• 8 مئی, 2024

چند معروف ایجادات جن کا جنم حادثاتی طور پر ہوا

بعض دفعہ سا ئنسدان کسی سائنسی موضوع پر تحقیقی کام شروع کرتے ہیں مگر اس دوران نئی دریافت ان کے سامنے آجاتی ہے۔ یا بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ سائنسدان تجربے کے دوران خاص نتیجے کی امید رکھتا ہے مگر نتیجہ کچھ اورنکلتاہے۔ انگلش میں اس چیز کو serendipity کہا جاتا ہے۔ اس کی چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ آپ موسم سرما آتے ہی کوٹ پہنتے ہیں تو اس میں سے بیس ڈالر کا نوٹ نکل آتا ہے۔ اس مضمون میں ہم چند ایسی ایجادات کا ذکر کریں گے جہاں اس چیز کا اطلاق ہوتاہے۔

کوکا کولا

یہ بات8 مئی1886ء کی ہے۔ امریکہ کی سول وار کو ختم ہوئے 21 سال گزر چکے تھے۔ امریکہ کی ریاست جارجیا کے دارالحکومت اٹلا نٹا میں ایک فارما سسٹ جان پیم برٹن Pemberton اپنے گھر کے عقب میں چند تجربات میں مصروف تھا۔ اس نے ایک بڑی کیتلی میں ایک مکسچر ڈالا ہؤا تھا جس کو وہ کشتی کے چپو سے گھمارہا تھا۔ جب وہ تجربہ ختم کرچکا تو وہ اس وقت سردرد ختم کرنے، تھکاوٹ رفع کرنے اور اعصاب کو آرام دینے کی دوا تیار کر چکا تھا۔ پیم برٹن اس نئی تیار کردہ دوائی کو جب مقامی فارمیسی میں فروخت کرنے کیلئے گیا تو اس نے جانے سے قبل اپنے نائب کو ہدایت کی کہ وہ اس شربت کو پانی میں ملا کر ٹھنڈا کرلے۔ اس کے واپس آنے کے بعد دونوں نے اس کو پیا تو واقعی یہ مزیدا ر تھا مگر اس کے نائب نے جب دوسرا گلاس پینے کیلئے تیار کیا تو غلطی سے اس نے شربت میں کاربونیٹڈ واٹر ڈال دیا۔ اب دونوں نے ارادہ کیا کہ وہ اس مشروب کو سافٹ ڈرنک کے طور پر فروخت کریں گے۔ اس کا نام انہوں نے کوکاکولا رکھا کیونکہ اس میں کوکا کے پتے اور کولا کا خشک میوہ ڈالا گیا تھا۔ 1886ء میں انہوں نے ایک دن میں 9 بوتلیں فروخت کیںاور سالانہ آمد پچاس ڈا لر تھی۔ اس سال پیم برٹن نے 75گیلن شربت فروخت کیا ، اس کو150ڈالر آمد ہوئی جبکہ خرچ73 ڈالر تھا۔ اس وقت کے دنیا کے 200 سے زیادہ ممالک میں لوگ ہر روز 1.5 بلین بوتلیں پیتے ہیں۔ کوکا کولا کے 14، اجزاء کا ہرایک کو علم ہے مگر پندرھویں کا نام 7X ہے۔ یہ دنیا کا خفیہ ترین نسخہ ہے جس کا علم کمپنی کے صرف چند افراد کو ہے۔ اور جن کو علم ہے ان کو اکٹھے سفر کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

پوٹیٹو چپس

امریکہ میں ہر سال لوگ 6 بلین ڈالر پو ٹیٹو چپس خریدنے پرخرچ کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ یہ 1853 میں سارا ٹوگا سپرنگ (نیویارک سٹیٹ) میں سب سے پہلے بنائے گئے تھے۔ امریکہ کے مالدار لوگ یہاں چھٹیاں گزارنے آیا کرتے تھے۔ ایک ریستوران میں سرخ فام امریکن جارج کرم کچن میں کام کرتا تھا۔ ایک روز ایک گاہک تیل میں تلے آلوؤں کی پلیٹ بار بار واپس بھیجتا رہا کہ ان کو اور بھی پتلا کرو۔ جارج کو غصہ آگیا اس نے آلو اس قدر پتلا کاٹ کر تیل میں ان کو تلا کہ وہ بہت ہی کرسپ ہوگئے۔ ان کے اوپر اس نے نمک چھڑکا اور گاہک کو بھجوا دئے۔ حیرانگی کی بات یہ ہے کہ ہر ایک نے ان کو پسند کیا۔ اس قسم کے چپس کا نام ساراٹوگا چپس رکھا گیا تھا۔

چائے کی دریافت

چائے کی دریافت چین میں 2737 قبل مسیح میں چین کے بادشاہ نے کی تھی۔ ایک روز بادشاہ محل کے باہر کیتلی کے اندر پانی گرم کر رہا تھا کہ اس میں قریبی جھاڑی سے پتے گر گئے۔ قبل اس کے کہ وہ ان پتوں کو نکالتا، پانی ابلنا شروع ہو گیا۔ بادشاہ کو اس کی بھینی بھینی خوشبو اچھی لگی، اس کو پیا تو واقعی یہ مزیدار تھا۔ چائے اس وقت سادہ پانی کے بعد دنیا کا مرغوب ترین مشروب ہے۔ یورپ میں چائے 1610ء میں پہنچی تھی۔ کسی زمانے میں ایشیا کے متعدد ممالک میں چائے کے بلاک پیسے کے طور پر استعمال ہوتے تھے۔ ہر سال 900 بلین چائے کے کپ پئے جاتے ہیں۔ ٹی بیگ ایک امریکی بزنس مین ٹامس سولی وان Sullivan نے 1904ء میں دریافت کئے تھے۔ اس سے پہلے وہ چائے کے نمونے ٹین کے ڈبوں میں دکانوں کو بھیجا کرتا تھا۔ ایک روز اس نے چائے کے یہ نمونے ریشم کے چھوٹے تھیلوں میں بھیجے جو لوگوں نے پسند کئے۔ یوں ٹی بیگ کا آغاز ہوگیا۔

اسپرین

ہزاروں سال سے ڈاکٹر لوگوں کو یہ مشورہ دیتے آئے تھے کہ سردرد ختم کرنے کیلئے وہ ولو ٹری willow tree کی کھال کو منہ میں رکھ کر چبائیں۔ مشہور یونانی طبیب بقراط نے سردرد کیلئے اس درخت کے پتوں سے بنی چائے لوگوں کو دی تھی۔ انیسویں صدی میں سائنسدانوں نے پتہ لگایا کہ ولو ٹری کے اندر salicyclic acid ہوتاجس سے سردرد اور بخار دور ہوجاتا تھا۔ 1853ء میں ایک فرنچ کیمسٹ چارلس گیر ہارڈٹ Gerhardt نے اس تیزاب کے ساتھ ایک اور تیزاب ملا کر نیا مکسچر تیار کیا مگر اس کو تیار کرنے میں دیر لگتی تھی۔ 1854میں جرمن کیمسٹ ہاف مین اپنے والد کے جوڑوں کے درد کو دور کرنے کیلئے نئی دواتیار کررہا تھا کہ اس نے acetyl-solicylic acid یا اسپرین دریافت کرلی تھی۔

۰ اسپرین دنیا میں اس وقت 100 ملین پاؤنڈ تیار کی جاتی ہے۔ امریکہ میں لوگ ہر سال 30 بلین اسپرین کی گولیاں کھاتے ہیں کیونکہ یہ دل کے حملہ اور فالج کے دفاع کیلئے عمدہ دوائی ہے، بلکہ ذیابیطس کے مریضوں کیلئے بھی مفید ہے۔

پینسیلین

الیکزنڈر فلیمنگ Fleming نے ستمبر 1928ء میں پین سی لین اتفاقاََ ایجاد کی تھی۔ فلیمنگ پیشہ کے اعتبار سے بیکٹیریالوجسٹ تھا یعنی وہ شخص جو جراثیم کا مطالعہ کرتا ہے۔ وہ اپنے تجربات اکثر لندن کے سینٹ میری ہاسپٹل میں کیاکرتا تھا۔ ایک روز اس نے تجرباتی پلیٹ جس میں staphylococci بیکٹیریا تھا، اس کو کھڑکی کے پاس رکھ دیا۔ اس کے چند گھنٹوں کے بعد جب وہ واپس لوٹا تو اس نے دیکھا کہ کچھ کھڑکی پر لگی پھپھوندی کہیں سے اڑ کرآگئی تھی اور اس نے بیکٹیریا کو خراب کردیا تھا۔ کوئی اور ہوتا تو اپنی پلیٹ کو باہر پھینک کر تجربہ دوبارہ شروع کر دیتا مگر اس نے پلیٹ کو غورسے دیکھااورجب اس کو اپنی مائیکرو اسکوپ کے نیچے رکھا تو دیکھا کہ staphylococci کے اوپر لگ رہی تھی۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ پھپھوندی کے ارد گرد تمام حلقہ صاف تھا۔ ہوا یہ کہ پھپھوندی اس زہریلے سٹیفا لو کاکی کو ہڑپ کر رہی تھی یوں اتفاقاََ فلیمنگ نے پین سی لین ایجاد کر لی ۔ 1945ء میں فلیمنگ، فلوری، اور چین کو پین سی لین ایجاد کر نے پر نوبیل انعام دیا گیا تھا۔ امریکہ میں ڈاکٹر ہر سال 100 ملین سے زیادہ نسخے لکھ کر دیتے ہیں۔

آئیوری سوپ

امریکہ اور کینیڈا میں نہانے کیلئے صابن کثرت سے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کا فارمولا 125 سال قبل دو بھائیوں جیمز اینڈ ڈیوڈ گیمبل Campbell نے تیار کیا تھا۔

شروع میں انہوں نے اس کا نام وائٹ سوپ رکھا تھا مگر اس وقت یہ پانی میں تیرتا نہیں تھا۔ مگر اس کی ایجاد ایک حادثہ سے ہوئی۔ ایک روز فیکٹری میں ایک ورکر بڑی مشین پر کام کر رہا تھا مگر لنچ کے وقت وہ مشین بند کرنا بھول گیا۔ مشین لگاتار چلتی رہی جب وہ لنچ کے بعد واپس آیا تو اس نے دیکھا کہ صابن کے مکسچر کے اندر ہوا شامل ہوگئی تھی۔ بجائے مکسچر کو پھینکنے کے اس نے اس کو سانچے کے اندر ڈال دیا۔ جب صابن سخت ہوگیا تو اس کو کاٹا گیا اور تین یا چار صابنوں کے پیکج بنا کر دکانوں پر فروخت کیلئے بھجو ادیا گیا۔ جلد ہی پراکٹر اینڈ گیمبل کو آرڈر ملنا شروع ہو گئے کیونکہ یہ صابن تیرتا تھا۔ ورکر کی معمولی سی غلطی سے صابن فروخت کی وجہ بن گیا تھا۔ 1879ء میں اس کا نام آئیوری سوپ رکھ دیا گیا۔

اینٹ

نیو یارک کی بلندعمارت ایمپا ئر سٹیٹ بلڈنگ کی تعمیر میں 10 ملین اینٹیں استعمال ہوئی تھیں۔ چین کی دیوار اعظم میں 4 بلین اینٹیں لگی ہوئی ہیں۔ انسان نے اینٹوں کا استعمال دس ہزار سال قبل شروع کیا تھا۔ پہلی اینٹ کسی مصری نے اتفاقاََ دریائے نیل کے کنارے جمع شدہ گارے اور تہ نشیںریت سے بنائی تھی۔ جب دھوپ میں پڑا کیچڑ سخت ہوگیا تو کسی نے اس کے سلیب بنائے۔ کسی دوسرے مصری کو خیال آیا کیوں نہ اس بلاک کو کاٹ کر مکان بنانے میں استعمال کیا جائے۔ اینٹ جس طرح ہزاروں سال قبل بنائی جاتی تھی اسی طرح آج بھی بنائی جاتی ہے۔ امریکہ میں ریاست ارکانسا کا شہر میل ورن اینٹوں کی وجہ سے مشہور ہے۔ یہاں ہر سال ایک میلہ لگتا ہے جس کا اینٹوں کا میلا Brickfest ہے۔ ریاست ٹینی سی کے شہر جانسن سٹی میں اینٹوں کا ایک میوزیم ہے۔ دنیا کی سب سے پرانی اینٹ اسرائیل کے شہر جیریکو میں ملی ہے جو نو ہزار سال پرانی ہے۔ ہندوستان کے شہر کالی بنگا میں فائر برک ملی جو پانچ ہزار سال پرانی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اسرائیل میں بادشاہ سلیمان کے قلعہ کی اینٹ 64 پاؤنڈ وزنی ہے۔

پوسٹ اٹ نوٹ

آپ نے آفس میں پیلے رنگ کا Post it Note تو ضرور استعمال کیا ہوگا۔ کاغذ کے پیچھے معمولی سی گوند لگی ہوتی ہے مگر کاغذ دوسرے کاغذ سے آسانی سے الگ ہوجا تا ہے۔ اس قسم کے کاغذ کی ایجاد 1970ء میں امریکہ کی مشہور زمانہ کمپنی تھری ایم 3M کی ریسرچ لیبارٹری میں ہوئی تھی۔ ہوا یہ کہ اس کمپنی کا ایک سائنسدان سپینسر سلور Silver لیبارٹری میں کوئی مضبوط قسم کی گوندadhesive بنانے میں مصروف تھا۔ اس نے ایک گوند تیار کی لیکن یہ پہلی والی سے بھی زیادہ کمزور تھی جو کہ تھری ایم میں پہلے ہی تیار کی جارہی تھی۔ یہ گوند جس چیز کو لگائی جاتی وہ دوسری چیزوں سے چپک جاتی مگر آسانی سے الگ بھی ہوجاتی تھی یعنی یہ گوند سپر سٹرانگ ہونے کے بجائے سپر ویک تھی۔ ایک اور سائنسدان آرتھر فرائی ایک روز چرچ میں ترنم سے نغمے گا رہا تھا مگر کتاب کے جس صفحہ پر اس نے کوئی نشانی رکھی ہوئی تھی وہ گر جاتی تھی۔ چنانچہ اس نے مسٹر سلور والی گوند کو کاغذ کے پیچھے لگا کر کتاب میں نشانی کیلئے لگا دیا اور یہ نشانی اپنی جگہہ پر تمام وقت لگی رہی۔ تھری ایم نے اسے پوسٹ اٹ نوٹ کا نام دیا اور یہ امریکہ میں1980ء میں بازار میں بکنا شروع ہوگئے۔ اس وقت یہ سٹیشنری سٹوروں پر سب سے زیادہ بکنے والی چیز ہے۔

ٹاور آف پیسا

دنیا کے سات عجائبات میں سے ایک اٹلی کے شہر پیسا کے Piazza dei Miracoli میں واقع مینار دنیا بھر میں مشہور اور سیاحوں کی آماجگاہ ہے کیونکہ یہ17 فٹ (5 ڈگری) جھکا ہؤا ہے۔ اس کے اندر296 سیڑھیاں ہیں۔ یہ سفید سنگ مرمر سے بنا ہؤا ہے، 184 فٹ اور 5 انچ اونچا ہے۔ اس شہرہ آفاق مینار کی تعمیر1174ء میں اطالوی آرکیٹیکٹ پیسانو Pisano نے شروع کی۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ایک روز یہ مینارسیا حت کاعالمی مرکز بن جا ئیگا۔ اور نہ ہی اس کو یہ معلوم تھا کہ اس کی ایک غلطی اس میں پوشیدہ رہے گی۔ مینار کی بلندی 185فٹ طے پائی تھی۔

تعمیر کا کام جب شروع ہوا اور تین منزلیں جب مکمل ہو گئیں تو اس نے ایک طرف جھکنا شروع کردیا۔ مینار کے نیچے ایک طرف کو مٹی قدرے نرم تھی اور دس فٹ کی بنیاد اس قدر پکی نہ تھی کہ اس کے وزن کو سپورٹ کر سکتی، چنانچہ اس نے اس جھکاؤ کو روکنے کیلئے جس طرف مینار چھوٹا تھا اس طرف نئی منزلیں بنانی شروع کر دیں۔ مگر اس عمل سے یہ اور بھی زیادہ جھکنے لگا تھا۔ چنانچہ تعمیر کا کام اگلے سو سال تک رکا رہا۔

اس پر 1275ء میں تعمیر کا کام دوبارہ شروع ہوا۔ کشش ثقل کے مرکز کو بدلنے کیلئے دو منزلیں دوسری دو منزلوں سے ہٹ کر تعمیر کی گئیں چنانچہ چودھویں صدی میں تعمیر کا کام مکمل ہوگیا۔ مگر یہ ہر سال ایک چوتھائی انچ جھکتا رہا اور اب یہ پانچ ڈگری یا 17فٹ جھکا ہؤا ہے۔ 1934ء میں اطالوی حکومت نے اس کی بنیادوں میں کنکریٹ ڈالاتا جھکاؤ رک جائے۔ مگر یہ جھکاؤ اور بھی زیادہ ہوتا رہا۔ کہاجاتا ہے کہ اطالوی ہیئت دان گیلی لیو گیلی لائی نے گرنے والے اجسام کی رفتار معلوم کرنے کیلئے اس مینار پر سے تجربات کئے تھے۔

وقت گزرنے کے ساتھ اس جھکاؤ زیادہ ہورہا تھا اس لئے 1990ء میں اس کو بند کر دیا گیا۔ چند سال قبل اس کے جھکاؤ کو روکنے کے لئے مرمت کا کام جو شروع ہؤا تھا وہ 2018ء میں مکمل ہؤا تھا۔ اور اب یہ 1.5/انچ سیدھا ہوگیا ہے اور اس

(زکریا ورک)

پچھلا پڑھیں

طلوع و غروب آفتاب

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 جنوری 2020