• 25 اپریل, 2024

عہد بیعت اور اس کے تقاضے

عہدبیعت اور اس کے تقاضے

*اطاعت صرف اپنے ذوق کے مطابق احکام پر عمل کرنے کا نام نہیں (حضرت خلیفہ ثانی)

*خلافت کے خلاف بے ادبی کرنے والوں کا کبھی بھی مَیں نے نیک انجام ہوتے نہیں دیکھا (حضرت خلیفہ رابع)

*اطاعت کے معیار حاصل کرو۔ اطاعت یہ نہیں کہ خلیفۂ وقت کے یا نظامِ جماعت کے فیصلے جو اپنی مرضی کے ہوئے دلی خوشی سے قبول کر لئے۔ (حضرت خلیفہ خامس)

بیعت کے لغوی و اصطلاحی معانی

 لفظ بیعت عربی لفظ ہےجس کے معنی بیچنے  کے ہیں۔ رسول کریم ﷺ پر ایمان لا کر آپ ؐ کی کامل اطاعت اور وفا کا عہد کرنے کو اللہ تعالی ٰ نے ایک ’’سودا‘‘ سے تعبیر کرتے ہوئے فرمایا کہ:۔ اِنَّ اللّٰهَ اشْتَرٰى مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اَنْفُسَهُمْ وَ اَمْوَالَهُمْ بِاَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَؕ یعنی یقیناً اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے اموال خرید لئے ہیں،تاکہ اس کےبدلے میں انہیں جنت ملے۔ (التوبہ: 111) دوسری جگہ اس شاندار  بیعت کی عظمت اور تعریف بیان کرتے ہوئے فرمایا:۔ إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ ۚ یعنی یقیناً  اے نبی! وہ لوگ جو تیری بیعت کرتے ہیں وہ اللہ ہی کی  بیعت کرتے ہیں، اللہ کا ہاتھ ہے جو ان کے ہاتھ پر ہے۔ (الفتح: 11)

ہرزمانہ کے نبی کے ساتھ یہی عہدبیعت کرکےاس کے ماننے والوں نےحسب توفیق نبھاہنے کی توفیق پائی۔مگر سید الانبیاء حضرت محمدمصطفیﷺ کے صحابہ کیا مہاجرین اور کیا انصار سب نے رسول اللہ ؐسے عہد بیعت جس  کمال خوبی اورخوش اسلوبی سے نبھایا اس پر آفرین ہے کہ خدائے ذوالعرش نے بھی انہیں ’’رضی اللہ عنھم و رضوا عنہ‘‘ کہہ کر اپنی رضا کا تاج پہنایا اور جنت کی نوید سے نوازا اور انہیں جنتوں کی خوشخبری دے کر فوز عظیم  کامقام نصیب فرمایا۔ ان اصحاب کو رسول اللہ ؐ سے کیے گئے اس عہد سے کوئی طاقت منحرف نہ کر سکی۔ حالانکہ نہایت بے رحمی کی طرز سے خدا کے یہ وفادار بندے ان شریر درندوں کی تلواروں سے ذبح کئے گئے پر انہوں نے دم نہ ہارا۔ وہ قربانیوں کی طرح ذبح کئے گئے پر انہوں نے آہ نہ کی۔وہ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر تلواروں کے آگے خندہ پیشانی سے ڈٹ گئے مگر رسول اللہ ؐ کے ساتھ کئے اس عہد مقدس پر کوئی حرف نہ آنے دیا۔جنگ بدر کے پر خطر موقع پرحضرت مقداد بن اسودؓ کے یہ تاریخی الفاظ انصار مدینہ کی اطاعت و جانثاری کو ہمیشہ کےلئے امر کر گئے کہ یا رسول الله ؐ! اگر جنگ ہوئی تو ہم موسیٰ کے ساتھیوں کی طرح یہ نہیں کہیں گے کہ فَاذْھَبْ اَنْتَ وَ رَبُّکَ فَقَاتِلا اِنَّا ھٰہُنَا قَاعِدُوْنَ بلکہ خدا کی قسم ہم آپؐ کے دائیں بھی لڑیں گے اور بائیں بھی لڑیں گے اور یا رسول اللهؐ! دشمن جو آپؐ کو نقصان پہنچانے کے لئے آیا ہے وہ آپ تک نہیں پہنچ سکتا جب تک وہ ہماری لاشوں پر سے گزرتا ہوا نہ جائے۔ یا رسول اللهؐ! جنگ تو ایک معمولی بات ہے یہاں سے تھوڑے فاصلہ پر سمندر ہے آپؐ ہمیں حکم دیں کہ سمندر میں کود جاؤہم بلا دریغ سمندر میں کود جائیں گے۔

(سیرۃ الحلبیہ جلد1 صفحہ453)

**صحابہ رسول ؐکے عہد بیعت میں فائز المرام ہونے کا اندازہ اس نظارہ سے کیجئے:۔

حرمت شراب  سے پہلے کا واقعہ ہے حضرت ابوطلحہؓ کے گھر میں ہم جلیسوں کی ایک محفل جمی ہوئی تھی۔ مہمانوں کی تواضع کیلئے حسب دستورشراب بھی پیش کی جارہی تھی کہ دریں اثناء مدینہ کی گلیوں میں ایک منادی کرنے والا یہ اعلان کرتا سنائی دیا کہ اے لوگو! سنو! شراب حرام کردی گئی ہے۔ اس اعلان کا سننا تھا کہ ابوطلحہؓ نے اس نوجوان کو جوشراب کے جام تقسیم کر رہا تھا حکم دیا کہ شراب کے مٹکے توڑ دو اور ساری شراب بہادو اور اس نوجوان نے بھی فوری تعمیل کی اور چند لمحوں میں مدینہ کے گلی کوچوں میں یہ شراب بہنے لگی اور کسی نے اعلان کرنے والے سے پلٹ کر کوئی سوال تک نہیں کیا اور بے چون و چراں اس اعلان کی تعمیل کردی گئی۔                                                 

(بخاری کتاب التفسیر سورۃالمائدہ)

عقل محو حیرت ہے کہ جب شراب کے جام لنڈھائے جارہے ہوں ایسے میں اطاعت کا یہ شاندارنمونہ کہ محض ایک منادی کرنے والے کے اعلان پر شراب کے مٹکے توڑ کر اسے بہا دیا جائے اور کسی قسم کی تصدیق و تحقیق کرنے کی بجائے تعمیل حکم کو اولیت دی جائے۔ اطاعت کی یہ ادائیں حضرت محمدمصطفیﷺکے تربیت یافتہ غلاموں میں ہی نظر آتی ہیں جنہوں نے عہد بیعت کا حق ادا کر کے دکھا دیا۔

**ایک اور صحابیٔ رسول کی اطاعت کا نمونہ ملاحظہ ہو:۔ آنحضرتؐ مسجدنبوی میں خطبہ ارشا د کرتے ہوئے فرماتے ہیں:۔’’لوگو! بیٹھ جاؤ۔ حضرت عبداللہ بن رواحہؓ خطبہ سننے کیلئے حاضر ہورہے تھے۔ وہ مسجد کے باہرہی بیٹھ گئے آنحضرت ؐ نے اطاعت کایہ شاندار نمونہ دیکھ کر فرمایا اے عبد اللہ ؓ بن رواحہ! تمہارا اطاعت کایہ جذبہ اللہ تعالیٰ اور بڑھائے۔

(اصابہ جزء4 صفحہ66)

صحابہ کی اپنے آقا سے بے مثال محبت

صحابہ کی یہ جانثاری اور وفاشعاری دیکھ کر کفار بھی مرعوب ہو  کررہ جاتے تھے۔ صلح حدیبیہ  کے موقع پر مشرکین مکہ کے ایک سردار عروہ بن مسعود رسول اللہ ﷺ سے مصالحت کے لیے آئے۔ واپس جا کر انہوں نےقریش کے سامنے آنحضرتﷺ کے غلاموں کی اطاعت اور وفا شعاری کی جو شاندار تاریخی گواہی دی وہ غور کے لائق ہے:۔ ’’اے میری قوم! اللہ کی قسم! میں البتہ بادشاہوں کے درباروں میں حاضر ہوا ہوں اور قیصر اور کسریٰ و نجاشی کے ہاں گیا ہوں، اللہ کی قسم! میں نے کبھی کوئی ایسا بادشاہ نہیں دیکھا کہ جس کے اصحاب اس کی ایسی تعظیم کرتے ہوں جیسا کہ محمد (ﷺ) کے اصحاب محمد (ﷺ) کی کرتے ہیں۔ اللہ کی قسم! اس (محمد) نے جب کبھی کھنکار پھینکا ہے تو وہ اصحاب میں سے کسی نہ کسی کے ہاتھ میں گرا ہے جسے انہوں نے اپنے منہ اور جسم پر مل لیا ہے۔ جب وہ اپنے اصحاب کو حکم دیتے ہیں تو وہ اس کی تعمیل کے لیے دوڑتے ہیں اور جب وضو کرتے ہیں تو ان کے وضو کے پانی کے لیے باہم جھگڑنے کی نوبت پہنچنے لگتی ہے اور جب وہ کلام کرتے ہیں تو اصحاب ان کے سامنے اپنی آوازیں دھیمی کردیتے ہیں اور ازروئے تعظیم ان کی طرف تیز نگاہ نہیں کرتے۔ انہوں نے تم پر ایک نیک امر پیش کیا ہے اسے قبول کرلو۔‘‘

(بخاری کتاب الشروط باب الشروط فی الجهاد)

اس زمانہ میں آنحضرت ﷺ کے روحانی فرزند حضرت مسیح و مہدی کے ہاتھ پر بیعت کرنے والے سچے غلاموں نےبھی وفا کے اچھوتے نمونے اور انوکھے انداز رقم کردکھائے۔جو عہد بیعت انہوں نے مسیح موعود ؑ کے ہاتھ میں دے کر کیا تھا اسے مرتے دم تک نبھایا اور ایسا کیوں نہ ہوتا۔ مسیح پاک ؑ نے انہیں اطاعت کے  حقیقی معنی سمجھاتے ہوئے فرمایا تھا:۔
’’اطاعت بھی ایک موت ہوتی ہے جیسے ایک زندہ آدمی کی کھال اتاری جائے ویسی ہی اطاعت ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد چہارم صفحہ 74)

حضرت بانی جماعت احمدیہ ؑنے اپنے سلسلہ میں داخل ہونے کے لئے  ضرورت زمانہ کے مطابق اسلامی تعلیم کے خلاصہ کےطورپردس شرائط   مقرر فرمائیں ۔اس عہد بیعت کی اہمیت بیان کرتے ہوئے آپؑ نے فرمایا:۔
’’درحقیقت وہی بیعت کرتا ہے جس کی پہلی زندگی پر موت وارد ہو جاتی ہے اور ایک نئی زندگی شروع ہو جاتی ہے۔ ہر ایک امر میں تبدیلی کرنی پڑتی ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد دوم صفحہ257 ایڈیشن 2003ء)

اس کے بالمقابل عہد بیعت کے تقاضے نہ نبھانے والوں کو آپؑ نےیہ نصیحت بھی فرمائی کہ:۔
’’بیعت کی حقیقت یہی ہے کہ بیعت کنندہ اپنے اندر سچی تبدیلی اور خوفِ خدا اپنے دل میں پیدا کرے۔۔۔۔ اور اصل مقصود کو پہچان کر اپنی زندگی میں ایک پاک نمونہ کر کے دکھاوے۔ اگر یہ نہیں تو پھر بیعت سے کچھ فائدہ نہیں بلکہ یہ بیعت پھر اس کے واسطے اور بھی باعثِ عذاب ہو گی کیونکہ معاہدہ کر کے جان بوجھ کر اور سوچ سمجھ کر نافرمانی کرنا سخت خطرناک ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد پنجم صفحہ604-605 ایڈیشن 2003ء)

مسیح دوراں کے دست مبارک پر اولین بیعت کا شر ف پانے والوں نے بھی اس پاکیزہ نصیحت پر کان دھرتے ہوئے اللہ اور بندوں کے حقوق کی ادائیگی کے لحاظ سے شرائط بیعت کا حق ادا کرکے دکھا دیا۔ 

حقوق اللہ کی ادائیگی کے نظارے:

بیعت کنندہ بوقت بیعت یہ عہد کرتا ہے کہ وہ پنجوقتہ نماز موافق حکم خدا و رسول ادا کرتا رہے گا۔حضرت مسیح پاک اپنے ایک رفیق شیخ حامد علی کےبارہ میں فرماتے  ہیں:۔
’’میں نے اس کو دیکھا ہے کہ ایسی بیماری میں جو نہایت شدید اور مرض الموت معلوم ہوتی تھی اور ضعف اور لاغری سے میّت کی طرح ہو گیا تھا۔ التزام ادائے نماز پنجگانہ میں ایسا سرگرم تھا کہ اس بے ہوشی اور نازک حالت میں جس طرح بن پڑے نماز پڑھ لیتا تھا۔‘‘

(ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد3 صفحہ540)

*دوسرے رفیق حضرت مولوی عبد الکریم صاحب سیالکوٹی تھے جو کثرت پیشاب کی شدید تکلف میں بعض دفعہ غش کھانے کے قریب ہو جاتے مگر نماز  کے لئے مسجد تشریف لاتے۔

*ایک اور رفیق حضرت نواب محمد علی خان صاحب کے بارے میں حضور ؑ فرماتے ہیں:۔
’’قادیان میں جب کہ وہ ملنے کے لئے آئے تھے اور کئی دن رہے پوشیدہ نظر سے دیکھتا رہا ہوں کہ التزام ادائے نماز میں اُن کو خوب اہتمام ہے اور صلحاء کی طرح توجہ اور شوق سے نماز پڑھتے ہیں۔‘‘

(ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد3 صفحہ526-527)

*ایک اور رفیق حضرت میر ناصر نواب صاحب آخری عمر میں باوجود بیماری کے اپنے گھر دارالسلام سے نماز باجماعت کے لئے پیدل بیت المبارک  آتے تھے۔

(اصحاب احمدجلد7 صفحہ10)

*حضرت منشی محمد اسماعیل صاحب سیالکوٹی تہجد کی نماز ایسی ہی باقاعدگی سے ادا کرتے تھے جیسے  دوسری پانچ نمازیں۔

(اصحاب احمدجلد7 صفحہ200)

عہدطاعت:

بیعت کنندہ عہد کرتا ہے کہ وہ حضرت مسیح موعود ؑسے عقد اخوت باقرار طاعت در معروف باندھ کر اس پر تا وقت مرگ قائم رہے گا اور اس عقد اخوت میں ایسا اعلیٰ درجہ کا ہو گا کہ اس کی نظیر دنیوی رشتوں اور تعلقوں اور تمام خادمانہ حالتوں میں پائی نہ جاتی ہو۔

مسیح دوراں کے سب غلاموں نے ہی اس کے بہترین نمونے دکھائے۔ مگر سب سے اول نمبرپرعاشق صادق حضرت مولوی نورالدین صاحب تھے جن کی فدائیت اور جذبہ اطاعت انتہاء پر تھا۔

’’1891ء کے قریب کا واقعہ ہے حضرت اقدسؐ او ر مولوی نذیر حسین (صاحب) وغیرہ کے درمیان مباحثہ ہونے والا تھا۔ دہلی سے حضور نے بذریعہ تار حضرت مولوی نورالدین صاحب کو دہلی بلایا  اس وقت حضرت مولوی صاحب مطب میں نسخے لکھ رہے تھے تار آئی تو پوچھا کہ کیا لکھا ہے …… بتایا گیا کہ آ پ کو دہلی فوراً آنے کا حکم حضرت مسیح موعودؐ  کی طرف سے ہے۔ حضرت حکیم الامت نے وہیں نسخہ اور قلم فرش پر رکھ دیا اور جوتی پہن کر یکہ کے اڈّہ کی طرف پیادہ چل پڑے۔ قادیان کی جانب غرب جب خاکروبوں کے محلہ (جو بعد میں دارالصحت کہلاتا تھا) کے قریب پہنچے تو ایک یکّہ بان بٹالہ سے آکر حضرت مولوی صاحب کو کہتا ہے کہ میں تحصیلدار صاحب بٹالہ کی طرف سے پیغام لے کر آیا ہوں۔ معلوم ہوا کہ تحصیلدار کی بیوی سخت بیمار ہے اور حضرت مولوی صاحب کو بلایا ہے۔ آ پ بٹالہ پہنچے اور تحصیلدار سے کہا کہ میں نے اس گاڑی پردہلی جانا ہے۔ تحصیلدار نے کہا کہ آپ میری بیوی کاعلاج کریں نسخہ دیں۔ جب تک آپ نہ آئیں گے گاڑی نہیں چلے گی۔ چنانچہ آپ نے علاج کا انتظام کیا اور تحصیلدار صاحب آپ کو ساتھ لے کر ریلوے سٹیشن بٹالہ پر پہنچے، اور دہلی کا ٹکٹ دے کر اور یک صدروپیہ نذر کر کے آپ کو گاڑی میں بٹھا دیا اور حضرت مولوی نورالدین صاحب روانہ ہوگئے (اور دہلی پہنچ کر حضور کی خدمت میں حاضر ہوئے۔) حضرت مولوی صاحب نے گھر سے نہ کوئی خرچ منگوایا، نہ مشورہ (کیا) اور (نہ) اطلاع کی۔ مطب سے ہی دہلی کو روانہ ہوگئے اور اللہ تعالیٰ نے بھی آپ کی قربانی دیکھ کر وہ سلوک کیا کہ باید و شاید۔‘‘

(اصحاب احمد جلد7 صفحہ35)

جان، مال، عزت اور اولاد قربان کرنے کا عہد:      

 ایک اور شرط کے مطابق بیعت کنندہ یہ عہد بھی کرتا ہے کہ  دین اور دین کی عزت اور ہمدردئ اسلام کو اپنی جان اور اپنے مال اور اپنی عزت اور اپنی اولاد اور اپنے ہر یک عزیز سے زیادہ تر عزیز سمجھے گا۔خود حضرت اقدس مسیح موعود ؑنے  اپنے رفیق خاص حضرت حکیم مولوی نورالدین صاحب کے بارے فرمایا:۔
’’سب سے پہلے میں اپنے ایک روحانی بھائی کے ذکر کرنے کے لئے دل میں جوش پاتا ہوں جن کا نام ان کے نور اخلاص کی طرح نور دین ہے میں ان کی بعض دینی خدمتوں کو جو اپنے مال حلال کے خرچ سے اعلاء کلمہ اسلام کے لئے وہ کر رہے ہیں ہمیشہ حسرت کی نظر سے دیکھتا ہوں کہ کاش وہ خدمتیں مجھ سے بھی ادا ہو سکتیں۔ ان کے دل میں جو تائید دین کے لئے جوش بھرا ہے اس کے تصور سے قدرت الٰہی کا نقشہ میری آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے کہ وہ کیسے اپنے بندوں کو اپنی طرف کھینچ لیتا ہے۔ وہ اپنے تمام مال اور تمام زور اور تمام اسباب مقدرت کے ساتھ جو اُن کو میسر ہیں ہر وقت اللہ، رسول کی اطاعت کے لئے مستعد کھڑے ہیں۔ اور میں تجربہ سے نہ صرف حُسنِ ظن سے یہ علم صحیح واقعی رکھتا ہوں کہ انہیں میری راہ میں مال کیا بلکہ جان اور عزت تک سے دریغ نہیں اور اگر میں اجازت دیتا تو وہ سب کچھ اس راہ میں فدا کرکے اپنی روحانی رفاقت کی طرح جسمانی رفاقت اور ہر دم صحبت میں رہنے کا حق ادا کرتے۔‘‘

(فتح اسلام، روحانی خزائن جلد3 صفحہ35)

اسی لئے حضرت مسیح موعودؑ نے آپؓ کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا:۔

چہ خوش بودے اگر ہر یک ز امت نور دیں بودے
ہمیں بودے اگر ہر دل پر از نور یقیں بو دے

کیا ہی اچھا ہوتا اگر امت کا ہر فرد نور دین ہوجاتا اور یہ ہوجائے اگر ہر دل یقین کے نور سے بھر جائے۔

*اسی طرح شہید کابل حضرت صاحبزادہ عبد الطیف شہیدکی خداتعالی ٰ کے ساتھ وفاداری کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود ؑ فرماتے ہیں:۔
’’صاحبزادہ عبد الطیف کی شہادت کا واقعہ تمہارے لئے اسوہ حسنہ ہے۔ اس نے اپنے ایمان کا ایک نمونہ دکھایا ہے۔ اس نے دنیا اور اس کے تعلقات کی کچھ بھی پرواہ نہ کی۔ بیوی بچوں کا غم اس کے ایمان پر کوئی اثر نہ ڈال سکا۔ دنیوی عزت اور منصب اور تنعم نےا س کو بزدل نہ بنایا۔ اس نے جان دینی گوارا کی مگر ایمان کو ضائع نہ کیا۔ عبد الطیف کہنے کو مارا گیا مگر یقیناً سمجھو کہ وہ زندہ ہے اور کبھی نہیں مرے گا۔ جان جیسی عزیز شے کو جو انسان کی ہوتی ہے اس نے مقدم نہیں کیا ،جس کا س نے خداتعالی کے سامنے وعدہ کیا تھا کہ میں دین کو دنیا پر مقدم رکھوں گا۔‘‘

(ملفوظات جلد سوم  صفحہ511-512)

خوشا نصیب جنہوں نے مسیح دوراں کے جلائے ہوئے  چراغوں سے اپنی مشعلیں روشن کیں اور مبارک ہیں وہ جنہوں نے چراغوں کے گل ہونے سے قبل ان سے اپنے دیے جلائے۔یہ لوگ جو خدا کے پیاروں سے اکتساب نور پیدا کرتے ہیں ایک حصن حصین  ہوتے ہیں اور دنیا ان کی وجہ سے بہت سی بلاوں سے محفوظ  رہتی ہے۔

اطاعت کی حقیقت

*اطاعت کی حقیقت  بیان کرتے ہوئے حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:۔
’’اطاعت صرف اپنے ذوق کے مطابق احکام پر عمل کرنے کا نام نہیں بلکہ خدا تعالیٰ کے ہر حکم پر عمل کرنےکا نام ہے خواہ وہ کسی کی عادت یا مزاج کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔‘‘

(تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ15)

*حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے فرمایا:۔
’’خلافت کے خلاف بے ادبی کرنے والوں کا کبھی بھی مَیں نے نیک انجام ہوتے نہیں دیکھا۔ وہ بھی تباہ ہوئے اور ان کی اولاد بھی تباہ ہوئی۔ اس لیے ہمیشہ کامل غلامی کے ساتھ خلافت کی اطاعت کا عہد کریں اور اس پر قائم رہیں۔‘‘

(الفضل انٹرنیشنل21تا31مئی 2021 صفحہ92)

*حضرت  خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالی بنصرہ العزیز  نےاطاعت کی لطیف تشریح کرتے ہوئے فرمایا:۔
’’اطاعت کے معیار حاصل کرو۔ اطاعت یہ نہیں کہ خلیفۂ وقت کے یا نظامِ جماعت کے فیصلے جو اپنی مرضی کے ہوئے دلی خوشی سے قبول کر لئے اور جو اپنی مرضی کے نہ ہوئے اُس میں کئی قسم کی تاویلیں پیش کرنی شروع کر دیں، اُس میں اعتراض کرنے شروع کر دئیے۔‘‘

(خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ۔11اکتوبر2013)

(علامہ ایچ  ایم ۔ طارق)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 جنوری 2022

اگلا پڑھیں

اللہ تعالیٰ کے نور سے منور