کرے وہ اس وعدہ کو پورا کردیتا ہے۔ اگر حضرت مسیح موعودؑ کو ملکی نظام عطا ہوتا تب تو اعتراض ہوسکتا تھاکہ آپ کے بعد خلفاء نے نیابت کس طرح کی مگر نظام ملکی عطا نہ ہونے کی صورت میں یہ اعتراض نہیں ہوسکتاکیونکہ جس نبی کا کوئی خلیفہ ہو اسے وہی چیز ملے گی جو نبی کے پاس ہو گی اور جو اس کے پاس نہیں ہو گی وہ اس کے خلیفہ کس طرح ملے گی۔

غرض جس رنگ کا کوئی شخص ہو اس رنگ کا اس کا جانشین ہوتا ہے۔ چونکہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کے سپرد ملکی نظام نہیں تھا اس لئے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ آپؑ کے خلفاء کے پاس کوئی نظام ملکی کیوں نہیں؟

دوسرا جواب یہ ہے کہ اس آیت میں خلافت نظامی کے بارہ میں یہ نہیں آیا کہ کَمَااسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ بلکہ اس آیت میں جس قدر وعدے ہیں سب کے ساتھ ہی یہ الفاظ لگتے ہیں۔ مگر غیر مبائعین میں سے بھی جو لوگ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کو نبی مانتے ہیں جیسے شیخ مصری وغیرہ تسلیم کرتے ہیں کہ آپ کی نبوت کلی طور پر پہلے نبیوں کی نبوت کی قسم کی نبوت نہیں بلکہ جیساکہ حضرت مسیح موعودؑ نے خود لکھاہے۔ یہ نبوت پہلی نبوتوں سے ایک بڑااختلاف رکھتی ہے اور وہ یہ کہ پہلے نبی مستقل نبی تھے اور آپ غیر مستقل نبی ہیں۔ پس جس طرح آپ کی نبوت کے پہلے نبیوں سے مختلف ہونے کے باوجود اس وعدے کے پورا ہونے میں کوئی فرق نہیں آیا کہ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَااسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ اسی طرح خلافت کے مختلف ہونے کی وجہ سے بھی اس وعدے کے پورا ہونے میں کوئی فرق نہیں آسکتا اور اگر بعض باتوں میں پہلی خلافتوں سے اختلاف رکھنے کی وجہ سے یہ خلافت اس آیت سے باہر نکل جاتی ہے تو حضرت مسیح موعودؑ کی نبوت بھی اس آیت کے ماتحت نہیں آتی کیونکہ اگر ہماری خلافت ابوبکرؓ اورعمرؓ کی خلافت سے کچھ اختلاف رکھتی ہے تو حضرت مسیح موعودؑ کی نبوت بھی پہلے نبیوں سے کچھ اختلاف رکھتی ہے۔ پس اگر ہماری خلافت اس آیت کے ماتحت نہیں آتی تو ماننا پڑے گا کہ نعوذ باللہ حضرت مسیح موعودعلیہ السلام کی نبوت بھی اس آیت کے ماتحت نہیں آتی حالانکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس نبوت کے باوجود مختلف ہونے کے اسی آیت کے ماتحت قرار دیتے ہیں۔ پس جس طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی نبوت پہلے نبیوں سے اختلاف رکھنے کے باوجود اس آیت کے وعدہ میں شامل ہے اسی طرح خلافت باوجود پہلی خلافتوں سے ایک اختلاف رکھنے کے اس آیت کے وعدے میں شامل ہے۔

(خلافت راشدہ، انوارالعلوم جلد15 صفحہ564-566)

سوال نمبر4:۔ چوتھا سوال یہ ہے کہ اگر اس آیت سے افراد مراد لئے جائیں تو یہ اعتراض ہوتا ہے کہ وعدہ دو قسم کے وجودوں کے متعلق ہے۔ ایک نبیوں کے متعلق اور ایک بادشاہوں کے متعلق۔ چونکہ آنحضرتﷺ سے پہلے جس قسم کے نبی آیا کرتے تھے ان کو رسول کریمﷺ نے ختم کردیا اور بادشاہت کو آنحضرتﷺ نے پسند نہیں فرمایا بلکہ صاف فرما دیا کہ میرے بعد خلفاء بادشاہ ہوں گے تو پھر کیوں نہ تسلیم کیا جائے کہ اس آیت میں وعدہ قوم سے ہی ہے افراد سے نہیں۔

جواب:۔ اس کاجواب یہ ہے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پہلی قسم کی نبوت بھی ختم ہو گئی ہے اور پہلی قسم کی ملوکیت بھی ختم ہوگئی لیکن کسی خاص قسم کے ختم ہوجانے سے یہ مراد نہیں ہوتی کہ اس کا قائم مقام جو اس سے اعلیٰ ہووہ نہیں آسکتا۔ رسول کریمﷺ چونکہ سب انبیاء سے نرالے تھے اس لئے ضروری تھا کہ آپؐ کے بعد کا نظام بھی سب سے نرالہ ہو۔ اس کا نرالہ ہونااسے مشابہت سے نکال نہیں دیتا بلکہ اس کے حسن اور خوبصورتی اور زیادہ بڑھا دیتاہے۔ چنانچہ آپؐ چونکہ کامل نبی تھے اوردنیا میں کامل شریعت ہوئے تھےاس لئے ضروری تھا کہ آپؐ کے بعد ایسے نبی ہوتے جو آپؐ سے فیضان حاصل کرکے مقام نبوت حاصل کرتے اسی طرح آپؐ کا نظام چونکہ تمام نظاموں سے زیادہ کامل تھا اس لئے ضروری تھا کہ آپؐ کے بعد ایسے خلفاء ہوتے جو پبلک طور پر منتخب ہوتے۔ غرض رسول کریمﷺ کے بعد اللہ تعالیٰ نے نبوت بھی اور ملوکیت بھی ایک نئے رنگ میں ڈھال دی اور پہلی قسم کی نبوت اور پہلی قسم کی ملوکیت کو ختم کردیا۔

یادرکھنا چاہئے کہ خلافت نبوت پہلے نبی کی تائید کے لئے آتی ہے اور خلافت ملوکیت مومنین کے حقوق کی حفاظت اور ان کی قوتوں کے نشوونما کے لئے آتی ہے۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ نبی کریمﷺ سے پہلے انبیاء کو جو خلفاء انبیاء ملے تو ان کی خلافت ناقص تھی کیونکہ گووہ ان کے کام کو چلاتے تھے مگر نبوت براہ راست پاتے تھے۔ پس ان کی خلافت کامل نہ ہوتی تھی اور اگر ان کی اقوام کو خلفاء ملوکی ملے تو ان کی خلافت بھی ناقص خلافت ہوتی تھی کیونکہ و ہ اختیارات براہ راست ورثہ سے پاتے تھےاوراس کے نتیجہ میں ان کی قسم کے قوٰی پورے طور پر نشوونما نہ پاتے تھے کیونکہ ان کے مقرر کرنے میں امت کا ہاتھ نہ ہوتا تھا اسی طرح جس طرح نبیوں کا اپنے تابع نبیوں کی نبوت میں دخل نہ ہوتا تھا۔ چنانچہ جہاں بھی باپ کے بعد بیٹا اور بیٹے کے بعد پوتا ورثہ کے طور پر تخت حکومت سنبھالتے چلے جاتے ہیں وہاں اس بات کی ضرورت محسوس نہیں کی جاتی کہ پبلک کے علمی معیار کو بلند کیا جائے اور اس کے ذہنی قوٰی کو ایسا نشوونما دیاجائے کہ صحیح رنگ میں حکام کا انتخاب کر سکے لیکن جہاں حکام کاانتخاب پبلک کے ہاتھ میں ہووہاں حکومت اس بات سے مجبور ہوتی ہے کہ فردکو عالم بنائے، ہر فرد کو سیاست دان بنائےاور ہر فرد کو ملکی حالات سے باخبر رکھےتاکہ انتخاب کے وقت ان سے کوئی بیوقوفی سرزدنہ ہو جائے۔ پس اسلام ہی وہ مذہب ہے جس نے لوگوں کے علمی نشوونما کو مدنظر رکھتے ہوئے حکام کے انتخاب کا حکم دیا۔ پس رسول کریمﷺ سے پہلے انبیاء کی خلافت خواہ وہ خلافت نبوت ہو یا خلافت ملوکیت ناقص تھی لیکن رسول کریمﷺ چونکہ صحیح معنوں میں کامل نبی تھے اس لئے آپؐ کے بعد جو نبی آیایا آئیں گے وہ آپ ؐکے صرف تابع ہی نہ ہوں گے بلکہ آپؐ کے فیض سے نبوت پانے والے ہوں گے۔ اسی طرح چونکہ قوم صحیح معنوں میں کامل امت تھی جیساکہ فرمایا کُنْتُمْ خَیْرَاُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ اس لئے ضروری تھا کہ ان کے کام کو چلانے والے بھی اسی رنگ میں آئیں جس طرح اس امت میں نبی آنے تھے یعنی ان کے انتخاب میں قوم کو دخل نہ ہوتا تھا بلکہ انتخابی خلیفہ ہوں تاکہ امت محمدیہ کی پوری ترجمانی کرنے والے ہوں اور امت کی قوت کا صحیح نشوونما ہو۔ چنانچہ اس حکم کی وجہ سے ہر خلیفہ اس بات پر مجبور ہے کہ وہ لوگوں میں زیادہ سے زیادہ علم اور سمجھ کا مادہ پیدا کرے تاکہ وہ اگلے انتخاب میں کوئی غلطی نہ کرجائیں۔ پس یہ فرق اس وجہ سے ہے کہ نبی کریمﷺسید الانبیاء ہیں اور آپؐ کی امت خَیْرُالْاُمَم ہے۔ جس طرح سیدالانبیاء کے تابع نبی آپؐ کے فیضان سے نبوت پاتے ہیں اسی طرح خَیْرُالْاُمَم کے خلفاء قوم کی آواز سے خلیفہ مقرر ہوتے ہیں۔ پس یہ نظام اسلام کی برتری اور نئی اسلام اور امت اسلامیہ کے علو مرتبت کی وجہ سے ہے اور اس سے خلافت فردی کو مٹایا نہیں گیابلکہ خلافت شخصی کو زیادہ بہتر اور مکمل صورت میں پیش کیا گیا ہے۔

(خلافت راشدہ،ا نوارالعلوم جلد15 صفحہ568-579)

سوال نمبر5:۔ منکرین خلافت ایک سوال یہ اٹھاتے ہیں کہ کیا اگر خلافت نہ رہی تو پھر اس وقت کے مسلمانوں کا کیا حال ہوگا۔ پہلے بھی توتیس سال کے بعد خلافت راشدہ ختم ہو گئی تھی۔ اس سے امت مسلمہ پر کون سی قیامت ٹوٹ پڑی تھی؟

جواب:۔ اس سوال کا جواب دیتےہوئے حضورؓ نے فرمایا:
دیکھو قرآن مجید میں وضو کے لئے ہاتھ دھونا ضروری ہے لیکن اگر کسی کا ہاتھ کٹ جائے تو اس کا وضو بغیرہاتھ دھوئے کے ہو جائے گا۔ اب اگر کوئی شخص کسی ایسے ہاتھ کٹے آدمی کو پیش کرکے کہے کہ دیکھو اس کا وضو ہو جاتا ہے یا نہیں؟ جب یہ کہیں کہ ہاں ہو جاتا ہے تو وہ کہے کہ بس اب میں بھی ہاتھ نہ دھوؤں گاتو کیا وہ راستی پر ہوگا؟ ہم کہیں گے اس کا ہاتھ کٹ گیا مگر تیرا تو موجود ہے۔ پس یہی جواب ان معترضین کا ہے ہم انہیں کہتے ہیں کہ ایک زمانہ میں جابر بادشاہوں نے تلوار کے زور سے خلافت راشدہ کو قائم نہ ہونے دیا کیونکہ ہرکام ایک مدت کے بعد مٹ جاتا ہے پس جب تلوار کے زور سے مٹا دی گئی تواب کسی کو گناہ نہیں کہ و ہ بیعت خلیفہ کیوں نہیں کرتا۔ مگر اس وقت وہ کون سی تلوار ہے جو ہم کو قیام خلافت سے روکتی ہے۔ اب بھی اگر کوئی حکومت زبردستی خلافت کے سلسلہ کو روک دے تو یہ الہٰی فعل ہو گااور لوگوں کو رکنا پڑے گا۔ لیکن جب تک خلافت میں کوئی روک نہیں آتی اس وقت تک کون خلافت کو روک سکتا ہے اور اس وقت تک کہ خلیفہ ہوسکتا ہے جب کوئی خلافت کا انکار کرے گاوہ اسی حکم کے ماتحت آئے گا جو ابوبکر، عمر، عثمان رضی اللہ عنھم کے منکرین کا ہے۔ ہاں جب خلافت ہی نہیں تو اس کے ذمہ دار تم نہیں۔ سارق کی سزا قرآن مجید میں ہاتھ کاٹنا ہے۔ اب اگر اسلامی سلطنت نہیں اور چور کا ہاتھ نہیں کاٹا جاتا تو یہ کوئی قصور نہیں۔ غیر اسلامی حکومت اس حکم کی پابند نہیں۔‘‘

(منصب خلافت، انوارالعلوم جلد2 صفحہ61-62)

سوال نمبر6:۔ غیر مبائعین کی طرف سے نظام خلافت کے تعلق میں ایک سوال یہ کیا جاتا ہے کہ خلافت راشدہ اولیٰ کے تمام خلفاء کو بادشاہت بھی حاصل تھی۔ اگر خلافت احمدیہ خلافت راشدہ اولیٰ کی ظل ہے اور خلافت علیٰ منہاج نبوت ہے تو پھر خلافت احمدیہ کو بادشاہت کیوں حاصل نہیں؟

جواب:۔ اس سوال کے جواب میں حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:
’’ہاں ایک بات یاد رکھنی چاہئے کہ خلیفہ اپنے پیش رو کے کام کی نگرانی کے لئے ہوتا ہے اسی لئے آنحضرتﷺ کے خلفاء ملک ودین دونوں کی حفاظت پر مامور تھے کیونکہ آنحضرتؐ کو اللہ تعالیٰ نے دینی اور دنیاوی دونوں بادشاہتیں دی تھیں لیکن مسیح موعودؑ کے ذریعہ آنحضرتﷺ کا جمالی ظہور ہوا صرف دینی بادشاہ تھا اس لئے اس کے خلفاء بھی اسی طرز کے ہوں گے۔‘‘

(کون ہے جو خدا کے کام کو روک سکے، انوار العلوم جلد2 صفحہ13)

سوال نمبر7:۔ ایک اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ خلافت موعودہ جس کا اس آیت استخلاف میں ذکر ہے محض اس خلیفہ کے متعلق ہے جو نبی کے معاً بعد آتا ہے نہ کہ خلفاء کے ایک لمبے سلسلہ کے متعلق؟

جواب:۔ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ اپنی تقریر بعنوان خلافت راشدہ میں فرماتے ہیں:
’’رسول کریمﷺنے خود چاروں خلافتوں کو خلافت راشدہ قرار دیا ہے۔ آپﷺ فرماتے ہیں عَنْ سَفِیْنَۃَ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِیَّﷺیَقُوْلُ الْخِلاَفَۃُ ثَلَاثُوْنَ سَنَۃً ثُمَّ تَکُوْنُ مُلْکًا یعنی حضرت سفینہؓ کہتے ہیں میں نے رسول کریمﷺکو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ میرے بعد خلافت صرف تیس سال ہوگی اس کے بعد ملوکیت قائم ہوجائے گی۔ اور چاروں خلفاء کی مدت صرف تیس سال ہی بنتی ہے۔ پس جب آنحضرتﷺ خلافت کو چاروں خلفاء تک لمبا کرتے ہیں تو کسی دوسرے کا کیا حق ہے کہ اسے پہلے خلیفہ تک محدود کرے۔

بعض لوگ کہتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ نے اس خیال کو ’’سرالخلافہ‘‘ میں بیان فرمایا ہے مگر یہ درست نہیں۔ آپ نے جو کچھ فرمایا ہے وہ شیعوں کے رد میں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ رسول کریمﷺ کے اصل جانشین حضرت علیؓ تھے۔ آپؑ اس کے جواب میں فرماتے ہیں کہ خلافت کا وعدہ قرآن کریم کی آیت وَعَدَاللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ میں ہے اور اس میں جو شرائط پائی جاتی ہیں وہ بدرجہ کمال حضرت ابوبکرؓ میں پائی جاتی ہیں۔

پس آپؑ کا مطلب تو یہ ہے کہ قرآن کریم سے حضرت ابوبکرؓ کی خلافت حضرت علیؓ کی خلافت سے زیادہ ثابت ہے نہ یہ کہ حضرت علیؓ خلیفہ نہ تھے۔ آپؑ نے اپنی کتب میں چاروں خلفاء کے الفاظ بھی استعمال کئے ہیں اور حضرت علیؓ کی خلافت کا بھی ذکر کیا ہے۔

دوسرا جواب یہ ہے کہ پہلے خلیفہ کی خلافت ثابت ہو جائے تو دوسرے کی خودبخود ثابت ہوجاتی ہے۔ جیسے حضرت ابوبکرؓ جب پہلے خلیفہ ہوئے اور پھر حضرت ابوبکرؓ نے حضرت عمرؓ  کا انتخاب کیا اور مسلمانوں سے مشورہ کر کے انہیں خلیفہ مقرر کیا۔

سوال نمبر8:۔ جب ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ خلیفہ خدا بناتا ہے لیکن اس کے عملی اظہار کے لئے انتخاب کو ضروری قرار دیا ہے تو اس پر یہ سوال اٹھتا ہے کہ حضرت عمرؓ کے لئے تویہ طریق نہیں اپنایا گیا بلکہ حضرت ابوبکرؓ نے اپنی زندگی میں ہی انہیں اپنے بعد بطور خلیفہ نامزد کر دیا تھا۔ اسی طرح حضرت عثمانؓ کے انتخاب کے لئے بھی معروف طریق نہیں اپنایا گیا بلکہ حضرت عمرؓ نے اپنی زندگی میں ہی 7,6افراد پر مبنی ایک کمیٹی تشکیل دے دی تھی اور ساتھ ہی یہ پابندی بھی لگا دی تھی کہ ابن عمرؓ کے علاوہ دیگر کمیٹی کے افراد اپنے سے کسی کو متفقہ طور پر خلیفہ منتخب کریں گے۔ لہٰذا ان دونوں خلفاء کے لئے مروجہ طریق انتخاب عمل میں نہیں لایا گیا۔

جواب:۔ اس سوال کا جواب حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ ایم۔ اے اپنی کتاب سیرۃ خاتم النبیین میں یوں فرماتے ہیں:
’’اس شبہ کے جواب میں پہلے ہم حضرت عمرؓ  کی خلافت کے سوال کو لیتے ہیں۔ سو جاننا چاہئے کہ بے شک اسلا م میں خلافت وامارت کے قیام کے لئے مشورہ اور انتخاب کاطریق ضروری ہے مگر جیساکہ ہم اوپر بیان کرچکے ہیں مشورہ اور انتخاب کے طریق کی نوعیت اور اس کی تفصیل کےمتعلق اسلام نے کوئی خاص شرط یاحدبندی مقرر نہیں کی بلکہ اس قسم کے فروعی سوالات کو وقتی حالات پر چھوڑ دیا اور ظاہر ہے کہ مختلف قسم کے حالات میں مشورہ اور انتخاب کی صورت مختلف ہو سکتی ہےاور اس اصل کے ماتحت اگر بنظر غور سےدیکھا جاوے تو حضرت عمرؓ  کی خلافت کا معاملہ یوں طے ہوا تھا کہ جب حضرت ابوبکرؓ جو ایک منتخب شدہ خلیفہ تھے فوت ہونے لگے تو چونکہ اس وقت تک ابھی فتنہ ارتداد کے اثرات پوری طرح نہیں مٹے تھے اور خلافت کا نظام بھی ابھی ابتدائی حالت میں تھا۔ حضرت ابوبکرؓ نے یہ دیکھتے ہوئے کہ آئندہ خلافت کے لئے سب سے موزوں اور اہل شخص حضرت عمرؓ ہیں اور یہ کہ اگر خلیفہ کے انتخاب کو رائے عامہ پر چھوڑ دیا گیا تو ممکن ہے کہ حضرت عمرؓ اپنی طبیعت کی ظاہری سختی کی وجہ سے انتخاب میں نہ آسکیں اور امت محمدیہؐ میں کسی فتنہ کا دروازہ کھل جاوے، اہل الرائے صحابہ کو بلا کر ان سے مشورہ لیا اور اس مشورہ کے بعد حضرت عمر ؓکو جن کا حضرت ابوبکرؓ کے ساتھ کوئی رشتہ نہیں تھا بلکہ قبیلہ تک جدا تھا اپنا جانشین مقرر کردیا۔ حالانکہ اس وقت حضرت ابوبکرؓ کے اپنے صاحبزادے اور دیگر اعزہ و اقارب کثرت کے ساتھ موجود تھے۔ اب ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ یہ صورت ایسی ہے کہ اسے ہرگز مشورہ اور انتخاب کی روح کے منافی نہیں سمجھا جاسکتاکیونکہ اول تو حضرت ابوبکرؓ نے یہ فیصلہ خودبخود نہیں کیا بلکہ اہل الرائے صحابہ کے مشورہ کے بعد کیاتھا۔ دوسرے حضرت ابوبکرؓ خود ایک منتخب شدہ خلیفہ تھےجس کی وجہ سے گویا ان کا ہر فیصلہ قوم کی آواز کا رنگ رکھتا تھا اور پھر انہوں نے اپنے کسی عزیز کو خلیفہ نہیں بنایا بلکہ ایک بالکل غیر شخص کو خلیفہ بنایاجس کے معاملہ میں یہ امکان نہیں ہو سکتا تھا کہ لوگ خلیفہ وقت کی قرابت کا لحاظ کر کے مشورہ میں کمزوری دکھائیں گے۔ اس صورت میں ہرگز یہ نہیں سمجھا جا سکتا کہ مشورہ اور انتخاب کے طریق کوتوڑا گیا ہے۔ بلکہ یہ صورت بھی درحقیقت مشورہ کی ایک قسم سمجھی جائے گی۔ علاوہ ازیں حضرت عمرؓ  کی خلافت کے متعلق آنحضرتﷺ کی ایک صریح پیشگوئی بھی تھی۔ جس کی وجہ سے کسی مسلمان کوان کی خلافت پر اعتراض نہیں ہو سکتا تھا اور نہ ہوا۔ بلکہ سب نے کمال انشراح کے ساتھ اسے قبول کیا۔

دوسرا سوال حضرت عثمانؓ کی خلافت کا ہے۔ سو اوّل تو ان کا انتخاب خود محدود مشورہ سے ہی ہوا ہو مگر بہرحال وہ بطریق مشورہ تھا اور ان کی خلافت کے متعلق یہ نہیں کہا جاسکتا کہ وہ سابقہ خلیفہ کے حکم سے قائم ہوئی تھی اور چونکہ اسلام نے مشورہ اور انتخاب کے طریق کی تفاصیل میں دخل نہیں دیا بلکہ تفاصیل کے تصفیہ کو وقتی حالات پرچھوڑ دیا ہے اس لئے محدود مشورہ کا طریق جو حضرت عثمانؓ کی خلافت کے متعلق اختیار کیا گیا وہ ہرگز اسلامی تعلیم کے خلاف نہیں سمجھا جاسکتا۔ خصوصاً جبکہ اس بات کو بھی مدنظر رکھا جاوے کہ حضرت عبدالرحمٰن بن عوفؓ نے جو اس شوریٰ کے صدر تھے جس نے حضرت عثمانؓ کی خلافت کا فیصلہ کیا اپنے طور پر بہت سے اہل الرائے صحابہ سے مشورہ کرلیا تھا اور رائے عامہ کو ٹٹولنے کے بعد خلافت کا فیصلہ کیا گیا تھا اور پھر یہ کی اس وقت حالات ایسے تھے کہ اگر اس معاملہ کوکھلے طریق پر رائے عامہ پر چھوڑا جاتا تو ممکن تھا کہ کوئی فتنہ کی صورت پیدا ہوجاتی۔ علاوہ ازیں حضرت عمرؓ نے یہ بھی تصریح کر دی تھی کہ گو میرے لڑکے کو مشورہ میں شامل کیا جاوے۔ مگر اسے خلافت کا حق نہیں ہوگا۔ پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ حضرت عمرؓ  کی طرح حضرت عثمانؓ کی خلافت کے متعلق بھی آنحضرتﷺ کی پیشگوئی تھی۔ اس لئے ان کی خلافت پر کسی مسلمان کو اعتراض نہیں ہوا۔

(سیرۃ خاتم النبیین از حضرت مرزا بشیراحمدؓ ایم۔ اے صفحہ 45-46)

(باقی آئندہ بروز ہفتہ ان شاء اللہ)

(ابو ہشام بن ولی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 ستمبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ