• 23 جولائی, 2025

تعارف سورۃ الزمر (39ویں سورۃ)

(تعارف سورۃ الزمر (39ویں سورۃ))
(مکی سورۃ، تسمیہ سمیت اس سورۃ کی 76 آیات ہیں)
(ترجمہ از انگریزی ترجمہ قرآن( حضرت ملک غلام فرید صاحب) ایڈیشن 2003)

وقت نزول اور سیاق و سباق

سابقہ پانچ سورتوں سے اس سورت کا مضمون اور طرز بیان بہت مطابقت رکھتا ہے۔ یہ سورت بھی نبوت کے ابتدائی سالوں میں نازل ہوئی ۔چند مستشرقین جن میں راڈ ویل اور میور بھی شامل ہیں اس کو مکی دور کے اخیر کی سورت شمار کرتے ہیں۔ جمہور علماء کی رائے اس بات کے حق میں ہے کہ یہ سورت نبوت کے ابتدائی سالوں میں مکہ میں نازل ہوئی تھی۔ ان چھ سورتوں کا مرکزی خیال جو سورۃ سبا سے شروع ہوتی ہیں، الٰہی وحی و الہام ہے بالخصوص قرآنی وحی کا نزول اور توحید باری تعالی ہے۔ اس حقیقت کا بیان کہ اس کائنات کا بنانے والا، نظام چلانے والا اور خالق ایک ہی ہےنیز اس کی ترتیب و تنظیم، توازن اور ہم آہنگی سے مستنبط ہے۔ جو پوری کائنات میں پایا جاتا ہے جس کے اعتراف کی گواہی تمام سائنسز دیتی ہیں۔ پھر خدا کے نبیوں کا نہایت معمولی وسائل کے ساتھ نہایت مشکل حالات میں کامیاب و کامران ہونا بھی ہستی باری تعالی اور توحید کی غیر معمولی دلیل ہے۔

مضامین کا خلاصہ

اس سورت کا آغاز قرآنی وحی سے ہوتا ہے اور یہ جملہ الہامی کتب کی ضرورت ،مقصد اور انبیاء کےسب سے اہم ترین مقصد کو بیان کرتی ہے جو زمین پر توحید کا قیام ہے۔ اس نہایت اعلی اور ارفع مقصد کی راہ میں جو سب سے بڑی رکاوٹ حائل ہے وہ درحقیقت یہ ہے کہ انسان معبودان باطلہ کی پرستش میں لگا ہوا ہے جنہیں اس نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے۔ بت پرستی کی سب انواع میں جو سب سے بدتر ہے اور جس نے روحانی ترقی اور جملہ مذاہب کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ہے وہ مسیح کا ابن اللہ ہونے کا عقیدہ ہے۔ اس سورت میں کائنات کی حسین ترین بناوٹ کو اس دلیل لے طور پر پیش کیا گیا ہے کہ اس کائنات کا صرف ایک ہی صناع اور حکیم ہے جس نے سب کچھ تخلیق کیا ہے۔ وہ تین مدارج جن سے گزر کر ایک جنین انسان کی شکل میں پیدا ہوتا ہے، اس کو بھی (ہستی باری تعالیٰ کی) ایک اضافی دلیل کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔

وحی و الہام کی ضرورت اور مقصد کے بارے میں تفصیل بیان کرنے کے بعد اس سورت میں اس (الہام) کے بارے میں دو نہایت مضبوط اور مدلل دلیلیں دی گئی ہیں۔ پہلی یہ ہے کہ خدا پر جھوٹ باندھنے والے اور حق کو جھٹلانے والے کبھی بھی زندگی میں کامیاب نہیں ہوتے اور ہر قدم پر ناکامی اورنامرادی ان کا مقدر ہوتی ہے۔ دوسری یہ کہ خدا کے انبیاء اور ان کو ماننے والے ہمیشہ کامیاب ہوتے ہیں اور ان کا مقصد کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے۔ متذکرہ بالا دونوں دلائل کسی بھی الہام کے دعویدار کی سچائی کو پرکھنے کے لیے ایک ناقابل خطا معیار ہیں۔ ان معیاروں پر رکھنے پر آنحضرت صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا ملہم من اللہ ہونے کا دعوی اور قرآن کا الہی وحی ہونا ایک بے نظیر ثبوت ثابت ہوتا ہے جس کے بارے میں شک کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔

بعد ازاں یہ سورت گناہ گاروں کے لیے امید کا ایک پیغام اور خوشی بیان کرتی ہے۔ یہ انہیں بتاتی ہے کہ خدا بے انتہا رحم کرنے والا اور معاف کرنے والا ہے۔ اس کی رحمت نے ہر ایک چیز کا احاطہ کیا ہوا ہے۔ وہ صرف کسی گناہ گار کے گناہ ترک کرنے کا مصمم ارادہ چاہتا ہے ۔انسان کو اپنی منزل کے حصول کے لیے خود کوشش کرنی پڑتی ہے اور کسی دوسرے کی قربانی اسے بچا نہیں سکتی۔ مگر اسے توبہ اور اپنی حالت میں تبدیلی کے لیے کئی مواقع دیے جاتے ہیں پھر بھی بدی کے راستے کوعمداً اختیار کرنے پر اسے سخت سزا دی جاتی ہے۔ اپنے اختتام پر یہ سورت روز قیامت کی تفصیل بیان کرتی ہے (تاکہ نصیحت حاصل کرنے والا نصیحت پکڑے)۔

(مرسلہ: مترجم: وقار احمد بھٹی)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 16 دسمبر 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 دسمبر 2020