• 15 مئی, 2024

خدا تعالیٰ کی صفت رحیمیت ہستی باری تعالیٰ کی زندہ دلیل!

اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے۔

وَاِذَا سَاَلَكَ عِبَادِىْ عَنِّىْ فَاِنِّىْ قَرِيْبٌ ۖ اُجِيْبُ دَعْوَةَ الـدَّاعِ اِذَا دَعَانِ

(البقرہ: 187)

اور جب میرے بندے تجھ سے میرے متعلق سوال کریں تو یقیناً میں قریب ہوں۔ میں دعا کرنے والے کی دعا کا جواب دیتا ہوں جب وہ مجھے پکارتا ہے۔ پس چاہئے کہ وہ بھی میری بات پر لبیک کہیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ وہ ہدایت پائیں۔

(اردو ترجمہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰٰ)

دورِحاضر میں جس طرح دنیاوی علوم میں تیزی سے ترقی ہو رہی ہے ویسے ہی شیطانی حملوں کی یلغار انسانی زہنون میں شدت اختیار کرتی جارہی ہےاور آج کل کا تعلیم یافتہ طبقہ خدا تعالیٰ کی ہستی کی زندہ دلائل کا متلاشی ہے۔ اور صدہا زندہ دلائل میں سے ایک زندہ دلیل خدا تعالیٰ کی صفت رحیمیت ہے جو کہ روز اوّل سے آج تک بغیر کسی مذہب کی تمیز کے اپنے نشانات سے خدا کی ہستی پر ایک روشن دلیل ہے۔ خداتعالیٰ کی صفت رحیمیت کے چند زندہ واقعات پر نظر ڈال کر دیکھتے ہیں کہ کس طرح خدا نے مانگنے پر اپنی خدائی کا جلوہ دیکھایا اور اس کا جواب دیا جس پر دیکھنے والوں کی عقل دنگ رہ گئی۔اور وہ کرشمہ دنیا نے اپنی آنکھوں سے دیکھے جو بظاہر دنیاوی اسباب سے ناممکن نظر آتے تھے۔

حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ آپ ؓبیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک شخص مسجدنبویؐ ممبرکے پاس والے دروازے سے داخل ہوا۔رسول ﷺ اس وقت کھڑے خطبہ دے رہے تھے ۔اُس شخص نے حضورؐ کو اپنی طرف متوجہ کر کے کہا یا رسول اللہ! مویشی مر رہے ہیں،راستہ مخدوش ہیں ۔آپؐ اللہ سے دعا فرمائیں کہ وہ ہم پر بارش برسائے ۔اس پر حضور ﷺ نے ہاتھ اٹھا کر دعا فرمائی اللّٰھُمَّ اَسْقِنَا۔ راوی بیان کرتے ہیں اس وقت آسمان پر کوئی بادل یا بادل کا ٹکڑا نظر نہیں آرہا تھا کہ اچانک سَلْعَ پہاڑی کے پیچھے سے ایک بدلی نمودار ہوئی جو آسمان کے وسط میں آکر پھیل گئی اور بارش برسانے لگی پھر مسلسل 6 دن تک سورج نہ دیکھا۔ پھروہ شخص اگلے جمعہ حاضر ہوا اور بارش رکوانےکی درخواست کی جس پر حضور ﷺ نے ہاتھ اٹھا کر دعا کی راوی بیان کرتے ہیں کہ آپؐ کا دعا کرنا تھا کہ بارش ختم ہو گئی اور جب جمعہ پڑھ کر نکلے تو دھوپ نکلی ہوئی تھی۔

(صحیح بخاری کتاب الجمعہ باب الاستسقاء فی المسجد الجامع)

اسی طرح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب حقیقہ الوحی روحانی خزائن جلد 22 میں خدا تعالیٰ کی صفت رحیمیت کا ایک واقعہ زیادت ایمان کے لئے لکھا ہوا ہے جو درحقیقت احیائےموتیٰ میں داخل ہے۔ اس کا ملخص درج ذیل ہے۔

ایک دفعہ عبدالکریم ولد عبدالرحمن نامی طالب علم قادیان تعلیم کے حصول کے لئے آیا جس کو ہلکایا کتا کاٹ گیا۔ اور باوجود بہت علاج کروانے کے آثار دیوانگی کے اس میں ظاہر ہونا شروع ہو گئے جس پر ڈاکٹروں نے جواب دے دیا کہ اب اس نوجوان کی زندگی بچ نہیں سکتی۔ جس پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دل میں اُس کے لئے خارق عادت توجہ پیدا ہوئی اور آپ ؑنے اس کے لئے دعا فرمائی اور لڑکا چند دنوں میں بالکل صحتیاب ہو گیا۔

میڈیکل کی فیلڈ سے وابستہ احباب بخوبی جان سکتے ہیں کہ ایسا واقعہ نہ پہلے کبھی ہوا اور نہ بعد میں۔الله تعالیٰ نے اپنی صفت رحیمیت کا نظارہ دکھاتے ہوئے اپنی ہستی کا ایسا ثبوت دیا جو کہ دیکھنے والوں کے لئے ایمان میں اضافہ کا مؤجب بھی ہوا۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام قبولیت دعا کے متعلق فرماتے ہیں:
’’یاد رہے کہ خدا کے بندوں کی مقبولیت پہچاننے کے لئے دعا کا قبول ہونا بھی ایک بڑا نشان ہوتا ہے بلکہ استجابت دعا کی مانند اور کوئی بھی نشان نہیں کیونکہ استجابت دُعا سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک بندہ کو جناب الٰہی میں قدر اور عزت ہے۔ اگرچہ دعا کا قبول ہو جانا ہر جگہ لازمی امر نہیں کبھی کبھی خدائے عزوجل اپنی مرضی بھی اختیار کرتا ہے لیکن اس میں کچھ بھی شک نہیں کہ مقبولین حضرت عزت کے لئے یہ بھی ایک نشانی ہے کہ بنسبت دوسروں کے کثرت سے ان کی دعائیں قبول ہوتی ہیں اور کوئی استجابت دعا کے مرتبہ میں ان کا مقا بلہ نہیں کر سکتا۔‘‘

(حقیقۃ الوحی، روحانی خزائن جلد 22 صفحہ 334)

حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل ؓ کی قبولیت دعا اور خدا کی صفت رحیمیت کے متعلق ایمان افروز واقعہ ملتا ہے۔ محترم چودھری غلام محمد بی اے کابیان ہے کہ 1909ء کے موسم برسات میں ایک دفعہ لگاتار8 روز بارش ہوتی رہی جس سے قادیان کے بہت سے مکانات گر گئے۔ حضرت نواب محمد علی خان نے قادیان سے باہر نئی کوٹھی تعمیر کی تھی وہ بھی گر گئی۔ آٹھویں یا نویں دن حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ نے ظہر کی نماز کے بعد فرمایا کہ میں دعا کرتا ہوں آپ سب لوگ آمین کہیں۔ دعا کرنے کے بعد آپؓ نے فرمایا کہ میں نے آج وہ دعا کی ہے جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ساری عمر میں صرف ایک دفعہ کی تھی۔ دعا کے وقت بارش بہت زور سے ہو رہی تھی۔ اس کے بعد بارش بند ہو گئی اور عصر کی نماز کے وقت آسمان بالکل صاف تھا اور دھوپ نکلی ہوئی تھی۔

(حیات نور صفحہ 441 ،440)

اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کا ایک اور ایمان افروذ اور خدا کی آپ سے محبت کا دلچسب واقع ملتا ہے۔

حضرت حکیم محمد صدیق کی روایت ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ فرمایا کرتے تھے کہ ’’ایک دفعہ تین ساتھیوں کے ساتھ ہم راستہ بھول گئے اور کہیں دور نکل گئے کوئی بستی نظر نہیں آتی تھی۔ میرے ساتھیوں کو بھوک اور پیاس نے سخت ستایا توان میں سے ایک نے کہانورالدین جو کہتا ہے کہ میرا خدا مجھے کھلاتا پلاتا ہے آج ہم دیکھتے ہیں کہ کس طرح کھلاتا پلاتا ہے۔ فرمایا کرتے تھے میں دعاکر نے لگا۔ چنانچہ جب ہم آگے گئے توپیچھے سے زور کی آواز آئی۔ ٹھہرو! ٹھہرو! جب دیکھا تو دو شتر سوار تیزی کے ساتھ آرہے تھے جب پاس آئے توانہوں نے کہاہم شکاری ہیں۔ ہرن کا شکارکیاتھا اورخوب پکایا گھر سے پراٹھے لائے تھے۔ ہم سیر ہوچکے ہیں اور کھانا بھی بہت ہے آپ کھالیں چنانچہ ہم سب نے خوب سیر ہوکر کھایا۔ ساتھیوں کو یقین ہوگیاکہ نورالدین سچ کہتا تھا۔‘‘ فرمایا کرتے تھے کہ’’اللہ تعالیٰ کا نورالدین کے ساتھ وعدہ ہے کہ میں تیری ہر ضرورت کو پورا کروں گا کیا کوئی بادشاہ بھی یہ دعویٰ کرسکتا ہے؟‘‘

(حیات نور صفحہ167)

اسی طرح خدا کی صفت رحیمیت کے تحت خلیفۃ السیح الثانیؓ کے ایک قبولیت دعا کا واقعہ ملتا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح خدا اپنے بندے کی پکار کا جواب دیتا ہے جو کہ خدا کی ہستی پر بھی ایک زندہ دلیل ہے۔

محمد احمد ملک الفضل انٹرنیشنل 1998ء میں اپنے شائع شدہ ایک مضمون میں حضرت مصلح موعود علیہ السلام کے قبولیت دعا کے ایمان افروز واقعات کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ڈھاکہ کے ایک دوست فیض عالم نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ کی خدمت میں دعائیہ خط لکھا اور عرض کی کہ ان کی اہلیہ لاعلاج نسوانی مرض میں مبتلا ہے باوجودعلاج کروانے کہ مرض بڑھتا ہی جارہا ہے حتیٰ کہ زندگی سے بھی مایوسی ہو گئی ہیں۔حضرت خلیفۃ السیح الثانی ؓ نے خدا کے حضور دعا کی اور جواب دیا کہ ‘‘اچھی ہو جائے گی’’۔ اس دوران ان کی اہلیہ نے خواب میں حضرت مصلح موعود علیہ السلام کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ‘‘دعا کو دوا کے طور پر استعمال کرتی جاؤ‘‘۔ چناچہ باوجود لاعلاج مرض کے شفا بھی ہوئی اور اولاد بھی۔

(الفضل انٹرنیشنل 1998ء)

اب اس واقعہ سے بھی خدا کہ ہستی کا ثبوت ملتا ہے کہ کس طرح جب تمام دنیاوی حربے بے سود ہو گئے اور نا امیدی کے اندھیرے منڈلانے لگے تب خدا نے اپنی صفت المجیب کا نظارہ دیکھاتے ہوئے زندگی میں اُجالا بھی پیدا کیا اور حق کے سچے طالبوں کو اپنی ہستی کا ثبوت بھی دیا۔

اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒکے قبولیت دعا کا حسین واقعہ پیش ہے۔

میاں محمد اسلم پتو کی لکھتے ہیں:
’’خاکسار 11 نومبر 1963ء کو احمدی ہوا اور 9،اپریل 1965ء کو خاکسار کی شادی ہوئی۔ بارہ سال تک خاکسار کے ہاں کوئی اولاد نہ ہوئی تمام رشتہ دار غیر احمدی تھے اور مخالفت کرتے تھے۔ وہ تمام اور گاؤں والے بھی یہی کہتے کہ چونکہ یہ قادیانی ہو گیا ہے لہٰذایہ ابتر رہے گا (نعوذبا للہ)۔ خاکسار نے اس تمام عرصہ میں ہر قسم کا علاج کروایا لیکن اولاد نہ ہوئی۔ دوسری طرف میری بیوی بھی رشتہ داروں کے طعنے سن کر میری دوسری شادی کرنے پر رضا مند ہو گئی۔

اس اثنا میں خاکسار نے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی خدمت میں تمام حالات لکھ کر درخواست دعا کی کہ خدا تعالیٰ اولاد سے نوازے۔ حضورؒ نے خط کے جواب میں فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ آپ کو کبھی ضائع نہیں کرے گا اور ضرور نرینہ اولاد سے نوازے گا۔ ’’حضور کی اس دعا کی برکت سے اب میرے چار لڑکے ہیں۔ تمام لوگ حیران ہیں کہ یہ اولاد کس طرح ہو گئی حالانکہ لیڈی ڈاکٹروں نے کہا تھا کہ اس عورت سے اولاد ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ خاکسار اس کے جواب میں اپنے غیراحمدی رشتہ داروں کو یہی کہتا ہے کہ یہ حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت کا زندہ نشان ہے جو کہ اللہ تعالیٰ نے خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی دعا کی برکت سے دیا۔‘‘

(ماہنامہ خالد سیدنا ناصر نمبر اپریل، مئی 1983ء صفحہ293, 292)

اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کا ایک بچپن کا قبولیت دعا کا واقعہ ملتا ہے جو صفت رحیمیت پر دلالت کرتا ہے کتاب ’’ایک مرد خدا‘‘ میں یوں ملتا ہے کہ ایک دفعہ حضرت خلیفۃ السیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ اپنے اہل و عیال سمیت قادیان واپس آرہے تھے۔ راستہ میں پتہ چلا کہ گاڑی کا پٹرول ختم ہونے کو ہے اور اب قادیان تک راستہ میں کوئی پٹرول پمپ بھی نہ تھا۔ حضرت خلیفۃ السیح الثانی ؓ نے بچوں کو مخاطب کر کے فرمایا کہ آؤ سب مل کر دعا کریں کہ اللہ اپنے خاص تصرف سے اس مشکل کو راستہ کی روک نہ بنائے اور ہمیں قادیان پہنچا دے اور جس کی دعا قبول ہوئی اس کو 2 گیلن پٹرول اور کار کے استعمال کی اجازت دے دوں گا۔ جس پر کمسن طاہر احمد (حضرت خلیفہ المسیح الرابعؒ) مسلسل قادیان پہنچنے تک دعا میں مشغول رہے یہاں تک کہ کار محض خدا کے فضل سے اور بغیر کسی دنیاوی اسباب کے قادیان پہنچ گئی اور حضرت خلیفہ السیح الثانیؓ نے وعدہ کے مطابق بطور انعام کمسن طاہر احمد (حضرت خلیفہ المسیح الرابع ؒ)cکو 2 گیلن پٹرول اور کار کے استعمال کی اجازت دی۔

اسی طرح مولانا غلام رسول راجیکی اپنی قبولیت دعا کااورخدا کی صفت رحیمیت پرایک ایمان افروز اور دلچسب واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ آپ نے چوہدری اللہ داد کو جو ابھی احمدیت سے مشرف نہ ہوئے تھے مسجد کی دیوار کے ساتھ سخت دمہ کے مرض میں مبتلا بیٹھے دیکھا۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ 25 سال پرانا مرض ہے اور بہت علاج کروانے کے بعد ڈاکٹرز نے اس مرض کو لاعلاج قرار دے دیا ہے۔جس پر مولانا صاحب نے فرمایا کہ ’’حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تو کسی بیماری کو لا علاج قرار نہیں دیا‘‘ اور آپؓ نے پانی کا پیالہ منگوایا اور دعا کر کے دم کیا اور وہ اس بیماری سے شفا یاب ہوئے اور بعد میں 15 برس تک زندہ رہے اور احمدیت بھی قبول کر لی۔

محترم مولانا عبدالمالک خان سابق ناظر اصلاح و ارشاد مرکزیہ نے بیان کیا کہ آپ کراچی میں بطور مربی تعینات تھے کہ حضرت خلیفہ المسیح الثالث ؒنے ایک صاحب کو آپ کے پاس اس پیغام کے ساتھ بھجوایا کہ ان صاحب کو حج پر بھجوانے کا انتظام کریں۔ ان دنوں حج پر جانے کے لئے بحری جہاز کے ذریعہ سفر کیا جاتا تھا۔ چنانچہ آپ متعلقہ دفتر میں حاضر ہوئے۔ اپنا مدعا بیان کیا تو آپ کو بتایاگیا کہ بحری جہاز کی تمام سیٹیں بک ہو چکی ہیں بلکہ 20 مسافر چانس پر بھی بکنگ کرواچکے ہیں۔ اس لئے درخواست دینے کاکوئی فائدہ نہیں ہے۔ مولانا صاحب نے متعلقہ افسر سے درخواست کی کہ جیسے آپ پہلے 20 زائد درخواستیں لے چکے ہیں ایسے ہی ایک اور درخواست لے لیں۔ آپ کے اصرار پر جب آپ کے ساتھی کی حج پر جانے کی درخواست جمع ہوچکی تو آپ نے کہا کہ اور فرد حج پر جائے یا نہ جائے مگر یہ شخص ضرورحج پرجائے گا کیونکہ اس کو حج پر بھجوانے کے لئے خلیفہ وقت نے بھجوایا ہے۔ اگر آپ اس کو حج پر بھجوانے میں مدد دیں گے تو خدا آپ کو بھی برکتوں سے نوازے گا۔ پھر روانگی کے دن آپ کو فون آیا کہ بحری جہاز روانہ ہونے میں ایک گھنٹہ باقی ہے۔ ایک مسافر اچانک بیماری کے باعث سفر نہیں کر سکتا۔ چانس پر ٹکٹیں لینے والے دیگر لوگ دور ہیں اس لئے آپ کے لئے موقع ہے اگر ایک گھنٹے کے اندر آپ اپنے ساتھی کو بندرگاہ پر لے آئیں تو وہ حج پر جاسکتا ہے۔ آپ تو پہلے ہی اس یقین کے ساتھ تیار بیٹھے تھے کہ خلیفہ وقت کا بھجوایاہوا شخص ضرور حج پر جائے گا۔ چنانچہ آپ نے موصوف کو فوراً بندرگاہ پہنچایا جو خلیفہ وقت کی توجہ اور دعا کی وجہ سےحج کے لئے روانہ ہوگئے۔ جو کہ بظاہر ناممکن معلوم ہوتا تھا۔

(ماہنامہ ’’النور‘‘ مئی 2009)

ان چند واقعات سے جہاں صفت رحیمیت کے تحت خدا کی ہستی اور دعاؤں کے سننے پر زندہ دلیل ملتی ہے وہاں ہمیں اس بات کی طرف بھی رہنمائی ملتی ہے کہ خواہ دنیاوی اسباب جتنے بھی ترقی کر جائیں مگر آخرخدا کا فضل ہی افضل ہے اور سب سے مقدم کسی کام کے کرنے میں دعاؤں کے زریعہ خدا کا فضل تلاش کرنا چاہئے اور پھر دنیاوی اسباب اختیار کرنے چاہئے تاکہ کامیاب ہو سکیں ۔


(نوید احمد انجم)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 مارچ 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 مارچ 2020