• 7 مئی, 2024

جماعت احمدیہ برطانیہ کی طرف سے ایک مشاعرہ کا انعقاد

جماعت احمدیہ برطانیہ کی طرف سے
جلسہ سالانہ پر تشریف لانے والے مرکزی نمائندگان
کے اعزاز میں عشائیہ اور ایک مشاعرہ کا انعقاد

مکرم رفیق احمد حیات امیر جماعت احمدیہ برطانیہ نے جماعت برطانیہ کی طرف سے مورخہ 13اگست 2022ء کی شام کو طاہر ہال بیت الفتوح مارڈن میں جلسہ سالانہ برطانیہ پر آنے والے مہمانوں کے اعزاز میں ایک دعوت کا اہتمام کیا۔ ہال کو خوبصورت جھنڈیوں سے سجایا گیا۔ دعوت سے قبل مہمانوں کے اعزاز میں ایک مشاعرہ کا بھی انعقاد ہوا۔ اس مبارک تقریب کے مہمان خصوصی مکرم سید خالد احمد شاہ صاحب ناظر اعلیٰ صدر انجمن احمدیہ پاکستان تھے جبکہ میزبانی کے فرائض مشہور زمانہ شاعر جناب مبارک صدیقی صاحب نے ادا کیے۔ وقت کی مناسبت سے درج ذیل تین شعراء نے اپنا کلام پیش کیا۔ ہر تین شعراء نے ایک ایک نظم اور ایک ایک غزل پڑھ کر سامعین کو محظوظ کیا۔

1: جناب ڈاکٹر طارق انور باجوہ (لندن)
2۔ جناب میر انجم پرویز (یو کے)
3۔ جناب مبارک احمد عابد (امریکہ) شامل تھے

ہر تین شعراء کے کلام کے دوران جناب مبارک صدیقی اپنے مزاج کے طریق کو جاری رکھتے ہوئے ساتھ ساتھ اپنے کلام سے سامعین کو محظوظ کرتے رہے: جیسے آپ نے شعراء میں اپنے یہ شعر پڑھ کر سنائے:

ستارہ بن کے رہو یا کسی دئیے میں رہو
کسی بھی رنگ میں جگمگ سے سلسلے میں رہو

ہر ایک عزت و رفعت ہے خاکساری میں
سو چاند چھو کے بھی مٹی سے رابطے میں رہو

ہزار بھیڑیے پھرتے ہیں کاٹ کھانے کو
سو عافیت ہے اسی میں کہ قافلے میں رہو

پھر آپ نے ایک وقفہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے آپریشن کے دوران کہی ہوئی نظم سے چند اشعار پڑھ کر جہاں سامعین سے داد سمیٹی وہاں خلیفۃ المسیح کے لیے دعاؤں کے سامان مہیا فرمائے۔ وہ قطعہ یوں تھا۔

اے مرے خدا مرے چارہ گر اسے کچھ نہ ہو
مجھے جاں سے ہے وہ عزیز تر اسے کچھ نہ ہو

اے مرے خدا بڑی دھوپ ہے مَری عرض سُن
مِرے سر پہ ہے وہی اک شجر اسے کچھ نہ ہو

جو نگہ پڑی تھی مِری حرم کی حُدود پر
تو کہا تھا خالق بحر و بر اسے کچھ نہ ہو
اے غنیمِ جاں چلو آج تجھ سے یہ طے ہوا
مجھے زخم دے بھلے عمر بھر اسے کچھ نہ ہو

قارئین کو ساتھ رکھنے کے لیے یہاں تینوں شعراء کے کلام سے چیدہ چیدہ چند حصے پیش ہیں۔

کلام جناب ڈاکٹر طارق انور باجوہ

غزل

مطمئن دل ہوا سا لگتا ہے
اُس کا کچھ تذکرہ سا لگتا ہے

آئی اس کی گلی سے ہو کے صبا
گھر معطّر ہوا سا لگتا ہے

کیسی طاری غنودگی ہے یہ
خواب کا تجربہ سا لگتا ہے

اس نے سپنوں میں آنا ہو شاید
در کا پردہ ہِلا سا لگتا ہے

ہے یدُاللہ، ان کے ہاتھوں پر
ہاتھ اس کا، خدا سا لگتا ہے

دیکھ کر اس کو ہم ہوئے مدہوش
نشّہ ایسا چڑھا سا لگتا ہے

اُس کو دیکھا ہے ساری دنیا نے
سب کا وہ رہنما سا لگتا ہے

ہم تو قائل تھے پہلے ہی طارق
اب عدو بھی جھکا سا لگتا ہے

غزل

آپ آئیں گے اگر دل میں تو راحت ہو گی
اس سے کیا اور بڑی پھر کوئی جنَّت ہوگی
لفظ محتاج اگر ہوں بھی زباں دانی کے
وہ سمجھ لے گا اشارے، جو محبّت ہو گی

وہ مجھے خود سے جُدا کر کے تو پچھتائے گا
اُس کو بھی میری طرح اپنی ضرورت ہو گی

میں نے یہ سوچ کے جذبات پہ قابو رکھا
ایک آنسو بھی گرے گا تو ندامت ہو گی

ہم تو مل جل کے کبھی روتے کبھی ہنستے تھے
ہم پہ رونے کی، کسے دہر میں فرصت ہو گی

پوچھنے آتے رہے لوگ تو بیماری میں
ہاں مگر اس کے بنا کیسے عیادت ہو گی

کبھی بن جا تا ہے مجبوری یہ چپ رہنا بھی
کھول دی ہم نے زباں گر تو شکایت ہو گی

حشر کے روز بھلا کون کہے گا مجھ سے
تم کو معلوم تھا طارق کہ، قیامت ہو گی

کلام جناب میر انجم پرویز
غزل

تجھ سے کچھ اِس طرح ہوں وابستہ
روح جیسے بدن میں پیوستہ
پیار کی اک نظر مری قیمت دیکھ!
میں کس قدر ہؤا سَستا
دام پھیلا رکھے ہیں کیوں اتنے
طائرِ دل تو آپ ہے پھنستا
زیست کی ڈور ٹوٹ بھی جائے
عشق سے پر نہ ہوں گے وارستہ
مقتلِ حسن کو چلا ہوں میَں
جاں بکف، مستعد، کمر بستہ
میں نے حق بات کی سرِ محفل
بر محل، بے دریغ، برجستہ
تم ہو رہبر تو پھر مجھے کیا غم
کتنا مشکل ہے عشق کا رستہ!
اِس کو سودائے دشتِ دامن ہے
اشک دل کے نگر نہیں بستا
ہے نشاطِ غمِ وفا بھی عجیب
دل کبھی روتا ہے، کبھی ہنستا
چشمِ گلباز زخم زخم ہوئی
جب سجا اشک اشک گلدستہ
کتنی راتوں کو پائمال کیا
تب کھلا رازِ عشق سربستہ

تلاش

اکیلے بیٹھ کر جب بھی
دریچہ فکر کا کھولوں
میں اپنے آپ سے بولوں
صبا خوشبو گلابوں کی
چُرا لاتی ہے گلشن سے
شعائیں نور کی
باطن کے آئینے پہ
آپڑتی ہیں روزن سے
تو اس عالم میں اک چہرہ
حجابوں سے نکل کر
دل کے آنگن میں اُترتا ہے
ہزاروں قافلے یادوں کے
اُس کے ساتھ آتے ہیں
ولے باایں ہمہ
کتنے ہی اندیشوں کو
اپنے ساتھ لاتے ہیں
وہ اک چہرہ
کبھی جو چاند بن کر مسکراتا ہے
مری راتوں کی تاریکی مٹاتا ہے
کبھی صدہا ستاروں کی طرح وہ ٹمٹماتا ہے
سر نوکِ مژہ یوں جھلملاتا ہے

وہ اک چہرہ

کبھی بادل، کبھی باراں
کبھی وصلش، کبھی ہجراں
کبھی مشکل، کبھی آساں
وہ ہر اک رنگ میں، ہرآں
یہاں بھی وہ، وہاں بھی وہ
اور ان کے درمیاں بھی وہ
میں جاتا ہوں جہاں بھی، وہ
نہاں بھی وہ، عیاں بھی وہ
وہی شاعر کے آوارہ خیالوں میں
وہی صحرا کے بے رہرو غزالوں میں
حسینوں کے حسیں شب رنگ بالوں میں
شفق میں، سرخیٔ رخسار و لب میں
برف کے ژالوں میں، لعلوں میں
کنول نینوں،چراغوں کی لَوؤں میں
خوش گلو آوازمیں،پُر درد نالوں میں
سُروں میں اور تالوں میں
وہ اک چہرہ، وہی چہرہ
اندھیروں اور اُجالوں میں
وہ اس دنیا سے بے بہرہ نہالوں میں
وہ مظلوموں کے بے آواز نالوں میں
وہ محروموں کے لب بستہ سوالوں میں
وہ مسکینوں کی آہوں میں
مسافر کی دعاؤں میں
وہ مضطر کی کراہوں میں
وہ شاہوں میں نہ میروں میں
نہ پیروں اور فقیروں میں
نہ وہ دنیا کے کیڑوں میں
نہ خواہش کے اسیروں میں
وہ عاشق کے دلِ صادق میں
وہ زندہ ضمیروں میں
وہ یعنی سُچے ہیروں میں

میں!؟

میں ہر دم اپنے خوابوں میں
کبھی کھویا ہوا رہتا ہوں
منطق کی کتابوں میں
سوالوں اور جوابوں میں
کبھی میں فلسفے میں گم
حقیقت یا سرابوں میں!؟
کبھی دریا کی موجوں سے میں لڑتا ہوں
کبھی صحرا کے ذرّوں سے جھگڑتا ہوں
کبھی سورج کی کرنوں کو پکڑتا ہوں
کبھی پھولوں کی خوشبو سے بگڑتا ہوں
سنورتا یا اُجڑتا ہوں!؟
کبھی اپنا گریباں چاک
کبھی تسخیرِ ہفت افلاک
میں کس کس در کی چھانوں خاک
میں کیا ہوں جُز خس وخاشاک
میں کس کس وہم میں غلطاں
کبھی بر بینش و دانش
کبھی عملوں کی گوں نازاں
گہے دل کی طرح غمگیں
تو گاہے آنکھ سُوں حیراں
کبھی در دشت بھی آباد
کبھی شہروں میں بھی ویراں
یہ میرے دل کی بے تابی
یہ میری آتشِ سوزاں
نہ جانے کس کی ہے جویاں!؟

کلام جناب مبارک احمد عابد

آؤ! میرے چاند کی تم بھی پذیرائی کرو
رنگ بادل تو دھنک بکھرا کے رخصت ہو گیا
تم یہی کہتے رہو ساون ابھی آیا نہیں
اس شکستہ ناؤ کے بندے بچانے کے لئے
ہم تو گھبرائے ہیں لیکن وہ تو گھبرایا نہیں
وہ جو رویا ساتھ اس کے آسماں بھی رو پڑا
وہ ہنسا تو کیا زمیں پر بھول رت لایا نہیں
ہر کسی منڈیر پر اس نے تو دیپک رکھ دیا
تم نے آنکھیں موندھ لیں تم کو نظر آیا نہیں
کیا خدا نے اس کی خاطر اک معین وقت پر
آسماں پر چاند اور سورج کو گہنایا نہیں
اس کی رخشندہ صداقت کے نشاں کے ظہور پر
معجزوں پر معجزہ کیا اس نے دکھلایا نہیں
اس نے صحرا کو چمن زادوں جوبن دے دیا
تم نے جس کے سامنے دامن ہی پھیلایا نہیں
تم نے خود چہروں پہ غفلت کی ردائیں اوڑھ لیں
ورنہ سورج پر تو بادل کا کوئی سایا نہیں
کتنی حیرت ہے کہ تم نے اس کی دستک پہ
کون ہے جس کو کہ اس نے فیض پہنچایا نہیں
آؤ! میرے چاند کی تم بھی پذیرائی کرو
تم نے اڑتے جگنوؤں سے نور تو پایا نہیں
ہر مسافت کے لئے عابدؔ وہ منزل کا سراغ
اور ہر ظلمت کدے میں ہے وہی روشن چراغ

غزل

اک اداسی لئے یہ روح پیاسی لئے لٹ گئی زندگی اور میں چپ رہا
عالم یاس میں غم کے احساس میں ہر مصیبت سہی اور میں چپ رہا
شہر کی چیختی زندگی نے تجھے نام لاکھوں دیئے اک تمہارے لئے
کوئی دیوانہ ہے ایک پروانہ ہے میں نے سب کی سنی اور میں چپ رہا
گم سدا میں رہا درد کے شہر میں ڈوبتا ہی گیا سوز کی لہر میں
سانس گھٹتا رہا دل تڑپتا رہا روح چلتی رہی اور میں چپ رہا
میرے چاروں طرف غم کی تاریکیاں مجھ کو ڈستی رہیں مجھ پہ ہنستی رہیں
سوچتا رہ گیا میں کہوں بھی تو کیا قصئہ بے رخی اور میں چپ رہا
اف میرے ساقیا کیا کروں میں بیاں اپنی محرومیاں اپنی ناکامیاں
تیری محفل میں بھی کچھ نے آنکھوں سے پی کچھ نے ساغر سے پی اور میں چپ رہا
اک گہوارہ رنج و غم بن گئی تیرے بن یہ خدائی الم بن گئی
پوچھتے رہ گئے لوگ عابدؔ تجھے کیوں ہے چپ سی لگی اور میں چپ رہا

مشاعرہ کے اختتام پر صدر مجلس نے دعا کروائی اور عشائیہ پیش ہوا۔ حاضرین نے نمازیں مغرب و عشاء 9بجے بیت الفتوح میں مکرم مولانا نسیم احمد باجوہ امام مسجد کی اقتداء میں ادا کیں۔

(رپورٹ: حنیف احمد محمود۔ برطانیہ)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 ستمبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالیٰ