• 24 اپریل, 2024

جو خاک میں ملے اسے ملتا ہے آشنا

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:۔
’’حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس بارہ میں فرماتے ہیں کہ:
وہ عبادالرحمن جنہوں نے دنیا میں انکسار اور عدل و انصاف کے ساتھ اپنی عمر بسر کی۔ جو دن کے اوقات میں بھی احکام الٰہی کے تابع رہے اور رات کی تاریکیوں میں بھی سجدہ وقیام میں اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑاتے اور دعائیں کرتے رہے۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ ان کے درجات کو بلند کرتے ہوئے انہیں ساتویں آسمان پر جگہ عنایت فرمائے گا یعنی و ہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ رکھے جائیں گے۔ کیونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ساتویں آسمان پرہی ہیں۔ (مسند احمد بن حنبل جلد۴ صفحہ ۲۰۷، ۲۰۸)۔ اس کی طرف رسول کریمﷺ نے اس حدیث میں بھی اشارہ فرمایا ہے کہ اِذَا تَوَاضَعَ الْعَبْدُ رَفَعَہُ اللّٰہُ اِلَی السَّمَآء السَّابِعَۃِ (کنزالعمال جلد۲ صفحہ۵۲) کہ جب کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے لئے تواضع اختیار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے ساتویں آسمان میں جگہ دیتا ہے۔ چونکہ ان لوگوں نے خدا کے لئے ھَوْن اور تَذَلُّلْ اختیار کیا ہوگا اس لئے خداتعالیٰ بھی انہیں سب سے اونچا مقام رفعت عطا فرمائے گا اور انہیں منازل قرب میں سے سب سے اونچی منزل عطا کی جائے گی۔

(تفسیر کبیر جلد ششم صفحہ ۵۹۷)

اسی مضمون کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام اپنے ایک شعر میں اس طرح بیان فرماتے ہیں

جو خاک میں ملے اسے ملتا ہے آشنا
اے آزمانے والے یہ نسخہ بھی آزما

جیساکہ مَیں نے پہلے بھی عرض کیاہے کہ اس زمانے میں عاجزی اختیار کرنے کے طریقے اور سلیقے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے ہمیں سکھائے اس لئے آپ علیہ السلام کے نسخوں پرعمل کر کے ہی ہم اس خلق کو حاصل کر سکتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ تذلل اور انکساری کی زندگی کوئی شخص اختیار نہیں کر سکتا جب تک کہ اللہ تعالیٰ اس کی مدد نہ کرے۔ اپنے آپ کو ٹٹولو، اگر بچے کی طرح اپنے آپ کو کمزور پاؤ تو گھبراؤ نہیں۔ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ کی دعا صحابہ کی طرح جاری رکھو۔ راتوں کو اٹھو اور دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ تم کو اپنی راہ دکھائے۔ آنحضرتﷺ کے صحابہ نے بھی تدریجاً تربیت پائی۔

(ملفوظات جلد اول صفحہ ۲۸ رپورٹ جلسہ سالانہ۱۸۹۷)

پھر آپ فرماتے ہیں: ’’عاجزی اختیار کرنی چاہیے۔ عاجزی کا سیکھنا مشکل نہیں ہے اس کا سیکھنا ہی کیا ہے۔ انسان تو خود ہی عاجز ہے اور وہ عاجزی کیلئے ہی پیداکیا گیا ہے۔ مَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْن (اَلذَّاریات:57) (ملفوظات جلد سوم صفحہ232 البدر ۲۴؍ اپریل ۱۹۰۳) تو اس کا بھی یہی مطلب ہے کہ عاجزی اختیار کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ کے حضور جھکو، اس کی عبادت کرو۔ تو عاجزی سمیت تمام خلق پیدا ہوتے جائیں گے ان شاء اللہ۔

پھر آپ فرماتے ہیں: ’’پانچ وقت اپنی نمازوں میں دعا کرو۔ اپنی زبان میں بھی دعا کرنا منع نہیں ہے۔ نماز کامزہ نہیں آتا جب تک حضور نہ ہو اور حضورِ قلب نہیں ہوتا ہے جب تک عاجزی نہ ہو۔ عاجزی جب پیدا ہوتی ہے جو یہ سمجھ آجائے کہ کیا پڑھتا ہے۔ اس لئے اپنی زبان میں اپنے مطالب پیش کرنے کیلئے جوش اور اضطراب پیدا ہوسکتا ہے‘‘۔

(ملفوظات جلد سوم صفحہ۴۳۴ الحکم ۱۷ اکتوبر ۱۹۰۳ء)

جب آدمی دعا کر رہا ہوسمجھ نہ آ رہی ہو تو عاجزی کس طرح پیدا ہو گی اگر مطلب نہ آرہا ہو۔ اس لئے اپنی زبان میں دعائیں کریں۔ اللہ تعالیٰ سے مانگیں اس کے آگے روئیں، گڑگڑائیں۔ پھر آپ فرماتے ہیں: ’’… انبیاء میں بہت سے ہنر ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک ہنر سَلبِ خودی کا ہوتا ہے۔ ان میں خودی نہیں رہتی۔ وہ اپنے نفس پر ایک موت وارد کرلیتے ہیں۔ کبریائی خدا کے واسطے ہے۔ جو لوگ تکبر نہیں کرتے اور انکساری سے کام لیتے ہیں وہ ضائع نہیں ہوتے‘‘۔

(ملفوظات جلد۵ صفحہ۲۱۶ البدر۲؍ مئی ۱۹۰۷ء)

پھر آپ جماعت کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’انسان بیعت کنندہ کو اول انکساری اور عجز اختیار کرنی پڑتی ہے اور اپنے خودی اور نفسانیت سے الگ ہونے پڑتا ہے تب وہ نشوونما کے قابل ہوتا ہے لیکن جو بیعت کے ساتھ نفسانیت بھی رکھتا ہے اسے ہر گز فیض حاصل نہیں ہوتا‘‘۔

(ملفوظات جلد سوم صفحہ ۴۵۵، ۱۶ نومبر ۱۹۰۳)

پھرآپ نے فرمایا: ’’میں اپنی جماعت کو نصیحت کرتاہوں کہ تکبر سے بچو کیونکہ تکبر ہمارے خداوند ذوالجلال کی آنکھوں میں سخت مکروہ ہے۔ …ایک شخص جو اپنے بھائی کی بات کو تواضع سے سننا نہیں چاہتا اور منہ پھیر لیتا ہے اس نے بھی تکبر سے حصہ لیا ہے۔ … کوشش کرو کہ کوئی حصہ تکبر کا تم میں نہ ہو تا کہ ہلاک نہ ہوجاؤ اور تا تم اپنے اہل و عیال سمیت نجات پاؤ۔ خدا کی طرف جھکو اور جس قدر دُنیا میں کسی سے محبت ممکن ہے تم اس سے کرو۔ اور جس قدر دُنیا میں کسی سے انسان ڈر سکتا ہے تم اپنے خدا سے ڈرو۔ پاک دل ہوجاؤ اور پاک ارادہ اور غریب اور مسکین اور بے شر تا تم پر رحم ہو‘‘۔

(نزول المسیح۔ روحانی خزائن جلد ۱۸ صفحہ ۴۰۲، ۴۰۳)

فرمایا: ’’انسان جو ایک عاجز مخلوق ہے اپنے تئیں شامت اعمال سے بڑا سمجھنے لگ جاتا ہے۔ کبر اور رعونت اس میں آجاتی ہے۔ اللہ کی راہ میں جب تک انسان اپنے آپ کو سب سے چھوٹا نہ سمجھے چھٹکار انہیں پا سکتا۔ کبیر نے سچ کہا ہے۔

بھلا ہوا ہم نیچ بھئے ہر کو کیا سلام
جے ہوتے گھر اونچ کے ملتا کہاں بھگوان

(یعنی اللہ تعالیٰ کا شکرہے کہ ہم چھوٹے گھر میں پیدا ہوئے۔ اگر عالی خاندان میں پیدا ہوتے تو خدا نہ ملتا۔ جب لوگ اپنی اعلیٰ ذات پر فخر کرتے تو کبیر اپنی کم ذات پر نظر کر کے شکر کرتا تھا۔)۔ پس انسان کو چاہئے کہ ہر دم اپنے آپ کو دیکھے کہ میں کیسا ہیچ ہوں۔ میری کیا ہستی ہے۔ ہر ایک انسان خواہ کتنا ہی عالی نسب ہو مگر جب وہ اپنے آپ کو دیکھے گا بہر نہج وہ کسی نہ کسی پہلو میں بشرطیکہ آنکھیں رکھتا ہو تمام کائنات سے اپنے آپ کو ضرور بالضرور ناقابل و ہیچ جان لے گا۔ انسان جب تک ایک غریب و بیکس بڑھیا کے ساتھ وہ اخلاق نہ برتے جوایک اعلیٰ نسب عالی جاہ انسان کے ساتھ برتتا ہے یا برتنے چاہئیں اور ہر ایک طرح کے غرور و رعونت وکبر سے اپنے آپ کو نہ بچاوے وہ ہرگز ہرگز خدا تعالیٰ کی بادشاہت میں داخل نہیں ہو سکتا۔

(ملفوظات جلد سوم صفحہ۳۱۴، ۳۱۵ الحکم ۳۱ مئی ۱۹۰۳)۔

(خطبہ جمعہ 2؍ جنوری 2004ء)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 دسمبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 دسمبر 2020