• 25 اپریل, 2024

آنحضرتﷺ کی تصدیق ان مومنین کے لئے ہوگی جو پہلے انبیاء کی بھی تصدیق کریں گے

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
اور پھر فرمایا کہ آخرت پر بھی یقین رکھو، یہ بھی ایمان کا ایک حصہ ہے۔ اب یہ آخرت کیا ہے؟ آخرت کے معانی سیاق و سباق کے ساتھ یہ ہوسکتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے بعد جو آپؐ کی غلامی میں آئے اس پر جو وحی نازل ہو اس پر بھی یقین رکھنا۔ جو مسیح موعود اور مہدی معہود آئے گا یقین رکھو کہ وہ آئے گا اور اس پر ایمان لے آنا، یہ بھی ایک مومن کے ایمان کا حصہ ہے۔ آخرت کو اُخروی زندگی بھی کہا جاتا ہے، لیکن جو پہلے معانی ہیں اس سیاق و سباق کے لحاظ سے وہ زیادہ بہتر ہیں اور یہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے فہم قرآن اور اللہ تعالیٰ کی رہنمائی کا نتیجہ ہیں کہ یہ معانی ہم تک پہنچے ہیں اور ہم اس پر ایمان لائے ہیں۔ پس یہاں یہ بیان فرما کر کہ جس طرح تمہارے لئے پہلے انبیاء پر ایمان لانا ضروری ہے اور آنحضرتﷺ پر ایمان لانا ضروری ہے، اسی طرح تمہیں اس یقین پر بھی قائم رہنا ہوگا کہ آخرین میں جو آنحضرتﷺ کے غلام کی بعثت ہوگی اس پر بھی ایمان لانا ضروری ہے۔ جیسا کہ مَیں نے کہا تھا کہ یہ نکتہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ہمیں بتایا۔ آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’آج میرے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ قرآن شریف کی وحی اور اس سے پہلی وحی پر ایمان لانے کا ذکر تو قرآن شریف میں موجود ہے، ہماری وحی پر ایمان لانے کا ذکر کیوں نہیں۔ اسی امر پر توجہ کررہا تھا کہ خداتعالیٰ کی طرف سے بطور القاء کے یکایک میرے دل میں یہ بات ڈالی گئی کہ آیہ ٔ کریمہ وَالَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِمَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَمَآاُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ وَبِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ یُوْقِنُوْنَ (البقرۃ:5) میں تینوں وحیوں کا ذکر ہے بِمَا اُنْزِلَ اِلَیْکَ سے قرآن شریف کی وحی اور مَآاُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ سے انبیاء سابقین کی وحی اور اٰخِرَۃ سے مراد مسیح موعود کی وحی ہے۔ اٰخِرَۃ کے معنی ہیں پیچھے آنے والی۔ وہ پیچھے آنے والی چیز کیا ہے۔ سیاق کلام سے ظاہر ہے کہ یہاں پیچھے آنے والی چیز سے مراد وہ وحی ہے جو قرآن کریم کے بعد نازل ہوگی کیونکہ اس سے پہلے وحیوں کا ذکر ہے۔ ایک وہ جو آنحضرت ﷺ پر نازل ہوئی۔ دوسری وہ جو آنحضرت ﷺ سے قبل نازل ہوئی اور تیسری وہ جو آپؐ کے بعد آنے والی تھی‘‘۔

(تفسیر حضرت مسیح موعودؑ سورۃ البقرۃ آیت 5، ریویو آف ریلیجنز جلد 14نمبر 4 مارچ اپریل 1915صفحہ 64 حاشیہ)

پس جیسا کہ مَیں نے گزشتہ خطبہ میں بتایا تھا کہ آنحضرتﷺ کی تصدیق ان مومنین کے لئے ہوگی جو پہلے انبیاء کی بھی تصدیق کریں گے اور آنحضرتﷺ پر ایمان لانے والے بھی ہوں گے اور بعد میں آنے والے کو بھی مانیں گے۔ تو اس آیت نے اور وضاحت نے دلیل کو مزید مضبوط کردیا۔ پس ہر ایک احمدی جو حقیقی مومن ہے اور اس ایمان کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے فضلوں کا وارث بنا ہے اس کو اس پیغام کو ماننے کے بعد اپنے ایمان میں ترقی کرنے اور اللہ تعالیٰ کے احکامات کو بجالانے کی طرف مزید کوشش کرنی چاہئے۔

پھر ایک مومن کی خصوصیت یہ ہے، جس کاقرآن کریم میں یوں ذکر آتاہے کہ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ (البقرۃ:166) یعنی اور جو لوگ مومنین ہیں وہ سب سے زیادہ اللہ ہی سے محبت کرتے ہیں۔ پس مومن ہونے کی یہ نشانی ہے کہ ایک سچے مومن کی زندگی صرف ایک ذات کے گرد گھومتی ہے اور گھومنی چاہئے کیونکہ اس کے بغیر ایک مومن، مومن کہلا ہی نہیں سکتا۔ ایک مومن کا غیب پر ایمان، نمازیں پڑھنا، قربانی کرنا، انبیاء پر ایمان، اس وقت کامل ہوگا جبکہ وہ اللہ تعالیٰ کی محبت کی وجہ سے ان تمام احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کررہا ہوگا جو اللہ تعالیٰ نے دیئے ہیں۔ آنحضرتﷺ نے اس شدید محبت کا کیسا اعلیٰ نمونہ ہمارے سامنے رکھا کہ کفار بھی یہ کہہ اٹھے کہ عَشِقَ مُحَمَّدٌ رَبَّہٗ کہ محمد تو اپنے ربّ پر عاشق ہو گیا۔ اور آپؐ نے ہمیں کیا خوبصورت دعا سکھائی ہے کہ اے اللہ مَیں تجھ سے تیری محبت مانگتا ہوں اور اس کی محبت جو تجھ سے محبت کرتا ہے۔ مَیں تجھ سے ایسے عمل کی توفیق مانگتا ہوں جو مجھے تیری محبت تک پہنچا دے۔ اے اللہ اپنی اتنی محبت میرے دل میں ڈال دے جو میری اپنی ذات، میرے مال، میرے اہل اور ٹھنڈے پانی سے بھی زیادہ ہو۔

(صحیح الترمذی کتاب الدعوات حدیث نمبر 3490)

پس ایک مومن کامعیار اور خصوصیت یہ ہے جس کو حاصل کرنے کی ایک مومن کو کوشش کرنی چاہئے۔ کوئی چیز بھی اللہ تعالیٰ کے فضل کے بغیر نہیں مل سکتی۔ اس لئے اس محبت کے حصول کے لئے بھی اسی کے آگے جھکنا اور اس سے دعائیں کرنا ضروری ہے۔

پھر مومن کی ایک خصوصیت یہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَاللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُھُمْ وَاِذَا تُلِیَتْ عَلَیْھِمْ اٰیٰتُہٗ زَادَتْھُمْ اِیْمَانًا وَّ عَلٰی رَبِّھِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ (الانفال:3) یعنی مومن تو صرف وہی ہیں جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل ڈر جائیں اور جب ان کے سامنے اس کی آیات پڑھی جائیں تو وہ ان کے ایمان کوبڑھا دیں اور وہ جو اپنے ربّ پر توکُّل کرتے ہیں۔ صرف مومن ہونے کا دعویٰ ہی کافی نہیں ہے، اللہ تعالیٰ نے یہاں جن باتوں کی طرف توجہ دلائی ہے، جن خصوصیات کی طرف ایک مومن کو توجہ دلائی ہے، وہ یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا خوف ان کے دل میں ہوتا ہے۔ وہ سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے والے ہیں جیسا کہ پہلے ذکر آچکا ہے، یہ خوف ہے کہ میرے محبوب کے حوالے سے میرے سامنے کوئی بات کی جائے اور میں اس پر توجہ نہ دوں، یہ کس طرح ہو سکتا ہے؟ احکامات پر عمل، ان نصائح پر عمل جو خداتعالیٰ کی طرف منسوب کرکے کی جائیں یا جو اللہ تعالیٰ نے بھیجی ہوں وہ اس لئے کرتا ہے کہ میرا محبوب کہیں مجھ سے ناراض نہ ہوجائے۔ پس اس حوالے سے ہر نصیحت جو ایک مومن کو کی جاتی ہے اس کو اس پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور ایک صحیح مومن اس پر عمل کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ میرا خدا جو سب سے زیادہ پیار کرنے والا ہے میری نافرمانی سے کہیں مجھ سے ناراض نہ ہوجائے۔

اور دوسری بات (یہ ہے کہ) جو ایک مومن کے سامنے جب اللہ تعالیٰ کی آیات پڑھی جاتی ہیں، جب ان نشانات کا ذکر کیا جاتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے فضلوں کی وجہ سے ایک مومن پر ظاہر ہوتے ہیں تو یہ چیز اسے اس کے ایمان میں مزید ترقی کا موجب بنا دیتی ہے۔

اور تیسری اہم بات (یہ) ہے کہ ایمان کی زیادتی کے ساتھ مومن کا معیار توکُّل بڑھتا ہے۔ اس کا یقین اللہ تعالیٰ کے سلوک کی وجہ سے بڑھتا چلا جاتاہے اور ایمان میں بڑھنے کے ساتھ اس کا توکُّل بھی بڑھتا چلا جاتا ہے اس میں وہ ترقی کرتا چلا جاتا ہے۔ وہ دنیاوی چیزوں پر گرنے کی بجائے اور انہی پر مکمل انحصار کرنے کی بجائے اپنی کوشش کرنے کے بعد جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ اسباب کا استعمال بھی ہونا چاہئے اور محنت بھی ہونی چاہئے پھر بہتر نتائج کے لئے اللہ تعالیٰ پر معاملہ چھوڑتا ہے۔ اونٹ کا گھٹنا باندھنے کے بعد اس رسّی پر توکُّل نہیں کرتا جس سے گھٹنا باندھا گیا ہے بلکہ اس مالک پر توکل کرتاہے جس کے قبضۂ قدرت میں ہر چیز ہے، جو نگران ہے، جو حفاظت کرنے والا ہے پس یہ توکُّل ہے جو ایک مومن کا طرہ امتیاز ہے اور ہونا چاہئے اور یہ اس کی خصوصیت ہے۔

(خطبہ جمعہ 13؍ جولائی 2007ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 نومبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 نومبر 2020