خدا تعالیٰ کی راہ میں وقفِ اولاد کی دعا
رَبِّ اِنِّیۡ نَذَرۡتُ لَکَ مَا فِیۡ بَطۡنِیۡ مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلۡ مِنِّیۡ ۚ اِنَّکَ اَنۡتَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ ﴿۳۶﴾
(آلِ عمران: 36)
ترجمہ: اے میرے ربّ! جو کچھ بھی میرے پیٹ میں ہے یقیناً وہ میں نے تیری نذر کر دیا (دنیا کے جھمیلوں سے) آزاد کرتے ہوئے۔ پس تُو مجھ سے قبول کر لے۔ یقیناً تُو ہی بہت سننے والا (اور) بہت جاننے والا ہے۔
یہ حضرت مریمؑ علیھا السلام کی والدہ کی ان کی پیدائش سے پہلے ان کو خدا کی راہ میں وقف کرنے کی بہت پیاری، عظیم الشان دعا ہے۔
حضرت مریم ؑ کی والدہ کی خواہش تھی کہ میرے ہاں بیٹا ہو اور میں اسے اللہ کی راہ میں وقف کروں۔جب بیٹی پیدا ہوئی تو قرآن میں مذکور ہے کہ انہوں نے کہا کہ اے میرے ربّ! میں نے تو بچی کو جنم دیا ہے۔ جبکہ اللہ زیادہ بہتر جانتا ہے کہ اس نے کس چیز کو جنم دیا تھا۔ اور نر مادہ کی طرح نہیں ہوتا۔ اور (اس عمران کی عورت نے کہا) یقیناً میں نے اس کا نام مریم رکھا ہے، اور میں اسے اور اس کی نسل کو راندہء درگاہ شیطان سے تیری پناہ میں دیتی ہوں۔ پس اس کے ربّ نے اُسے ایک حسین قبولیت کے ساتھ قبول کر لیا اور اس کی اَحسن رنگ میں نشو و نما کی اور زکریا کو اس کا کفیل ٹھہرایا۔
ہمارے پیارے آقا سیّدنا حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایَّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزہمیں اس دعا کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتے ہیں:
جو وقف نَو بچوں کے والدین خاص طور پر ماں اپنے ہونے والے بچے کی پیدائش سے پہلے خدا تعالیٰ کے ساتھ ایک عہد کرتے ہوئے پیش کرتی ہے اور خلیفہ وقت کو لکھتے ہیں کہ ہم حضرت مریم کی ماں کی طرح اللہ تعالیٰ سے یہ عہد کرتے ہوئے اپنے بچے کو وقف نَو سکیم میں پیش کر رہے ہیں کہ رَبِّ اِنِّیۡ نَذَرۡتُ لَکَ مَا فِیۡ بَطۡنِیۡ مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلۡ مِنِّیۡ ۚ اِنَّکَ اَنۡتَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ ﴿۳۶﴾ (آل عمران: 36)کہ اے میرے رب! جو کچھ میرے پیٹ میں ہے میں تیرے لئے پیش کر رہی ہوں۔ یہ تو مجھے نہیں پتا کہ کیا ہے، لڑکا ہے یا لڑکی لیکن جو بھی ہے میری خواہش ہے میری دعا ہے کہ یہ دین کا خادم بنے۔ فَتَقَبَّلْ مِنِّی۔ میری اس خواہش اور دعا کو قبول فرما اور اسے قبول فرما لے۔ اِنَّکَ اَنۡتَ السَّمِیۡعُ الۡعَلِیۡمُ۔ تو بہت سننے والا اور جاننے والا ہے۔ پس میری عاجزانہ دعا بھی سن لے۔ تجھے علم ہے کہ یہ دعا میرے دل کی آواز ہے۔ یہ بچے کی ماؤں کی خواہش ہوتی ہے وقف سے پہلے اور ہونی چاہئے ایک احمدی ماں کی جب وہ اپنے بچے کو وقف نَو کے لئے پیش کرتی ہے اور اس میں باپ بھی شامل ہے۔
پس جب یہ دعا وقف نَو میں شامل کرنے والے بچے کی ماں کرتی ہے تو ان ذمہ داریوں کا بھی احساس رہنا چاہئے جو اس عہد کے نبھانے اور اس دعا کے قبول ہونے کے لئے ماؤں پر بھی اور باپوں پر بھی عائد ہوتی ہیں۔ وقف نَو میں بچہ ماں اور باپ دونوں کی رضا مندی سے پیش ہوتا ہے۔
(خطبہ جمعہ 28 اکتوبر 2016ء)
(مرسلہ:مریم رحمٰن)