• 19 اپریل, 2024

’’دُنیا کی لذّت خارش کی طرح ہے‘‘

؎ہم خدا خواہی وہم دنیائے دُوں
ایں خیال است و محال است و جنوں

(خدا کو بھی چاہنا اور گھٹیا دنیا کو بھی چاہنا یہ صرف ایک خیال ہے اور یہ ناممکن ہے اور پاگل پن ہے)

قارئین کرام !
اس دُنیا میں زندہ رہنے کے لئے بے شمار ضرورتیں انسان کے ساتھ لگی ہوئی ہیں اور انسان کی مثال کشتی جیسی ہے اوردُنیا کی مثال پانی جیسی ہے۔جیسے پانی کے بغیر کشتی نہیں چل سکتی۔ اگر کوئی شخص خشکی پر کشتی چلاتا ہے تو نہیں چلے گی۔اسی طرح انسان کو زندہ رہنے کے لئے دُنیا ضروری ہے۔ انسان کو زندہ رہنے کے لئے پیسہ چاہئے، کھانا چاہئے، پانی چاہئے، مکان چاہئے، کپڑا چاہئے۔ ان سب چیزوں کی اس کوضرورت ہے۔ یہ سب چیزیں دُنیا میں ہیں۔ لیکن جس طرح پانی کشتی کے لئے اس وقت تک فائدہ مند ہے جب تک پانی کشتی کے نیچے، دائیں اوربائیں طرف ہے، اس کے آگے اور پیچھے ہے۔ لیکن اگر وہ پانی دائیں بائیں کے بجائے کشتی کے اندر داخل ہوگیا تو کشتی ڈوب جائے گی، تباہ ہوجائے گی۔ اسی طرح دنیا کا سازو سامان جب تک ہمارے چاروں طرف ہے تو پھر کوئی ڈر نہیں اس لئے کہ ساز و سامان ہماری زندگی کی کشتی کو چلائے گا۔ لیکن جس دن دُنیا کا یہ ساز و سامان ہمارے دل کی کشتی میں داخل ہوگیا، اس دن ہمیں ڈبودے گا۔بالکل اسی طرح جیسے پانی کشتی کے اردگرد ہو تو کشتی چلتی ہے اور جب وہ پانی کشتی کے اندر داخل ہوجاتا ہے تو کشتی کوڈبودیتا ہے۔

دنیا کے ان حالات کو بھانپتے ہوئے آج سے چودہ سو سال پہلے ہمارے پیارے آقا حضرت محمد ﷺ نے حرص دنیا سے بچنے کے لئے مسلمانوں کو تاکید فرمائی تھی۔ایک حدیث میں آتا ہے:
’’حضرت عمروبن عوف انصاریؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو عبیدہ بن الجراح کو بحرین کا عامل بنا کر بھیجا تا کہ وہاں سے جزیہ کی رقم وصول کر لائیں۔چنانچہ وہ بحرین کے محاصل لائے تو انصار کو اس کا علم ہوا۔وہ سویرے سویرے ہی فجر کی نماز میں پہنچ گئے۔ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھ لی اور آپ مقتدیوں کی طرف مڑے تو لوگوں کا ایک انبوہ کثیر آپؐ نے سامنے دیکھا۔ آپؐ مسکرائے اور فرمایا۔ میرا خیال ہے کہ تم نے ابو عبیدہ کی آمد کے متعلق سن لیا ہے۔ لوگوں نے عرض کیا کہ ہاں یا رسول اللہ! آپؐ نے فرمایا کہ تمہیں بشارت ہو اور اس خوش کن خبر کی امید رکھو۔ خدا تعالیٰ کی قسم! مجھے تمہارے فقر کا ڈر نہیں (اب فقرواحتیاج کے دن گئے) مجھے ڈر ہے تو اس بات کا ہے کہ دنیا کے خزائن تمہارے لئے کھول دیئے جائیں گے جس طرح پہلے لوگوں پر کھولے گئے تھے۔ تم دنیا کی طرف راغب ہو جاؤ گے اور اس کی حرص کرنے لگو گے جس طرح تم سے پہلے لوگوں نے حرص کی۔ پس تم کو بھی یہ حرص دنیا ہلاک کردے گی جس طرح کہ اس نے پہلے لوگوں کو ہلاک کیا ہے۔‘‘

(بُخاری کتابُ الجھاد باب الجزیت والموادعۃ ومسلم ماخوذازحدیقۃ الصالحین ص754)

قارئین کرام!
آج دنیا کے حرص میں لوگ ایسے پڑے ہیں کہ اسی میں ہی اپنا سب کچھ وار دینے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔ اس کا نقشہ کھینچتے ہوئے حضرت مسیح موعود ؑ اپنے ایک شعر میں فرماتے ہیں :؎

دنیا کی حرص و آز میں کیا کچھ نہ کرتے ہیں
نقصان جو ایک پیسہ کا دیکھیں تو مرتے ہیں
زر سے پیار کرتے ہیں اور دل لگاتے ہیں
ہوتے ہیں زر کے ایسے کہ بس مرہی جاتے ہیں

(در ثمین)

حضورؑ بیان کرتے ہیں کہ لوگ اس دنیا کو سب کچھ سمجھ لیتے ہیں اور اس سے دل لگا لیتے ہیں لیکن انکو سمجھنا چاہئے کہ یہ دنیاوی زندگی کے سامان تو عارضی ہیں جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَ الۡبَنِیۡنَ وَ الۡقَنَاطِیۡرِ الۡمُقَنۡطَرَۃِ مِنَ الذَّہَبِ وَ الۡفِضَّۃِ وَ الۡخَیۡلِ الۡمُسَوَّمَۃِ وَ الۡاَنۡعَامِ وَ الۡحَرۡثِ ؕ ذٰلِکَ مَتَاعُ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ

(آل عمران:15)

لوگوں کے لئے طبعاً پسند کی جانے والی چیزوں کی یعنی عورتوں کی اور اولاد کی اور ڈھیروں ڈھیر سونے چاندی کی اور امتیازی نشان کے ساتھ داغے ہوئے گھوڑوں کی اور مویشیوں اور کھیتوں کی محبت خوبصورت کر کے دکھائی گئی ہے۔ یہ دنیوی زندگی کا عارضی سامان ہے۔

قارئین کرام!
ایک جگہ پر حضرت مسیح موعودؑ لذات دنیا کے بارے میں ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
دُنیا کی لذّت خارش کی طرح ہے۔ ابتداءً لذّت آتی ہے۔ پھر جب کھجلاتارہتا ہے تو زخم ہو کر اُس میں سے خُون نِکل آتا ہے۔ یہانتک کہ اس میں پیپ پڑ جاتی ہے اور وُہ ناسُور کی طرح بن جاتا ہے اور اس میں درد بھی پیدا ہو جاتا ہے۔حقیقت یہی ہے کہ یہ گھر بہت ہی ناپائیدار اور بےحقیقت ہے۔ مجھے کئی بار خیال آیا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کسی مُردے کو اختیار دیدے کہ وہ پھر دُنیا میں چلا جاوے تو وُہ یقیناً توبہ کر اُٹھے کہ مَیں اس دُنیا سے باز آیا۔

(ملفوظات جلد 4 ص 17ایڈیشن1988ء)

پھر حقیقت کیا ہے؟ کیا ہمیں اس دنیاوی لذات سے کوئی فائدہ حاصل نہیں کرنا چاہئے؟ اسکے جواب کے حوالے سے آیئے ہم قرآن ،حدیث، حضرت مسیح موعودؑ وخلفاء احمدیت کے قول سے رہنمائی لیتے ہیں۔

قرآن مجید کی سورہ ٔآل عمران کی آیت نمبر 15 کو خاکسار نے اوپر کوٹ کیا ہے اسی آیت کے آگے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

ذٰلِکَ مَتَاعُ الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ وَ اللّٰہُ عِنۡدَہٗ حُسۡنُ الۡمَاٰبِ

(آل عمران: 15)

یہ دنیوی زندگی کا عارضی سامان ہے اور اللہ وہ ہے جس کے پاس بہت بہتر لَوٹنے کی جگہ ہے۔

اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے ہمارے پیارے امام حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزبیان فرماتے ہیں:
اللہ تعالیٰ نے یہ نقشہ کھینچا ہے یا ان لوگوں کی حالت بیان کی ہے جو خدا تعالیٰ کو بھول جاتے ہیں اور دنیا کا حصول ہی ان کا مقصد ہوتا ہے اور جب انسان خدا تعالیٰ کو بھولتا ہے تو پھر شیطان اس پر قبضہ کر لیتا ہے۔ گو یہ سب چیزیں خدا تعالیٰ کی پیدا کردہ ہیں اور اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ہیں اور ان سے فائدہ بھی اٹھانا چاہئے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی ہمیں بڑا واضح فرمایا کہ دنیا کے کاروباروں سے الگ ہونا بھی غلط ہے۔ شادیاں کرنی بھی ضروری ہیں اور یہ سنّت ہے۔ اسی طرح دوسرے کام ہیں۔ صحابہ بھی کیا کرتے تھے۔ بعض صحابہ کی کروڑوں کی جائیدادیں تھی۔ لیکن وہ رُو بہ دنیا نہیں تھے۔ دنیا پہ گرے ہوئے نہیں تھے۔‘‘

(خطبہ جمعہ 8؍ دسمبر 2017ء)

گو کہ ہمیں اس سے یہی سبق ملتا ہے کہ دنیا سے بالکل کٹ نہیں جانا چاہئے۔ ہمارے پیارے رسول ﷺ فرماتے ہیں: ’’لَا رَھْبَانِیَّۃَ فِی الْاِسْلَامِ‘‘

(المسبوط لسرخسی جلد 10 ص111،ماخوذ از حدیقۃ الصالحین ص 755)

یعنی اسلام میں رہبانیت نہیں ہے (یعنی عیسائیت کی طرح تجرد اور دنیا سے بے تعلقی کی زندگی گزارنا اسلام میں جائز نہیں)

پھر دل میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ دونوں چیزوں (یعنی خدا اور دنیا) کی محبت ہم کس طرح حاصل کر سکتے ہیں؟ اسکا جواب ہمیں حضرت مسیح موعودؑ کےاس اقتباس پر غور کرنے سے حاصل ہوتا ہے جس میں آپؑ فرماتے ہیں:
’’کیونکہ دو محبَّتیں ایک جگہ جمع نہیں رہ سکتیں۔ جیسے لکھا ہے ۔؎

ہم خدا خواہی وہم دنیائے دُوں
ایں خیال است و محال است و جنوں

اس لئے اس کے بعد ہی خدا فرماتا ہے وَالَّذِينَ هُمْ عَنِ اللِّغْوِ مُعْرِضُونَ یہاں لغو سے مراددُنیا ہے۔ یعنی جب انسان کو نمازوں میں خشوع اورخضوع حاصل ہونے لگ جاتا ہےتوپھر اُس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دنیا کی محبت اس کے دل سے ٹھنڈی ہو جاتی ہے۔ اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ پھر وہ کاشتکاری، تجارت نوکری وغیرہ چھوڑ دیتا ہے بلکہ وہ دنیا کے ایسے کاموں سے جو دھوکہ دینے والے ہوتے ہیں اور جو خدا سے غافل کر دیتے ہیں اعراض کرنے لگ جاتا ہے اور ایسے لوگوں کی گریہ و زاری اور تضرّع اور اتیہال اور خدا کے حضور عاجزی کرنے کا یہ نتیجہ ہوتا ہے کہ ایسے شخص دین کی محبت کو دنیا کی محبت، حرص،لالچ اور عیش و عشرت سب پر مقدم کر لیتا ہے کیونکہ یہ قاعدہ کی بات ہے کہ ایک نیک فعل دوسرے نیک فعل کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ اور ایک بد فعل دوسرے بد فعل کی ترغیب دیتا ہے ۔‘‘

(ملفوظات جلد 10 ص 63تا64ایڈیشن1984ء)

اس اقتباس کاخلاصہ بیان کرتے ہوئے ہمارے پیارے آقا حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’کہ تو خدا کو بھی چاہتا ہے اور اس ذلیل دنیا کو بھی چاہتا ہے یہ محض ایک خیال ہے۔ یہ ناممکن ہے اور یہ پاگل پن ہے۔ دونوں چیزیں نہیں ہوسکتیں۔ ہاں خدا کو چاہو تو دنیا ضرور مل جاتی ہے۔ لیکن صرف دنیا کو چاہنے سے خدا نہیں ملتا۔‘‘

(خطبہ جمعہ 29؍ دسمبر 2017ء)

قارئین کرام!
پس خلاصہ کلام یہ ہے کہ یہ دنیاوی سامان اپنے اندر کوئی حقیقت نہیں رکھتےاور نہ ہی سچی خوشحالی ،سچی راحت دنیا اور دنیا کی چیزوں میں ہے۔اسلام کاخدا یہ کہتا ہے کہ دنیا کی ہر چیز کا صحیح استعمال کرواور اسکو بالکل ہی چھوڑنا نہیں، دنیا میں رہ کر خدا کا بننا ہے، خدا کا ہو کر خدا کے لئے دنیوی زندگی گزارنی ہے۔اگر ہم خدا کو پا لیں تو یہ دنیا ہماری غلام بن سکتی ہے لیکن شرط یہ ہےکہ دعائیں مانگنے سے انسان تھکے نہ۔اس حوالے سے بعض اقتباسات پیش ہے۔

حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
’’خدا تعالیٰ پر سچا ایمان ہو تو انسان ان مشکلات دنیا سے نجات پا سکتا ہے کیونکہ وہ درد مندوں کی دعاؤں کو سن لیتا ہے مگر اس کے لیے یہ شرط ہے کہ دعائیں مانگنے سے انسان تھکے نہیں تو کامیاب ہوگا۔ اگر تھک جاویگا تو نری ناکامی نہیں بلکہ ساتھ بے ایمانی بھی ہے کیونکہ وہ خدا تعالیٰ سے بدظن ہوکر سلبِ ایمان کر بیٹھے گا۔مثلاً ایک شخص کو اگر کہا جاوے کہ تو اس زمین کو کھود۔ خزانہ نکلے گا مگر وہ دو چار پانچ ہاتھ کھودنے کے بعد اسے چھوڑ دے اور دیکھےکہ خزانہ نہیں نکلا تو وہ اس نامرادی و ناکامی پر ہی نہ رہے گا بلکہ بتانے والے کو بھی گالیاں دے گاحالانکہ یہ اس کی اپنی کمزوری اور غلطی ہے جو اس نے پورے طور پر نہیں کھودا۔ اسی طرح جب انسان دعا کرتا ہے اور تھک جاتا ہے تو اپنی نامراد کو اپنی سستی اور غفلت پر حمل نہیں کرتا،بلکہ خدا تعالیٰ پر بدظنی کرتا ہے اور آخر بے ایمان ہو جاتا ہے اور آخر دہریہ ہو کر مرتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد4 ص17-18)

نیز آپؑ فرماتے ہیں:
’’میں تمہیں سچ سچ کہتا ہوں کہ سچی خوشحالی سچی راحت دنیا اور دنیا کی چیزوں میں ہرگز نہیں ہے ۔حقیقت یہی ہے کہ دنیا کے تمام شعبے دیکھ کر بھی انسان سچا اور دائمی سرور حاصل نہیں کر سکتا۔ تم دیکھتے ہو کہ دولتمند زیادہ مال و دولت رکھنے والے ہر وقت خنداں رہتے ہیں مگر ان کی حالت جرب یعنی خارش کے مریض کی سی ہوتی ہے۔ جس کو کھجلانے سے راحت ملتی ہے لیکن اس خارش کا آخری نتیجہ کیا ہوتا ہے؟ یہی کہ خون نکل آتا ہے۔پس ان دنیوی اور عارضی کامیابیوں پر اس قدر خوش مت ہو کہ حقیقی کامیابی سے دور چلے جاؤ بلکہ ان کامیابیوں کو خدا شناسی کا ایک ذریعہ قراردو۔‘‘

(ملفوظات جلد اوّل ص 135)

قارئین کرام!
دنیاوی چیزوں کے لئے صحابہ رسول ﷺ نےکبھی دعا کی درخواست نہیں کی ہمیں بھی اس چیز کو اختیار کرنا چاہئے۔ جیسا کہ حضرت خلیفتہ المسیح الاولؓ فرماتے ہیں:
’’مجھے صحابہ کی بعض عجیب عجیب باتیں معلوم ہوتی ہیں۔ عظیم الشان صحابہ میں میں دیکھتا ہوں کہ کسی نے کبھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دنیا کی کسی چیز کے لئے دعا کی درخواست نہیں کی۔ خدا کا احسان ہے کہ میں نے بھی حضرت صاحب سے کبھی کوئی ایسی درخواست نہیں کی۔‘‘

(ارشاد نور جلد دوم صفحہ 313)

حضرت مرزا ناصر احمد خلیفتہ المسیح الثالث ؒ فرماتے ہیں:
’’انسان اپنے نفس کی خوشحالی کے واسطے دو چیزوں کا محتاج ہے دنیا کی مختصر زندگی اور اس میں آنے والے مصائب، شدائد،ابتلا وغیرہ جو ہیں ان سے وہ امن میں رہے۔ اور دوسرے یہ کہ فسق و فجور اور روحانی بیماریاں جو انسان کو اللہ تعالی سے دور لے جاتی ہیں، دنیاوی نعمتوں کا غلط استعمال، دنیاوی نعمتوں کا مہلک استعمال جن کے نتیجے میں جسمانی بیماریاں بھی پیدا ہوتی ہیں، جن کے نتیجہ میں ذہنی تنزل پیدا ہوتا ہے، جن کے نتیجہ میں اخلاق بھی جل کے راکھ بن جاتے ہیں، جن کے نتیجہ میں وہ روحانی طاقتیں جو اس لیے انسان کو دی گئی تھیں کہ اللہ تعالیٰ زمین سے اٹھا کر اسے آسمانوں پر لے جائے وہ ضائع ہو جاتی ہیں۔‘‘

(انوار القرآن جلد اوّل ص 283)

نیز آپؒ فرماتے ہیں:
اسلام یہ کہتا ہے کہ دنیا کی ہر چیز کا صحیح استعمال کر اور میرے پاس آ۔ اگر چھوڑے گا نا شکرا ہوگا اور خدا کے نزدیک ناشکرا اور کافر ہم معنی لفظ ہیں اور دنیا کو چھوڑے گا نہیں میرے بتائے ہوئے طریقے پرمیری نعمتوں کو استعمال نہیں کریگا،میری عطا کردہ قوتوں کو میرے بتائے ہوئے طریق پر خرچ نہیں کرے گا تو جنت سے نکال دوں گا تجھے ۔دنیا کو چھوڑنا نہیں، دنیا میں رہ کر خدا کا بننا ہے، خدا کا ہو کر خدا کے لئے دنیوی زندگی گزارنی ہے۔‘‘

(انوار القرآن جلد اوّل ص 284)

پس اللہ تعالیٰ ہمیں دنیا وی چیزوں سے صحیح طور پر استفادہ کرتے ہوئے خدا تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے والا بنائے کیونکہ۔

’’دنیا کی زندگی ایک دھوکے کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اللہ کی مغفرت کی طرف دوڑو۔ ایک دوسرے پر سبقت لے جاؤ تاکہ تمہیں اپنے رب کی طرف سے مغفرت حاصل ہو اور ایسی جنت ملے جس کی قیمت یا جس کا حجم، دونوں لحاظ سے آسمان اور زمین کے برابر ہو۔‘‘

(خطبات طاہر جلد اوّل صفحہ 216 خطبہ جمعہ 22 اکتوبر 1982)

اے فانی عرفاں!اپنے مولا سے دل لگالے
کر لے رب کو راضی ،کچھ نیکیاں کمالے
ساماں تیرا یہی ہے تو صاحب سفر ہے
دنیا کے اےمسافر منزل تیری قبر ہے
طےکر رہا ہے جو تو دو دن کا یہ سفر ہے

(از حلیم خان شاہد مربی سلسلہ پونے،مہاراشڑا،انڈیا)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 فروری 2021

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 فروری 2021