• 26 اپریل, 2024

حضرت مسیح موعودؑ کی تحریرات کی روشنی میں چاند سورج اور سیاروں کی تاثیرات

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں آسمان، زمین، چاند، سورج، نجوم، کواکب اوراجرام فلکی کابکثرت ذکر کیا ہے حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں۔
’’جب میں ان بڑے بڑے اجرام کو دیکھتا ہوں اور ان کی عظمت اور عجائبات پر غور کرتا ہوں اور دیکھتا ہوں کہ صرف ارادہ الٰہی سے اور اس کے اشارہ سے ہی سب کچھ ہوگیا تو میری روح بے اختیار بول اٹھتی ہے کہ اے ہمارے قادر خدا تو کیا ہی بزرگ قدروں والا ہے تیرے کام کیسے عجیب اور وراءالعقل ہیں۔نادان ہے وہ جو تیری قدرتوں سے انکار کرے اور احمق ہے وہ جو تیری نسبت یہ اعتراض پیش کرے کہ اس نے ان چیزوں کو کسی مادہ سے بنایا۔‘‘

(نسیم دعوت،روحانی خزائن جلد 19 ص 425 حاشیہ)

سائنسی تحقیق کی رُو سے ہمارے نظام شمسی میں مشہور اجرام فلکی کی تعداد 7 ہے حضرت مسیح موعودؑ نے ان کی نسبت سورہ فاتحہ کی 7 آیات سے باندھی ہے نیز زمین سے آسمان کے تعلق اور ان کی تاثیرات پر گہری روشنی ڈالی ہے۔

سورہ فاتحہ کی سات آیات اور مشہور سات ستارے

حضرت مسیح موعودؑ نے عربی میں تحریر فرمایا ہے جس کا اردو ترجمہ یہ ہے۔
’’واضح رہے کہ اس سورہ فاتحہ کی آیات سات ہیں اور مشہور ستارے بھی 7ہیں۔ان آیات میں سے ہر آیت ایک ستارے کے مقابل پر ہے تا وہ سب کی سب شیطان کے رجم کا موجب ہوں۔‘‘

(تفسیر سورہ فاتحہ بیان فرمودہ حضرت مسیح موعودؑ ص23حاشیہ)

1۔زمین کے قریب ترین چاند (Moon)
2۔اس سے آگے عطارد (Mercury)
3۔پھر زہرہ (Venus)
4۔اس کے بعد سورج (Sun)
5۔پانچویں نمبر پر مریخ (Mars)
6۔چھٹے نمبر پر مشتری (Jupiter)
7۔اور ساتویں فلک پر زُحل (Saturn)

پہلے یہ خیال کیا جاتا تھا کہ زمین ساکن ہے اور سورج چاند اوردیگر اجرام فلکی اس کے گرد گھوم رہے ہیں۔ بعد کی تحقیقات نے ثابت کیا کہ یہ نظریہ غلط تھا کیونکہ قرآن اس کی تائید نہیں کرتا۔ اب سب متفق ہیں کہ دراصل ہمارے شمسی نظام کا مرکز سورج ہے جو کہ ایک ستارہ ہے۔ یہ زمین سے 93 ملین میل کے فاصلے پر ہے اور زمین سے 900 گنا بڑا ہے اس کا قطر 8 لاکھ 65 ہزار 300 میل آتا ہے باقی سب سیارے ہیں۔ ہمیں جو چاند نظر آتا ہے یہ زمین کا چاند ہے ورنہ ہر سیارے کے اپنے چاند ہیں۔چاند اپنے اپنے سیارے کے گرد گھوم رہے ہیں اور زمین سمیت سب سیارے سورج کے گرد گھوم رہے ہیں۔

سیاروں میں زمین، عطارد، زہرہ اور مریخ اندرونی ساخت کے لحاظ سے کافی مشابہ ہیں تاہم مشتری، زحل گیس کے بڑے بڑے گیند ہیں بلکہ Ring کا خوبصورت اجرام فلکی ہیں۔ زحل کے آگے Uranus, Neptune اور Pluto بعد میں دریافت ہوئے ہیں۔

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں۔
’’یہ ستارے جیسا کہ یہ جاہل لوگ سمجھتے ہیں آسمان دنیا پر ہی نہیں بلکہ بعض بعض سے بڑٖے بڑے بُعد پر واقع ہیں اسی آسمان پہ مشتری نظر آتا ہے جو چھٹے آسمان پرہے۔ ایسا ہی زُحل بھی دکھائی دیتا ہے جو ہفتم آسمان پر ہے اور اسی وجہ سے اس کا نام زحل ہے جو اس کا بُعد تمام ستاروں سے زیادہ ہے کیونکہ لغت میں زُحل بہت دور ہونے والے کو بھی کہتے ہیں اور آسمان سے مراد وہ طبقات لطیفہ ہیں جو بعض بعض سے اپنے خواص کے ساتھ تلمیذ ہیں۔‘‘

(تحفہ گولڑیہ،روحانی خزائن جلد 17ص287حاشیہ)

’’قرآن کریم کی تعلیم کی رُو سے فرشتے نجوم اور شمسی اور قمر اور آسمان کے لئے جان کی طرح ہیں۔‘‘

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد5ص143حاشیہ)

ستاروں کی تاثیرات

آسمان کا زمین کے ساتھ جو تعلق ہے وہ نر اور مادہ کی طرح ہے ستاروں کی خاص تاثیرات کو حضرت مسیح موعودؑ نے نہایت اعلیٰ شان کے مضمون کے طور پر بیان فرمایا ہے۔آپؑ فرماتے ہیں۔

’’یہ ستارے فقط زینت کے لئے نہیں جیسا کہ عوام خیال کرتے ہیں بلکہ ان کی تاثیرات ہیں جیسا کہ آیت (حٰم السجدہ:13) سے معلوم ہوتا ہے یعنی نظام دنیا کی محافظت میں ان ستاروں کو دخل ہے اس قسم کا دخل جیسا کہ انسانی صحت میں دوا اور غذا کو ہوتا ہے جس کو الوہیت کے اقتدار میں کچھ دخل نہیں بلکہ جبروت ایزدی کے آئے یہ تمام چیزیں بطور مردہ ہیں یہ چیزیں بجز اذن الہٰی کچھ نہیں کر سکتی ان کی تاثیرات خدا تعالیٰ کے ہاتھ میں ہیں۔ پس واقعی اور صحیح امر یہی ہے کہ ستاروں میں تاثیرات ہیں جن کا زمین پر اثر ہوتا ہے…

بعض متقدمین حکماء نے لکھا ہے کہ زمین ابتداء سے ہی بہت ناہموار تھی خدا نے ستاروں کی تاثیرات کے ساتھ ہی اس کو درست کیا۔‘‘

(تحفہ گولڑیہ، روحانی خزائن جلد 17 ص 282 تا 283 حاشیہ)

حضرت مسیح موعودؑ نے بڑی تفصیل سے اس پر روشنی ڈالی ہے اور مختلف آیات قرآنی کی روشنی میں اس امر کو واضح کیا ہے کہ آسمان پر اجرام فلکی انسانی زندگی اور تمدن پر کتنا اثر ڈالتے ہیں۔ چنانچہ سورہ الطارق آیت 13 ,12 کی تفسیر میں حضرت مسیح موعودؑ فرماتےہیں۔

’’آسمان مؤثرات کا مجموعہ ہے اور زمین متاثرات کا مجموعہ اور امرِ الہٰی آسمان سے زمین پر نازل ہوتا ہے اور زمین اس کو قبول کر لیتی ہے اور انکار نہیں کرتی…جو کچھ بھی آسمانوں میں ہے یعنی سورج چاند ستارے ……زمین پر موجود اشیاء پراثر ڈالتی ہیں…اس رجع اور صدع کے عمل کے نتیجہ میں بہت سی چیزیں طبقات الارض میں پیدا ہوتی ہیں۔ مثلاًچاندی، سونا، لوہا، جواہرات نفیسہ اور ایسی ہیں اور ایسی ہی اور اشیاء اور اس کی اقسام میں سے کھیتیاں، درخت، نباتات، پھل، چشمے اور دریا وغیرہ ہیں نیز جملہ وہ اشیاء جن کے ظاہر کرنے کے لئے زمین پھٹتی ہے اور پھر اس کی اقسام میں سے اونٹ گدھے،گھوڑے اور اسی قسم کے دوسرے تمام چار پائے جو زمین پر چلتے ہیں اور ہوا میں اڑنے والے تمام پرندے ہیں اور اس کی اقسام میں سے انسان ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے احسن تقویم میں پیدا کیا ہے اور ہر رینگنے والے اور چلنے والے حیوان پر اس کو فضیلت دی گئی ہے اور اسی کی اقسام میں سے وحی اور نبوت و رسالت اور عقل، فطانت، شرافت، نجابت، بیوقوفی، جہالت، حماقت، رزالت اور بے حیائی ہیں اور اسی کی اقسام میں سے انبیاء اور رسولوں کی ارواح ناپرس وجود پر انعکاس طور پر نزول کرتا ہے جو ان کی فطرت سے مشابہ ہو اور جوہر اور خلقت اور صدق و صفا میں کے ان کے مشابہ ہو۔

اس سے یہ بات واضح ہوگئی کہ نجوم کی تاثیرات ثابت شدہ متحقق اور مسلمہ ہیں۔‘‘

(آئینہ کمالات اسلام عربی سے اردو ترجمہ بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد ہشتم ص340)

سورج کی تاثیرات

فرمایا:۔
’’سورج چار فصلوں میں چار تغیرات دکھلاتا ہے اول تغیر موسم خریف جو موسم بہار کے مخالف ہے اس تغیر سے وہ درختوں کے آب و تاب کو ویران کرنا شروع کرتا ہے اکثر درختوں کے پتے گر جاتے ہیں اوران کے اندر کا مادہ سیالہ جو تازگی بخش ہوتا ہے خشک ہو جاتا ہے……

پھر دوسرازمانہ جو بذریعہ سورج کے خریف کے بعد ظاہر ہوتاہے وہ موسم سرما کا زمانہ ہے جب کہ آفتاب اپنی دُوری کی وجہ سے شدت بدولت ظاہر کرتا ہے……

زمانہ جو سورج اپنے تغیرات سے جاڑے کے بعد ظاہر کرتا ہے وہ ربیع کا زمانہ ہے یہ وہ زمانہ ہے جب کہ مردہ پودے نئے سرے سے زندہ کئے جاتے ہیں اور نباتات کا خشک شدہ خون نئے سرے سے پیدا کیا جاتا ہے…

پھر…جو زمانہ بہار کے بعد سورج دیوتا ظاہر کرتا ہے وہ صیف کا زمانہ ہے جو موسم گرما کا زمانہ کہلاتا ہے اور موسم گرما ہیں سورج ان پھلوں کو پکا دیتا ہے جو بہار کے موسم میں ابھی کچےتھے۔‘‘

(نسیم دعوت۔روحانی خزائن جلد 19ص422,420)

سورج کی زمین پر تاثیرات کے بارے میں ایک اور مقام پر حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں۔
’’آفتاب کہہ رہا ہے کہ وہ میں ہوں جس پر تمام گرمی و سردی و روشنی کا مدار ہے جو 365 صورتوں میں 365 قسم کی تاثیریں دنیا میں ڈالتا ہے اور اپنی شعاعوں کے مقابلہ سے گرمی اور اپنی انحراف شعاعوں سے سردی پیدا کرتا ہے اور اجسام اور اجسام کے مواد اور اجسام کی شکلوں اور حواس پر اپنی حکومت رکھتا ہے۔‘‘

زمین کے بارے میں فرماتے ہیں:۔
’’زمین کہہ رہی ہے کہ میں وہ ہوں کہ جس پر ہزارہا ملک آباد ہوں او ر جو طرح طرح کی نباتات پیدا کرتی اور طرح طرح کے جوہراپنے اندر طیار کرتی اور آسمانی تاثیرات کو عورت کی طرح قبول کرتی ہوں۔‘‘

(آئینہ کمالات اسلام، روحانی خزائن جلد 5 ص 162 حاشیہ)

سورج کی تاثیرات کو سمجھنے کے لئے ’’بروج‘‘ کا ذکر بھی ضروری معلوم ہوتا ہے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے سورہ البروج کے فٹ نوٹ میں فرمایا ہے ’’ہوج آسمان کے ان فرضی مقامات کو کہتے ہیں جن میں فرض کیا جاتا ہے کہ سورج گزرتا ہے۔‘‘

علاوہ ازیں بروج کا ذکر سورہ الجمعہ اور سورہ الفرقان میں ملتا ہے۔ منطقہ البروج وہ لائن ہے جس پر سورج ستاروں میں حرکت کرتا ہوا نظرآتا ہے دراصل یہ سورج کے گرد زمین کی حرکت کا نتیجہ ہے ہئیت دان منطقہ بروج میں بارہ مہینوں کے لحاظ سے بارہ مساوی حصے بناتے ہیں یہ حصے 12 بروج کہلاتے ہیں ان کے نام یہ ہیں۔

1۔شمالی حمل Aries 21 (مارچ، 20۔اپریل)
2۔ثور Taurus 21 (اپریل، 20۔مئی)
3۔جوزاء Gemini 21 (مئی، 20۔جون )
4۔سرطان Cancer 21 (جون، 20جولائی)
5۔اسد Leo 21 (جولائی، 21۔اگست)
6۔سنبلہ Virgo 22 (اگست، 22۔ستمبر)
7۔میزان Libra 23 (ستمبر، 22 اکتوبر)
8۔عقرب Scorpio 24 (اکتوبر، 22۔نومبر)
9۔قوس Sagittarius 23 (نومبر، 20دسمبر)
10۔جدیCapricorn 21 (دسمبر، 19۔جنوری)
11۔دلو Aquarius 20 (جنوری، 18 فروری)
12۔حوت Pisces 19 (فروری، 20 مارچ)

نجوم کے ماہر سورج کے علاوہ باقی سیاروں کو بھی ان بروج کے ساتھ جوڑ کر ان کے اثرات کے قائل ہیں۔

چاند اور دیگر اجرام فلکی کی تاثیرات

18۔مئی 1908ء کو پروفیسر ریگ کے ایک سوال کے جواب میں حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا:۔
’’چاند سورج اور سیاروں کی تاثیرات کے ہم قائل ہیں ان سے انسان فائدہ اٹھاتا ہے اور بچہ جب ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے اس وقت بھی ان کی تاثیرات کا اثر بچے پر ہوتا ہے۔ یہ امر شریعت کے خلاف نہیں۔ اسی واسطے ہمیں ان کے ماننے میں انکار نہیں۔

نباتات میں چاند کی روشنی کا اثر بین طور سے ظاہر ہے چاند کی روشنی سے پھل موٹے ہوتے ہیں۔ ان میں شیرینی پیدا ہوتی ہے۔ اور بعض اوقات لوگوں نے اناروں سے چیخنے کی آواز تک بھی سنی ہے جو چاند کی روشنی کے اثر سے پھوٹتے ہیں۔ اس سے زیادہ جو حصہ پیچدار اور ثابت شدہ نہیں اس کے ماننے کے واسطے ہم تیار نہیں ہیں۔ قرآن شریف میں صاف بیان کیا گیا ہے کہ چاند سورج اور تمام سیارے انسان کے خادم اور مفید مطلب ہیں اور ان میں انسانی فوائد مرکز ہیں۔ پس ہم اس بات کے ماننے میں کوئی حرج نہیں پاتے کہ جس طرح نباتات سے ہمیں فائدہ پہنچتا ہے اس طرح ان تمام سیاروں سے بھی ہم فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اب اگر یہ ثابت ہو جاوے کہ عقل کو مشتری سے تعلق ہے تو اس کے ماننے کے واسطے بھی ہم تیار ہیں۔‘‘

(ملفوظات جلد پنجم ص677)

اسٹرالوجی کی کتب میں سیاروں کی بڑی واضح اور تفصیل سے تاثیرات ملتی ہیں اس کے مطابق سورج (جو کہ ستارہ ہے) کے اثرات سب سے زیادہ قوی ہیں۔ چاند سورج کی روشنی کو منعکس کرتا ہے اور اس کے مقام کی تبدیلی کے ساتھ سمندر میں لہروں کا مدّوجزر وجود میں آتا ہے۔ عطارد کا تعلق مواصلات سے ہے۔ زہرہ خوبصورتی اہم آہنگی پیدا کرنے کا سیارہ ہے مریخ طاقت، جرات اور جنگ کا سیارہ ہے مشتری Expansion:04 اور صبر و تحمل اور امن کا پاسدار ہے اور زُحل حدود اور ٹھنڈک اور خواہشات کو محدود رکھنے کا سیارہ ہے۔ یہ سب اثرات زمین اوراہل زمین پرمترتب ہوتے ہیں۔

تاثیراتِ آسمانی کے مضمون کی وسعت

حضرت مسیح موعودؑ نے بڑے شرح و بسط سے اس مضمون کو بیان فرمایا ہے۔
آپؑ فرماتے ہیں:۔
’’آسمانوں کو سات میں کیوں محدود کیا گیا اس کی کیا وجہ ہے تو اس کا یہ جواب ہے کہ درحقیقت یہ تاثیرات مختلفہ کی طرف اشارہ ہے جو مختلف طبقات سماوی سے مختلف ستارے اپنے اندر جذب کرتے ہیں اور پھر زمین پر اُن تاثیرات کو ڈالتے ہیں۔ چنانچہ اس کی تصریح اس آیت میں موجود ہے (الطلاق:13) یعنی خدا تعالیٰ نے آسمانوں کو سات پیدا کیا اور ایسا ہی زمینیں بھی سات ہی پیدا کیں اور اُن سات آسمانوں کا اثر جو بامر الہٰی ان میں پیدا ہے سات زمینوں میں ڈالا تا کہ تم لوگ معلوم کر لو کہ خداتعالیٰ ہر ایک چیز کے بنانے پر اور ہر ایک انتظام کے کرنے پر اور رنگارنگ کے پیرائیوں میں اپنے کام دکھلانے پر قدرت تام رکھتا ہے اور تا تمہارے علوم وسیع ہو جائیں اور علوم و فنون میں تم ترقی کرو اور ہئیت اور طبعی اور طبابت اور جغرافیہ وغیرہ علوم تم میں پیدا ہو کہ خدا تعالیٰ کی عظمتوں کی طرف تم کومتوجہ کریں اور تم سمجھ لو کہ کیسے خدا تعالیٰ کا علم اور اس کی حکمت کاملہ ہر یک شئے پر محیط ہو رہی ہے اور کیسی ترکیب ابلغ اور ترتیب محکم کے ساتھ آسمان اور جو کچھ اس میں ہی ہے اپنا رشتہ زمین سے رکھتا ہے اور کیسے خدا تعالیٰ نے زمین کو قوت قابلہ عطا کر رکھی ہےاور آسمانوں اور ان کے اجرام کو قوت مؤثرہ مرحمت فرمائی ہے اور یاد رہے کہ جس طرح تنزل اور جسمانی اور روحانی دونوں طور پر آسمان سے ہوتا ہے اور ملائک کی توجہات اجرام سماوی کی تاثیرات کے ساتھ مخلوط ہو کر زمین پر گرتی ہیں ایسا ہی زمین اور زمین والوں میں بھی جسمانی اور روحانی دونوں قوتیں قابلیت کی عطا کی گئی ہیں تا تو اہل اور مؤثرات میں بکلی مساوات ہو اور سات زمینوں سے مراد زمین کی آبادی کے سات طبقے ہیں جو نسبتی طور پر بعض بعض کے تحت واقع ہیں اور کچھ بے جا نہ ہوگا کہ اگر ہم دوسرے لفظوں میں ان طبقات سبعہ کو ہفت اقلیم کے نام سے موسوم کردیں۔‘‘

(آئینہ کمالات اسلام،روحانی خزائن جلد پنجم ص155تا159حاشیہ در حاشیہ)

آنحضرتﷺ کے دو بعث ہیں ایک بعث محمدی جو جلالی رنگ میں ہے جو ستارہ مریخ کی تاثیر کے نیچے ہے …دوسرا بعث احمدی جو جمالی رنگ میں ہے جو ستارہ مشتری کی تاثیر کے نیچے ہے

(تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد 17 ص 254)

’’جب کبھی خدا تعالیٰ کا کوئی نشان زمین پر ظاہر ہونے والا ہوتا ہے تو اس سے پہلے آسمان پر کچھ آثار ظاہر ہوتے ہیں۔‘‘

(الحکم 27 دسمبر1907ء تفسیر مسیح موعودؑ جلد ہشتم ص4 ایڈیشن اول)

پچھلا پڑھیں

طلوع و غروب آفتاب

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 جنوری 2020