• 6 مئی, 2024

لاطینی امریکہ میں ایک روحانی سفر کا آغاز

اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو فرمایا تھا کہ ’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘ اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے بھی اس علاقہ کے متعلق جسے لاطینی امریکہ بھی کہا جاتا ہے 4 مئی 1944ء کو ایک رؤیاء دیکھی تھی جو اخبار الفضل 11 مئی 1944ء میں شائع شدہ موجود ہے۔ آپ فرماتے ہیں:
’’آج رات میں نے ایک اور رؤیا دیکھی جوعجیب قسم کی ہے کہ اس کی تعبیر اس وقت تک سمجھ میں نہیں آئی۔اس رؤیا سے میرے دل میں بہت افسردگی ہے۔ میں نے دیکھا کہ کوئی شخص ہے جو کسی غیر مذہب کا آدمی معلوم ہوتا ہے لیکن جس جگہ پر وہ ہے اس جگہ پر ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے احمدیوں کی حکومت ہے اور اس کے متعلق حکومت نے کوئی فیصلہ کیا ہے۔ اس شخص نے کوئی سیا سی جرم کیا ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی حکومت قائم کرنا چاہتا ہے اس جرم کی بناء پر حکومت نے اس کے خلاف فیصلہ صادر کیا او ر اس کے لئے اسے پھانسی کا توحکم نہیں دیا گیا مگر حکومت کی طرف سے کوئی سزا اس کے لئے ضرور تجویز کی گئی ہے۔ اس کے بعد میں نے دیکھا کہ چند لوگوں نے حکومت کی طرف سے اس کو پکڑا ہوا ہے اور وہ اس طرح اس کے پیٹ کی کھال چیر رہے ہیں جس طرح بکرے کی کھال اتاری جاتی ہے اس وقت مجھے ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے وہ شخص جسے سزا مل رہی ہے کہہ رہا ہے (مجھے اس کا فقرہ تو صحیح طور پر یاد نہیں مگر اس کا مفہوم یہ تھا) کہ یونائیٹڈ سٹیٹس آف امریکہ کی گورنمنٹ اس پر اعتراض کرے گی۔ میں بھی اسی جگہ ہوں اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس ملک میں احمدیوں کی حکومت ہے۔ جب اس نے یہ کہا کہ یونائیٹڈ سٹیٹس آف امریکہ کی گورنمنٹ اس پر اعتراض کرے گی تو میں کہتا ہوں یونائیٹڈ سٹیٹس آف امریکہ کو اعتراض کرنے کا کیا حق ہےیہ جنوبی امریکہ کا علاقہ ہے (یہ مراد نہیں کہ سارا جنوبی امریکہ بلکہ مراد یہ ہے کہ جنوبی امریکہ کا کوئی ٹکڑا) اور اس علاقے پر احمدیوں کی حکومت ہے۔ اس کے بعد میں پھر دیکھتا ہوں کہ لوگ اس کے پیٹ کو چیرتے ہیں مگر وہ بڑے صبر و استقلال سے اس تمام تکلیف کو برداشت کر رہا ہے وہ جانتا ہے کہ چونکہ یہ لوگ میرا پیٹ چاک کر رہے ہیں اس لئے تھوڑی دیر کے بعد ہی میری موت واقع ہوجائے گی چنانچہ وہ اس وقت کہتاہے۔

’’میری تجہیز و تکفین غیرمذاہب والوں کی طرح نہ کرنا‘‘

جب وہ یہ فقرہ کہتا ہے تو مجھ پر سخت کرب کی حالت طاری ہوجاتی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ تو کوئی ایسا شخص تھا جو دل سے مسلمان تھا چنانچہ میں اس سے کہتا ہوں ’’کیا تم دل میں مسلمان ہو‘‘ اس پر وہ ایسے رنگ میں سرہلاتا ہے جیسے کہتا ہو ہاں۔ اس کے اس فقرہ کے کہنے سےمیرے دل میں محبت کا سخت جوش پیدا ہوا اور مجھے افسوس ہوا کہ اس کے متعلق حکومت کی طرف سے جو فتویٰ دیا گیا تھا وہ معلوم ہوتا ہے غلط تھا۔ چنانچہ میں اس وقت جوش میں اس کی طرف سے منہ کر کے کھڑا ہوجاتا ہوں اور بڑے جوش سے کہتا ہوں۔ اگر مجھے پتہ ہو تا کہ تم دل سے مسلمان ہو تو میں تمہاری حکومت یہاں قائم کر دیتا پھر مجھے اور جوش پیدا ہوتا ہے اور میں کہتا ہوں اگر مجھے پتہ ہوتا کہ تم دل سے مسلمان ہو تو ہم سارے تمہارے ماتحت آجاتے ہیں۔ پھر میں اور زیادہ زور دیتا ہوں اور کہتا ہوں اگر مجھے پتہ ہوتا کہ تم دل سے مسلمان ہو تو ہم تو تمہارے غلامی سے بھی احتراز نہ کرتے۔ مگر وہ خاموش رہا اور اس کے جواب میں کچھ نہیں کہا۔ اس کے بعد میں نے یہ نظارہ دیکھا کہ آہستہ آہستہ اس کے چہرہ میں تبدیلی پیدا ہونی شروع ہوئی اور تھوڑی دیر میں ہی اس کی شکل امّ طاہرؒ کی سی بن گئی۔ اس وقت میرے دل میں بڑا درد پیدا ہوا اور میں نے اس کے سرہانے کھڑے ہو کر دعا کی یا اللہ! اس کو بچادے۔ مجھے اس وقت یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ ایک مرد کی شکل عورت کی شکل میں کس طرح تبدیل ہو گئی اور وہ امّ طاہرؒ کی صورت میں۔ اس وقت رؤیا میں معین شکل میں اسے امّ طاہرؒ نہیں سمجھتا لیکن یہ ضرور ہے کہ امّ طاہرؒ کی طرح اس کی شکل ہوگئی ہے لیکن پھر بھی خواب میں میرے لئے یہ کوئی اچنبھے کی بات معلوم نہیں ہوتی اس وقت دعا کرتے ہوئے کہتا ہوں الٰہی تو ان کی جان بچا لے۔ اس دعا سے پہلے اس نے کوئی بات نہیں کی سوائے اس پہلے فقرہ کے کہ ’’میری تجہیز و تکفین غیر مذاہب والوں کی طرح نہ کرنا‘‘ مگر جب میں دعا کرتا ہوں کہ الٰہی تو ان کی جان بچا لے تو جیسے عورت بعض دفعہ ناز سے ٹھنک کر بات کرتی ہے اسی طرح اس نے ٹھنک کر کہا اوہوں اوہوں۔ یعنی یہ کیا دعا کرتے ہو پھر اس نے سر ہلایا جس کا مطلب یہ ہے کہ میری زندگی کے لئے دعا نہ کرو اس کے بعد میں نے دیکھا کہ اس کی شکل ام طاہرؒ کی شکل میں پوری طرح تبدیل ہوگئی اور جب مجھے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ام طاہر ہیں تو میں نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا خدا تمہاری روح پر فضل نازل کرے۔ تمہاری روح پر برکتیں نازل کر۔خدا تمہاری روح پر بڑی بڑی رحمتیں نازل کرے اور میں نے دیکھا کہ وہ بڑے سکون اور اطمینان سے لیٹی ہوئی ہیں پھر خواب میں ہی جگہ بدل جاتی ہے اور یوں معلوم ہوتا ہے جیسے اس وجود کی چار پائی اماں جان کے صحن میں ہے اس صحن کے پاس ہی ایک کمرہ ہے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے وقت میں تو اس میں آدمی رہتےتھے مگر آج کل غسل خانہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے میں اس کمرہ کی طرف جاتا ہوں تو راستہ میں میں نے انور یا طاہر کو دیکھا۔ میں نے اسے چار پائی کے پاس کھڑا کر دیا اور کہا کہ پیٹ چاک ہو تو بعض دفعہ کتے بو سونگھ کر حملہ کر دیتے ہیں اس لئے تم چار پائی کے پاس کھڑے رہو اور پہرہ دو۔ اس کے بعد میں اس کمرہ میں گیا ہوں وہاں میں نے بعض عورتوں کو دیکھا میرے جانے پر وہ کھڑی ہو گئیں ہیں ان میں میں نے اپنی لڑکی امۃ الباسط کو بھی دیکھا اسی طرح سیٹھ غلام غوث صاحب حیدر آبادی کی ایک نواسی ہے جس کا نام رشیدہ ہے میں نے دیکھا کہ وہ بھی اسی جگہ کھڑی ہے مگر باوجود اسے پہچاننے اور یہ علم رکھنے کے کہ یہ رشیدہ ہی ہے میں کہتا ہوں کہ اس کا نام امۃ الحفیظ ہے حالانکہ امۃ الحفیظ اسی بیٹی کانام ہےجو خلیل احمد صاحب ناصر سے بیاہی گئی ہیں شکل بھی رشیدہ کی ہی ہے مگر میں کہتا ہوں کہ یہ امۃ الحفیظ ہے اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی۔

فرمایا: اگر اس خواب میں جنوبی امریکہ کے کسی علاقہ میں ہونا اور پھر ایک ایسے شخص کا دکھایا جانا نہ ہوتا جس کے متعلق ہم سمجھتے ہیں کہ وہ شائد غیر مسلم ہے تو میں شائد اس کی یہ تعبیر کرتا کہ ام طاہر کا اپریشن غلط ہوا ہے اگر اپریشن نہ ہوتا تو ان کی جان بچ جاتی رؤیا میں ان کا ٹھنک کراو ہوں اوہوں کرنا اور یہ کہنا کہ میری زندگی کے لئے دعا نہ کرو یہ حصہ تو اسی لحاظ سے ان پر یقیناً چسپاں ہوجاتا ہے کہ ڈاکٹر بار با رمجھے یہ کہتا تھا کہ خاتون مریض علاج میں میری مدد نہیں کرتی اور وہ اپنی صحت کے لئے کوئی کوشش نہیں کرتی جس سے مرض کا مقابلہ ہو اور ان کی طبیعت بیماری پر غالب آسکے باوجود ساری کوششوں کے ان کا طریق اس طرز کا تھا کہ گویا اب انہیں زندگی کی ضرورت نہیں۔

فرمایا: اس خواب کے دو حصے ہیں ایک ہمارا جنوبی امریکہ میں ہونا اور دوسرا ایک ایسے شخص کا دکھایا جانا جس کو ہم نے پہلے غیر مسلم سمجھا لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ وہ دل سے مسلمان تھا یہ دو حصے بتلارہے ہیں کہ یہ خواب کسی اور واقعہ کی طرف اشارہ کرتی ہے البتہ اتنا ضرور معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہماری تبلیغ کے لئے جو نئے رستے کھولنے والا ہے ان میں جنوبی امریکہ بھی شامل ہے کیونکہ میں نے دیکھا کہ جنوبی امریکہ کے ایک حصہ پرہماری حکومت قائم ہوگئی ہے جنوبی امریکہ میں دس گیارہ ریاستیں ہیں اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ یہ خواب کس حصہ کے لئے مقدر ہے۔

فرمایا: اس امر کی طرف ذہن جاتا ہے کہ امّ طاہرؒ چونکہ میری بیوی تھی اس لئے ممکن ہے اس خواب کا یہ مطلب ہو کہ کسی وقت جب احمدیت کو غلبہ میسر آجائے گا اس وقت کسی ایسے شخص سے مقابلہ ہوگا جو دل سے ایمان تو رکھتا ہوگا مگر ظاہر میں مخالف ہوگا جیسے قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ایک شخص کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ یَکۡتُمُ اِیۡمَانَہٗۤ (المؤمن: 29) وہ اپنے ایمان کو چھپاتا تھا پس ممکن ہے اس کے دل میں بھی ایمان ہو لیکن اپنی قوم کے ڈر سے احمدیت کا مقابلہ کرنے کے لئے کھڑا ہو جائے اور پھر گرفتار ہو کر سزا پائے لیکن اللہ تعالیٰ نے بتایا ہے کہ وہ آخری وقت میں اظہار عقیدت اور اظہار ایمان کر دے گا اور بتا دے گا میں احمدی ہوں بیوی چونکہ مرد کے ماتحت ہوتی ہے اس لئے ممکن ہےاس سے مراد یہی ہو کہ وہ دل سے اظہار ایمان کرے گا اور یہ جو اس نے پہلے کہا ہے کہ

’’میری تجہیز و تکفین غیر مذاہب والوں کی طرح نہ کرنا‘‘

اس کا یہ مطلب ہو کہ اس کے عقائد عام مسلمانوں والے نہیں ہوں گے لیکن بعد میں امّ طاہرؒ کی شکل دکھانے سے یہ مراد ہو کہ وہ دل میں احمدی ہوگا۔

گفتگو کے بعد مجھ سے مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب نے ذکر کیا کہ شاید امّ طاہرؒ سے یہ مراد ہو کہ گو وہ شخص یَکۡتُمُ اِیۡمَانَہٗۤ کا مرتکب ہو اور اس وجہ سے اپنی جان بھی کھو بیٹھےمگر اس کے بعد اس کی نسل طاہر ثابت ہو اور احمدیت کی خادم بنے اور اس طرح وہ شخص امّ طاہرؒ کا لقب پانے کا مستحق ہو یہ تعبیر درست معلوم ہوتی ہے اور اس سے بظاہر خواب کی پیچیدگی دور ہوجاتی ہے۔

(الفضل 11 مئی 1944ء صفحہ1)

جنوبی امریکہ میں ایک بڑا ملک برازیل ہے جو پہلے پرتگال کی نو آبادی تھا اور جنوبی امریکہ کا باقی کا نصف برّاعظم سپین کی نو آبادی تھا۔ جب مسلمانوں کو ان ملکوں میں زوال آیا تو انہی دنوں میں امریکہ دریافت ہوا اور یورپ کے ممالک میں نو آبادیاں بنانے کی دوڑ شروع ہو گئی۔ سپین اور پرتگال کی بندرگاہوں سے بھی جہاز بھر بھر کر امریکہ کے مختلف ساحلوں پر اترنے لگے تا کہ وہ بادشاہ کے نام پر ان علاقوں کو فتح کر کے ان کی حکومتیں قائم کر دیں۔ اس دور میں مسلمانوں پر خاص سختی برتی جا رہی تھی جس سے بچنے کے لئے ان جہازوں میں جان بچا کر جانے والے مسلمانوں کی بھی خاص تعداد تھی جنہوں نےوہاں جا کر جنوبی امریکہ کے مختلف علاقوں میں بود و باش اختیار کی مگر وہاں بھی ان سے کوئی نرمی کا سلوک نہیں ہوا جس کی وجہ سے وہ زیر زمین اس لحاظ سے چلے گئے کہ انہوں نے نام بدل کر اپنےآپ کو spiritualist یعنی روحانی لوگ کہنا شروع کر دیا۔ ان لوگوں کی بڑی تعداد اب بھی وہاں ہر جگہ پائی جاتی ہے اور ان کی بعض روایات مسلمانوں جیسی ہیں۔

1985ء میں برازیل کے ملک میں مشن احمدیہ کا آغاز فرمایا اور جماعت احمدیہ کا اس خطہ میں ایک نئے روحانی سفر کا آغاز ہوا۔ خاکسار کو آپ نے وہاں پر جانے کا ارشاد فرمایا اور 1988ء تک میں نے وہاں پر قیام کیا۔ تمام ابتدائی نوعیت کے ضروری امور سر انجام دیئے۔ اسی دوران محترمہ سسٹر امینہ ایدل وائزالمیدادیاز (Sister Amina Almeda Diaz Adelwuise) نے قبول اسلام و احمدیت فرمایا اور وقف بھی کر دیا۔

جو حضرت خلیفۃ المسیح رحمہ اللہ نے قبول فرمالیا اور آں جناب کی ہدایت کے مطابق انہوں نے احمدیہ لٹریچر کو پرتگالی زبان میں ڈھالنا شروع کر دیا۔ دوسال کے بعد حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کے زیر ارشاد پرتگالی میں ترجمہ قرآن کا کام ہم دونوں نے کیا۔ فالحمدللہ علیٰ ذالک۔ آپ نے جوبلی کے جلسہ سالانہ پر انہیں پہلی احمدیہ خاتون مبلغہ بھی قرار دیا۔

(محسنات صفحہ53)

نومبر1988ء میں ارشاد حضور رحمہ اللہ پر خاکسار گوائٹے مالا میں جماعت احمدیہ کے دوسرے مشن کا آغاز کرنے اور اس خطہ کی پہلی مسجد بیت الاول کی تعمیر کرانے کے لئے حاضر ہوا۔ جس کا افتتاح حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے خود بنفسِ نفیس یہاں آکر تین جولائی 1989ء کو فرمایا۔ آپ کا استقبال سرکاری طور پر حکومت کے ایک سربراہ کی طرح ہوا۔ سرکاری پولیس افسران سرکاری کپڑوں میں اور سادہ کپڑوں میں آپ کے آگے پیچھے رہتے تھے۔ ایک سیکوریٹی کے اعلیٰ افسر نے جو آپ کی شخصیت اور عبادت سے خاصے متأثر تھے۔ آپ کی اقتداء میں با اجازت نمازیں بھی ادا کیں اور بعد میں حلقہ بگوش اسلام و احمدیت بھی ہو گئے۔ نائب صدر مملکت و وزراء مملکت اور حکومت کے ذمہ دار عہدیداران نے آپ کا استقبال فرمایا اور آپ کو خوش آمدید کہا۔ آپ کے متعدد انٹرویوز ہوئے۔ ہمسائیہ ممالک کے اخباری نمائندے بھی اس غرض کے لئے تشریف لائے۔ ٹیلی وژن پر آپ کا انٹر ویو دورونزدیک کے ہمسائیہ ملکوں میں دیکھا اور سنا گیا چنانچہ کولمبیا سے بہت سے دستخطوں پر مشتمل ایک خط بھی آیا جس میں وہاں پر بھی ایسی ہی ایک مسجد تعمیر کئے جانے کی استدعا لکھی گئی تھی۔

ملک کے اخبارات میں آپ کی آمد کا خوب چرچا ہوا اور آپ کی دعاؤں کی قبولیت کے نشانات ظاہر ہونے لگے۔ مسجد کی تعمیر میں حصہ لینے والے ڈیڑھ دو سو مزدوروں نے آپ کی تبلیغ کو سنا اور بہت متأثر ہوئے۔ آپ نے انہیں خطاب فرمایا اور اپنی طرف سے ایک ایک ہفتے کی مزدوری بطور انعام کے عنایت فرمائی۔ چنانچہ یہ لوگ ہی ہمارے اولین نو مبائین تھے۔ حضور نے یہ پیشگوئی بھی فرمائی کہ بہت بیعتیں ہو نگی بس لیتے چلے جائیں چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ Prensa Libre کی 11 ستمبر اور 14 ستمبر 1989ء کی اشاعتوں سے یہ انٹرویو شائع ہوا ہے کسی قدر پیش کیا جاتا ہے۔

حضورؒ نے اپنے انٹرویوز میں فرمایا تھا کہ اسلام یہ ہے کہ ہر ایک سے پیار کیا جائے اور کسی سے نفرت نہ کی جائے….. آپ نے فرمایا ہمارے خیال میں اسلام وہ آخری مذہب ہے جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا اور اسلام اپنے اندر بین الاقوامی اور عالمگیر سچائیاں رکھتا ہے اور اللہ تعالیٰ نے یہ اس لئے نازل فرمایا ہے تا کہ تمام انسانوں کو اس کے ذریعہ سے متحد کیا جائے… چنانچہ آپ جس تاثر پر حیران اور فکرمند تھے وہ یہ کہ لاطینی امریکہ میں تمام قدرتی و سائل موجود ہیں اس لئے یہاں بھی زندگی امریکہ جیسی ہونی چاہئے۔ مگر صورت حال یہ ہے کہ اگر یہ اپنی زمین کا ایک ایک انچ بھی فروخت کردیں تو امریکہ کے بنکوں کا قرضہ چکانے کے قابل نہیں ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ لاطینی امریکہ کے ممالک اور غیرترقی یافتہ ممالک خراب معاشیات کی وجہ سے نقصان اٹھار ہے ہیں اس کے ذمہ دار عالمی بنک اور عالمی بنکاری کا نظام ہے جن کے ذریعہ سے معاشی سیاست ملکوں میں عمل پذیر ہے یہ مقروض ممالک کو جو کچھ کہتے ہیں وہ وہی کچھ کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

جنگ اور امن کے متعلق آپ نے اپنا یہ خیال ظاہر فرمایا کہ اس کا تعلق سپر پاورز (Super Powers) سے ہے۔ وہ جو اختلافات کا بیج بوتے ہیں تو انہیں پھر ان کی وجہ سے جو پھل لگتا ہے وہ جنگوں کو جنم دیتا ہے۔ پس ہمیں اس بات کا تجزیہ کرنا چاہئے اور دیکھنا چاہئے کہ اختلافات کی وجوہات کیا ہیں اور اس کا حل کیا ہے اور اس کے لئے ہمیں ایک با اخلاق دنیا جنم دینی ہے۔ در حقیقت بات یہی ہے کہ لاطینی امریکہ کے ممالک ہوں یا دیگر مشرقی ممالک ہوں وہ اخلاقی طاقتوں کو کھو بیٹھے ہیں اور اپنے اندر اخلاقی طاقتوں کو پیدا کرنے کے لئے انہیں بہت سخت کوشش کرنی پڑے گی یہ بات ہم نے اپنے تجربہ سے معلوم کر لی ہے جن ممالک نے ہمارے داعیان کو قبول کیا ہے وہ اخلاقی سر چشموں کی طرف لوٹے ہیں اور انہوں نے اپنے اندر اخلاقی قوتوں کو ترقی دی ہے ایک بیمار پر آسانی سے بکٹیر یا (bacteria) حملہ آور ہوجاتے ہیں اور وہاں پر اپنی کالونی بنالیتے ہیں اور ایک سٹر انڈوالا جسم موت سے ہمکنار ہو جاتا ہے۔ ایک ملک اپنی اخلاقی طاقت سے کسی کو اپنے اوپر سوار ہونے نہیں دے گا جیسے کہ گدھ و غیرہ پرندے مردہ پر سوار ہوجاتے ہیں اور اس کو ختم کر کے دم لیتے ہیں۔ پس ہم جو پیغام دیتے ہیں وہ یہی ہے کہ اپنے اندر وہ اخلاقی طاقتیں پیدا کریں۔ پس اس بات کا ہمیں یقین ہے کہ وہ معاملات جن کی وجہ سے دنیا پریشان ہے دور ہو جائیں گے۔

آپ نے کہا کہ میرے نزدیک اظہار خیال کی آزادی بہت ضروری ہے۔ پریس کی آزادی کے متعلق آپ با ت کر رہے تھے کہ اس کی آزادی میں کسی قسم کی رکاوٹ نہیں ہونی چاہئے۔ ایک جنگ مقدس جو ضروری ہے وہ یہ بھی ہےکہ اظہار خیال کی آزادی کے لئے جدوجہد کی جائے۔ حقیقت یہی ہے کہ ایک انسان خدا کے سامنے ہی جواب دہ ہے کسی حکومت یا کسی شخص کو کسی کے احساسات کسی کے جذبات اور اس کے اظہار خیال کی طاقت کو ماؤف نہیں کرنا چاہئے۔ جو ایسا کرتے ہیں وہ دراصل اپنے جھوٹے خداؤں کی پرستش میں لگے ہوتے ہیں اور نہیں چاہتے کہ اس بات سے کوئی انہیں آگاہ کرے اور خدا کی دی ہوئی طاقتوں کو یعنی عقلمندانہ کانشس کو ہی جڑ سے اکھیڑ دینا چاہتے ہیں۔

اس مضمون کو بدلتے ہوئے سوال کیا گیا کہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ اور حضرت محمد علیھم السلام نے معجزات دکھائے۔ حضرت محمدﷺ کے معاملہ میں کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ آپ کا مکہ کو بغیر خون خرابے کے فتح کر لینا ایک معجزہ تھا۔ اس پر آپ رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’میں یہ سوال سن کر بہت متاثر ہوا ہوں۔ کیونکہ میں اس سوال میں بڑی عقل و دانش دیکھ رہاہوں۔ ایسے میں جبکہ جنگیں مسلسل کی جاتی تھیں آپﷺ کا بغیر کسی خون خرابے کہ امن و امان کو قائم کر دینا بلا شک ایک بہت بڑا معجزہ ہے۔ اسی طرح اسلام کے بانی حضرت محمدﷺ نے کھول کر صاف طور پر یہ پیشگوئی فرمائی ہے کہ اسلام کی نشأۃ ثانیہ میں اسلام کی آخری فتح کے لئے تلوار استعمال نہیں کی جائے گی بلکہ محبت اور برہان سے کام لیا جائے گا۔‘‘

دوران گفتگو دریافت کیا گیا کہ گوائٹے مالا میں عیسائیوں کی کثرت ہے اور کچھ عرب کیتھولک بھی ہیں اور تھوڑی تعداد میں یہودی بھی ہیں۔ آپ ان کو کیا پیغام دیں گے کیا آپ پسند کریں گے کہ وہ آپ کے ساتھ شامل ہوجائیں۔

آپ نے فرمایا جماعت احمدیہ اعلیٰ اور مضبوط اخلاق اپنانے کا پیغام دیتی ہے جو کہ گوائٹے مالا اور اس طرح دوسرے ممالک کے لوگوں کے لئے بہت اہمیت کا حامل ہے کہ وہ اپنے اندر ایک اخلاقی انقلاب لائیں اور ہمیں امید ہے کہ اس رو سے وہ ہماری بات ضرور سنیں گے۔ یہ تو منافقت ہوگی کہ اگر میں یہ نہ کہوں بلکہ میں پسند کروں گا کہ گوائٹےمالاکے لوگ چاہے وہ بنیادی طور پر عیسائی ہوں یا مسلمان یا کوئی اور وہ ہماری جماعت میں آکر متحد ہو جائیں۔ بنیادی طور پر ہر مذہب پھیلنا چاہتا ہے اور یہ ہی طریق ہے جس کے ذریعہ سے اچھی باتیں جو ہمارے پاس ہیں ہم دوسروں کو اس میں شریک کر سکتے ہیں۔ پس ہم محسوس کرتے ہیں کہ یہ ایک ضرورت ہے کہ ہم پوری پاکیزگی دوسروں کو دے سکیں اور لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ کوئی سیاسی پلان یاکوئی دھوکہ بازی کا پروگرام یا کوئی غیر محتاط بات بیچ میں حائل نہ ہو۔ آپس کے تعلقات پورے طور پر بے تکلفی کے ہوں۔ لوگوں کو اپنی طرف سے پورا احترام دیا جانا چاہئے اور انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ہمارا عمل ہونا چاہئے۔ اسی طرح ہی زمین کے دوسرے حصوں میں تقریباً 120 ممالک میں ہم موجود ہیں۔ جہاں بھی ہماری جماعت پائی جاتی ہے جماعت احمدیہ کا ہر جگہ پر پیغام محبت کا پیغام ہےاورامن کا پیغام ہے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع مرزا طاہر احمد صاحبؒ نے انٹرویو کے آخر میں فرمایا کہ میں اس بات کی دعوت دیتا ہوں کہ آپ لوگ اسلام کو اور اسلام کی مقدس کتاب قرآن کریم کو اچھی طرح سمجھیں اور قرآن کریم کا کھلے دل کے ساتھ اور آزاد روح کے ساتھ مطالعہ کریں کہ دل آپس میں محبت اور بھائی چارہ میں مل جائیں اور خدا تعالیٰ کے قرب کو حاصل کرنے کے قابل ہوجائیں تا کہ اللہ تعالیٰ ہماری پہلے سے زیادہ امداد فرمائے اور ہم نئی نسلوں کے لئے ایک بہتر دنیا پیش کرنے والے ہوں جس میں تشدد نہ ہوں منشیات نہ ہوں۔ غربت نہ ہو اور خدا تعالیٰ سے تعلق رکھتے ہوئے ہم میں اسقدر اخلاقی طاقتیں ہو ں کہ ہم اس کے ذریعہ سے زیادہ ترقی کرنے کے قابل ہوں اور یہ بات ہمارے لئے خوشی اور سکون کا باعث ہو گی۔

نمائندے کے تا ثرات

گوائٹے مالا کے معروف اخبار Prensalibre کے ایک معروف نمائندے کا ذکر کرتے ہوئے آپ نے فرمایا:
’’اس اخباری نمائندے نے فرمایا کہ جب مجھے پتہ چلا کہ آپ ایک مسجد کے افتتاح کیلئے تشریف لا رہے ہیں تو مجھے یوں ہی خیال آیا کہ میں جو زائچہ نکالتا رہتا ہوں اور ستارے پڑھنے کی کوشش کرتا ہوں اور اس میں میں سارے ملک میں مشہور بھی ہوں۔ تو کیوں نہ اس دن کا زائچہ نکال کر دیکھوں کہ یہ دن کیسا ہے؟ جب میں نے زائچہ نکالا تو مجھے پتہ چلا کہ گوائٹے مالا کی تاریخ میں یہ سب سے معزز دن ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت ہی میرے دل میں جاگزیں ہو گیا کہ یہ کوئی اہم واقعہ ہےاور اس کا تعلق آپ سے ہے۔ چنانچہ انہوں نے جماعت کے متعلق بہت اچھا مضمون اپنے اخبار میں شائع کیا جس سے تمام گوائٹے مالا میں احمدیت سے غیر معمولی دلچسپی پیدا ہو گئی۔‘‘

(الفضل 23 اگست1989ء)

پولیس کا کردار اور تاثرات

حضور رحمہ اللہ کی حفاظت کا جو یہاں کی پولیس کے ذریعہ سے انتظام کیا گیا تھا اس کے متعلق فرمایا:
’’ ہمارے پورے دورے کے دوران پولیس escort ہمیشہ مسلسل ہمارے ساتھ رہی تھی اور جس سڑک پر سے بھی گزرتے تھے ساری دوسری ٹریفک مسلسل بند کردی جاتی تھی۔ ایک دلچسپ تجربہ وہاں یہ ہوا کہ ہمارے سیکورٹی چیف جو تھے انہوں نے مجھ سے درخواست کی کہ میں آپ کے ساتھ نماز پڑھنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا کہ بڑی خوشی کے ساتھ پڑھیں۔ جب ان سے اس کی وجہ پوچھی گئی تو کہنے لگے کہ میری بیوی نہایت کٹر کیتھولک ہے۔ وہ ہمیشہ مجھے کہا کرتی ہے کہ فلاں جو منسٹر (مذہبی لیڈر عیسائی پادری) آئے تھے انہوں نے بہت اچھی سروس کی ہے اور اس کا دل پر بڑا اثر ہوا ہے۔ تم بھی کبھی آؤ۔‘‘

انہوں نے کہا کہ آپ کے ساتھ جو دو تین دن گزارے ہیں اور آپ کی نمازیں دیکھی ہیں تو میں نے اپنی بیوی سے جا کر کہا کہ تمہیں پتہ ہی نہیں کہ روحانیت کیا ہوتی ہی۔ تم احمدیوں کو نماز پڑھتے دیکھ لو تو تمہیں پتہ لگے کہ دل کی کیا کیفیت ہوتی ہے اور اس قدر میرے دل پر اثر ہے کہ آپ مجھے اجازت دیں کہ میں آپ کے ساتھ نماز پڑھوں۔ چنانچہ پھر انہوں نے ہمارے ساتھ نماز پڑھی۔

(نوٹ) یہ سکورٹی چیف Gillermo Juachin بعد میں احمدی ہو گئے تھے۔

(الفضل 23اگست1989ء)

وزیر صحت کا بیان

گوائٹے مالا کے وزیر صحت نے حضور کے دورے کے دوران کئی بار آپ سے ملاقات کی۔ دوران ملاقات انہوں نے با ربار حضور سے یہ کلمات کہے۔ مجھے آپ کی ذات میں خدا کی محبت اور خدا کی Wisdom دکھائی دیتی ہے۔ اس لئے آپ مجھ سے وعدہ کریں کہ کبھی مجھے دعاؤں میں نہیں بھولیں گے۔

(الفض 23 اگست1989ء)

وزیر خارجہ کی درخواست

آپ کی 5 جولائی کو کھانے کے بعد زیرخارجہ گوائٹے مالا سے ملاقات ہوئی۔

گوائٹے مالا کے وزیر خارجہ اپنی مصروفیات کی وجہ سے مسجد کی افتتاحی تقریب میں شامل نہ ہو سکے تھے۔ انہوں نے اپنے نائب وزیر کو بھجوایا تھا۔ انہوں نے جب تفصیلات انہیں جا کر بتا ئیں تو ان کے دل میں بھی ملاقات کی خواہش پیدا ہوگئی وہ وقت مانگ کر آپ سے ملاقات کے لئے آئے اور دو گھنٹے تک ٹھہر ے رہے اور جاتے ہوئے یہ کہا کہ
’’حضور میری درخواست ہے کہ آپ ہمیشہ مجھے اپنے دل میں جگہ دیں‘‘

(الفضل 23 اگست1989ء)

حضورؒ نے ان لوگوں کے اس قدر ادب واحترام اور عقیدت کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا آپ بتائیں کہ اس میں کسی کوشش کا کیا دخل ہے۔ احمدی وہاں تھے نہیں ان کے کردار کا کیا سوال تھا۔ اللہ تعالیٰ نے آسمان سے فرشتے بھیجے ہوئے تھے جو دلوں میں تبدیلی پیدا کر رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام سے جو وعدہ کیا تھا کہ تیرے دشمن ذلیل ہوں گے اور تیرے نام کو عزت کے ساتھ یاد کیا جائے گا۔ یہی وہ وعدہ تھا جو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے غلام کی عزت کی صورت میں ظاہر ہونا تھا۔ ورنہ میں کیا اور میری حقیقت کیا۔

(الفضل 23 اگست1989ء)

اس موقع کی کچھ تصاویر بھی ساتھ پیش کی جا رہی ہیں تاکہ اس روحانی سفر کے آغاز کا کسی قدر آنکھوں دیکھا حال بھی معلوم ہو سکے۔ چنانچہ اس طرح حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی رویاء کی تعبیر کا آغاز ہوا اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے اللہ تعا لیٰ نے جو وعدے فرمائے تھے ان وعدوں کا اظہار ہوا۔ جب کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ عنہ نے دور ے کے بعد واپس جاکر ایک خط ارسال فرمایا۔ جو حضور کے ارشاد کے مطابق سب اخبارات تک پہنچایا گیا تھا۔ یہاں پر اسے پیش کیا جاتا ہے۔ اس سے معلوم ہو گا کہ آپ نے احمدیت کے اس روحانی سفر کے آغاز کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئیوں کی تعبیر سمجھا۔ الحمدللّٰہ علیٰ ذالک۔

الحمدللّٰہ حضرت مرزا مسرور احمد صاحب خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرالعزیز کے بابرکت دور خلافت میں بھی جنوبی امریکہ میں دن دونی رات چوگنی ترقی ہو رہی ہے۔ اور جنوبی امریکہ میں فتوحات کا سلسلہ جاری ہے۔ ہر سال جلسہ سالانہ انگلستان پر وہاں سے نومبائعین کی اچھی خاصی تعداد آکر شمولیت اختیار کر تی ہے۔ گزشتہ سال السلواڈور اور ایکواڈور میں جماعت کا نفوذ ہوا۔الحمد للّٰہ علی ذالک۔

اور اس سال کولمبیا اور چلی میں نفوذ احمدیت ہوا ہے اور کولمبیا کے نمائندہ نے تو جلسہ سالانہ یوکے میں شمولیت فرمائی اور خطاب بھی کیا۔

آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم جلد دیکھیں جب اس عظیم رویاء حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی مکمل تعبیر ظاہر ہو گی اور ناصرف جنوبی امریکہ میں بلکہ تمام دنیا میں اسلام و احمدیت کا عظیم الشان غلبہ ہو گا۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام کیا خوب فرماتے ہیں۔
’’تم خوش ہو اور خوشی سے اچھلو کہ خدا تمہارے ساتھ ہے۔‘‘

(تذکرۃ الشہادتین صفحہ26)

آخر توحید کی فتح ہو گی……… نئی زمین ہو گی اور نیا آسمان ہو گا۔ وہ دن نزدیک آئے ہیں کہ جو سچائی کا آفتاب مغرب کی طرف سے چڑھے گا اور یورپ اور یورپ کو سچے خدا کا پتہ لگے گا۔قریب ہے کہ سب ملتیں ہلاک ہوں گی مگر اسلام اور سب حربےٹوٹ جائیں مگر اسلام کا آسمانی حربہ کہ نہ وہ ٹوٹے گا اور نہ وہ کند ہو گا…… وہ وقت قریب ہے کہ خدا کی سچی تو حید کو بیابانوں کے رہنے والے اور تمام تعلیموں سے غافل بھی اپنے اندر محسوس کرتے ہیں ملکوں میں پھیلے گی ….. لیکن نہ کسی تلوار سے اور نہ کسی بندوق سے بلکہ مستعد روحوں کو روشنی عطا کرنے سے اور پاک دلوں پر ایک نور اتارنے سے۔تب یہ باتیں جو میں کہتا ہوں سمجھ میں آئیں گی۔

(تبلیغ ِرسالت جلد ششم صفحہ8)

(اقبال احمد نجم۔ لندن)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 نومبر 2022

اگلا پڑھیں

ارشاد باری تعالی