• 15 مئی, 2024

اللہ تعالیٰ کی تائید ونصرت کے ایمان افروز جلوے بارش کے ذریعہ ظاہر ہونے والے چند نشانات

سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 2جون 2006ء کومسجد بیت الفتوح لندن میں خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے ہوئے خطبات کے ایک نئے سلسلہ کا آغاز فرمایا۔ ان خطبات کا موضوع سیرت النبی ﷺکے حوالہ سے آپﷺ کو عطا کی جانے والی تائید ونصرت تھا۔

تائیدونصرت الٰہی کا ذکر کرتے ہوئے حضور انور نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آنے والی نصرت مختلف اور متنوع صورتوں میں جلوہ گر ہوتی ہے۔ ان میں سے ایک صورت بارش کی بھی ہے جسے صحیح معنوں میں باران رحمت کہا جاتاہے۔ بارش یوں تو قدرت کا ایک کرشمہ ہے جس کو انسانی زندگی بلکہ حیوانی اور نباتاتی زندگی کی نشوونما اور ترقی سے بہت گہرا تعلق ہے اور ایک عام انسان کی نظر میں بارش کے نزول کے چند مادی اسباب ہیں جن کا مطالعہ کرنے کے نتیجہ میں صاحبانِ علم یہ اندازبتاتے رہتے ہیں کہ کب ،کہاں اور کتنی بارش ہوگی؟ یہ انسانی اندازے صحیح بھی ہوتے ہیں اور کبھی غلط بھی ۔ سچی بات یہ ہے کہ بارش کا برسنا بھی بلکہ بارش کا رک جانا بھی اللہ تعالیٰ کے نشانوںمیں سے ایک عظیم نشان ہے۔ دنیا کے لوگ تو اپنے ظاہری اور محدود علم کی بنا پر یہ جانتے کہ آسمان پر بادل آ جائیں اور گہرے ہوں توبارش ہوگی۔بادل نہ ہوں تو بارش نہیں ہوگی۔ لیکن قادر وتوانا خدا تعالیٰ کی قدرت نمائی کے انداز بہت عمیق اور پُرحکمت ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اسباب کا ایک ذریعہ ضروربنایا ہے لیکن وہ مسبب الاسباب ہے اور ہر بات پر قادر ہے بلکہ اس کائنات کا ذرّہ ذرّہ اس کے حکم اور اس کی مرضی کے تابع ہے ۔

بارش یا باران رحمت مختلف انداز میں اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کا نشان بنتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے نبیوں ، خلفاء اور اپنے پیاروں کی دعاؤں کو سن کر عجب محبت کے رنگ میں جلوہ گری فرماتاہے۔آسمان پر بادل کا نام و نشان بھی نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ کے اذن سے پل جھپکنے میں بادل آ جاتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے جل تھل ہوجاتاہے۔ اور کبھی یوں لگتاہے کہ موسلادھار بارش اس زور سے برس رہی ہے کہ نہ معلوم کبھی رکے گی بھی یا نہیں۔ اور ہوتا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اذن سے وہ بارش یکدم رُک جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک عظیم نشان قرار پاتی ہے۔

ان ہر دو قسم کے نشانوں کے پیچھے اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت کی جلوہ گری ہوتی ہے اور جب یہ نشان کسی نبی ، خلیفہ یا خدا کے کسی پیارے بندے کی دعا کی قبولیت کے نتیجہ میں ظاہر ہوں تویہ ان کی صداقت کے عظیم گواہ بھی ہوتے ہیں اور خداتعالیٰ کی رحمت کا زندہ ثبوت بھی ۔ الغرض یہ ا یک تفصیلی مضمون ہے جس کا مطالعہ بہت ہی دلچسپ اور ایمان افروز حقائق کو اجاگر کرتاہے ۔

بارش کے ذریعہ ظہور پذیر ہونے والے خدائی تائیدو نصرت کے یہ نشانات کس کس انداز میں رونما ہوتے ہیں اس کی چندمثالیں بطور نمونہ قارئین کی خدمت میں پیش کرتاہوں۔

سب سے پہلی اور مقد س ترین جامع مثال ہمارے پیارے آقا رسول مقبول ﷺ کے مبارک زمانہ کی ہے۔ مدنی دور کی بات ہے اور یہ مثال حدیث کی مشہور کتاب سنن ابی داؤد، کتاب الصلوٰۃ باب رفع یدین فی الاستسقاء سے لی گئی ہے۔

حضرت انس ؓ سے روایت ہے کہ آنحضورﷺ کے زمانہ میں اہل مدینہ کو قحط نے آلیا ۔ چنانچہ ایک جمعہ کے دن جبکہ آپﷺ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے ایک آدمی نے کھڑے ہو کرعرض کیا :یا رسول اللہ! مویشی اور چارپائے ہلاک ہو رہے ہیں آپ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ بارش نازل فرمائے۔ آپ ﷺ نے ہاتھ اٹھائے اور دعا کی۔ انسؓ کہتے ہیں کہ اس وقت آسمان شیشے کی طرح صاف دکھائی دیتا تھا۔پھر تیز ہوا چلی اور بادل بنانے لگی ۔پھر وہ بادل جمع ہو گئے اور آسمان موسلا دھار بارش برسانے لگا یہاں تک کہ ہم پانی کے اندر سے گزر کر گھر پہنچے۔یہ بارش اگلے جمعہ تک جاری رہی۔ چنانچہ اگلے جمعہ کے روز وہی شخص یا کوئی اور شخص کھڑا ہوا اور عرض کیا:یارسول اللہ! مکان گر رہے ہیں ۔ آپ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ بارش کو روک دے۔ آنحضرت ﷺ مسکرائے پھر دعا کرتے ہوئے یوں گویا ہوئے : اے اللہ تو ہمارے اردگرد برسا اور ہم پر اب نہ برسا۔ انس کہتے ہیں کہ مَیں نے بادلوں کی طرف دیکھا تو وہ درمیان سے پھٹ گئے اور مدینہ کے ارد گرد ایک ہار کی شکل اختیار کر گئے۔ (یعنی مدینہ کے اوپر آسمان صاف ہوگیا اور اردگرد بادل رہے)۔

دوسری مثال سرور کائنات محمد مصطفی ﷺ کے عاشق صادق ،مسیح زماں حضرت مسیح موعود ؑ کی عرض کرتاہوں۔ حضرت مسیح موعودؑ کے ایک مخلص اور فدائی صحابی حضرت منشی ظفر احمؓد آف کپورتھلہ روایت بیان کرتے ہیں :

جیٹھ کا مہینہ تھا۔ گرمی سخت تھی۔ ہم دارالامان میں حضرت کے حضور حاضر تھے۔ واپس جانے کے لئے اجازت لیتے وقت منشی اروڑے خان صاحبؓ نے عرض کیا کہ حضور اس قدر پانی ہو کہ نیچے بھی پانی اور اوپر بھی پانی ہو۔میں نے بے تکلفی سے عرض کیا حضور!یہ دعا ان کے لئے مانگی جائے۔ آپؑ نے فرمایا کہ خدا قادر ہے۔

ہم اجازت لے کر روانہ ہوئے ۔ ابھی چوہڑوں کے گھروں سے باہر ہی نکلے تھے کہ یکایک ایک بادل اٹھا اور بارش شروع ہوگئی۔ تھوڑی دیر کے بعد موسلا دھار کی صورت ہوگئی۔ اور پانی ہی پانی ہوگیا۔ یکّا اُلٹ گیا اور منشی ارُوڑے خان صاحب نالی میں جا پڑے۔ میں اورمحمد خان بچ گئے ۔منشی صاحب کو اپنی غلطی پر افسوس تھااور کہتے تھے کہ مَیں نے ایسی دعا کیوں منگوائی؟

منشی صاحب فرماتے ہیں کہ یہ ایک نشان قبولیت دعا کا تھا۔ ادھر منشی صاحب نے اظہار خواہش کیا اور آپ نے فرمایا خدا قادر ہے۔ اور وہ دعا قبول ہوگئی اور منشی اروڑے خان صاحب نے نیچے اوپر پانی کا مزہ چکھ لیا۔

(بحوالہ الحکم قادیان ۔14 اپریل 1934ء)

اگلاواقعہ دعا کے نتیجہ میں کئی روز سے جاری بارش کے رکنے کا ہے۔ یہ حضرت خلیفۃ المسیح اوّلؓ کے زمانے کا ہے۔ محترم ملک صلاح الدین صاحب ایم اے مرحوم روایت کرتے ہیں:

1909ء کے موسم برسات میں ایک دفعہ لگاتار آٹھ روز بارش ہوتی رہی جس سے قادیان کے بہت سے مکانات گر گئے اور حضرت نواب محمد علی خان ؓ نے قادیان سے باہر نئی کوٹھی تعمیر کی تھی وہ بھی گرگئی۔ آٹھویں یا نویں دن حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ نے ظہر کی نماز کے بعد فرمایا کہ مَیںدعا کرتاہوں آپ سب لوگ آمین کہیں۔ دعا کے وقت بارش بہت زور سے ہو رہی تھی۔ اس کے بعد بارش بند ہوگئی اور عصر کی نمازکے وقت آسمان بالکل صاف تھا اور دھوپ نکلی ہوئی تھی۔

(اصحاب احمد جلد 8 صفحہ71مرتبہ ملک صلاح الدین ایم اے)

اسی تسلسل میں بارش رکنے کا ایک اور واقعہ بھی بہت دلچسپ ہے۔حضرت مسیح پاک ؑ کے ایک بزرگ صحابی حضرت مولانا غلام رسول راجیکیؓ اپنی کتاب ‘‘حیات قدسی’’ میں تحریر فرماتے ہیں کہ ان کے ایک تبلیغی سفر کے دوران اللہ تعالیٰ کی غیر معمولی تائید ہمارے ازدیاد ایمان کا موجب ہوئی۔ آپ کے اپنے الفاظ ہیں:

’’ہمارا یہ وفد جب بھاگلپور میں پہنچا تو مقامی جماعت کی طرف سے ایک جلسہ منعقد کرکے ہمارے لیکچروں کا انتظام کیا گیا ۔جلسہ کا پنڈال ایک سرسبز وشاداب اوروسیع میدان میں بنایا گیا ۔حضرت مولوی عبدالماجدؓ وہاں کے امیر جماعت تھے۔آپ کے انتظام کے ماتحت کرسیاں ،میز اور دریاں قرینے سے لگائی گئیں۔حاضرین کی تعداد بھی کافی ہوگئی ۔ابھی جلسہ کا افتتاح ہی ہوا تھا کہ ایک کالی گھٹا جوبرسنے والی تھی مقابل کی سمت سے نمودار ہوئی اور کچھ موٹے موٹے قطرات بارش گرنے بھی شروع ہوگئے ۔ میں اس وقت سٹیج کے پاس حضرت مولوی ابوافتح پروفیسر عبدالقادر کے پہلو میں بیٹھا ہوا تھا۔ میرے قلب میں اس وقت بارش کے خطرہ اور تبلیغی نقصان کو دیکھ کر خداتعالیٰ کی طرف سے ایک جوش بھرگیا اور مَیں نے اس جوش میں الحاح اور تضرع کے ساتھ دعا کی کہ اے خدا یہ ابر سیاہ تیر ے سلسلہ حقہ کے پیغام پہنچانے میں روک بننے لگا ہے اور تبلیغ کے اس زریں موقعہ کوضائع کرنے لگا ہے تُو اپنے کرم اور فضل سے اس امنڈتے ہوئے بادل کوبرسنے سے روک دے اور اس کو دُور ہٹا دے۔

چنانچہ جب لوگ موٹے موٹے قطرات کے گرنے سے ادھراُدھر ہلنے لگے اور بعض لوگوں نے فرش کو جو نیچے بچھایا ہوا تھا لپیٹنے کی تیاری کرلی تو مَیں نے اس سے منع کردیا اور لوگوں کو تسلی دلائی کہ وہ اطمینان سے بیٹھے رہیں بادل بھی چھٹ جائے گا ۔ یہ خدا تعالیٰ کی قدرت کا عجیب کرشمہ ہے کہ وہ بادل جو تیزی سے امنڈا چلا آتاتھا،قدرت مطلقہ سے پیچھے ہٹ گیا اور بارش کے قطرات بھی بند ہوگئے اور ہمارا جلسہ خداتعالیٰ کے خاص فضل کے ماتحت کامیابی کے ساتھ سرانجام ہوا۔ فالحمدللہ علی ذلک‘‘

(حیات قدسی جلد سوم صفحہ26-25 )

باران رحمت تبلیغی میدان میں خدائی رحمت کا پیغام لے کر اترتی اور متعدد مواقع پر اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کا نشان بن کر سعید فطرت لوگوں کی ہدایت کا ذریعہ بن جاتی ہے۔

موضع کریا م ضلع جالندھر کا واقعہ ہے کہ ایک مجلس میں حضرت حاجی غلام احمد صاحبؓ اور ہنگہ کے حضرت شیر محمد صاحبؓ تانگے والے موجود تھے۔ اس وقت شدید گرمی پڑ رہی تھی ۔ایک غیر احمد ی دوست چھجو خان نامی سے تبلیغی گفتگو کا سلسلہ جاری تھا۔ دوران گفتگو اس نے کہا کہ اگر آج بارش ہو جائے تومَیں احمدی ہوجاؤںگا۔حضرت حاجی صاحبؓ نے اسی وقت احمدی احباب کی معیت میں دعا کے لئے ہاتھ بلند کر دئیے۔ مسبّب الاسباب خدا کی قدرت نے عجیب کرشمہ دکھایا۔ ابھی تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ آسمان پر بادل چھا گئے اور زور سے بارش برسنے لگی ۔یہ خدائی نشان دیکھ کر چھجو خان صاحب نے اسی وقت بیعت کرلی۔

(بحوالہ میدان تبلیغ میں تائید الٰہی کے ایمان افروز واقعات ۔ صفحہ32)

اس جگہ مَیں اپنے والد مرحوم ’’خالد احمدیت‘‘ حضرت مولانا ابوالعطاء جالندھری کے بارہ میں اسی طرح کا ایک واقعہ بیان کرتا ہوں۔

میری والدہ محترمہ سعیدہ بیگم(اطال اللّٰہ بقاء ھا)بیان کرتی ہیں:
’’لوگوں میں مشہور تھا کہ مولوی صاحب کی دعا سے بارش ہوجاتی ہے۔ ایک دن جمعہ پڑھاکرگھر آئے تو کہنے لگے کہ آج مَیں نے دوستوں کے کہنے پر بارش کے لئے دعا کی ہے۔ آج انشاء اللہ ضرور بارش ہوگی۔سخت گرمی تھی۔ آپ قمیص اُتار کر بیٹھ گئے بارش کے انتظار میں۔اس وقت چلچلاتی دھوپ تھی لیکن دیکھتے ہی دیکھتے آسمان پر ایک ٹکڑا بادل کا آیا اورتھوڑی دیر کے بعد موسلادھار بارش شروع ہوگئی اورجل تھل ہوگیا‘‘

(بحوالہ حیات خالد صفحہ676)

ایک مجاہد اسلام حضرت مولانا رحمت علی مبلغ انڈونیشیا کا ایک واقعہ قابل ذکرہے۔آپ پاڈانگ شہرکے محلہ یاسر مسکین میں رہتے تھے۔علاقہ کے اکثر مکانات لکڑی کے اور بالکل ساتھ ساتھ بنے ہوئے تھے ۔ ایک مرتبہ اتفاقاً اس محلہ میں آگ لگ گئی جو اردگرد کے مکانات کوراکھ بناتی ہوئی آپ کی رہائشگاہ کے قریب پہنچ گئی حتی کہ اس کے شعلے آپ کے مکان کے چھجے کوچھُونے لگے۔ یہ نازک صورتحال دیکھ کراحباب نے پُرزور اصرار کیا کہ آپ مکان فوری طورپر خالی کردیں۔ لیکن آپ نے پورے یقین اور وثوق سے فرمایا‘‘یہ آگ انشاء اللہ ہمارا کچھ نہ بگاڑ سکے گی۔یہ مکان اس وقت حضرت مسیح موعود ؑکے ایک غلام اور مجاہد فی سبیل اللہ کی رہائشگاہ ہے اور حضورؑ سے خداتعالیٰ کا وعدہ ہے کہ ‘‘آگ ہماری غلام بلکہ غلاموں کی غلام ہے‘‘

راوی بیان کرتے ہیں کہ حضرت مولانا رحمت علی ابھی یہ بات کرہی رہے تھے کہ اچانک بادل امڈ آئے اورموسلا دھاربارش شروع ہوگئی جس نے آناً فاناً اس آگ کو بالکل ٹھنڈا کرکے رکھ دیا۔ اللہ تعالیٰ کی تائید ونصرت نے آگ کو واقعی مسیح محمدیؐ کے غلام کا غلام بنادیا‘‘

(بحوالہ میدان تبلیغ میں تائید الٰہی کے ایمان افروز واقعات ۔ صفحہ34)

خداتعالیٰ کی قدرتوں کی انتہاء نہیں۔ ہر چیز اس کے اشارہ پر حرکت کرتی ہے ۔ اس واقعہ میں موسلا دھار بارش نے اچانک برس کر تائید الٰہی کا نمونہ دکھلایا۔

اب ایک اور واقعہ دیکھیں جس میں اس کے برعکس ظہور میں آیا اور بہت ہی غیر معمولی حالات میں بارش اچانک رُک کرمیدان تبلیغ میں خدائی تائید ونصرت کا نشان بن گئی۔

حضرت مولانا رحمت علی ایک بار اسی شہر پاڈانگ میں ہالینڈ کے ایک عیسائی پادری سے اسلام اور عیسائیت کے بارہ میں تبلیغی گفتگو کررہے تھے جسے سننے کے لئے لوگ بکثرت وہاں جمع تھے۔ اسی اثناء میں اچانک موسلا دھار بارش شروع ہوگئی ۔ اس علاقہ میں یہ معمول ہے کہ جب بارش شروع ہوجائے تو کئی کئی گھنٹے مسلسل برستی رہتی ہے اور رُکنے کا نام نہیں لیتی۔

تبلیغی گفتگو میں جب پادری دلائل کے میدان میں عاجز آگیا تواپنی شکست پرپردہ ڈالنے کے لئے اچانک یہ عجیب و غریب مطالبہ کرڈالا کہ اگر واقعی عیسائیت کے مقابل پر تمہارا مذہب اسلام سچا ہے تو ذرا اپنے اسلام کے خدا سے کہئے کہ وہ اپنی قدرت کا کرشمہ دکھائے اور اس موسلادھار بارش کو اسی وقت بند کر دے۔ بظاہر اس پادری نے اپنے زعم میں ایک ناممکن بات کا مطالبہ کیا اور بارش کے معمول پرقیاس کرتے ہوئے اسے کامل یقین ہوگا کہ ایسا ہرگزنہ ہوسکے گا۔ لیکن دنیا نے اس موقع پر خدائی غیرت اور تبلیغی میدان میں تائید الٰہی کاایک حسین کرشمہ دیکھا۔ پادری کے مطالبہ کرتے ہی حضرت مولانا موصوف نے اپنے زندہ خدا پر کامل بھروسہ کرتے ہوئے بڑی پُراعتماد اور جلالی آواز میں بارش کو مخاطب کرتے ہوئے کہا :

’’اے بارش !تُو اس وقت خداکے حکم سے تھم جا اوراسلام کے زندہ اور سچے خدا کا ثبوت دے‘‘

اسلام کے قادر و توانا زندہ خدا پرقربان جائیے کہ ابھی چند منٹ بھی گزرنے نہ پائے تھے کہ موسلادھار بارش خلاف معمول تھم گئی اور وہ پادری اور سب حاضرین اللہ تعالیٰ کے اس عظیم نشان پر انگشت بدنداں رہ گئے ۔

(میدان تبلیغ میں تائید الٰہی کے ایمان افروز واقعات۔ صفحہ35-34)

اس مختصر مضمون میں مَیں چند نمونے بطور مثال پیش کررہاہوں۔ اس لئے ایک اور مثال پراکتفا کرتاہوں۔ اس واقعہ کے راوی مکرم شیخ محمد حسن صاحب مرحوم ہیں جو لمبا عرصہ لندن میں مختلف خدمات ِ دینیہ بجا لانے کے بعد کچھ عرصہ قبل ہی فوت ہوئے ہیں۔ آپ نے بیان فرمایا :

’’میرے ساتھ ایک یعقوب نامی شخص کام کرتاتھا جو دہریہ خیالات کا تھا اور اللہ تعالیٰ کی ذات سے منکر تھا۔ اس کی شوخیاں حد سے بڑھنے لگیں ۔ایک دن طنز سے کہا : دیکھو کتنی گرمی ہے ۔تم اپنے خدا سے کہو کہ بارش برسا دے۔ میں نے اسے بہت سمجھایا کہ ہم دعا کرسکتے ہیں مگر حکم نہیں دے سکتے۔کہتے ہیں کہ مَیں نے دل میں دعا شروع کردی۔ اس رات بادل آئے مگر برسے بناچلے گئے ۔مجھے یقین تھا کہ آج جاتے ہی دوبارہ مجھے طعنہ دیا جائے گا ۔ وہی ہوا ۔جاتے ہی مجھے وہی شخص ملا اور باربار اس کا اصرار کہ تمہارا خدا گرجا تو بہت مگر برسا نہیں۔ اس نے میرا وہاں بیٹھنا مشکل کردیا ۔ دن کے گیارہ بجے تھے مَیں اٹھ کر باہر چلا گیا ۔شدید گرمی تھی ۔ مَیں نے آسمان کی طرف منہ اٹھا کراللہ تعالیٰ کی غیرت کا واسطہ دے کرالتجا کی کہ اے خدا! وہ دہریہ تیری ذات کا منکر ہے اور مجھے طعنہ دئے جا رہاہے تو اس کا منہ بند کر۔

میری عاجز ی کوا بھی زیادہ دیر نہیں ہوئی تھی کہ نہ جانے کہا ں سے آسمان پربادل آئے اور میرے چہرے پربارش کے قطرے گرنے لگے۔ پھر مَیںنے اللہ سے التجا کی کہ وہ اس بارش سے تونہیں مانے گا ۔…… پھر کیا تھا اتنی زوردار بارش ہوئی اور زور دار ہوا کے جھکڑ چلے ،دہریہ اس وقت برآمدہ میں بیٹھا تھا اور بارش اور ہوا کا زور اس کے منہ پر جا کرلگ رہے تھے ۔ جس پر وہ بے اختیار بول ا ٹھا۔ مَیں مان گیا کہ تمہارا خدا زندہ خداہے۔ساتھ ہی اس نے کہا یہ خدا صرف مرزا صاحب کے ماننے والوں کا ہی ہوسکتا ہے۔ مَیں تواپنے رب کے حضور سجدہ ریز تھا اوراس کی حمد کے گیت گا رہا تھا‘‘

(روزنامہ الفضل ربوہ ۔ 3 مئی 2006)


(مولانا عطاء المجیب راشد۔لندن)

پچھلا پڑھیں

الفضل آن لائن 17 مارچ 2020

اگلا پڑھیں

الفضل آن لائن 18 مارچ 2020