• 19 مئی, 2024

دیوسائی اور کٍسارا جھیل

دیوسائی اور کٍسارا جھیل
دیوسائی کے وسیع و عریض سبزہ زار اور ان میں پوشیدہ ایک نگینہ

قراقرم اور ہمالیہ کے سلسلہ ہائے کوہ کے درمیان واقع سطح مرتفع دیو سائی دنیا کی دوسری بلند ترین سطح مرتفع ہے۔ لہر دار ڈھلوانو ں پر مشتمل یہ میدان 482 مربع کلومیٹر کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ دیوسائی کو 1993ء میں نیشنل پارک قراردیا گیا۔ نیشنل پارک کا درجہ ملنے کے بعد اس کا رقبہ 3000 مربع کلومیٹر پر محیط ہوگیا۔ دیوسائی کی سطح سمندر سے اوسط بلندی 13497 فٹ ہے۔

دیوسائی گلگت بلتستان کے ضلع استور اور ضلع سکردو کے درمیان واقع ہے۔ استور سے چلم چوکی تک پختہ سڑک ہے۔ اس طرف سے دیوسائی میں داخلہ بذریعہ چھاچھر پاس ہوتا ہے جس کی بلندی 12500 فٹ ہے۔ سکردوکی طرف سے دیوسائی میں داخلہ بذریعہ علی ملک پاس ہوتا ہے جس کی بلندی 13400فٹ ہے۔ چلم چوکی سے علی ملک پاس کے درمیان کچاجیپ ٹریک ہے جس پر سفر کرتے ہوئے دیوسائی کو پار کیا جاتا ہے لیکن یہ صرف موسم گرما کے چند ماہ ہی کھلا ہوتا ہے۔ موسم سرما کی بھاری برف باری میں دیوسائی ہر قسم کی آمدو رفت کے لیے بند رہتا ہے۔ علی ملک پاس سے سکردو تک سڑک اگرچہ پختہ ہے لیکن شکست و ریخت کا شکار ہے جس کی مرمت کا کام جاری ہے۔


لفظ دیوسائی دو الفاظ کا مجموعہ ہے۔ ’’دیو‘‘ اور ’’سائی‘‘۔ جس کا مطلب ہے دیو کا سایہ۔ دیوسائی کا سب سے بڑا ’’دیو‘‘ یہاں کا انتہائی بے اعتبار موسم ہے۔ ابھی دھوپ ہے تو اگلے چند لمحات میں بارش بلکہ برفباری بھی ہوسکتی ہے۔ ہر طرح کے موسم کے لیے ذہنی طور پر تیار رہنا پڑتا ہے۔ یہ وسیع و عریض میدان ایک غیر آباد علاقہ ہے۔ اس کے موسموں کی بے اعتباری نے اسے ہمیشہ سے بے آباد رکھا ہے۔ اور اسی وجہ سےیہ ایک غیر دوستانہ رویہ اور مزاج رکھنے والا میدان مشہور ہے۔

دیوسائی میں واقع جھیلوں میں مشہور ترین جھیل شیوسر ہے۔ یہ پاکستان کی تیسری بلند ترین جھیل ہونے کے ساتھ 3 کلومیٹر لمبائی اور 2.5کلومیٹر چوڑائی کے ساتھ ایک وسیع و عریض بھی ہے جو بلتستان کی بڑی جھیلوں میں شمار ہوتی ہے۔ یہ جھیل جیپ ٹریک پر ہی واقع ہے۔ لفظ شیوسر دو الفاظ کا مجموعہ ہے۔ ’’شیو‘‘ کا مطلب اندھی اور ’’سر‘‘ جھیل کا ہم معنی ہیں۔ اس کے نام کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس جھیل میں نہ توکہیں سے پانی آتا دکھائی دیتا ہے اور نہ ہی جھیل سے پانی کا اخراج ہوتا نظر آتا ہے۔ اس کے باوجود جھیل کا پانی تازہ اور میٹھا ہے۔

شیوسرکے علاوہ برجی لا جھیل، دریلہ کی جھیلیں اور لچھن جھیل بھی دنیا کے سامنے آچکی ہیں۔ دیوسائی میں ایک اندازے کے مطابق 30 سے زائد جھیلیں موجود ہیں جن میں سے بیشتر تا حال پردہ گمنامی میں ہیں۔ انہی گمنام جھیلوں میں سے ایک جھیل کو دریافت کرنے کی غرض سے ہم ایک مرتبہ پھر دیوسائی جاپہنچے۔

دیوسائی میں ایک مقام کالاپانی پر ہم نے ڈیرے ڈالے۔ یہ ایک کیمپنگ سائٹ ہے جہاں اپنے مقامی دوستوں کی وساطت سے ہم نے اپنا خیمہ لگایا۔ اگلے دو روز شیوسر جھیل اور اردگرد کی سیر کرنے میں صرف کیے تاکہ ہمارے بدن بلندی اور آب و ہوا سے ہم آہنگ ہوجائیں۔

اس دوران اپنی مجوزہ جھیل کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کی۔ مقامی دوستوں سے جھیل کے بارے میں معلومات دستیاب نہ ہوسکیں۔ کالا پانی کے عقب میں چند بکروال قیام پذیر تھے جن سے صرف اس قدر معلوم ہوسکا کہ وہ جھیل عام راستے سے مخالف سمت میں واقع ہے۔ کالاپانی سے ہم نے اپنے پیدل سفر کا آغاز کیا۔ ہم چار کوہ نورد تھے۔ ہمارا ایک دوست پیدل سفر نہیں کرسکتا تھا۔ اس کے لیے ایک مقامی بکروال رحمان کو اس کے گھوڑے سمیت اجرت پر ساتھ لیا اور گمنام جھیل کو تلاش کرنے نکل کھڑے ہوئے۔

دیوسائی کی لہردار ڈھلوانوں میں یہ سفر بہت ہی آسان تھا۔ ہم سبزہ زاروں اور گلزاروں میں گپ شپ کرتے چلے جارہے تھے۔ دور افق پر بادل اکٹھے ہورہے تھے۔ موسم ابر آلود ہورہا تھا۔ ہمیں خدشہ پیدا ہوا کہ اگر بارش شروع ہوگئی تو ہمارے لیے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ اور پھر وہی ہوا جس کا ہمیں ڈر تھا۔ ہم 14000 فٹ کی بلندی پر تھے کہ اچانک ہی بارش شروع ہوگئی لیکن یہ ہلکی تھی لہٰذا ہم نے سفر معطل کرنا مناسب نہ سمجھا۔ ہم نے برساتیاں اوڑھ لیں۔ اس طرح بارش سے بچاؤ ہوگیا۔ بارش میں تیزی آتی گئی اور جلد ہی یہ طوفانی شکل اختیار کرگئی۔ ہم وہیں ٹھہر گئے۔

ہماری مشکلات میں تب اضافہ ہوا جب ژالہ باری شروع ہوگئی۔ گولیوں کی مانند برستے اولےہمارے سروں پر پتھروں کی طرح پڑنے لگے۔ اب ہمارے پاس واپسی کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا۔ نقشے پر دیکھا تو ہم جھیل سے صرف 1کلومیٹر کے فاصلے پر تھے۔ یہ راستہ زیادہ سے زیادہ 15منٹ کا تھا لیکن یہ مقام چونکہ خط درخت (Tree Line) سے اوپر ہے لہٰذا ہمیں کسی قسم کی پناہ گاہ میسر نہ تھی۔ ناچار ہمیں واپسی کی راہ اختیار کرنا پڑی۔ 13000 فٹ کی بلندی پر پہنچے تو ژالہ باری کی زد سے باہر نکل آئے۔ بارش تاحال جاری تھی۔ ہم رحمان بکروال کے خیمے میں ٹھہر گئے۔ لکڑی کی آگ نے سردی سے تو محفوظ کیا ہی، ہمارےبھیگے ہوئے کپڑے اور جوتے بھی کافی حد تک خشک ہوگئے۔ بارش تھمی تو شام کا وقت ہوچکا تھا۔ جھیل تک رسائی کو اگلے دن تک التواء میں ڈال کر ہم واپس کالاپانی کیمپ سائٹ پر آگئے۔

اگلے دن ایک نئے جوش کے ساتھ ہم نے ایک مرتبہ پھر رخت سفر باندھا۔ گزشتہ روز جس دوست نے گھوڑے پر سواری کی تھی اس نے آج ہمارا ساتھ دینے سے معذرت کرلی۔ ہم تین کوہ نوردوں نے ایک مرتبہ پھر قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا اور جانے پہچانے راستے پر سفر شروع کیا۔ آج موسم صاف تھا۔ ہم مسلسل چلتے رہے تا آنکہ ہم آخری چڑھائی کے دامن میں جاپہنچے۔ یہاں کچھ دیر وقفہ لیا۔ ہلکی پھلکی پیٹ پوجا کے بعد ہم پھر چل پڑے اور جلد ہی 600فٹ کی یہ بلندی چڑھ کر چوٹی پر جاپہنچے۔ یہ مقام سطح سمندر سے 14700 فٹ بلند تھا۔

اسی بلندی کے دامن میں بہت نیچے ہمارا ہدف یعنی وہ گمنام جھیل موجود تھی۔ کالا پانی سے اس جھیل تک کا فاصلہ کم و بیش 8 کلومیٹر تھا جو ہم نے ایک گھنٹہ 45 منٹ میں طے کیا۔ ہم نے اس بلندی سے جھیل کی عکس بندی کی اور پھر نیچے اترنا شروع کر دیا۔ 1000 فٹ کی بلندی اترنے کے بعد ہم جھیل کے کناروں پر اتر چکے تھے۔

اس جھیل کو مقامی بکروال کسارا جھیل کا نام دیتے ہیں لہٰذا ہم نے بھی اسے یہی نام دیا۔ یہ جھیل سطح سمندر سے تقریباً13700 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ جھیل پر ہم نے دو گھنٹے کا وقت گزارا۔ مختلف زاویوں سے عکس بندی کی اور پھر واپسی کی راہ پکڑی۔ واپسی پر سفر چونکہ اترائی کا تھا لہٰذا ایک گھنٹے میں ہی ہم واپس کالاپانی کیمپ سائٹ پر پہنچ گئے۔ مقامی دوستوں اور سیاحوں نے ہمارا استقبال کیا اور ایک نئی جھیل تک رسائی حاصل کرنے پر ہمیں خوب پذیرائی سے نوازا۔ ہم نے بصد شکریہ ان کی یہ داد و تحسین وصول کی۔

کسارا جھیل اب پردہ گمنامی سے نکل کر دنیا کے سامنے آچکی تھی۔ دیوسائی کی ڈھلوانوں میں پوشیدہ یہ جھیل اگرچہ رقبے کے اعتبار سے بڑی نہیں لیکن اپنے ماحول اور خوبصورتی کے لحاظ سے منفرد ضرور ہے۔

(سید ذیشان اقبال)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 ستمبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ