• 8 مئی, 2024

معروف فیصلے کی اطاعت کا مطلب (از حضرت خلیفۃ المسیح الخامس)

معروف فیصلے کی اطاعت کا مطلب
ذیلی تنظیموں کے عہدوں میں معروف لفظ کی تشریح و فلسفہ
از حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
آج آخری بات جس کی طرف میں توجہ دلانی چاہتا ہوں وہ اطاعت ہے۔ قرآن کریم میں بے شمار جگہ پر اللہ اور رسول کی اطاعت کا حکم آیا ہے اور پھر اولی الامر کی اطاعت کا بھی حکم ہے۔ پھر حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ و السلام نے اپنی شرط بیعت میں بھی اطاعت کے بارے میں شرط رکھی ہے، شرائط بیعت میں شرط رکھی ہے کہ اطاعت در معروف کے اقرار پر مرتے دم تک قائم رہیں گے۔

(ماخوذ از ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد3 صفحہ564)

ہمارے، مختلف تنظیموں کے جو عہد ہیں ان عہدوں میں یہ الفاظ ہیں کہ خلیفہٴ وقت جو بھی معروف فیصلہ کریں گے اس کی پابندی کرنی ضروری سمجھوں گا۔ بعض ٹیڑھے مزاج کے لوگ یا منافقانہ سوچ رکھنے والے لوگ یہ کہتے رہتے ہیں کہ معروف فیصلہ پر عہد ہے اور بعض یہ کہتے ہیں کہ خلیفہ وقت کے بعض فیصلے معروف نہیں ہوتے یا بعض ان کی نظر میں معروف نہیں ہیں۔ یہ تاویلیں پیش کر دیتے ہیں، دنیا میں مختلف جگہوں پر یہ سوچ ہے۔ بیشک اگر ایک دو ہی ہوں، شاید لاکھ میں سے ایک ہو لیکن اس سوچ کا ردّ ضروری ہے کیونکہ نوجوان نسل کو پھر یہ سوچ زہر آلود کرتی ہے۔ اگر اس طرح پر کوئی خود معروف فیصلے کی تشریح کرنے لگ جائے تو پھر جماعت کی وحدت قائم نہیں رہ سکتی۔ پھر اس بات پر بحث شروع ہو جائے گی کہ کیا معروف ہے اور کیا غیرمعروف ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے ایک جگہ فرمایا کہ:
’’ایک اور غلطی ہے وہ اطاعت در معروف کے سمجھنے میں ہے کہ معروف فیصلے کی اطاعت کرنا۔ فرمایا کہ جن کاموں کو ہم معروف نہیں سمجھتے اس میں اطاعت نہ کریں گے۔‘‘ آ پؓ فرماتے ہیں کہ ’’یہ لفظ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھی آیا ہے اور قرآن کریم میں آتا ہے کہ ’’وَلَایَعْصِیْنَکَ فِیْ مَعْرُوْفٍ‘‘ اور معروف باتوں میں تیری نافرمانی نہیں کریں گے۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ ’’اب کیا ایسے لوگوں نے حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عیوب کی بھی کوئی فہرست بنا لی ہے۔‘‘

(حقائق الفرقان جلد4 صفحہ75-76 زیر آیت الممتحنہ13:زیر لایعصینک فی معروف)

کہ کون سی بات آپ صحیح کہیں گے اور کون سی غلط کہیں گے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام امر بالمعروف کی تفسیر میں یہ فرماتے ہیں کہ:
’’یہ نبی ان باتوں کے لئے حکم دیتا ہے جو خلاف عقل نہیں ہیں۔‘‘

(براہین احمدیہ حصہ پنجم،روحانی خزائن جلد21 صفحہ420)

یعنی معروف باتیں وہ ہیں جو خلاف عقل نہیں ہیں اور وہ قرآن کریم کے حکموں کے مطابق بھی ہیں۔ پھر ایک حدیث میں واقعہ آیا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جگہ ایک قافلہ بھیجا۔ وہاں پہنچ کر ایک جگہ لوگوں نے آگ جلائی تو جوامیر قافلہ تھا اس نے ازراہ مذاق کہہ دیا کہ اگر میں تمہیں اس آگ میں کودنے کا حکم دوں تو کود جاؤ گے؟ بعض لوگوں نے کہا بالکل غلط چیز ہے، یہ تو خود کشی ہے۔ بعض نے کہا امیر کی اطاعت ضروری ہے۔ لیکن بہرحال بعد میں اس نے کہا میں مذاق کر رہا تھا۔ معاملہ ختم ہو گیا۔ مدینہ واپس پہنچے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ واقعہ بتایا تو آپؐ نے فرمایا کہ امراء میں سے جو شخص تمہیں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا حکم دے اس کی اطاعت نہ کرو۔

(سنن ابی داؤد، کتاب الجہاد باب فی الطاعۃ حدیث2625)

یہ معروف کی تفصیل ہے کہ جو اللہ کا حکم ہے اس کے خلاف اگر حکم ہے تو وہ معروف نہیں ہے۔ لیکن جو اللہ اور اس کے رسول کے احکامات ہیں، ان کے مطابق حکم ہے تو وہ معروف ہے اور پس یہ واضح ہو گیا کہ طاعت در معروف یا معروف فیصلہ جس کی پابندی ضروری ہے وہ اللہ تعالیٰ کے احکامات ہیں اور پھر اس کے رسول کے احکامات ہیں۔ پس جب تک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کے مطابق حقیقی خلافت قائم ہے اور یہ ان شاء اللّٰہ قائم رہنی ہے تو یہ خلافت جو ہے کبھی بھی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے حکموں کے خلاف فیصلہ نہیں کرے گی، جو قرآن اور سنت ہے اس کے مطابق ہی چلے گی۔

یہ الفاظ طاعت در معروف یا معروف فیصلہ کی اطاعت کرنا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھی اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں استعمال کئے جیسا کہ بیان ہوا۔ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام نے بھی اپنی شرائط بیعت میں اس کو رکھا ہے اورخلافت احمدیہ میں بھی ہر عہد میں یہ شامل کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ کے احکامات کو جاری کرنا اور جماعت کو اس کی تلقین کرنا اور ہر شخص جو اپنے آپ کو جماعت کا حصہ سمجھتا ہے اس کا یہ فرض ہے کہ اس عہد کی پابندی کرتے ہوئے خلیفہٴ وقت کی جو جماعت سے متعلق ہدایات ہیں ان پر عمل کرے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے بھی یہی فرمایا ہے کہ یہ کبھی نہیں ہو سکتا، اگر کبھی کوئی غلط ہدایت ہو گی بھی تو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے خلافت کی حفاظت کرنی ہے اس لئے اس کے نتائج اللہ تعالیٰ کبھی برے نہیں ہونے دے گا اور ایسے حالات پیدا کر دے گا کہ اس کے بہتر نتائج پیدا ہوں۔

(ماخوذ از تفسیر کبیر جلد6 صفحہ376-377 زیر آیت النور:56)

اس لئے معروف فیصلہ کی تشریح کرنا کسی شخص کا کام نہیں ہے معروف فیصلہ وہ ہے جو قرآن کے مطابق ہے اور سنت کے مطابق ہے اور حدیث کے مطابق ہے اور اس زمانے کے حکم عدل کے احکامات کے مطابق ہے اور یہی وہ ذریعہ ہے جس سے جماعت کی وحدت قائم رہ سکتی ہے اور یہی وہ مقصد ہے جس کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مبعوث ہوئے تھے کہ وحدت پیدا کی جائے اور مخلصین اور اطاعت گزار لوگوں کی ایک جماعت پیدا ہو۔ ورنہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے واضح فرمایا ہے کہ مجھے تعداد بڑھانے سے کوئی غرض نہیں ہے کہ ایسے لوگوں کی تعداد بڑھاتا رہوں، جو میرے ساتھ شامل ہوتے رہیں لیکن اطاعت کرنا نہ جانتے ہوں۔ آپؑ نے فرمایا کہ اگر میری طرف منسوب ہونے والوں اور میری بیعت میں آنے والوں کی اصلاح نہیں ہوتی اور وہ اللہ اور اس کے رسول کی تعلیم کے مطابق اپنی زندگیاں نہیں گزارتے توایسی بیعت بے فائدہ ہے۔

(ماخوذ از مواہب الرحمٰن، روحانی خزائن جلد19 صفحہ276)

(ماخوذ از ملفوظات جلد6 صفحہ142، ملفوظات جلد10 صفحہ334)

پس ہمارے احمدی ہونے کا فائدہ تبھی ہے جب ہم اس حقیقت کو سمجھ کر اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں۔ اپنی تمام ترصلاحیت کے ساتھ کوشش کریں۔ حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ:
’’اطاعت کوئی چھوٹی سی بات نہیں اور سہل امر نہیں۔‘‘ یہ کوئی اتنا آسان کام نہیں ہے یہ بھی ایک موت ہوتی ہے…

(ملفوظات جلد4 صفحہ74 حاشیہ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

’’جو شخص پورے طور پر اطاعت نہیں کرتا وہ اس سلسلہ کو بدنام کرتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد4 صفحہ74 ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

آپؑ فرماتے ہیں کہ:
’’میں نے بارہا اپنی جماعت کو کہا ہے کہ تم نِرے اس بیعت پر ہی بھروسہ نہ کرنا اس کی حقیقت تک جب تک نہ پہنچو گے‘‘ یعنی بیعت کی حقیقت تک ’’تب تک نجات نہیں‘‘

(ملفوظات جلد4 صفحہ232-233 ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

اللہ تعالیٰ ہم سب کو اسلام کی حقیقی تعلیم کو سمجھتے ہوئے اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کی بیعت میں آنے کے حق کو ادا کرنے والے ہم ہوں اور ہمیشہ خلافت سے مکمل اطاعت کے ساتھ وابستہ رہیں اور خلیفہ وقت کے تمام معروف فیصلوں پر سچے دل کے ساتھ اور کامل اطاعت کے ساتھ عمل کرنے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ سب کو اس کی توفیق دے۔

(خطبہ جمعہ 2؍نومبر 2018ء)

(ابو سعید)

پچھلا پڑھیں

روزنامہ الفضل کے پہلے صفحہ سے اقتباس بچوں کو پڑھنے کے لئے دیا کریں

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 فروری 2023