’’بنیادی مسائل کے جوابات‘‘
بیان فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز
قسط نمبر 1
سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مختلف وقتوں میں اپنے مکتوبات اور ایم ٹی اے کے مختلف پروگراموں میں بنیادی مسائل کے بارہ میں جو ارشادات مبارکہ فرماتے ہیں، ان میں سے کچھ افادۂ عام روزنامہ الفضل لندن آن لائن میں شائع کئے جا رہے ہیں۔
سوال:۔ عورتوں کے مخصوص ایام میں قرآن کریم کے تحریری نسخہ کو پکڑنے اور پڑھنے نیز کمپیوٹر یا آئی پیڈ وغیرہ سے تلاوت قرآن کرنے کے بارہ میں ایک شخص نے مختلف علماء و فقہاء کے حوالہ جات پر مبنی ایک تحقیق حضور انور کی خدمت اقدس میں پیش کر کے اس مسئلہ کے بارہ میں حضور انور سے راہنمائی چاہی ۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب مؤرخہ 05 اکتوبر 2018ء میں اس کادرج ذیل جواب عطاء فرمایا۔ حضور نے فرمایا:۔
جواب:۔ اس مسئلہ پر علماء و فقہاء میں اختلاف پایا جاتا ہے اور بزرگان دین نے بھی اپنی قرآن فہمی کے مطابق اس بارہ میں مختلف آراء کا اظہار کیا ہے۔
قرآن کریم، احادیث نبویہ ﷺ اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ارشادات کی روشنی میں میرا اس بارہ میں موقف ہے کہ ایام حیض میں عورت کوقرآن کریم کا جو حصہ زبانی یاد ہو، وہ اسے ایام حیض میں ذکر و اذکار کے طور پر دل میں دہرا سکتی ہے۔ نیز بوقت ضرورت کسی صاف کپڑے میں قرآن کریم کو پکڑ بھی سکتی ہے اور کسی کو حوالہ وغیرہ بتانے کیلئے یا بچوں کو قرآن کریم پڑھانے کیلئے قرآن کریم کا کوئی حصہ پڑھ بھی سکتی ہے لیکن باقاعدہ تلاوت نہیں کر سکتی۔
اسی طرح ان ایام میں عورت کو کمپیوٹر وغیرہ پر جس میں اسے بظاہر قرآن کریم پکڑنا نہیں پڑتا باقاعدہ تلاوت کی تو اجازت نہیں لیکن کسی ضرورت مثلاً حوالہ تلاش کرنے کیلئے یا کسی کو کوئی حوالہ دکھانے کیلئے کمپیوٹر وغیرہ پر قرآن کریم سے استفادہ کر سکتی ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں۔
سوال:۔ ایک خاتون نے عورتوں کے مخصوص ایام میں ان کے مسجد میں آنے کے بارہ میں مختلف احادیث نیز موجودہ دور میں خواتین کو ان ایام میں اپنی صفائی وغیرہ کیلئے میسر جدید ساز وسامان کے ذکر پر مبنی ایک نوٹ حضور انور کی خدمت اقدس میں پیش کر کے مساجد میں ہونے والی جماعتی میٹنگز اور اجلاسات وغیرہ میں ایسی عورتوں کی شمولیت اور ایسی غیر مسلم خواتین کو مسجد کا وزٹ وغیرہ کروانے کے بارہ میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے رہنمائی طلب کی۔ جس پر حضور انور نے اپنے مکتوب مؤرخہ 14 مئی 2020ء میں درج ذیل جواب عطاء فرمایا:۔
جواب:۔ایام حیض والی خواتین کے مسجد میں سے کوئی چیز لانے یا مسجد میں چھوڑ کر آنے نیز مسجد میں جا کر بیٹھنے کے بارہ میں الگ الگ احکامات بڑی وضاحت سے حضور ﷺ نے ہمیں سمجھا دیئے ہیں۔ چنانچہ جیسا کہ آپ نے اپنے خط میں بھی ذکر فرمایا ہے کہ حضور ﷺ اپنی ازواج کو اس حالت میں چٹائی وغیرہ بچھانے کیلئے مسجد میں جانے کی اجازت فرمایا کرتے تھے۔ لیکن جہاں تک اس حالت میں مسجد میں جا کر بیٹھنے کا تعلق ہے تو اس بارہ میں بھی حضور ﷺ کی ممانعت بڑی صراحت کے ساتھ احادیث میں مذکور ہے۔ چنانچہ حضور ﷺ نے عیدین کے موقعہ پر کنواری لڑکیوں، جوان و پردہ دار اور حائضہ تمام قسم کی عورتوں کو عید کیلئے جانے کی تاکیداً ہدایت فرمائی یہاں تک کہ ایسی خاتون جس کے پاس اوڑھنی نہ ہو اسے بھی فرمایا کہ وہ اپنی کسی بہن سے عاریۃً اوڑھنی لے کر جائے۔ لیکن اس کے ساتھ ایام حیض والی خواتین کیلئے یہ بھی ہدایت فرمائی کہ وہ نماز کی جگہ سے الگ رہ کر دعا میں شامل ہوں۔
اسی طرح حجۃ الوداعہ کے موقعہ پر جب حج سے پہلے دیگر مسلمان عمرہ کر رہے تھے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اپنے مخصوص ایام میں تھیں۔ چنانچہ حضور ﷺ نے انہیں عمرہ کی اجازت نہ دی کیونکہ طواف کرنے کیلئے مسجد میں زیادہ دیر تک رہنا پڑتا ہے۔ پھر جب وہ ان ایام سے فارغ ہو گئیں تو حج کے بعد انہیں الگ عمرہ کیلئے بھجوایا۔
پس احادیث میں اس قدرصراحت کے بیان کے بعد کوئی وجہ نہیں رہ جاتی کہ ہم اپنی خواہشات پوری کرنے کیلئے نئی نئی راہیں تلاش کریں۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ پہلے زمانہ میں عورتوں کو اپنی صفائی کیلئے ایسے ذرائع میسر نہیں تھے جیسے اب ہیں۔ ٹھیک ہے ایسے جدید ذرائع میسر نہیں تھے لیکن اس کا یہ ہر گز مطلب نہیں کہ وہ اپنی صفائی کا خیال ہی نہیں رکھ سکتی تھیں اور ان کے حیض کے خون ادھر ادھر گرتے پڑتے تھے۔ انسان نے ہر زمانہ میں اپنی ضروریات کیلئے بہتر سے بہتر انتظام حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ پس پہلے زمانہ میں بھی عورتیں اپنی صفائی ستھرائی کیلئے بہترین انتظام کیا کرتی تھیں۔
پھر اس جدید دور کے ذرائع صفائی ستھرائی میں بھی بہر حال سقم موجود ہیں۔ ایسی خواتین جن کو بہت زیادہ خون آتا ہے بعض اوقات ان کا پیڈ Leak کر جانے کی وجہ سے کپڑے خراب ہو جاتے ہیں۔
پس اسلام کی جو تعلیمات دائمی اور ہر زمانہ کیلئے یکساں ہیں، ان پر ہر زمانہ میں اسی طرح عمل ہو گا جس طرح آنحضور ﷺ کے زمانہ میں ہوتا تھا۔
اگرکسی جگہ مجبوری ہے اور نماز کے کمرہ کے علاوہ اور کوئی جگہ نہیں تو اسی کمرہ کے آخر پر دروازہ کے قریب ایک ایسی جگہ مخصوص کی جا سکتی ہے جہاں نماز نہ پڑھی جائے اور ایسی عورتیں وہاں بیٹھ جایا کریں، یا مسجد کے آخر حصہ میں ایسی عورتوں کیلئے کرسیاں رکھ کر ان کے بیٹھنے کا انتظام کر دیا جائے، تا کہ نماز پڑھنے کی جگہ کے گندہ ہونے کا ہلکا سا بھی شبہ باقی نہ رہے۔
جہاں تک غیر مسلم عورتوں کے مساجد کا وزٹ کرنے کی بات ہے تو اوّل تو وزٹ کے دوران انہیں مساجد میں بٹھایا نہیں جاتا بلکہ صرف مساجد کا وزٹ کروایا جاتا ہے۔ جس کا دورانیہ تقریباً اتنا ہی ہوتا ہے جتنا کہ مسجد سے چٹائی لانے یا بچھا کر آنے کا دورانیہ ہوتا ہے۔ لیکن اگر کہیں انہیں مسجد میں بٹھانے کی ضرورت پڑے تو نیچے صفوں پر نماز پڑھنے کی جگہ بٹھانے کی بجائے مسجد کے آخر پر کرسیوں پر انہیں بٹھائیں۔
(اس سوال کے جواب میں ایام حیض والی خواتین کے عید کے موقعہ پر دعا میں شامل ہونے کیلئے حضور ﷺ کی تاکیداً ہدایت کا جو اوپر ذکر ہوا ہے۔ اس حوالہ سے خطبہ عید کے سننے کے بارہ میں ایک سوال کے جواب میں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حدیث نبویہ ﷺ کی روشنی میں جو جواب عطاء فرمایا اسے بھی احباب کے استفادہ کیلئے یہاں درج کیا جا رہا ہے۔ مرتب)
سوال:۔ایک دوست نے دریافت کیا کہ دارقطنی میں ایک حدیث ہے کہ حضور ﷺ نے نماز عید کے بعد فرمایا کہ ہم خطبہ دیں گے،جو چاہے سننے کیلئے بیٹھا رہے اور جو جانا چاہے چلا جائے، کیا یہ حدیث درست ہے؟ اس پر حضور انور نے اپنے مکتوب مؤرخہ 20 اکتوبر 2020ء میں درج ذیل جواب عطاء فرمایا:۔
جواب:۔ خطبہ عید کے سننے سے رخصت پر مبنی حدیث جسے آپ نے دارقطنی کے حوالہ سے اپنے خط میں درج کیا ہے، سنن ابی داؤد میں بھی روایت ہوئی ہے۔
یہ بات درست ہے کہ حضور ﷺ نے خطبہ عید کے سننے کی اس طرح تاکید نہیں فرمائی جس طرح خطبہ جمعہ میں حاضر ہونے اور اسے مکمل خاموشی کے ساتھ سننے کی تاکید فرمائی ہے۔ اسی بناء پر علماء و فقہاء نے خطبہ عید کو سنت اور مستحب قرار دیا ہے ۔
لیکن اس کے ساتھ یہ بات بھی یاد رکھنی چاہئیے کہ حضور ﷺ نے عید کیلئے جانے اور دعاء المسلمین میں شامل ہونے کو نیکی اور باعث برکت قرار دیا ہے اور اس کی یہاں تک تاکید فرمائی کہ ایسی خاتون جس کے پاس اپنی اوڑھنی نہ ہو وہ بھی کسی بہن سے عاریۃً اوڑھنی لے کر عید کیلئے جائے۔ اور ایام حیض والی خواتین کو بھی عید پر جانے کی اس ہدایت کے ساتھ تاکید فرمائی کہ وہ نماز کی جگہ سے الگ رہ کر دعا میں شامل ہوں۔
سوال:۔ ایک خاتون نے رمضان المبارک کے اعتکاف کے بارہ میں دریافت کیا کہ کیا یہ اعتکاف گھر پر کیا جا سکتا ہے اور کیا یہ اعتکاف تین دن کیلئے ہو سکتا ہے؟حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے مکتوب 09 اگست 2015ء میں اس مسئلہ کا درج ذیل جواب عطاء فرمایا۔ حضور انور نے فرمایا:۔
جواب:۔ جہاں تک رمضان کے مسنون اعتکاف کا تعلق ہے وہ تو جیسا کہ قرآن و حدیث سے ثابت ہے گھر پر اور تین دن کیلئے نہیں ہو سکتا۔
آنحضور ﷺ کی سنت سے ثابت ہوتا ہے کہ حضور ﷺرمضان المبارک میں کم از کم دس دن اور مسجد میں اعتکاف فرمایا کرتے تھے۔ چنانچہ حدیث میں آتا ہے:۔
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَعْتَكِفُ الْعَشْرَ الْأَوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ حَتَّى تَوَفَّاهُ اللَّهُ۔
(صحیح بخاری کتاب الاعتکاف با ب الاعتکاف فی العشر الاواخر والاعتکاف فی المساجد کلھا)
ترجمہ:۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہابیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ اپنی وفات تک رمضان کے آخری دس دن اعتکاف فرماتے رہے۔
اسی طرح قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے جہاں رمضان کے مسائل بیان فرمائے ہیں وہاں اعتکاف کے بارہ میں احکامات بیان کرتے ہوئے فرمایا:۔
وَلَا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ۔
(سورۃ البقرہ:188)
کہ رمضان کے اعتکاف میں ایک تو میاں بیوی کے تعلقات کی اجازت نہیں اور دوسرا یہ کہ اعتکاف بیٹھنے کی جگہ مسجدیں ہیں۔
احادیث میں بھی اس امر کی وضاحت آئی ہے کہ رمضان کا اعتکاف مسجد میں ہی ہو سکتا ہے۔چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں:۔
السُّنَّةُ عَلَى الْمُعْتَكِفِ أَنْ لَا يَعُودَ مَرِيضًا وَلَا يَشْهَدَ جَنَازَةً وَلَا يَمَسَّ امْرَأَةً وَلَا يُبَاشِرَهَا وَلَا يَخْرُجَ لِحَاجَةٍ إِلَّا لِمَا لَا بُدَّ مِنْهُ وَلَا اعْتِكَافَ إِلَّا بِصَوْمٍ وَلَا اعْتِكَافَ إِلَّا فِي مَسْجِدٍ جَامِعٍ۔
(سنن ابی داؤد کتاب الصوم باب المعتکف یعود المریض)
ترجمہ :۔ معتکف کیلئے مسنون ہے کہ وہ مریض کی عیادت نہ کرے اور نہ جنازہ میں شامل ہواور نہ اپنی بیوی کو چھوئے اور نہ اس سے جسمانی تعلق قائم کرے۔ اور سوائے اشد ضروری حاجت کے جس کے سوا چارہ نہ ہو مسجد سے باہر نہ جائے۔ اور روزوں کے بغیر اعتکاف درست نہیں اور نہ ہی جامع مسجد کے علاوہ دوسری جگہوں پر اعتکاف درست ہے۔
پس قرآن کریم اور احادیث نبویہ ﷺ کے مطابق رمضان المبارک کا مسنون اعتکاف کم از کم دس دن ہوتا ہے اور اس کیلئے مسجد میں ہی بیٹھا جاتا ہے۔
ہاں رمضان کے علاوہ عام دنوں میں اگر نیکی کے طور پر اور ثواب کی خاطر کوئی اپنے گھر میں چند دن کیلئے اعتکاف کرنا چاہتا ہے تو اس کی بھی اجازت ہے اور اس کی کہیں ممانعت نہیں ملتی۔ علاوہ ازیں بعض فقہاء نے عورت کے گھر میں اعتکاف کرنے کو بہتر قرار دیا ہے۔ چنانچہ فقہ کی مشہور کتاب ہدایہ میں لکھا ہے:۔
اما المرأۃ تعتکف فی مسجد بیتھا۔
(ہدایہ باب الاعتکاف)
یعنی عورت اپنے گھر میں نماز پڑھنے کی جگہ میں اعتکاف بیٹھ سکتی ہے۔
سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس بارہ میں فرماتے ہیں:۔
’’مسجد کے باہر اعتکاف ہو سکتا ہے مگر مسجد والا ثواب نہیں مل سکتا۔‘‘
(روز نامہ الفضل 6 مارچ 1996ء)
سوال:۔گلشن وقف نو آسٹریلیا مؤرخہ 12اکتوبر 2013ء میں ایک بچی نے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز خدمت اقدس میں استفسار کیا کہ بچیوں کو سکارف کس عمر میں لینا چاہئے؟ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اس سوال کا جواب ارشاد فرماتے ہوئے فرمایا:۔
جواب:۔ جب تم پانچ سال کی ہوجاؤ تو اس وقت تمہیں بغیر Leggings کے فراک نہیں پہننی چاہئے، تمہاری ٹانگیں ڈھکی ہونی چاہئیں تا کہ تمہیں احساس ہو کہ آہستہ آہستہ ہمارا ڈریس جو ہے وہ Cover ہونا چاہئے۔ Sleeveless فراک نہیں پہننی چاہئے۔ پھر چھ سات سال کی ہو جاؤ تو تمہاری Leggings میں مزید احتیاط ہو۔ اور جب تم دس سال کی ہو جاتی ہو تو تھوڑا سا سکارف لینے کی عادت ڈالو۔ اور جب گیارہ سال کی ہو جاؤ تو پھر سکارف پوری طرح لو۔ سکارف لینے میں تو کوئی حرج نہیں؟ سکارف تو یہاں بھی لوگ سردیوں میں لے لیتے ہیں۔ سردی ہوتی ہے تو اپنے کان نہیں لپیٹ لیتے؟ وہ سکارف ہی ہوتا ہے۔ اس طرح کا سکارف لو۔
بعض لڑکیاں ہوتی ہیں، جو دس سال کی عمر میں بھی چھوٹی سی نظر آتی ہیں۔ اور بعض ایسی ہوتی ہیں جو دس سال کی عمر میں بارہ سال کی لڑکی کی طرح نظر آتی ہیں، ان کے قد لمبے ہو جاتے ہیں۔ تو ہر لڑکی دیکھے کہ وہ اگر بڑی بڑی نظر آتی ہے، تو اس کو سکارف لے لینا چاہئے۔چھوٹی عمر میں سکارف لینے کی عادت ڈالو گی تو پھر شرم نہیں آئے گی، نہیں تو ساری عمر شرماتی رہو گی۔ اگر تم کہو گی کہ بارہ سال کی عمر میں، تیرہ سال کی عمر میں، چودہ سال کی عمر میں جا کر سکارف لوں گی، تو پھر سوچتی رہو گی اور پھر تمہیں شرم آ جائے گی۔ پھر تم کہو گی اوہو کہیں لڑکیاں میرا مذاق نہ اڑائیں ۔میں نے سکارف لیا تو وہ مجھ پہ ہنسیں گی۔ اس لئے کبھی کبھی سکارف لینے کی عادت ڈالو۔ سات، آٹھ، نو سال کی عمر میں سکارف لینا شروع کر دو، اور لڑکیوں کے سامنے بھی لے لو تا کہ تمہاری شرم ختم ہو جائے۔ اور جب تم بڑی نظر آؤ تو تم پوری طرح سکارف لو۔ ٹھیک ہے، سمجھ آئی؟ تمہارے لئے اتنا کافی ہے اور بڑی لڑکیوں کے لئے اتنا کافی ہے کہ اصل چیز پردہ کا مقصد یہ ہے کہ حیا ہونی چاہئیے۔ اور یہ جو یورپین ہیں یا ویسٹرن Influence کے اندر آتے ہیں، پرانے زمانہ میں ان کے لباس بھی یہاں تک ہوتے تھے (اس موقعہ پر حضور انور نے اپنے ہاتھوں کی کلائیوں کی طرف اشارہ کرکے فرمایا۔ مرتب)، لمبی میکسی فراکس ہوتی تھیں۔ اب تو یہ ننگے پھرتے ہیں ناں؟
سوال یہ ہے کہ مرد جو ہے وہ اچھا اور Well Dressed اس وقت کہلاتا ہے جب اس نے ٹراؤزرز پورے پہنے ہوں، کوٹ پہنا ہو، ٹائی لگائی ہو۔ اور عورت کو کہتے ہیں کہ تم Well Dressed اس وقت ہو گی، جب تم نے منی سکرٹ پہنی ہو۔ یہ مجھے فلسفہ سمجھ نہیں آیا۔
اس لئے مردوں کو نہ دیکھو۔ اور عورتیں بھی جو خود اپنے آپ کو ننگا کرتی ہیں اپنی بے عزتی کرواتی ہیں۔ اس لئے احمدی لڑکی، احمدی عورت کا وقار اسی میں ہے کہ اپنی حیا کو قائم کرے۔ کیونکہ اصل چیز حیا ہے۔ اور یہ حیا ہے جو دوسروں کو تمہارے پہ غلط نظر ڈالنے سے روکتی ہے۔
سوال:۔ آسٹریلیا کے واقفات نو کے اسی پروگرام گلشن وقف نو مؤرخہ 12 اکتوبر 2013ء میں ایک بچی نے حضور انور کی خدمت اقدس میں سوال کیا کہ ہم رمضان کے روزے کس عمر میں رکھنا شروع کریں؟ اس استفسار کا جواب عطاء فرماتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:۔
جواب:۔روزے تم پر اس وقت فرض ہوتے ہیں جب تم لوگ پوری طرح Mature ہو جاؤ۔ اگر تم سٹوڈنٹ ہو اور تمہارے امتحان ہو رہے ہیں تو ان دنوں میں اگر تمہاری عمر تیرہ، چودہ ،پندرہ سال ہے تو تم روزے نہ رکھو۔ اگر تم برداشت کر سکتی ہوتو پندرہ سولہ سال کی عمر میں روزے ٹھیک ہیں۔ لیکن عموماً فرض روزے جو ہیں وہ سترہ، اٹھارہ سال کی عمر سے فرض ہوتے ہیں، اس کے بعد بہرحال رکھنے چاہئیں۔ باقی شوقیہ ایک، دو، تین ، چار روزے اگر تم نے رکھنے ہیں تو اٹھ دس سال کی عمر میں رکھ لو، فرض کوئی نہیں ہیں۔ تمہارے پہ فرض ہوں گے جب تم بڑی ہو جاؤ گی، جب روزوں کو برداشت کر سکتی ہو۔ یہاں (آسٹریلیا میں۔ مرتب) مختلف موسموں میں کتنا فرق ہوتا ہے؟ Day Light کتنے گھنٹے کی ہوتی ہے؟سحری اور افطاری میں کتنا فرق ہوتا ہے؟ بارہ گھنٹے؟ اور Summer میں کتنا ہوتا ہے؟ انیس گھنٹے کا ہوتا ہے؟ ہاں تو بس انیس گھنٹے تم بھوکی نہیں رہ سکتی۔ یوکے میں بھی آجکل، جو پیچھے گرمیاں گزری ہیں، ان میں تمہارے روزے چھوٹے تھے اور وہاں لمبے روزے تھے۔ ساڑھے اٹھارہ گھنٹے کے روزے تھے۔ تو سویڈن وغیرہ میں بائیس گھنٹے کے روزے ہوتے ہیں۔ تو وہاں تو بہرحال وقت کو ایڈجسٹ کرنا پڑتا ہے۔ کیونکہ اتنا لمبا روزہ بھی نہیں رکھا جا سکتا۔ لیکن برداشت اس وقت ہوتی ہے جب تم جوان ہو جاتی ہو، کم از کم سترہ اٹھارہ سال کی ہو جاؤ تو پھر ٹھیک ہے۔ پھر روزے رکھو۔ سمجھ آئی؟ تمہارے اماں ابا کیا کہتے ہیں؟ دس سال کی عمر میں تم پر روزہ فرض ہو گیا ہے؟ لیکن عادت ڈالا کرو۔ چھوٹے بچوں کو بھی دو تین روزے ہر رمضان میں رکھ لینے چاہئیں تا کہ پتہ لگے کہ رمضان آ رہا ہے۔ لیکن روزے نہ بھی رکھنے ہوں تو صبح اٹھو اور اماں ابا کے ساتھ سحری کھاؤ، نفل پڑھو، نمازیں باقاعدہ پڑھو۔ تم لوگوں کا، سٹوڈنٹس کا اور بچیوں کا رمضان یہی ہے کہ رمضان میں اٹھیں ضرور اور سحری کھائیں، اہتمام کریں اوراس سے پہلے دو یا چار نفل پڑھ لیں۔ پھر نمازیں باقاعدہ پڑھیں۔قرآن شریف باقاعدہ پڑھیں۔
(مرسلہ: ظہیر احمد خان۔ شعبہ ریکارڈ دفتر پی ایس لندن)