تبرکات حضرت سید میر محمد اسحاق صاحب رضی اللہ عنہ
حدیث: عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ قَالَ جَآءَ الْفُقَرَآءُ اِلَی النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَقَالُوْا ذَھَبَ اَھْلُ الدُّثُوْرِ مِنَ الْاَمْوَالِ بِالدَّرَجَاتِ الْعُلٰی وَ النَّعِیْمُ الْمُقِیْمُ یُصَلُّوْنَ کَمَا نُصَلِّیْ وَ یَصُوْمُوْنَ کَمَا نَصُوْمُ وَلَھُمْ فَضْلٌ مِّنْ اَمْوَالٍ یُّحِجُّوْنَ بِھَا وَ یَعْتَمِرُوْنَ وَ یُجَاھِدُوْنَ وَ یَتَصَدِّقُوْنَ۔ فَقَالَ اَلَا اُحَدِّثُکُمْ بِمَآ اِنْ اَخَذْتُمْ بِہٖٓ اَدْرَکْتُمْ مَنْ سَبَتَکُمْ وَلَمْ یُدْرِکْکُّمْ اَحَدٌ بَعْدَکُمْ وَ کُنْتُمْ خَیْرٌ مِنْ اَنْتُمْ یَیْنَ ظھِرا فیھم اِلَّا مَنْ عَمِلَ مِثْلِہٖ تُسَبِّحُوْنَ وَ تَحْمِدُوْنَ وَ تُکَبِّرُوْنَ خَلْفَ کُلَّ صَلٰوۃٍ ثَلَاثًا وَّ ثَلٰثِیْنَ ……
ترجمہ: حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں غریب مسلمان حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ دولتمند لوگوں نے تمام بلند درجے حاصل کرلئے اور ہمیشہ کا چین (جنت) لے لیا۔ حالانکہ وہ بھی ہماری طرح نمازیں پڑھتے ہیں اور ہماری طرح روزے رکھتے ہیں۔ ان کے پاس مال ودولت علاوہ ہے جس کے ذریعہ وہ حج کرتے ہیں اور عمرہ اور جہاد بھی بجا لاتے ہیں اور صدقہ و خیرات بھی کرتے ہیں۔ (اور ہم غربت کی وجہ سے ان کاموں کو سرانجام نہیں دے سکتے) آپؐ نے فرمایاکہ کیا میں تم کو ایسی بات نہ بتاؤں کہ اگر تم اس کو بجا لاؤ تو آگے بڑھنے والوں کو جا لو اور اور تم کو کوئی نہ پکڑ سکے اور تم اپنے زمانہ والوں میں سے سب سے اچھے ہو جاؤ؟اور جو وہ بات بجا لاوے گا وہ تمہارے برابر رہے گا۔ تم ہر نماز (فرض) کے بعد تینتیس تینتیس مرتبہ سبحان اللّٰہ۔ الحمد للّٰہ و اللّٰہ اکبر کہہ لیا کرو۔
تشریح:یہ حدیث خاص طور سے قابل توجہ اور قابل ذکر ہے۔ چاہئے کہ دوست اس کا مفہوم ذہن نشین کرلیں۔
اس حدیث کو پڑھ کر یہ سوال پیدا ہوتا ہےکہ کیا وجہ ہے کہ ایک شخص جو خدا کی راہ میں جان و مال فدا کر دیتا ہے اور دیگر طرح طرح کے امور صالحہ بجا لاتا ہےتواس کے درجہ کے برابر ایک ایسے شخص کا درجہ ہو جو نہ تو اپنے میں جان و مال فدا کرنے کی توفیق رکھتا ہے اور نہ دیگر امور صالحہ، حج، صدقہ، زکوٰۃ وغیرہ کو بجا لا سکتا ہے؟
یاد رکھنا چاہئے کہ مال و دولت بھی ایک ایسی چیز ہے کہ جو دنیا کے قیام کا باعث ہے۔ جس کے پاس دولت نہیں وہ نہ تو کپڑے خرید سکتا ہے اور نہ ہی کھانے کا سامان فراہم کر سکتا ہے۔ تعلیم بھی بغیر مال و دولت کے حاصل نہیں ہوتی۔ زکوٰۃ بھی مال والوں پر فرض ہے۔ حج بھی مال والوں پر فرض ہےوغیرہ وغیرہ۔ اور مال کی محبت قلب انسان میں ودیعت کی گئی ہے جیسے کہ فرمایا اُحْضِرَتِ الْاَنْفُسُ الشُّحَّ۔ اور جو شخص خدا کی راہ میں جان و مال کو قربان و فدا کر دتیا ہے تو گویا اس نے اپنے ایمان صالحہ کا ثبوت دیا۔ لیکن یہ تبھی ہو سکتا ہے جبکہ وہ بذلِ مال ریاکاری سے نہ کرے۔
اور یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ مال کے تین بڑے بڑے منفعت ہوتے ہیں۔ اوّل۔ تسبیح یعنی نقائص سے پاک ہونا۔ ایک غریب و قلاش شخص جس کا نام عبداللہ ہے۔ لوگوں کے دلوں میں اس کی کوئی قدر نہیں ہوتی۔ حتیٰ کہ اس کا نام بھی حقارت سے لیتے اور دُلّا دُلّا کہہ کر پکارتے ہیں۔ لیکن جب وہی امیر ہو جاتا ہے تو اسی دُلّہ کو لوگ جناب مولوی عبداللہ صاحب کہہ کر پکارتے ہیں۔ اسی طرح اگر کوئی نواب یا راجہ یاامیر آدمی نکمی بات بھی کہہ دے تو اس کے ہوا خوا جھٹ تعریفوں کے پل باندھ دیتے۔ گویا مال و دولت اور جاہ و حشمت ایک ایسی چیز ہے جس کے ذریعہ انسان کے نقائص کو خوبیاں بنایا جاتا ہے۔
دوسری بات تحمید ہے۔ لوگ امراء، نوابوں اور راجاؤں کی بےجا تعریف کرتے ذرا نہیں ہچکچاتے۔
پھر تیسری بات بڑائی ہے جو مال کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے اور یہ امر ظاہر ہے کہ امیروں کو سوسائٹی میں اونچے درجہ پر جگہ دی جاتی ہے اور ان کی عزت و توقیر کی جاتی ہے۔ پس جو شخص فی سبیل اللہ اپنی دولت کو خرچ کرتا ہے تو گویا اس نے اس بات کا کھلے بندوں اظہار کیا کہ اے خدا! میں تیرے راستہ میں اپنی تسبیح کو قربان کرتا ہوں۔ کیونکہ سُبْحٰنَ اللّٰہ صرف ایک تو ہی ہے جو نقائص سے منزہ ہے۔ اسی طرح اس نے اپنی تعریف کو بھی قربان کر دیا کیونکہ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ صحیح تعریف صرف اور صرف خدا کے لئے ہے۔ اسی طرح اس نے اپنی بڑائی کو بھی خدا کے حضور قربان کر دیا۔ کیونکہ اصل حق بڑائی کا صرف اور صرف اسی کو ہے۔ اللّٰہ اکبر
ایک امیر شخص تو اپنی گاڑھے پسینہ کی کمائی کو خدا کی راہ میں خرچ کر کے ثواب حاصل کر لیتا ہے۔ پر غریب کیا کرے۔ اس کو بھی ثواب کی خواہش ہے۔ وہ بھی تو عباد اللہ میں شامل ہونا چاہتا ہے۔ تو ایسے آدمی کے لئے حضور علیہ السلام نے ایک نہایت ہی قیمتی اور سہل گُر ارشاد فرمایا کہ وہ ہر نماز فرض کے بعد 33-33 مرتبہ سُبْحَانَ اللّٰہ، اَلْحَمْدُ لِلّٰہ اور اَللّٰہُ اَکْبَر کہہ لیا کرے۔ جب وہ ایسا کرے گا تو اس کے پیش نظر فوراً یہ بات آ جائے گی کہ خدائے واحد یگانہ ہی تمام نقائص سے پاک ہے۔ کوئی بادشاہ، نواب، راجہ یا امیر ایسا نہیں جو نقائص سے پاک ہو۔
پھر یہ کہ دنیوی بڑائی کوئی چیز نہیں۔ دنیا میں ہزاروں بدکار ایسے ہیں جن کے پاس مال و دولت کے انبار ہیں۔اصل بڑائی خدا کے لئے ہے اور جب وہ الحمد للّٰہ کہے تو وہ اپنے دل میں یہ بات واضح طور سے جاگزیں کر لے کہ اصل تعریف تو خدا کے لئے ہے۔ جو لوگ امراء، وزراء، نوابوں اور بادشاہوں کی تعریف کرتے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔ چنانچہ جب غریب آدمی ان خیالات کے ساتھ تسبیح و تحمید و تکبیر کرے گا تو گویا اس نے کہا کہ نہ تو امراء، نواب یابادشاہ نقائص سے پاک ہیں سوائے خدا کے۔ اور نہ ہی اصل تعریف کے یہ لوگ مستحق ہیں سوائے خدا کے اور نہ ہی یہ لوگ بڑائی کے قابل ہیں سوائے خدا کے۔ لیکن اس کا یہ اقرار خلوص نیت سے ہو تو تبھی وہ حقیقی اجر کا مستحق ہو سکتا ہے۔ اگر کوئی شخص مسجد میں تو کہے سبحان اللّٰہ۔ لیکن باہر جا کر لوگوں کی بے جا تعریف کرے، ان کی بڑائی کرے وغیرہ وغیرہ۔ تو گویا اس نے حق تسبیح ادا نہ کیا۔ مختصر یہ کہ جس امیر نے اپنے مال و دولت کو فی سبیل اللہ خرچ کیا تو گویا اس نے اس بات کا ثبوت دیا کہ اصل تسبیح، تحمید و تکبیر خدا کے لئے ہے انسان خواہ امیر، نواب بلکہ بادشاہ بھی بن جائے مگر وہ ان نقائص سے بری نہیں۔ اور جو غریب بھی اپنے دل میں اس بات کا حقیقی احساس پیدا کرے کہ صحیح تسبیح و تحمید و تکبیر صرف اور صرف خدا کے لئے ہے تو گویا وہ امیر و غریب دونوں ایک ہی سلک میں منسلک کر دیئے گئے۔ امیر نے اپنے عمل سے اس بات کی شہادت دے دی اور غریب نے دلی یقین اور خلوص نیت سے خدا کے حضور اپنی عرض کو پیش کر دیا۔ مطلب و مدعا دونوں کا ایک ہے۔ پس دوستوں کو چاہئے کہ وہ بالالتزام ہر نماز فرض کے بعد تسبیح و تحمید و تکبیر کہنے کا رواج ڈالیں۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ بَارِکْ وَسَلِّمْ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔
(روزنامہ الفضل قادیان 2 جولائی 1943ء صفحہ3)