• 8 مئی, 2024

حضرت مصلح موعودؓ کی زندہ یادیں

اے فخر رسل! قرب تو معلومم شد
دیر آمدہ ز راہ دور آمدہ
اے رسولوں کے فخر! تیرا خدا کے نزدیک مقام
قرب مجھے معلوم ہو گیا ہے تو دیر سے آیا ہے
(اور) دور کے راستہ سے آیا ہے

نورٌ علی نورٍ

نُوۡرٌ عَلٰی نُوۡرٍ ؕ یَہۡدِی اللّٰہُ لِنُوۡرِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَیَضۡرِبُ اللّٰہُ الۡاَمۡثَالَ لِلنَّاسِ

(النور: 36)

یعنی یہ نور علی نور ہے۔ اللہ اپنے نور کی طرف جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور اللہ لوگوں کے لئے مثالیں بیان کرتا ہے۔

یہاں نور سے مراد محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرمایا

نور لائے آسماں سے خود بھی وہ اک نور تھے
قوم وحشی میں اگر پیدا ہوئے کیا جائے آر

یہ نور علی طور پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو عطا کیا گیا جیسا کہ فرمایا:

مصطفیٰ پر تیرا بے حد ہو سلام اور رحمت
اس سے یہ نور لیا بار خدایا ہم نے

آگے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جب اللہ تعالیٰ سے آسمانی نشان مانگا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو مصلح موعودؓ کی بشارت دی اور فرمایا ’’نور آتا ہے نور جسے خدا نے اپنی رضا مندی کے عطر سے ممسوح کیا ہو۔‘‘

مسیح موعود کا چہرہ

حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ نے 15؍نومبر 1906ء کو حضرت مسیح موعودؑ کی موجودگی میں حضرت مرزا شریف احمد ؓ کے نکاح کا اعلان کیا اور خطبہ نکاح میں فرمایا ’’.. خدا کا مامور ہمارے سامنے موجود ہے اور خود اس مجلس میں موجود ہے۔ ہم اس کے چہرہ کو دیکھ سکتے ہیں۔ یہ ایک ایسی نعمت ہے کہ ہزاروں ہزار ہم سے پہلے گزرے جن کے دل میں خواہش تھی کہ وہ اس کے چہرہ کو دیکھ سکتے پر انہیں یہ بات حاصل نہ ہوئی اور ہزاروں ہزار اس زمانہ کے بعد آئیں گے جو یہ خواہش کریں گے کہ کاش! وہ مامور کا چہرا دیکھنے پر ان کے واسطے یہ وقت پھر نہ آئے گا‘‘

(خطبات نور صفحہ 238)

اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کو پیشگوئی مصلح موعود میں جو 20؍فروری 1886ء کو شائع ہوئی فرمایا: ’’وہ اولوالعزم ہو گا اور حسن و احسان میں تیرا نظیر ہو گا‘‘

اللہ تعالیٰ نے خود بذریعہ الہام حضرت مصلح موعودؓ کی زبان پر جاری کیا:

اَنا المسیح الموعود ومثیلہ و خلیفتہ

کہ میں بھی مسیح موعود ہوں یعنی اس کا مثیل اور خلیفہ ہوں۔

850 – 900 سال قبل ایک ولی نعمت اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے پیشگوئی فرمائی تھی:
دور او چوں شود بکام۔ پشرش یاد گار مے بینم

یعنی جب مہدی وقت و عیسی دوراں کا زمانہ کامیابی سے گزر جائے گا تو اس کے نمونہ پر اس کا لڑکا یاد گار رہ جائے گا اور اس کے رنگ میں رنگین ہوگا۔

مصلح موعودؓ کا چہرہ

یہ میری خوش نصیبی ہے کہ مجھے مثیل مسیح موعود ؑحضرت مصلح موعودؓ کا نورانی چہرہ دیکھنا نصیب ہوا۔ جو عشق الٰہی وسے منہ پر ولیاں ایہہ نشانی کا مصداق تھا اور جس کے بارے میں خدا نے خود کہا تھا ’’نور آتا ہے نور جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا ہو‘‘۔ میں نے آپ کی زیارت کی۔ چند تقاریر سنیں۔ دعاؤں کے خطوط لکھے۔ آپ کی لمبی بیماری کے دوران نفلی روزے رکھے۔ آپ کی وفات پر آپ کے نورانی چہرہ کی آخری بار زیارت کی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی پہلی بیعت عام میں شامل ہوا۔ آپ کی نماز جنازہ میں شامل ہوا جو 50 ہزار لوگوں نے ادا کی اور آپ کے بلند مرتبہ کی وجہ سے ایک اضافی تکبیر کہی گئی۔

عشق الٰہی وسے منہ پر ولیاں ایہہ نشانی

میری پیدائش 30؍نومبر 1944ء کی ہے۔ جب کہ اس سال کے شروع میں آپ نے مصلح موعود ہونے کا اعلان فرمایا تھا۔

ہماری رہائش حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ کے مولد و مسکن بھیرہ میں تھی اور والد صاحب اپنے بیوی بچوں کو باری باری جلسہ سالانہ پر ربوہ لے جاتے تھے۔

پہلی مرتبہ (جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے) میں نے بہت بچپن میں آپ کا نورانی چہرہ اپنی والدہ کے ساتھ دیکھا جب حضور مستورات کی ملاقات کے لئے قصر خلافت کی بالکونی پر نمودار ہوئے۔ اس وقت یہی طریق تھا کہ مردوں کی ملاقات ضلع وار ہوتی تھی اور عورتیں بالکونی سے حضرت مصلح موعودؓ کی زیارت کرتی تھیں۔

مجھے بچپن سے مصلح موعود کی اکثر خواب میں زیارت ہوتی تھی۔ میں آپ کو اپنے صحابہ آباؤاجداد کے چھوٹے سے گھر کی چھت پر کرسی پر بیٹھے ہوئے دیکھتا تھا۔

خدا میری طرف دوڑا ہوا آرہا ہے

1953ءمیں جماعت کے خلاف مخالف کی لہر دوڑ گئی۔ حضور کا پیغام سنایا گیا کہ آپ نے کشفاً دیکھا کہ ’’خدا میری طرف دوڑا آرہا ہے‘‘

میں اس وقت تیسری جماعت میں پڑھتا تھا۔ یہ اس وقت سے میرے ذہن پر نقش ہے۔ آپ کا اللہ تعالیٰ سے بے حد تعلق تھا۔ جب بھی کوئی مشکل آتی ہمارا گھرانا آپ کو دعا کے لئے لکھتا اور اللہ تعالیٰ وہ مشکل آپ کی دعا اور قوت قدسیہ سے دور کر دیتا۔

جلسہ سالانہ پر تقاریر

اسکول کے زمانے میں جب کہ میں ابھی اطفال الاحمدیہ میں تھا چند بار والد صاحب کے ساتھ جلسہ سالانہ ربوہ جانے کا اتفاق ہوا۔ آپ کی تلاوت اتنی شاندار ہوتی تھی کہ یوں لگتا تھا کہ دل سینے سے باہر آرہا ہے۔ آپ کی نہایت ولولہ انگیز تقریر ہوتی تھی۔ آپ کی اسٹیج پر آمد پر ساری جلسہ گاہ میں ایک خوشی کی لہر دوڑ جاتی تھی اور سارا پنڈال نعرہ ہائے تکبیر اللہ اکبر کے پر جوش نعروں سے گونج اٹھتا تھا۔ آپ کے افتتاحی خطاب کے بعد عمومًا آپ کے بڑے صاحبزادے حضرت مرزا ناصر احمد صاحب کی تقریر ہوتی تھی۔ آپ کچھ دیر بیٹھ کر ان کی تقریر سنتے تھے پھر چلے جاتے تھے اور جلسہ کی کاروائی جاری رہتی تھی۔ پھر آپ ظہر عصر کی نمازیں پڑھانے کے لئے جلسہ گاہ میں تشریف لاتے تھے۔

آپ تیز تیز تقریر کرتے تھے لیکن ہر لفظ دل میں اتر رہا ہوتا تھا۔ تقریر میں ہنسا بھی دیتے تھے اور رلا بھی دیتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ نے ساری جماعت کو کھڑا کر کے کوئی عہد بھی لیا تھا غالباً خلافت کے بارے میں۔

20؍اپریل 1952ء کو حضرت ام المؤمنین کا وصال ہوا۔ 1953ء میں جماعت کے خلاف فسادات ہوئے۔ آپ کو جسٹس منیر اور جسٹس کیانی کی عدالت میں طلب کیا گیا اور 10؍مارچ 1954ء کو آپ پر مسجد مبارک ربوہ میں قاتلانہ حملہ ہوا۔ اس وجہ سے آپ بیمار رہنے لگے۔ 1955ء میں آپ علاج کے لئے یورپ تشریف لے گئے۔ وہاں بھی آرام نہ کیا اور دن رات مبلغین کے ساتھ میٹنگز اور جماعت کی تربیت اور ترقی کے کاموں میں لگے رہے۔

واپس آکر آپ مسلسل بیمار رہنے لگے۔ مجھے یاد ہے ایک بار جلسہ سالانہ پر اعلان ہوا کہ حضور کو ڈاکٹروں نے جلا پر جانے سے روک دیا ہے اور آپ تشریف نہیں لائیں گے۔ لیکن ظہر سے کچھ پہلے ڈاکٹروں کی ہدایت کے خلاف اچانک جلسہ گاہ میں تشریف لے آئے اور بیماری کی حالت میں بہت تیز تیز تقریر فرمائی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ذکر پر اس قسم کے الفاظ تھے۔ کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں گالیاں کھانے کے لئے آئے تھے۔ پتھر کھانے کے لئے آئے تھے۔ ان جذبات سے روتے چلے جاتے تھے اور یہی کیفیت سامعین کی تھی۔ پھر آپ نے بہت جلد جلد نماز ظہر و عصر پڑھائیں اور واپس تشریف لے گئے۔

میں 1960ء میں گورنمنٹ ہائی اسکول بھیرہ سے میٹرک کر کے تعلیم الاسلام کالج ربوہ میں داخل ہوا۔ ان دنوں آپ صاحب فراش تھے۔ نہ ہی جمعہ پڑھانے آتے تھے اور نہ ہی جلسہ سالانہ پر تقریر کرتے ہیں۔ جلسہ سالانہ پر آپ کا تحریری پیغام حضرت مرزا بشیر احمدؓ پڑھ کر سناتے تھے۔ ایک بار حضرت مولانا جلال الدین شمسؓ نے سنایا تھا۔

حضرت مرزا شریف احمدؓ

1961ء میں جلسہ سالانہ کے دوسرے روز حضرت مرزا شریف احمدؓ کا انتقال ہو گیا۔ اس کا اعلان حضرت مرزا بشیر احمدؓ نے کیا اور بعد نماز عصر بہشتی مقبرہ میں نماز جنازہ پڑھائی۔ کہتے ہیں کہ حضرت مصلح موعودؓ کی بیماری کی وجہ سے اطلاع نہ دی گئی لیکن اللہ تعالیٰ نے الہاماً آپ کو ان کی وفات کی خبر دی۔

جلسہ سالانہ پر ملاقاتیں

بیماری کے باوجود جلسہ سالانہ پر ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ مجھے یاد ہے حضور بستر پر لیٹے ہوتے تھے اور دوست احباب پاس سے گزر جاتے تھے۔ بولنے کی اجازت نہ تھی۔ ضلع سرگودہا کی ملاقاتوں کے دوران حضرت مرزا عبد الحق صاحب کرسی پر بستر پر لیٹے ہوتے تھے اور تعارف کرواتے جاتے تھے۔ سلام عرض کر کے لوگ پاس سے گزر جاتے۔ حضور دیکھ رہے ہوتے تھے اور پہچان رہے ہوتے تھے لیکن بات کرنے کی اجازت نہ تھی۔ ہر ملنے والے کے لئے حضور زیر لب دعا کر رہے ہوتے تھے۔ میرے والد صاحب نے میٹرک تعلیم الاسلام سکول قادیان سے کیا تھا اور حضور ان کو اچھی طرح جانتے اور پہچانتے تھے اس لئے ہمیں بھی پہچان لیتے تھے۔ میرے بڑے بھائی محمد عبد اللطیف شاہد صاحب نے مجھے بتایا کہ ایک مرتبہ مرزا عبد الحق صاحب کی غیر موجودگی میں حضور نے ہمارے والد صاحب کو ساتھ بٹھا لیا اور فرمایا کہ احباب کا تعارف کرواتے جائیں۔

میں تیز قدم ہوں کاموں میں

حضرت مصلح موعودؓ نے اپنی زندگی میں بے حد کام کیا، فرمایا:

میں تیز قدم ہوں کاموں میں
بجلی ہے میری رفتار نہیں

ایک روز پنجاب یونیورسٹی کے کچھ طالب علم ریسرچ کے لئے ربوہ تشریف لے گئے وہ حضور سے ملنا چاہتے تھے لیکن حضور کی بیماری کی وجہ سے ان کو اجازت نہ ملی۔ تاہم ان کی ملاقات حضور کے ایک صاحبزادے اور معالج ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب سے کروائی گئی۔ پوچھا کہ حضور کو کیا ہے؟۔ انہوں نے کہا کہ انسان کے اعضاء جتنے کام کے لئے بنے ہوتے ہیں حضور نے اس سے زیادہ کام لیا ہے اور اب اعضاء جواب دے چکے ہیں۔ اور بہت ضعف ہو گیا ہے۔

لمبی بیماری

آپ کی بیماری کے دوران آپ کی ہمشیرہ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ نے بڑی درد ناک نظم لکھی جو الفضل میں شائع ہوئی۔

آج فرزند مسیح الزماں بیمار ہے
دعویٰ داران محبت سو گئے جا کر کہیں
قوم احمد جاگ تو بھی جاگ اس کے واسطے
ان گنت راتیں جو تیرے درد میں سویا نہیں

ان دنوں مرکز کی طرف سے سوموار اور جمعرات کو نفلی روزہ رکھنے کی تحریک تھی۔ میں اس وقت انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور میں پڑھتا تھا اور ہوسٹل میں رہتا تھا۔ ہوسٹل میں mess سے رات کو ایک ایکسٹرا حاضری لگوا کر کھانا کمرے میں رکھ لیتا اور ہیٹر پر گرم کر کے سحری کر لیتا۔

8؍نومبر 1965ء بروز سوموار قدرتی طور پر میرا روزہ miss ہو گیا۔ فجر سے کچھ پہلے میرے دروازے پر knock ہوا۔ میرے ایک کلاس فیلو ملک لال خان صاحب جو اب کینیڈا کے امیر ہیں نے رو کر بتایا کہ حضور کا انتقال ہو گیا ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ

آخری زیارت

ہم طالب علم اپنے اپنے طور پر لاہور سے بس پر ربوہ پہنچ گئے۔ آپ کی dead body کی برف کی سلوں کے درمیان زیارت کی اور اس نورانی چہرہ کو آخری بار دیکھا جو نور علی نور تھا۔

انتخاب خلافت ثالثہ اور جنازہ

اسی روز 8؍نومبر 1965ء کو مغرب و عشاء کی نمازوں کے بعد انتخاب خلافت ہوا اور حضرت حافظ مرزا ناصر احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثالثؒ منتخب ہوئے۔ بیعت عام میں ہم سب بھاگ کر مسجد مبارک ربوہ میں اکٹھے ہو گئے اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی دستی بیعت کی۔ ساری مسجد باہر تک لوگوں سے لبالب بھری ہوئی تھی۔

اگلے روز 9؍نومبر بروز منگل قصر خلافت سے آپ کا تابوت چارپائی پر رکھ کر اور دونوں طرف لمبے لمبے بانس باندھ کر گولبازار کے راستے بہشتی مقبرہ لے جایا گیا تا کہ کثرت سے لوگ کندھا دے سکیں۔ اکثر لوگ روتے جاتے تھے اور درود پڑھتے تھے۔ گولبازار سے ہو کر ہسپتال کے آگے سے گزرتے ہوئے چنیوٹ سرگودھا روڈ کراس کی گئی اور بہشتی مقبرہ کے پہلے گیٹ سے جو سب بند ہوتا ہے اندر داخل ہوئے اور 50 ہزار لوگوں نے بڑے ڈسپلن کے ساتھ آپ کی نماز جنازہ پڑھی۔ آپ کے جنازہ کا نوشہ جناب ثاقب زیروی صاحب نے بڑے جذباتی انداز میں اتارا تھا جس کا ایک شعر کچھ اس طرح تھا؎

دن ڈھلا تو غمگساروں کا قافلہ
کاندھے پہ آفتاب اٹھس کے چلا

آپ کی نماز جنازہ حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے پڑھائی۔ نماز جنازہ سے پہلے آپ نے مائیک پر ایک اہم اعلان فرمایا؛
میں چاہتا ہوں کہ نماز جنازہ سے قبل ہم سب مل کر اپنے رب روؤف کو گواہ بنا کر اس مقدس منہ کی خاطر جو چند گھڑیوں میں ہماری آنکھوں سے اوجھل ہونے والا ہے اپنے اس عہد کی تجدید کریں اور وہ عہد یہ ہے کہ ہم دین اور دین کے مصالح کو دنیا اور اس کے سب سامانوں اور اس کی ثروت اور وجاہت پر ہر حال میں مقدم رکھیں گے اور دنیا میں دین کی سربلندی کے لئے مقدور بھر کوشش کرتے رہیں گے۔

حضرت مصلح موعودؓ کے اعلی مقام کی وجہ سے آپ کی نماز جنازہ میں ایک اضافی تکبیر کہی گئی۔ نماز جنازہ کے بعد احباب کو تدفین تک اپنی جگہ کھڑے رہنے کی ہدایت تھی۔ آپ کو حضرت ام المؤمنین نصرت جہاں بیگمؓ حرم حضرت اقدس مسیح موعود علیہما السلام کے پہلو میں دفن کیا گیا۔ تدفین کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے لمبی پر سوز دعا کروائی۔ اس طرح حضرت مصلح موعودؓ کی زندگی کا سفر جو 12؍جنوری 1889ء کو شروع ہوا تھا اپنی تکمیل کو پہنچا۔

کُلُّ مَنۡ عَلَیۡہَا فَانٍ ﴿۲۷﴾ وَّیَبۡقٰی وَجۡہُ رَبِّکَ ذُو الۡجَلٰلِ وَالۡاِکۡرَامِ ﴿۲۸﴾

(انجینئر محمود مجیب اصغر۔ سویڈن)

پچھلا پڑھیں

روزنامہ الفضل کے پہلے صفحہ سے اقتباس بچوں کو پڑھنے کے لئے دیا کریں

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 فروری 2023