• 18 اپریل, 2024

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ

بارھویں صدی کے مجدد
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ

نام و نسب

آپ کا نام احمد، کنیت ابوالفیاض، لقب قطب الدین، عرف ولی اللہ اور تاریخی نام عظیم الدین ہے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کا نسب نامہ والد ماجد کی طرف سے خلیفۂ راشد حضرت عمر بن خطابؓ تک پہنچتا ہے اور والدہ محترمہ کی طرف سے حضرت امام موسیٰ کاظمؒ سے جا ملتا ہے۔ اس لحاظ سے آپ نجیب الطرفین ہیں۔ آپؒ نے اپنا نسب نامہ اپنی تصنیف ’’امداد فی مآثر الاجداد‘‘ میں یوں بیان کیا ہے:
’’فقیر ولی اللہ ابن الشیخ عبد الرحیم ابن الشہید وجیہ الدین بن معظم بن منصور بن محمد بن قوام الدین عرف قاضی قازن بن قاضی قاسم بن قاضی کبیرالدین عرف قاضی بدہ بن عبد الملک بن قطب الدین بن کمال الدین بن شمس الدین مفتی بن شیر ملک بن محمد عطاء ملک بن ابو الفتح ملک بن محمد عمرحاکم ملک بن عادل ملک بن فاروق بن جرجیس بن احمد بن محمدشہریار بن عثمان بن ہامان بن ہمایوں بن قریش بن سلیمان بن عفان بن عبداللہ بن محمد بن عبد اللہ بن عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ وعنھم اجمعین۔‘‘

(انفاس العارفین از شاہ ولی اللہ ،اردو ترجمہ ازسیدفاروق قادری صفحہ 325)

قبل از ولادت بشارات

حضرت شاہ ولی اللہؒ کے والد محترم شیخ عبدالرحیمؒ بیان کرتے ہیں کہ
’’مجھے ایک دفعہ خواجہ قطب الدین قدس سرہ کے مزار مقدس کی زیارت کرنے کا اتفاق ہوا۔ دفعةً ان کی روح مبارک نے مجھ پر ظاہر ہوکر فرمایا کہ شیخ عبد الرحیم! عنقریب تمھارے ہاں ایک فرزند رشید پیدا ہوگا۔تم اس کا نام قطب الدین احمد رکھنا۔لیکن چونکہ میری بی بی سن شباب کے تمام مرحلے طے کرکے زمانہ ایاس تک پہنچ گئی تھی اور اس عمر میں عادتاً ولادت کا تحقق نہیں ہوتا اس لیے مجھے گمان ہوا کہ شاید خواجہ کی مراد یہ ہے کہ جب تمھارے ہاں پوتا پیدا ہوگا تو اس کا نام قطب الدین احمد رکھنا لیکن خواجہ نے میرے اس اندرونی خطرہ پر فوراً مشرف ہوکر فرمایا کہ نہیں میری یہ مراد نہیں ہے بلکہ جس لڑکے کی نسبت میں نے تمہیں بشارت دی ہے وہ تمھارے ہی صلب سے پیدا ہوگا۔‘‘

(بوارق الولایت صفحہ44-45)

اسی طرح شیخ عبد الرحیم صاحب کو ایک روز الہام ہوا کہ ’’تقدیر الہٰی اس پر جاری ہوئی ہے کہ ایک بلند اقبال اور ہونہارلڑکا اور پیدا ہوگا جس کی شہرت کا ستارہ اوج عروج پر پہنچ کر شہاب ثاقب کی طرح چمکے گا اور جس کے اقبال اور کمال کا آفتاب پوری ترقی کے نصف النہار کے مرکز پر پہنچ جائے گا۔‘‘

(بوارق الولایت صفحہ44-45)

آپ کی والدہ محترمہ نے بھی نماز تہجد میں آپ کی ولادت کی خوشخبری پائی۔ علاوہ ازیں دیگر کئی بزرگان نے آپ کی ولادت کے متعلق خوابیں دیکھیں اور بشارات دیں۔

ولادت باسعادت

ان بشارات کی بناء پر کچھ عرصہ بعد شیخ عبد الرحیم صاحب نے دوسری شادی کی اور اس زوجہ سے شاہ ولی اللہ ؒ 4 شوال 1114ھ مطابق 10فروری 1703ء بروز چہارشنبہ بوقت طلوع آفتاب قصبہ پھلت ضلع مظفرنگر یوپی (ہندوستان) میں پیدا ہوئے۔

آپ کے والد محترم شیخ عبد الرحیم صاحب فرماتے ہیں کہ ’’اگرچہ اول اول مجھے یہ واقعہ (بابت خواجہ قطب الدینؒ:ناقل) بالکل نسیاً منسیاً ہوگیا اور اسی وجہ سے میں نے انہیں ولی اللہ کے نام سے شہرت دی لیکن جب وہ واقعہ یاد آیا تو میں نے ان کا دوسرا نام قطب الدین احمد رکھا۔‘‘

(حیات ولی از مولوی محمد رحیم بخش صفحہ 218)

والد محترم کی بے پایاں شفقت

حضرت شاہ ولی اللہ صاحبؒ کا بچپن نہایت پاکیزہ تھاآپ دیگر بچوں کی نسبت زیادہ وضعدار ،کم گو اورنرم گفتارتھے۔آپ کی معصومانہ حرکات ہر فردخانہ کے دل کوآپ کی طرف مائل کردیتی تھیں۔چنانچہ اسی وجہ سے شیخ عبد الرحیم صاحب کواپنے اس فرزند سے بے حد محبت ہوگئی اور وہ آپ کا ہر طرح کا خیال رکھتے اور تربیت پر خاص توجہ دیتے۔

چنانچہ شاہ صاحب موصوف خود بیان کرتے ہیں کہ ’’میں نے اپنی عمر میں کوئی ایسا باپ یا کوئی استاد کوئی مرشد نہیں پایا جس نے اپنے فرزند و تلمیذ کی نسبت شفقت و مہربانی کے وہ دقائق مرعی رکھے ہوں جو حضرت والد صاحب نے اس فقیر کی نسبت رکھے۔ اللھم اغفر لی ولوالدی وارحمھما کما ربیانی صغیرا و جازھما بکل شفقة و رحمة و نعمة بھما علی مائة الف اضعافھا انک قریب مجیب‘‘

(رسالہ الجزء اللطیف فی ترجمة العبد الضعیف از شاہ ولی اللہؒ، مترجم ڈاکٹر محمد ایوب قادری)

ابتدائی تعلیم

پانچ سال کی عمر میں حضرت شاہ صاحب کی ابتدائی تعلیم کا آغاز قرآن کریم سے ہوا جو آپ نے سات سال کی عمر میں ختم کرلیا۔ اسی سال آپ کےو الد محترم نے آپ کی نماز باجماعت شروع کروادی۔ اس کے ساتھ آپ نے فارسی کی درسی کتب کا مطالعہ شروع کردیا اور چند روز میں انہیں مکمل کرلیا۔ پھر صرف و نحو کے مختصر رسالے پڑھ کر ان علوم پر عبور حاصل کیا۔

دس سال کی عمر میں آپ نے شرح ملا پڑھی۔پھر علم منطق کے متعلق مطالعہ شروع کیا اور اس میں ایساکمال حاصل کیا کہ کوئی منطقی آپ کے مقابل پر نہ آپاتا۔

حضرت شاہ صاحب موصوف میں تحصیل علم کا شوق، سیکھنے کا ملکہ اور غیر معمولی حفظ کی قوت خداداد تھی کہ آپ ایک ہی وقت میں متعدد علوم سیکھا کرتے تھے اور ایک علم کا کمال دوسرے علم کے کمال میں مانع نہ ہوتا تھا اور چھوٹی عمر میں ہی آپ کا شمار علوم مروجہ کے ماہرین میں ہونے لگا۔

شادی خانہ آبادی

چودہ سال کی عمر میں والد محترم کی خواہش پر آپ کی جلدشادی ہوگئی۔

(انفاس العارفین از شاہ ولی اللہؒ، اردو ترجمہ صفحہ 394)

صبرعلی المصائب

آپ کے والد محترم کی طرف سے آپ کی شادی میں عجلت کی حکمت جلد ہی ظاہر ہوگئی کہ نکاح ہوتے ہی آپ کی خوشدامن صاحبہ وفات پاگئیں۔چند روز بعد ہی خوشدامن کی والدہ کی وفات ہوگئی۔ ابھی یہ غم فرو نہ ہوا تھا کہ آپؒ کے تایاشیخ ابو الرضا محمد کے فرزند کی وفات ہوگئی۔ پھر ان صدموں کے بعد سب سے بڑا صدمہ آپ کو اپنی والدہ محترمہ کی وفات کا برداشت کرنا پڑا۔ ان صدمات کی تاب نہ لاتے ہوئے آپ کے والد محترم شیخ عبد الرحیم صاحب مختلف عوارض میں مبتلا ہوگئے۔

حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں: ’’غرضیکہ بزرگوں کی یہ جماعت منتشر ہوگئی اور خاص و عام کو معلوم ہوگیا کہ اگر اس زمانہ میں شادی نہ ہوتی تو اس کے بعد کئی سال تک امکان نہ ہوتا کہ یہ بات(شادی) ہوتی۔‘‘

(رسالہ الجزء اللطیف فی ترجمة العبد الضعیف از شاہ ولی اللہؒ، مترجم ڈاکٹر محمد ایوب قادری)

حضرت شاہ ولی اللہ ؒنے ان تمام صدمات پر کمال صبر کا مظاہرہ کیا لیکن ایسے جانکاہ حادثات کی وجہ سے آپ کی زندگی میں ایک بے اطمینانی کی سی کیفیت پیدا ہوگئی لیکن آپ نے استقامت و استقلال اور صبر سے ان تمام مصائب کا مقابلہ کیا۔

والد محترم کی بیعت اور درس کی اجازت

پندرہ سال کی عمر تک حضرت شاہ ولی اللہ صاحبؒ نے تمام مروجہ علوم حاصل کرلیے اور علم تصوف سے بھی مسّ ہوگیا۔ پھر آپ نے اپنے والد محترم کی بیعت کی اور مشائخ صوفیاء نقشبندیہ کے اشغال میں مشغول ہوگئے۔ اسی سال آپ کے والد محترم نے ایک دعوت کا اہتمام کیا اور شہر کے تمام علماء و فقہاء اور مشائخ کو اس میں دعوت دی اور اس تقریب میں آپ کو آپ کے والد محترم نے دستار فضیلت باندھی اور درس کی اجازت عطا فرما کر علم و عمر میں برکت کی دعا کی۔ تمام شاملین نے حضرت شاہ صاحب کو مبارکباد دی۔

(انفاس العارفین از شاہ ولی اللہؒ، اردو ترجمہ صفحہ 394)

مزید علم کا حصول

اجازت درس کے بعدبھی حضرت شاہ صاحبؒ نے کتب کا مطالعہ جاری رکھا اور اس قدر اس میں مستغرق رہتے کہ آپ کو کسی چیز کا خیال نہ رہتا۔اپنے تمام حاصل کردہ علوم کی دہرائی ایک سال میں نہایت محنت سے کی۔ کم کھاتے اور کم سوتے،زیادہ وقت مطالعہ کتب میں گزرتا۔ یوں عمر کے سترہ سال گزر گئے۔

والد محترم کی وفات اور درس و تدریس کا باقاعدہ آغاز

سترہ سال کی عمر میں جب آپ کے والد محترم کی وفات ہوگئی تو آپ نے درس و تدریس کا باقاعدہ آغاز کردیا اور آپ کے علم کی شہرت چہار سو پھیل گئی۔ علماء آپ کی شاگردی کو باعث فخر سمجھتے اور دور دراز سے طلباء آپ کے علم سے فیضیاب ہوتے۔ بارہ سال تک آپ اپنے دروس سے تشنگان علم کو سیراب کرتے رہے۔

علوم حدیث و سنت کی ترویج

ہندوستان میں اس زمانہ میں مسلمان مذہبی لحاظ سے پسماندگی کا شکار تھے۔ہر طرف جہالت کا دور دورہ تھا۔ اسلام محض نام کا رہ گیا اورسنت و حدیث کو بھلا دیا گیا تھا۔اس دور میں سب سے پہلے حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ نے سنت نبویؐ اور حدیث کی طرف مسلمانوں کو توجہ دلانے کی کوشش کی۔ اس کے بعد شاہ صاحب موصوف کے والد بزرگوار شیخ عبد الرحیم نے یہ بیڑا اٹھایا اور دہلی میں ایک مدرسہ رحیمیہ قائم کیا جس میں ہندوستان کے دور دراز علاقوں سے طلباء آکر علم سنت و حدیث کی تعلیم پاتے۔

شیخ عبد الرحیم صاحب کی وفات کے بعد اس کا جؤا حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کی گردن پرآن پڑا۔ آپ نے اس سلسلہ میں نہایت جانفشانی سے کام کیا۔ نتیجةً آپ کی مقبولیت ہندوستان سے نکل کر عرب و عجم تک جاپہنچی۔ آپ ایک عالم باعمل تھے۔اس خوبی کی وجہ سے لوگ آپ کی طرف کھنچے چلے آتے۔ آپ نے علم سنت و حدیث کو ان لوگوں تک پہنچایا جس کی وجہ سے تمام بلاد اسلامیہ میں اس بارہ میں نمایاں ترقی ہوئی۔

شاہ صاحب موصوف نے بارہ سال مدرسہ رحیمیہ میں درس و تدریس کے فرائض سرانجام دئیے۔ آپ نے نہایت محنت او ردیانتداری سے طلباء کی تعلیم و تربیت کی اور کسی سے کوئی امتیازی سلوک روا نہ رکھا۔ قابل محنتی غریب طلباء کی مالی اعانت بھی فرمایا کرتے اور ان کی دلجوئی فرماتے۔

(انفاس العارفین از شاہ ولی اللہؒ، اردو ترجمہ صفحہ 396)

زیارت حرمین شریفین

حضرت شاہ ولی اللہ صاحبؓ کے قلب میں تحصیل علم حدیث کا جو جذبہ موجزن تھا اس نے آپ کو ہندوستان میں مقید نہ رہنے دیا۔ آپ عازم سفر عرب ہوئے تازیارت حرمین شریفین کے ساتھ وہاں کے مشائخ سے اخذ احادیث کرسکیں۔

بعض مورخین کے نزدیک آپ کے سفر عرب کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ جب آپ نے فارسی میں قرآن کریم کا ترجمہ کیا تو دہلی کے شدت پسند مولویوں نے اسے اپنی روزی روٹی کےلیے خطرہ سمجھا اور آپ کی جان کے درپے ہوگئے۔ چنانچہ ان نام نہاد مولویوں کے غیض و غضب کو فرو کرنے کی خاطر آپ نے یہ سفر اختیار کیا۔

(حیات ولی صفحہ 232)

لیکن زیادہ راجح سبب اول ہی ہے یعنی زیارت حرمین شریفین کا شوق اور تحصیل علم حدیث از مشائخ عرب۔

چنانچہ حضرت شاہ صاحب موصوف نے1143ھ کے آخر میں حج بیت اللہ اورزیارت خانہ کعبہ کی سعادت پائی اورقریباً ایک سال تک مکہ معظمہ میں قیام پذیر رہے۔ پھر مدینہ منورہ تشریف لے گئے ۔ وہاں شیخ ابوطاہر محمد بن ابراہیم، شیخ محمدوفد اللہ ابن شیخ محمد بن محمد بن سلیمان المغربی، شیخ تاج الدین قلعی، شیخ احمد شناوی، شیخ احمد قشاشی،سید عبد الرحمٰن ادریسی، شمس الدین محمد بن علاء بابلی، شیخ عیسیٰ جعفری، شیخ ابراہیم کردی، شیخ حسن عجمی، شیخ احمد علی، شیخ عبداللہ بن سالم بصری، اور دیگر معروف مشائخ عرب سے روایت حدیث اور سند علم حدیث حاصل کی۔

اس سفر میں آپ کے مرید اور شاگرد محمد عاشق بھی ہمراہ تھے۔

(رسالہ الجزء اللطیف فی ترجمة العبد الضعیف از شاہ ولی اللہؒ، مترجم ڈاکٹر محمد ایوب قادری)

شرف ملاقات حسنینؒ

حضرت شاہ صاحب موصوفؒ نے اپنے سفر حرمین شریفین کا تذکرہ اپنی تصنیف ’’فیوض الحرمین‘‘ میں کیا ہے جس میں اپنے مشاہدات کا بھی ذکر کیا ہے۔ چنانچہ آپ اپنا چھٹا مشاہدہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
’’1144ھ ماہ صفر کی دسویں تاریخ کو مکہ معظمہ میں میں نے حسن اور حسین رضی اللہ عنھما کو خواب میں دیکھا کہ وہ میرے گھر تشریف لائے ہیں اور حضرت حسنؓ کے ہاتھ میں ایک قلم ہے جس کی نوک ٹوٹی ہوئی ہے۔ آپ نے میری طرف ہاتھ بڑھایا تاکہ وہ مجھے یہ قلم عطا فرمائیں اور فرمایا کہ یہ میرے نانا رسول اللہﷺ کا قلم ہے۔اس کے بعد آپ نے قدرے توقف کیا اور فرمانے لگے کہ ذراٹھہرجاؤ تاکہ حسینؓ اس قلم کو ٹھیک کردیں کیونکہ اب یہ قلم ویسا نہیں ہے جیساکہ پہلے تھا ۔۔۔ چنانچہ حضرت حسینؓ نے ان سے یہ قلم لیا اور اسے ٹھیک کرکے مجھے عطا فرمایا۔ مجھے اس سے بے حد خوشی ہوئی۔ اس کے بعد ایک چادر لائی گئی جس میں سبز اور سفید رنگ کی دھاریاں تھیں یہ چادر حضرت حسن اور حضرت حسینؓ کے سامنے رکھی گئی۔حضرت حسینؓ نے یہ چادر اٹھائی اور فرمایا کہ یہ چادر میرے نانا رسول اللہﷺ کی ہے اس کے بعد آپؓ نے یہ چادر مجھے اوڑھائی اور میں نے تعظیم و احترام کے خیال سے اوڑھنے کے بجائے اسے اپنے سر پر رکھ لیا اور اس نعمت کے شکرانے میں خدا تعالیٰ کی حمد و ثناء کرنے لگا۔ اس کے بعد یک بارگی میری آنکھ کھل گئی۔‘‘

(فیوض الحرمین از شاہ ولی اللہ صفحہ 99-100)

زیارت رسول مقبولﷺ

مکہ مکرمہ کے بعد جب آپ مدینہ منورہ میں روضۂ رسولﷺ کی زیارت سے مشرف ہوئے تو آپ نے رسول اللہﷺ کی روح اقدس کو ظاہر اور عیاں دیکھا۔ چنانچہ آپ تحریر کرتے ہیں:
’’عالم ارواح میں نہیں بلکہ عالم محسوسات سے قریب جو عالم مثال ہے، میں نے اس میں آپؐ کی روح کو دیکھا۔‘‘

(فیوض الحرمین از شاہ ولی اللہ صفحہ 101)

حقیقت محمدیہ اور بروز

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ اپنے دسویں مشاہدہ کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’مدینہ منورہ میں پہنچنے کے تیسرے دن بعد پھر میں روضہ اقدس پر حاضر ہوا۔ میں نے رسول اللہﷺ اور آپؐ کے دونوں ساتھیوں حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ کو سلام کیا اور میں نے عرض کیا کہ یارسول اللہﷺ! اللہ تعالیٰ نے آپ پر جو فیضان فرمایا تھا اس سے مجھے بھی مستفید فرمائیے ۔۔۔ میں نے اتنا عرض کیا تھا کہ آپؐ حالت انبساط میں میری طرف اس طرح ملتفت ہوئے کہ میں یوں سمجھا کہ گویا آپؐ نے اپنی چادر میں مجھے لے لیا ہے اس کے بعد آپؐ نے مجھے اپنے ساتھ لگا کر خوب بھینچا اور آپؐ میرے سامنے رونما ہوئے اور مجھے اسرار و رموز سے آگاہ فرمایا اور نیز خود اپنی ذات اقدس کی حقیقت مجھے بتائی ۔۔۔

اس سلسلہ میں میں نے نبی علیہ الصلوة والتسلیمات کو دیکھا کہ آپؐ اپنے جوہرروح،اپنی طبیعت،اپنی فطرت اور جبلت میں سرتاسرمظہر بن گئے ہیں اس عظیم الشان تدلّی کا، جوکہ تمام بنی نوع بشر پر حاوی ہے اور میں نے دیکھا کہ اس حالت میں یہ پہچاننا مشکل ہوگیا ہے کہ ظاہر اور مظہر یعنی ظاہر ہونے والی چیز اور جس چیز میں کہ اس کا اظہار ہو رہا ہے ان دونوں میں کیا فرق ہے؟ چنانچہ یہی وہ تدلّی ہے جسے صوفیاء نے ’’حقیقت محمدیہ‘‘ کا نام دیا ہے اور اس کو وہ ’’قطب الاقطاب‘‘ اور ’’نبی الانبیاء‘‘ کا بھی نام دیتے ہیں۔۔۔حقیقت محمدیہ کے اس بروز کو قطب یا نبی کا نام دیا جاتا ہے۔

اس ضمن میں ہوتا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب کوئی شخص لوگوں کی ہدایت کےلیے مبعوث ہوتا ہے تو حقیقت محمدیہ کا اس شخص کی ذات کے ساتھ اتصال ہوجاتا ہے۔‘‘

(فیوض الحرمین از شاہ ولی اللہ، اردو ترجمہ صفحہ 119-120)

مقام مجددیت پر سرفراز ہونا

مدینہ منورہ میں روضۂ رسولؐ کی زیارت کے دوران ہی نبی کریمﷺ نے آپؒ کو مقام مجددیت پر فائز فرمایا۔ چنانچہ آپؒ تحریر فرماتے ہیں:
’’اس مجلس میں نبی علیہ الصلوة والسلام نے مجھے اپنی اجمالی مدد سے سرفراز فرمایا اور یہ اجمالی مدد عبارت تھی، مقام مجددیت، وصایت اور قطبیت ارشادیہ سے، یعنی آپؐ نے مجھے ان مناصب سے نوازا اور نیز مجھے شرف قبولیت عطا فرمایا اور امامت بخشی اور تصوف میں میرا جو مسلک ہے اور فقہ میں میرا جو مذہب ہے، ہردو کو اصل اور فرع دونوں اعتبار سے راہ راست پر بتایا۔‘‘

(فیوض الحرمین از شاہ ولی اللہ،اردو ترجمہ صفحہ 129)

وطن واپسی

حصول اسناد حدیث اور استفاض صوفیاء کے بعد 1145ھ کے آغاز میں آپ وطن واپس آگئے اور مدرسہ رحیمیہ میں دوبارہ درس کا آغاز فرمایا۔ اور سینکڑوں طلباء کو مستفیض کیا۔

شاگرد، مرید اور جانشین

یوں تو آپ کے شاگردوں کی تعداد کافی زیادہ ہے لیکن یہاں چند معروف شاگردوں، مریدوں اور جانشینوں کا ذکر درج کیا جاتا ہے: شیخ آفندی ابراہیم، امین اللہ نگرنہوی، شیخ اہل اللہ شاہ، شیخ بدرالحق پھلتی، قاضی ثناء اللہ پانی پتی، جاراللہ بن عبد الرحیم لاہوری، شاہ عبدالعزیز، شاہ رفیع الدین، چراغ محمد، سید جمال الدین رامپوری، حسنی شاہ، خیرالدین سورتی، داؤد میاں، حافظ عبد النبی، نواب رفیع الدین خاں مرادآبادی، محمد امین، محمد بن ابی الفتح بلگرامی، فضل اللہ کشمیری، محمد سعید دہلوی، محمد عاشق شاہ پھلتی، محمد معین ٹھٹھوی، قمر الدین سونی پتی منت، مرتضیٰ زبیدی بلگرامی صاحب تاج العروس وغیرہ

تجدیدی کارنامے

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے زوال پذیر مغلیہ حکومت کے دس بادشاہوں کا دور حکومت اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ سیاسی انتشار، مذہبی بیزاری، منافقانہ روش، خام خیالی، ذہنی و فکری پسماندگی وغیرہ جیسی خامیاں اس زمانہ میں مسلمانوں میں سرایت کرچکی تھیں۔ طوائف الملوکی پھیلی ہوئی تھی۔ قتل و غارت کا بازار گرم تھا۔ علمائے سوء نے دین پر اجارہ داری قائم کی ہوئی تھی۔ پیر پرستی اور نام نہاد صوفیاء کے غلط متصوفانہ طریقوں نے مسلمانوں کو اپنے جال میں جکڑا ہوا تھا۔ غرضیکہ اس دور کے مسلمان دینی و علمی و سیاسی پراگندگی کا شکار تھے ۔

ان حالات میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے عوام الناس کے اصلاح احوال کی کوشش کی ۔دینی و مذہبی لحاظ سے آپ نے علماء کو فروعات میں الجھنے کی بجائے قرآن و سنت اور حدیث پر عمل کی دعوت دی اور لوگوں کو بھی اسی کی ترغیب دلائی۔ صوفیاء کو اسلامی تصوف کے مطابق راہ اعتدال اختیار کرنے کی طرف توجہ دلائی۔ عوام میں مقلد اور غیر مقلد کی وضاحت کرکے یہ بحث ختم کرنے کی کوشش کی۔ نسخ قرآن کا مسئلہ حل کرنے کی سعی فرمائی۔ فرقہ بندی جو کہ اس دور میں بھی امت مسلمہ کے لیے ایک نہایت خطرناک بات تھی اس کو رفع کرنے کی مختلف تدابیر کیں اور اس کی درمیانی راہ بتلائی۔ اس ضمن میں آپ نے ایک کتاب ’’ازالة الخفاء عن خلافة الخلفاء‘‘ بھی تحریر کی۔ بدعات و رسومات کا قلع قمع کی طرف توجہ دلائی اور عقائد کی اصلاح کی۔بیوہ سے شادی نہ کرنے کی رسم ،سوگ، قل خوانی، ختم، چہلم وغیرہ جیسی رسومات کو ختم کرکے قرآن و سنت پر عمل کرنے کی طرف لوگوں کو بلایا۔

علامہ سید سلیمان ندویؒ لکھتے ہیں:
’’ہندوستان کی یہ کیفیت تھی، جب اسلام کا وہ اختر تاباں نمودار ہوا جس کو دنیا شاہ ولی اللہ دہلوی کے نام سے جانتی ہے۔ مغلیہ سلطنت کا آفتاب لبِ بام تھا۔ مسلمانوں میں رسوم و بدعات کا زور تھا۔ جھوٹے فقراء اور مشائخ جابجا اپنے بزرگوں کی خانقاہوں میں مسندیں بچھائے اور اپنے بزرگوں کے مزاروں پر چراغ جلائے بیٹھے تھے۔ مدرسوں کا گوشہ گوشہ منطق و حکمت کے ہنگاموں سے پُر شور تھا۔ فقہ و فتاویٰ کی لفظی پرستش ہر مفتی کے پیش نظر تھی۔ مسائل فقہ میں تحقیق و تدقیق سب سے بڑا جرم تھا۔ عوام تو عوام، خواص تک قرآن پاک کے معانی و مطالب اور احادیث کے احکام و ارشادات اور فقہ کے اسرار و مصالح سے بے خبر تھے۔ شاہ صاحب کا وجود اس عہد میں اہل ہند کے لئے موہبت عظمیٰ اور عطیہ کبریٰ تھا۔‘‘

(مقالات سلیمان جلد2 صفحہ42)

جہاں تک علمی خدمات کا تعلق ہے تو حضرت شاہ صاحب موصوف نے درس و تدریس، وعظ و ارشاد اور تصنیف و تالیف کے ذریعے دعوت و تبلیغ و اشاعتِ دین کا فریضہ سر انجام دیا اور اپنی تصانیف سے امت مسلمہ کو سوچ میں ایک انقلاب پیدا کردیا۔ انہیں دینی و علمی و سیاسی مسائل سے آگاہ کیا۔ اسی سلسلہ میں آپ نے قرآن کریم کا فارسی میں ترجمہ کیا تاکہ مسلمان اسے پڑھ کر اسے سمجھیں اور اس پر عمل کریں تاکہ ان کی ایمانی و روحانی اور دینی و مذہبی حالت میں بہتری ہو۔آپ نے اپنی تصانیف کے ذریعہ مسلمانوں میں شعور پیدا کیا اور مرہٹوں کی حکومت کو مسلمانوں پر مسلط ہونے سے بچایا۔

برصغیر کے نامور علامہ فضل حق خیرآبادی کہتے ہیں:
’’اس کتاب (ازالة الخفاء) کا مصنف ایسا بحر ذخار ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں۔‘‘

(شاہ ولی اللہؒ ازمحمداکرام چغتائی صفحہ619)

مفتی عنائیت کاکوروی آپ کے متعلق یہ تحریر کرتے ہیں کہ
’’شاہ ولی اللہ ایک ایسا شجر طوبیٰ ہیں جس کی جڑیں تو اپنی جگہ قائم ہیں اور اس کی شاخین تمام مسلمانوں کے گھروٍ ں تک پھیلی ہوئی ہیں۔‘‘

(نزہة الخواطر از حکیم محمد عبد الحئی جلد2صفحہ406)

حضرت شاہ صاحب کی سیاسی خدمات بھی قابل قدر ہیں۔آپ نے مسلمان حکمرانوں کو اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے اور دشمنوں کے غلبہ سے بچنے کے لیے مشوروں پر مشتمل خطوط لکھے۔آپ نے عہدیداروں کے تقرر کےلیے متقی اور نیک مسلمانوں کے نام بھی تجویز کیے۔ اور مرہٹوں کے خلاف احمد شاہ ابدالی اور نجیب الدولہ کو متحد کیا جس کی وجہ سےپانی پت کی تیسری جنگ میں مرہٹوں کو شکست فاش ہوئی۔

علامہ شبلی نعمانی لکھتے ہیں:
’’ابن تیمیہ اور ابن رشد کے بعد بلکہ خود انہی کے زمانے میں جو عقلی تنزل شروع ہوا تھا۔اس کے لحاظ سے یہ امید نہیں رہی تھی کہ پھر کوئی صاحب دل و دماغ پیدا ہوگا لیکن قدرت کو اپنی نیرنگیوں کا تماشا دکھلانا تھا کہ اخیر زمانہ میں جبکہ اسلام کا نفس بازپسیں تھا۔شاہ ولی اللہ جیسا شخص پیدا ہوا جس کی نکتہ سنجیوں کے آگے غزالی، رازی اور ابن رشد کے کارنامے بھی ماند پڑگئے۔‘‘

(علم الکلام از شبلی نعمانی جلد1 صفحہ87مطبوعہ مسعود پبلشنگ ہاؤس کراچی)

وفات

حضرت شاہ صاحبؒ 29محرم 1176ھ مطابق 20اگست 1762ء بروز جمعة المبارک کو اکسٹھ سال چار ماہ کی عمر میں اپنےخالق حقیقی سے جاملے اور شاہ جہان آباد کی جنوبی جانب پرانی دلی میں واقع مہندیان قبرستان میں دفن کیے گئے۔

ازواج واولاد

حضرت شاہ صاحب نے دوشادیاں کیں۔ آپؒ کی پہلی شادی چودہ سال کی عمر میں آپ کے ماموں شیخ عبداللہ پھلتی کی صاحبزادی سے ہوئی جو شاہ محمد عاشق کی ہمشیرہ تھیں۔ ان کے بطن سے ایک صاحبزادہ شیخ محمد اور ایک صاحبزادی امة العزیز پیدا ہوئیں۔

دوسری شادی 1157ھ میں مولوی سید حامد سونی پتی کی صاحبزادی سے ہوئی جن کے بطن سے شاہ عبدالعزیز، شاہ رفیع الدین، شاہ عبدالقادر اور شاہ عبدالغنی پیدا ہوئے۔

اخلاق فاضلہ

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ بچپن سے ہی اخلاق کریمانہ کے مالک تھے۔ عام بچوں کی طرح ضد نہ کرتے اور نہ گھر سے باہر جاکر وقت کا ضیاع کرتے۔ بڑی عمر والوں سے نظریں جھکا کربات کرتے۔ انتہائی سادہ مزاج تھے کبھی کوئی خواہش زبان پر نہ لاتے۔ جو مل گیا اسی پر اکتفا کرتے۔یہی حال زمانہ شباب کا تھا۔ شریفانہ اطوار کے مالک تھے اور مہذبانہ روش کے حامل۔ بناوٹ و چاپلوسی سے احتراز برتتے۔ ایام کہولت میں بھی عجز و انکسار کا پیکر رہے۔ رعونت و تکبر سے اجتناب فرماتے۔ کبھی اپنی علمیت پر نہ اترائے۔ متقیانہ، اطاعت الہیٰ و اطاعت رسولؐ میں زندگی بسر کی۔

علمی مقام و مرتبہ

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ ایک متبحر عالم باعمل انسان تھے۔ آپ مفسر قرآن بھی تھے اور شارح حدیث بھی۔ فقیہ امت بھی تھے اور متکلم اسلام بھی۔ امام تصوف بھی تھے اور معلم اخلاق بھی۔فلسفہ شریعت کو جاننے والے اورمنطق کے رموز سے آگاہ تھے۔ ماہر اقتصادیات بھی تھے اور واقف معاشیات بھی۔ اس کے ساتھ آپ امور سلطنت اور طریق سیاست میں بھی طاق تھے۔ غرضیکہ آپ ایک ہمہ گیر شخصیت کے مالک تھے اور ان تمام شعبوں میں آپ نے تصانیف بھی تحریر فرمائی تھیں۔

تصانیف

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے جہاں درس و تدریس سے امحائے بدعات کی سعی کی وہاں بدرسومات اور شرک و پیرپرستی کے خلاف قلمی جہاد کیا اور مسلمانوں کو اسلام کی حقیقی تعلیم کی طرف توجہ دلاکر اصلاح نفس کی ترغیب دلائی۔ آپ نے مختلف علوم کے متعلق عربی، فارسی زبان میں متعدد تصانیف تحریر کیں جوضرورت زمانہ کے لحاظ سے مفید عام ہیں۔ حافظ ابراہیم سیالکوٹی کے نزدیک ان تصانیف کی تعداد دو سو سے زائد ہے۔ آپ کی معروف تصنیفات کے نام یہ ہیں:
فتح الرحمٰن فی ترجمة القرآن، فوزالکبیر شرح فتح الکبیر، فتح الخبیر، مصفی شرح موطا، مسوی شرح موطا، حجة اللہ البالغہ، انصاف فی بیان سبب الاختلاف، ازالة الخفاء عن خلافة الخلفاء، قرة العینین فی تفضیل الحسنین، فیوض الحرمین، الدرالثمین فی المبشرات نبی الکریم، تاویل الاحادیث، انفاس العارفین، چہل احادیث، ہمعات، لمعات، خیرکثیر، تفہیمات الہیہ وغیرہ

(مرسلہ: (باسل احمد بشارت))

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 اکتوبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 اکتوبر 2020