تبرکات حضرت میر محمد اسحاقؓ
ختم نبوت
(قسط 2)
کسی آیت کے معنی کرنے کا طریق
قرآن کریم کی کسی آ یت کے معنی اور مطلب سمجھنے کے متعلق خداتعالیٰ فرماتا ہے کہ اَفَلَا یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْآنَ (محمد:25) لوگ قرآن کی آیات پر تدبّر کیوں نہیں کرتے۔ تدبّر عربی لفظ ہے جو دُبر سے نکلا ہے جس کے معنی آگے پیچھے کے ہیں۔ اس سے خداتعالیٰ نے یہ بتایا ہے کہ کسی آیت کے ایسے معنی نہ کرو جو اس سے اگلی یا پچھلی آیات کے خلاف ہوں۔ اب دیکھنا چاہئے کہ اس آیت کے جو معنی کئے جاتے ہیں وہ اگلی پچھلی آیات کے خلاف تو نہیں۔ اگر خلاف ہوئے تو پھر قابل قبول نہیں ہیں اور اگر خلاف نہ ہوئے تو درست اور صحیح ہوں گے۔
خاتم النبیین کے غلط معنی
یہ آیت سورہ احزاب میں ہے جس کے شروع میں خداتعالیٰ فرماتا ہے اَلنَّبِیُّ اَوۡلٰی بِالۡمُؤۡمِنِیۡنَ مِنۡ اَنۡفُسِہِمۡ وَ اَزۡوَاجُہٗۤ اُمَّہٰتُہُمۡ (الاحزاب:7)۔ اے مومنو! نبی تمہارا خیر خواہ اور تمہارے لئے مہربان ہے۔ ایسا کہ تمہاری جان سے بھی زیادہ اسے تمہارا فکر ہے۔ واقعہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کے ایسے ہی خیر خواہ ہیں جیسے کہ وہ خود اپنی جان کے نہیں ہیں۔ ہماری روحانی ترقی کے اسباب کون لایا اور ہمیں ہلاکت اور تباہی کے راستہ سے کس نے بچایا۔ آپؐ ہی نے۔ تو آپؐ ہمارے لئے ہماری جانوں سے زیادہ خیر خواہ ہوئے۔ کیونکہ یہ باتیں ہم اپنے فائدے اور نفع کے لئے ہرگز حاصل نہ کر سکتے تھے۔ خداتعالیٰ فرماتا ہے جب اس رسول سے تمہارا ایسا تعلق ہو گیا تو تم اس کے رشتہ دار ہو گئے اور وہ تمہارا رشتہ دار بن گیا اور رسول کی بیویاں تمہاری مائیں ہوئیں۔ آپ لوگ جانتے ہیں کہ اگر امہات المومنین رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں نہ ہوتیں تو ہمارا ان سے کوئی تعلق نہ تھا لیکن صرف رسول کریمؐ کے نکاح میں آنے کی وجہ سے ہماری مائیں بن گئیں۔ یہاں یہ اشارہ کیا گیا ہے کہ رسول کریمؐ مومنوں کے باپ ہیں۔ مگر یہ نہیں کہا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) مومنوں کا باپ ہے …………………… بلکہ رسول کی بیویاں مومنوں کی مائیں ہیں کہہ کر بسبب آ پ کے رسول اور نبی ہونے کے آپ کو مومنوں کا باپ قرار دیا گیا ہے۔ اس کے بعد اسی سورۃ میں خداتعالیٰ فرماتا ہے مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیّٖنَ (الاحزاب:41) کہ محمد تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن اللہ کے رسول اور خاتم النبیین ہیں۔ یہاں ایک اعتراض پیدا ہوتا ہے کہ پہلے تو کہا گیا ہے کہ رسول کی بیویاں تمہاری مائیں ہیں اور اس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مومنوں کا باپ کہا گیا ہے لیکن اب کہا جاتا ہے کہ وہ کسی کا باپ نہیں ہے۔ تو پہلے چونکہ نبی ہونے کی وجہ سے باپ کہا گیا تھا اور اب اس سے انکار کیا جاتا ہے اس لئے معلوم ہوا کہ اب وہ نبی نہیں رہے۔ اس اعتراض کے جواب میں خداتعالیٰ فرماتا ہے وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ۔ لٰکِنْ کا لفظ عربی میں اس لئے آیا کرتا ہے کہ پہلے حصہ پر جو اعتراض پڑتا ہو اس کو دور کرے۔ تو فرمایا کہ اس کہنے سے کہ یہ کسی مرد کا باپ نہیں ہے یہ نہ سمجھنا کہ وہ نبی اور رسول نہیں رہا بلکہ وہ تو اللہ کا رسول اور خاتم النبیین ہے۔ رسول اللہ اور خاتم النبیین کے درمیان جو واؤ ہے وہ عطف کی ہے جس کا مطلب عربی میں اور اُردو میں بھی یہ ہوتا ہے کہ جو اس سے پہلے لفظ کا معنی اور مطلب ہو وہی اس کے بعد کے لفظ کا ہو۔ تو یہاں خاتم النبیین کے ایسے معنی کرنے چاہئیں جو اسی طرح اس اعتراض کو دور کریں جس طرح رسول اللہ کا لفظ دور کرتا ہے۔ کیونکہ دونوں کے ایک ہی معنی اور ایک ہی مطلب ہونا ضروری ہے۔ مگر کیسی تعجب اور حیرانی کی بات ہے کہ ہمارے سامنے اس کے یہ معنی پیش کئے جاتے ہیں کہ نبیوں کو بند کرنے والا۔ لیکن یہ معنی کسی صورت میں بھی درست نہیں ہو سکتے کیونکہ اعتراض تو یہ پیدا ہوا تھا کہ چونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے باپ ہونے کی نفی کی گئی ہے اس لئے وہ رسول اور نبی نہیں ہو سکتے۔ کیونکہ اس سے پہلے ان کو رسول ہونے کی وجہ سے مومنوں کا باپ قرار دیا جا چکا ہے مگر اس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ یہ اللہ کا رسول اور نبیوں کو بند کرنے والا ہے۔ کیا یہ جواب ان کے اعتراض کو دور کر سکتا ہے۔ ہرگز نہیں۔ لیکن چاہئے تو یہ کہ جس طرح رسول کا لفظ اس اعتراض کو دور کرتا ہے اسی طرح خاتم النبیین کا بھی دور کرے۔ دیکھئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول اللہ کہہ کر بتایا گیا ہے کہ یہ اللہ کا رسول ہے اور رسول مومنوں کا باپ ہوتا ہے۔ اس سے ان کا اعتراض دور ہو جاتا ہے۔ لیکن خاتم النبیین کے یہ معنی کرنے سے کہ یہ نبیوں کو بند کرنے والا ہے اس اعتراض کو دور نہیں کرتے۔ کیونکہ اس کا یہ مطلب نہیں بن سکتا کہ نبیوں کو بند کرنے والا مومنوں کا باپ ہوا کرتا ہے۔ پس جب خاتم النبیین کا لفظ اعتراض کو دور نہیں کرتا تو ثابت ہو گیا کہ اس کے جو معنی کئے جاتے ہیں وہ درست اور صحیح نہیں ہیں۔
خاتم النبیین کے صحیح معنی
اب سوال (پیدا) ہوتا ہے کہ پھر اس کے صحیح معنی کیا ہیں جو یہاں چسپاں ہوتے ہیں۔ میں معنی کرنے سے پہلے یہ بتا دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ اصلی اور صحیح معنی وہی ہوں گے کہ جو اسی اعتراض کو دور کریں گے جس کو رسول اللہ کے لفظ نے دور کیا ہے اور وہ معنی یہ ہیں کہ نبیوں کے خَاتَم۔ خاتم عربی لفظ ہے جس کے معنی انگوٹھی یعنی مُہر کے ہیں۔ تو خداتعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق فرمایا کہ اس کی دو حیثیتیں ہیں۔ ایک خدا کے دربار میں اور دوسری انسانوں کے اعلیٰ طبقہ یعنی انبیاء میں۔ خدا کے حضور تو اس کا یہ درجہ ہے کہ رسول ہے اور نبیوں میں یہ ہے کہ مہر ہے۔ مگر اصل انگوٹھی یا مہر تو کسی نہ کسی دھات وغیرہ کی ہوتی ہے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم انسان تھے۔ اس لئے وہ انگوٹھی تو ہو نہیں سکتے۔ اس کو حل کرنے کے لئے جب ہم قرآ ن کریم کو دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سورج کہا گیا ہے۔ لیکن اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ آپ وہی سورج تھے جو آسمان پر ہوتا ہے۔ بلکہ اس سے ایک خاص صفت کو بیان کیا گیا ہے جیسے کسی انسان کو شیر کہہ دیتے ہیں حالانکہ شیر تو ایک درندہ ہے۔ مگر اس سے اس کی بہادری مراد ہوتی ہے۔ تو اس طرح تشبیہہ سے ایک خاص صفت کی طرف اشارہ ہوا کرتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو سورج کہا گیا تو اس لئے کہ جس طرح سورج تمام دنیا کو روشنی پہنچاتا ہے اسی طرح رسول کریمؐ ساری دنیا کے لئے تھے۔ چنانچہ فرمایا اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ اِلَیْکُمْ جَمِیْعَا (الاعراف:159)۔ تو جب آ پ کو مُہر کہا گیا تو معلوم ہوا کہ مہر میں جو خصوصیت پائی جاتی ہے وہ آپ میں پائی جاتی ہے۔ اب دیکھنا چاہئے کہ مہر کا کام کیا ہے۔ یہ کہ جہاں لگائی جائے اس کی تصدیق کرے کہ یہ فلاں کی طرف سے ہے۔ فلاں نے اس کو درست اور صحیح تسلیم کیا ہے۔ پس جب خاتم کے معنی حل ہو گئے تو پھر خَاتَم النبیین کے معنی صاف ہو گئے اور وہ یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدا کے حضور یہ حیثیت ہے کہ رسول ہے اور نبیوں کے زمرہ میں یہ درجہ ہے کہ ان کی مُہر ہے یعنی ان کی نبوت کی تصدیق کرتا ہے۔
کوئی نبی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق کے بغیر نبی ثابت نہیں ہو سکتا